اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام

 

آپ کے دو مشهور لقب ”کاظم“ اور ”باب الحوائج“تھے ۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۸ھ کو مقام ”ابواء“ (مدینہ کے قریب ایک مقام)میں هوئی۔

آپ کی زندگی بنی عباس سلطنت کے زیر اثر مشکلات سے دوچار رھی ھے۔

آپ کی زندگی کس قید خانہ میں گذری ھے اس کا بیان کرنا مشکل ھے ھارون الرشید آپ کا سخت مخالف تھا اس کا سبب بھی بعض مورخین نے یہ بیان کیا ھے کہ جس وقت ھارون الرشید مدینہ منورہ میں داخل هو کرمسجد النبی میں زیارت کے لئے گیا اور چونکہ اس نے قبر نبوی پر توجہ دی تو مدینہ کے زعماء اور سردار اس کو تحفے دینے کے لئے گئے او رجب ھارون قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر حاضر هوا تو اس طرح سلام کیا:

”السلام علیک یا ابن العم“

(اے میرے چچازاد بھائی تم پر سلام هو)

اس کا یہ سلام لوگوں کو فریب دینے کے لئے تھا تاکہ لوگ اس قریبی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کو خلافت کا مستحق مان لیں، لیکن جب امام علیہ السلام نے اس مکر وفریب کو دیکھا تو اس کو بے نقاب کردیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو مخاطب کرکے کھا:

”السلام علیک یا ابہ“

(اے پدر بزرگوار تم پر سلام هو)

یہ سن کر ھارون الرشید کا سر شرم کی وجہ سے جھک گیا اور اس پر کینہ وکدورت کے آثار ظاھر هونے لگے۔

چنانچہ اس کے بعد سے امام علیہ السلام اور ھارون الرشید میں بہت سے مناظرات هوئے کہ کون رسول اللہ سے زیادہ قریب ھے، ھارون الرشید کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی کی اولاد ”ذریت“ اور اس کے اولاد نھیں هوتی۔ کیونکہ ذریت اور ابناء صرف باپ کے ذریعہ منسوب هوتے ھیں ماں کے ذریعہ نھیں۔

لیکن امام علیہ السلام نے ھارون الرشید کو وہ دندان شکن جوابات دئے جن کی وجہ سے اس کو منھ کی کھانی پڑی، ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ھے:

۱۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماب تک زندہ هوتے تو تیری بیٹی سے نکاح کرسکتے تھے لیکن میری بیٹی سے ھر گز یہ قصد نہ کرتے۔

۲۔خداوندعالم کا ارشاد ھے:

<فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ۔۔۔>[1]

”پھر جب تمھارے پاس علم (قرآن) آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) جناب عیسیٰ (ع) کے بارے میں حجت کرے تو کهو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم ا پنے بیٹوں کو بلاؤ۔۔۔۔“

اور اس بات کو تمام مسلمان جانتے ھیں کہ آپ نے مباھلہ میں بیٹوں کی جگہ امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو لیا جو آپ کی بیٹی کی اولاد ھیں اور قرآن کریم نے ان دونوں کو ابناء (بیٹے) کھا۔

قرآن مجید نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی زبانی نقل کیا:

<وَمِنْ ذُرِّیَّتِہ دَاوٴُدَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسیٰ وَہَارُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیَ الْمُحْسِنِیْنَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْییٰ وَعِیْسٰی >[2]

”اور ان ھی (ابراھیم ) کی اولاد سے داوٴد ، سلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون (سب کی ھم نے ہدایت کی) اور نیکوکاروں کو ھم ایسا ھی صلہ فرماتے ھیں اور زکریا اور یحیٰ اور عیسیٰ(ع)۔۔۔)

اور جناب عیسیٰ (ع)بغیر باپ کے پیدا هوئے لیکن قرآن کریم نے ان کو ماں کی طرف سے ذریت ابراھیم علیہ السلام میں شمار کیا اس کامطلب یہ ھے کہ انسان ماں کی طرف سے ذریت میں شامل هوتا ھے جیسا کہ قرآن کریم اس بات کو صاف طور پر بیان کیا ھے۔

یہ تمام چیزیں سن کر ھارون الرشید شرمندہ هوگیا لیکن اس کے دل میں بھرا بغض وحسد ظاھر هونے لگا جس کی بنا پر امام علیہ السلام پر مصائب پڑنے لگے اور آپ کو قید خانہ میں بھیج دیا گیا اور اس پر بھی ھارون کو سکون نہ ملا بلکہ امام کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں بھیج دیتا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو تعلیم وتربیت کا موقع کم ملا ھے۔

لیکن پھر بھی آپ نے اپنی آزاد زندگی میں وہ عظیم علمی آثار چھوڑے ھیں جو اسلام کے عظیم منابع میں شمار هوتے ھیں۔

آپ(ع) کی شھادت شب ۲۵ رجب ۱۸۳ھ [3]کو هوئی اور آپ کو قریش کے قبرستان میں دفن کیا گیا جس کو آج کل کاظمیہ (کاظمین) کھا جاتا ھے جو امام علیہ السلام سے منسوب ھے)

____________

[1] تاریخ ولادت وشھادت بنقل از الارشاد ص ۲۸۹۔

[2] سورہ آل عمران آیت ۶۱۔

[3] سورہ انعام آیت ۸۴،۸۵ ۔

 


source : http://www.makaremshirazi.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment