جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا جو بات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور عقل لازم قرار دیتی ہے کہ تن من دھن سے بہتر سے بہتر طور پر اس کو حاصل کرے، وہ اخروی سعادت و کامیابی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کی زندگی، آخرت کی ابدی زندگی کا مقدمہ ہے۔ انسان کی مثل اس دنیا میں عالم آخرت کی نسبت اس مسافر کے مانند ہے کہ جو پردیس میں رات دن محنت و کوشش کرتا ہے، قناعت کر کے اپنی پونجی جمع کرتا ہے اور اسے اپنے اصلی وطن، اپنے گھر بھیج کر تمنا رکھتا ہے کہ اپنے لئے ایک گھر، ٹھکانہ اور سرمایہ فراہم کرے تاکہ اپنے وطن پلٹ کر پہلے سے بھیجے ہوئے ساز و سامان اور وسائل سے بہرہ مند ہو اور اپنی زندگی کے ان باقی ماندہ چند دنوں کو آرام، عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارے، بس فرق یہ ہے کہ یہ دنیوی زندگی محدود اور فنا پذیر ہے لیکن اخروی زندگی ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
انسان کے عقائد و اعمال وہ بیج ہیں جواس دنیا میںانسان کے ہاتھ سے بوئے جاتے ہیں اور عالم آخرت میں اس کا نتیجہ اور محصول ظاہر ہوگا۔ اس دنیا میں اگر کوئی کسان علم زراعت کے ماہر عالم کی ہدایات کی بنیاد پر بیج بوئے تو کاٹنے کے وقت بہترین کیفیت کے ساتھ اپنی زحمتوں کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ و محصول حاصل کرے گا۔
اسی طرح اگر لوگ اپنے عقائد و اعمال کو قرآن کریم کی ہدایات اوراہلبیت طاہرین ٪ کے علوم و معارف کی بنیاد پر قائم رکھیں اور اپنے فردی، اجتماعی اور سیاسی امور کو قرآن کریم کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، تو دنیا کی عزت و سربلندی کے علاوہ، عالم آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور اس بات سے خوش ہوں گے کہ اپنے اعمال صالحہ سے رحمت خدا کے جوار میںایک سعادتمند تقدیر و سرنوشت کے حامل ہوگئے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ بالا مضمون کوایک نہایت خوبصورت مثال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے اور اس کے حیات بخش احکام کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں:
''فَاسْئَلُوا اللّٰہَ بِہِ وَ تَوَجَّہُوا اِلَیہِ بِحُبِّہِ وَ لاتَسْئَلُُوْا بِہِ خَلْقَہُ اِنَّہُ مَا تَوَجَّہَ العِبَادُ اِلٰی اللّٰہِ بِمِثْلِہِ وَ اعْلَمُوْا اَنَّہُ شَافِع وَ مُشَفَّع وَ قَائِل مُصَدِّق وَ أَنَّہُ مَن شَفَعَ لَہُ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ شُفِّعَ فِیہِ وَ مَن مَّحَلَ بِہِ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ صُدِّقَ عَلَیہِ''١
حضرت علی ان گزشتہ مطالب کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن معاشرہ کے سب سے بڑے درد و مرض کا علاج ہے، لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ: ''اس کے ذریعہ اللہ
(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥۔
سے سوال کرو اور اس کی محبت کے وسیلے سے اس کی طرف رخ کرو، اور دوسرے لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لئے قرآن کو وسیلہ قرار نہ دو، اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے، اور یاد رکھو! کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے، جس کے لئے قرآن روز قیامت شفاعت کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کا عیب قرآن روز قیامت بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے''۔
اس کے بعد حضرت قرآن سے لوگوں کی جدائی کے خطرے کو گوش گزار فرماتے ہیں، پھر ان کو اس آسمانی کتاب کی پیروی اور اسے فکر و عمل میں نمونہ قرار دینے کی طرف دعوت دیتے ہیں:
''یُنَادِی مُنَادٍ یَومَ الْقِیَامَةِ أََلاَ ِنَّ کُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلیٰ فِی حَرثِہِ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِہِ غَیرَ حَرَثَةِ القُرآنِ فَکُونُوا مِن حَرَثَتِہِ وَأََتْبَاعِہِ وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلٰی رَبِّکُم وَ اسْتَنْصِحُوہُ عَلٰیٰ أََنْفُسِکُمْ وَ اتَّہِمُوْا عَلَیہِ آرَائَکُمْ وَاسْتَغِشُّوْا فِیہِ أََہْوَائَکُمْ''١
