اردو
Sunday 5th of May 2024
0
نفر 0

جشن مولود کعبہ اور ہماری ذمہ داری

آج کا دن (13 رجب المرجب) بہت بڑی عید کا دن ہے، تاریخ انسانیت کی عدیم المثال ہستی کی ولادت کا دن ہے جسے ہم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے با عظمت شخصیت مانتے ہیں۔ آج ہمیں عیدی لینی چاہئے۔ ہماری عیدی یہ ہے کہ سبق حاصل کریں، درس لیں۔

 

حضرت امیر المومنین علیہ السلام ولادت سے لیکر شہادت تک ہر دور اور ہر مرحلے میں ایک استثنائی شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں۔ آپ کی ولادت جوف کعبہ میں ہوئی، یہ سعادت آپ سے قبل یا آپ کے بعد کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ آپ کو مسجد کے اندر محراب عبادت میں شہادت نصیب ہوئی۔ ان دونوں واقعات کے درمیان امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی سراپا جہاد، معرفت، بصیرت، رضائے پروردگار کی خاطر سعی پیہم اور راہ خدا میں صبر کا نمونہ نظر آتی ہے۔ بچپن میں قضائے الہی سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو پیغمبر کی آغوش ملی۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ابھی چھے برس کے ہی تھے کہ پیغمبر اکرم آپ کو جناب ابو طالب کے گھر سے اپنے گھر لے آئے۔ اس طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی تربیت پیغمبر اکرم کی آغوش میں اور آپ کے زیر سایہ انجام پائی۔ پیغمبر اکرم پر وحی الہی کے نزول کے وقت غار حرا میں ان حساس لمحات میں اگر کوئی پیغمبر اکرم کے ساتھ تھا تو وہ علی ابن ابی طالب کی ذات تھی۔ آپ ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ ساتھ رہے اور اپنی علم و کمال کی پیاس بجھاتے رہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا بھی ہے کہ "لقد كنت اتّبعه اتّباع الفصيل اثر امّه" (میں پیغمبر کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے)۔ آپ فرماتے ہیں کہ " لقد سمعت رنۃ الشیطان حین نزل الوحی" جب پیغمبر پر وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی آہ و زاری کی آواز سنی۔ " فقلت یا رسول اللہ ما ھذہ الرنۃ" میں نے پیغمبر سے پوچھا کہ یہ کیسی آواز تھی جو میں نے سنی؟ پیغمبر نے فرمایا کہ " ھذا الشیطان قد ایس من عبادتہ" یہ شیطان کا گریہ ہے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کی بابت مایوس ہو گیا، شمع ہدایت روشن ہو گئی ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ " انک تسمع ما اسمع و تری ما اری" یہ بچپنے میں امیر المومنین علیہ السلام کی پیغمبر اسلام سے قربت کا عالم ہے۔ آپ بچپن میں ہی پیغمبر اسلام پر ایمان لائے، پیغمبر کی امامت میں نماز ادا کی، پیغمبر کے ساتھ رہ کر جہاد کیا اور پیغمبر اسلام کے لئے فداکاری و جانفشانی کی۔ پیغمبر اکرم کی زندگی میں کسی اور طریقے سے اور آپ کی رحلت کے بعد کسی اور انداز سے امیر المومنین علیہ السلام نے حق و انصاف کے لئے دین خدا کی ترویج کے لئے، اسلام کی حفاظت کے لئے مجاہدانہ زندگی بسر کی۔ پیغمبر اکرم کی نگاہ میں حق کی کسوٹی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے۔ شیعہ سنی دونوں مسلک کے راویوں سے منقول ہے کہ " علی مع الحق والحق مع علی یدور حیثما دار" اگر آپ کو حق چاہئے تو تلاش کیجئے کہ علی کہاں ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں، آپ کی انگلی کا اشارہ کس جانب ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی اس انداز سے گزری ہے۔

نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنا چاہئے، اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ حالیہ برسوں میں مسلمان ہی نہیں غیر مسلم دانشور اور مفکرین بھی نہج البلاغہ میں خاص دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کا کلام پڑھا، اس کا جائزہ لیا۔ انہیں آپ کے کلام میں حکمت و دانش کے خزانے نظر آئے، وہ اس کلام اور صاحب کلام کی عظمت کو محسوس کرکے ششدر رہ گئے۔ ہمیں نہج البلاغہ پر اور توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، حکومت کو امیر المومنین کے علم کے بحر خروشاں سے اور سیراب ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سے مختلف امور کے پہلو روشن و عیاں ہو جاتے ہیں۔ یہیں ہم کو ہر اہم سبق ملتا ہے۔ اس کلام کے بارے میں علمائے اہل سنت نے بھی اس انداز سے اظہار خیال کیا ہے کہ انسان سن کر متحیر رہ جاتا ہے۔ امیر المومنین کی ذات گرامی صرف شیعوں سے متعلق نہیں ہے۔ تمام اہل اسلام، دین اسلام کی محبت میں دھڑکنے والے سارے دل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو علمی، روحانی، اخلاقی، انسانی اور الہی عظمتوں کی چوٹی پر دیکھتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین کی پوری زندگی سراپا درس ہے، سراپا سبق ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی روش، جو ایک عظیم انسان اور حاکم کی تمام نیک خصلتوں اور صفتوں کا آئینہ ہے، موجودہ دور میں ہمیں جس اہم ترین چیز کی جانب متوجہ کرتی ہے وہ بصیرت و بیداری کی ترویج اور ان لوگوں کو آگاہ کرنا ہے جنہیں آگاہی کی ضرورت ہے، یعنی ماحول اور فضا کو واضح اور روشن کرنا۔ ہر دور میں یہ بے مثال شجاعت، یہ عظیم فداکاری عوام الناس کو بیدار و آگاہ کرنے، فکری گہرائی پیدا کرنے اور جذبہ ایمانی کی تقویت میں صرف ہوئی۔ جنگ صفین میں جب دشمن کو اندازہ ہو گیا کہ شکست کے قریب پہنچ گیا ہے تو جنگ رکوانے کے لئے اس نے نیزوں پر قرآن بلند کروا دئے۔ امیر المومنین کے کچھ افراد آپ کے پاس آئے اور یہ اصرار کرنے لگے کہ بس جنگ روک دی جائے، دشمن نے قرآن بلند کر دیا ہے۔ بڑی عجیب صورت حال تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ لوگ غلطی کر رہے ہیں، آپ انہیں نہیں پہچانتے۔ یہی لوگ جو آج قرآن کو "حکم" (فیصلہ کرنے والے) کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، قرآن پر ان کا کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ میں انہیں جانتا ہوں۔ " انی عرفتھم اطفالا و رجالا" میں نے ان کا بچپن بھی دیکھا ہے اور ان کا بعد کا دور بھی دیکھا ہے۔ " فکانوا شر اطفال و شر رجال" یہ ( بچپن میں بھی اور بڑے ہوکر بھی) بد ترین لوگ تھے۔ قرآن پر ان کا کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ جب پھنس گئے ہیں تو قرآن نیزوں پر بلند کر رہے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کے افراد پھر بھی نہیں مانے اور بضد رہے، نتیجے میں عالم اسلام کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔

امیر المومنین علیہ السلام بصیرت کا سرچشمہ ہیں۔ آج ہمیں اس بصیرت کی شدید احتیاج ہے۔ آج عالم اسلام کے دشمن، مسلمانوں کے اتحاد کے دشمن دین کا حربہ استعمال کرتے ہوئے میدان میں آتے ہیں، اخلاق کے حربے کا سہارا لیتے ہیں، لہذا بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جب غیر مسلم رائے عامہ کو فریب دینا چاہتے ہیں تو انسانی حقوق کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں، جمہوریت کی بات کرنے لگتے ہیں اور جب عالم اسلام کی رائے عامہ کو دھوکہ دینا مقصود ہوتا ہے تو قرآن کا نام لیتے ہیں، اسلام کی بات کرتے ہیں جبکہ نہ تو اسلام و قرآن پر ان کا کوئی عقیدہ و ایمان ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کا کوئی پاس و لحاظ۔ امت اسلامیہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ ان تیس اکتیس برسوں میں ملت ایران نے انہیں خوب آزما لیا ہے۔ ہم سب کو یہ بات جان لینی چاہئے۔

اس فتنے اور فریب کی گھڑی میں امیر المومنین علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو پکار کر کہتے ہیں کہ "امضوا علی حقکم و صدقکم" یہ جو حق کا راستہ آپ نے اختیار کیا ہے، یہ جو صداقت پسندانہ روش چنی ہے اسے ترک نہ کیجئے، نہ گنوائیے۔ فتنہ گر اور فتنہ پرور عناصر کی باتیں آپ کے دلوں کو ورغلا نہ دیں۔ "امضوا علی حقکم و صدقکم" آپ کا راستہ صحیح راستہ ہے۔ جیسا کہ میں بارہا عرض کر چکا ہوں فتنہ کے دور میں فضا غبار آلود ہو جاتی ہے، دھندلی ہو جاتی ہے۔ بڑی شخصیتیں بھی غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں صحیح معیاروں کا ہونا ضروری ہے۔ معیار وہی صدق و حق ہے جو عوام الناس کے سامنے ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کو اسی سے رجوع کرنے کی سفارش کی ہے۔ آج ہمیں بھی یہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ہم سے کہتا ہے کہ مسلم معاشرے کا نظم و نسق اسلامی احکامات کے تناظر میں چلایا جانا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ جارح دشمنوں سے پوری قوت سے ٹکرا جانا چاہئے، ان سے اپنے فاصلے اور فرق کو واضح اور عیاں رکھنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دشمنوں کے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی واضح روش ہے۔ آج ہمیں اسی واضح روش کی ضرورت ہے۔

انقلاب کی برکت کہئے کہ ملت ایران آج بیدار قوم بن گئی ہے۔ اس ملک کی متعدد مشکلات عوام کی بیداری و ہوشیاری کی وجہ سے حل ہو گئیں۔ بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ عوام بعض اہم شخصیات سے بھی بہتر طریقے سے بات کو سمجھ رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے اندر مصلحت کوشی کم ہوتی ہے۔ یہ بھی بڑی الہی نعمتوں میں ہے۔

میرے عزیز بھائیو اور بہنو! آپ جان لیجئے اور پوری ایرانی قوم سمجھ لے کہ ملت ایران اعلی اسلامی اہداف کی جانب رواں دواں ہے، اس نے اپنی ثابت قدمی کا لوہا منوا لیا ہے اور توفیق پروردگار اور فضل الہی سے اس ثابت قدمی کی حفاظت کرے گی۔

ملت ایران کی مرضی ہے کہ پرچم اسلام کے زیر سایہ خوش بخت، با کمال، با اخلاق، رفاہ و آسائش سے بہرہ مند، با وقار اور طاقتور قوم بنے۔ ملت ایران اس راستے پر چل پڑی ہے، پیشرفت کر چکی ہے، کارہائے نمایاں انجام دے چکی ہے۔ آج اپنی موجودہ حالت میں جو چیز ہمیں نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کامیابیاں، یہ توانائیاں، یہ بے پناہ وسائل، انقلاب کے بنیادی نعروں کی یہ مقبولیت اور پذیرائی، یہ چیزیں آسانی سے حاصل نہیں ہوئیں۔ ملت ایران نے اپنی محنتوں، اپنی صلاحیتوں، اپنی بصیرت سے یہ چیزیں حاصل کی ہیں اور توفیق پروردگار سے یہ قوم اسی راہ پر اسی انداز سے آگے بڑھتی رہے گی۔ مستقبل ملت ایران سے متعلق ہے۔ دشمنوں کی عیاری اور بد خواہوں کی مکاری اس قوم کو اس کے راستے سے منحرف نہیں کر سکے گی۔ آج ہمارے نوجوانوں میں بحمد اللہ با قاعدہ بصیرت پائی جاتی ہے۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان بڑے عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں، اس عمل میں روز بروز سرعت لانی چاہئے۔ اس ثابت قدمی میں، اس استقامت میں، اس قومی یکجہتی و ہمدلی میں روز بروز اضافہ کرنا چاہئے۔ اسلام کے نعروں سے تمسک، قرآن سے تمسک، سیرت اہل بیت اطہار سے تمسک اور امیر المومنین علیہ السلام کی تعلیمات سے تمسک دن بدن بڑھنا چاہئے۔ انشاء اللہ ہمارے نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے جب ہماری دشمنی پر اتارو عالمی غنڈوں کو بھی یقین ہو جائے گا کہ ملت ایران کو اب دھونس اور دھمکی نہیں دی جا سکتی۔ اللہ تعالی ہمارے عزیز عوام اور ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے خدمت گزار حکام کی مدد کرے کہ وہ اپنی پر خلوص کوششوں سے خود کو اس ہدف کے قریب پہنچائیں اور اپنے عمل سے وہ وقت زیادہ سے زیادہ نزدیک لائیں۔


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا مختصر زندگی نامه
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
امام جعفر صادق عليہ السلام کي سيرت طيبہ
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام
دو محرم سے لے کر نو محرم الحرام تک کے مختصر واقعات
ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت
حضرت علی علیہ السلام کا علم شہودی خود اپنی زبانی
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
پہلا باب فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں

 
user comment