جس وقت قیامت برپا ہوگی اور خلائق حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے کھڑے ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا دے گا اور اہل قیامت کو اس حقیقت کی خبر دے گا کہ:
(١)نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧٥۔
''ہاں اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ آج ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے آثار و نتائج اور محصول وانجام میں مبتلاہے، لیکن جو لوگ اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے یعنی دنیا میں اپنے عقائد واعمال قرآن کے احکام و ہدایات کی بنیاد پر قائم رکھے تھے صرف وہی لوگ کامیاب ہیں، لہٰذا تم لوگ انھیں لوگوں میں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ، اسے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رہنما بناؤ اور اس سے اپنے نفسوں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور اپنے خیالات کو متہم قرار دو اور اپنی خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو''۔
تنبیہ و آگاہی
ہر موجود و مخلوق منجملہ اس کے انسان کی زندگی اور حیات ایک محدود چیز ہے۔ یہ زندگی ایک خاص نقطۂ زمان (ولادت) سے شروع ہوتی ہے اور ایک خاص نقطۂ زمان میں موت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اس محدود زمانہ میں مسلسل متحرک اور ہست و بود کی حالت میں ہے، اور اس کی شخصیت مختلف شکلیں اور صورتیںاختیار کرتی رہتی ہے۔ انسان کی شخصیت جو کہ اس کے عقائد و نظریات سے ابھر کر وجود میں آتی ہے اس کے اعمال و کردار کا مصدر و منشأ ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال و کردار بھی روز قیامت مجسم ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے آثار و نتائج دیکھ رہا ہوگا۔
لیکن جو بات یہاں پر قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ جب تک انسان اس دنیا سے کوچ نہیں کرتا ہر لمحہ اپنے عقائد و افکار اور اعمال و کردار کا محاسبہ کر کے اپنے ماضی کا جبران اور اس کی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنی تقدیر کے رخ کو دنیوی اوراخروی سعادت و کامیابی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جوایک لمحہ میں سنبھل گئے اور ایک حقیقی توبہ و انابت کے ذریعے اپنے اندھیرے گھپماضی کو روشن و سعادتمند مستقبل سے بد ل دیا اور سینکڑوں سال کے راستے کوایک رات میں طے کرلیا، اس لئے کہ:
معرفت کا ہر لمحہ عمر جاودانی ہے
لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماضی کے محاسبہ، جبران، اصلاح اور تدارک کا امکان فقط اس دنیا میں ہے اوراس دنیا ئے فانی سے رحلت اور موت کے بعد اصلاح و تدارک کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
اگر انسان عالم دنیا میںاپنے اعمال و کردار کو قرآن اور الٰہی احکام و معارف کی بنیاد پر قائم رکھے اور حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق قرآن کی بنیاد پر کھیتی کرنے والا ہو تو وہ عالم آخرت میں ان کے آثار و محصول سے فیضیاب اور خوش ہوگا۔
عمل اور اصلاح کا موقع صرف دنیا میں پایا جاتا ہے اور عالم آخرت اصلاح و تدارک کی جگہ نہیںہے: ''اَلْیَومَ عَمَل وَ لاحِسَاب وَ غَداً حِسَاب وَ لاعَمَل''١
آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل کا دن، حساب کا ہے عمل کا نہیں۔
امیر المومنین حضرت علی ـ جو کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کے عالم، ان کے درمیان رابطے سے آشنا اور مسلمانوں کے خیر خواہ و دلسوز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:
(١)بحار الانوار، ج٣٢، ص ٣٥٤۔
''فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآن'' یعنی اگر سعادت کے طلبگار ہو تو اپنی کھیتی قرآن کے بابرکت کشت زار میں قرار دو، ان لوگوںمیں ہو جاؤ جو کہ اس آسمانی کتاب کے حیات بخش احکام و ہدایات پرعمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم کو نمونہ قرار دو تاکہ کبھی نقصان و خسارہ نہ اٹھاؤ۔
source : http://www.shianet.in