اردو
Tuesday 14th of May 2024
0
نفر 0

”حضرت رسالتمآب(ص) قبل بعثت“

 

چنانچہ اس بحث میں ھم حضرت رسول خدا (ص) کے والدین کے ایمان سے مربوط بحث صحیح مسلم سے نقل کرتے ھیں:

۱۔”۔ عن انس؛ان رجلاً قال:یارسول الله!این ابی ؟قال:فی النار، فلما قفی دعاہ،فقال:ان ابی واباک فی النار“

ترجمہ:۔۔ انس سے مروی ھے: ایک شخص نے رسول(ص) سے پوچھا :یا رسول اللہ(ص) !میرا باپ کھاں ھے؟ (جہنم یا جنت میں)

آپ(ص) نے فرمایا: تیرا باپ اس وقت جہنم میں ھے،جب وہ شخص پوچھ کر چلنے لگا تو آپ (ص) نے  اس سے پکار کر کھا: اے شخص !تیرا باپ اور میرا باپ دونوں (استغفر اللہ) جہنم میں ھیں!![1]

۲۔”۔عن ابی ھریرة ؛زار النبی(ص) قبرامہ، فبکیٰ،وابکیٰ من حولہ،فقال استئذنت ربی فی ان استغفر لھا،فلم یوذن لی،واستئذنتہ فی ان ازورقبرھا،فاذن لی، فزورُوْااَلْقبورَفانھا تذکرالموت“

ترجمہ: ۔۔ ابوھریرہ نے روایت کی ھے: ایک مرتبہ رسو ل اسلام(ص) اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنے گئے تو رونے لگے ،جو لوگ رسول اکرم(ص) کے ساتھ تھے وہ بھی رونے لگے، اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا :میں نے خدا سے اجازت طلب کی تھی کہ اپنی والدہ کی مغفرت طلب کروں، لیکن خدا نے اجازت نھیں دی،اس کے بعد میں نے اپنی والدہ کے لئے قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی، تو خدا نے اس کو قبول کر لیا ،لہٰذا تم لوگ بھی قبروں کی زیارت کیا کرو ،کیو نکہ قبور کی زیارت موت کو یاد دلاتی ھے۔[2]

ان دو حدیثوں کے گڑھنے والوں نے حتی الامکان کوشش کی ھے کہ رسول اسلام (ص) کے والدین کو کافر ثابت کیا جائے، اور اس مطلب کو خود آنحضرت(ص) کی زبان سے ثابت کرنے کی سعی کی ھے کہ خود آنحضرت نے فرمایا ھے کہ میرے ماں باپ جہنم میں ھیںاور چونکہ پیغمبراورمومنین کے لئے جائز نھیں کہ مشرکین کے لئے دعا واستغفار کریں لہٰذا خدا نے رسو ل کو اپنی والدہ کے حق میں دعا واستغفار کرنے کی ان کے مشرک هونے کی وجہ سے اجازت نھیں دی ۔

عرض موٴلف :

اولاً: گذشتہ دلائل اور مباحث کی روشنی میں ان دونوں روآیتوں کا جعلی هونا آشکار ھے ۔

ثانیا : معتبر روایا ت اور تاریخی مسلمات سے ھے کہ زمانہٴ جاھلیت میں ایسے افراد کافی پائے جاتے تھے جواپنے خدا کی عبادت پھاڑوں میں جاکر کیا کرتے تھے ،ان میں سر فھرست خاندان عبدالمطلب ، ابو طالب اور عبد الله ھیں خلاصہ یہ کہ آنحضرت(ص) کے والدین مشرک نھیں تھے بلکہ توحید ِ خالص کا اعتقاد رکھتے تھے، اور اس وقت کے عام لوگوں کی طرح بت پرستی وشرک سے دور رہتے تھے، چنانچہ یہ حضرات کبھی مکہ والوں کے درمیا ن اور کبھی پھاڑوں میں جاکر معبود حقیقی سے رازو نیاز کرتے تھے ۔  

ذیل میں بطور شاھد مثال دو عدد روایت رسول خد ا  (ص) کے خاندان کے بارے میں نقل کرتے ھیں :

۱۔اصبغ ابن نباتہ حضرت امیر الموٴمنین (ع) سے نقل کرتے ھیں:”والله ما عبدابی ولاجدی عبدا لمطلب ولا ھاشم ولاعبد مناف صنماًقط، قیل فما کانوا یعبدون؟

قال:کانوا یصلون الیٰ البیت علیٰ دین ابراھیم متمسکین بہ “

ترجمہ:۔خدا کی قسم میرا باپ ابو طالب اور میرے اجداد عبدالمطلب،ھاشم اورعبد مناف کبھی بھی بت پرست نہ تھے ،کسی نے سوال کیا کہ تو پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے ؟آپ نے فرمایا وہ دین ابراھیم پر باقی تھے، اور خانہ ٴ کعبہ کی طرف عبادت کرتے تھے ۔[3]

۲۔رسول اسلام (ص) ،امیرالموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے اپنے جد عبدالمطلب کے بارے میں فرماتے ھیں: ”یا علی ان عبد المطلب کا ن لا یستقسم بالازلام، ولا یعبد الاصنام ،ولایاکل ماذبح علیٰ النصب،ویقول:اناعلی دین ابراھیم “ اے علی! عبد المطلب جاھلیت کے برے افعال ( استقسام بالازلام یعنی دور جاھلیت کے برے افعال ) اور بت پرستی سے دور تھے، اور وہ حیوان جو بتوں کے نام سے ذبح کئے جاتے تھے، ان کا گوشت نھیں کھاتے تھے، اور فرماتھے تھے ھم دین ابراھیم پر قائم ھیں۔[4]

کتاب” مسند احمد بن حنبل“ اورطبقات ابن سعد میں آیا ھے کہ ،ابوذر بھی ان افراد سے تھے جو زمانہ ٴجاھلیت میں رسول اسلام (ص) کے مبعوث برسالت هونے سے قبل تو حید پر ستوں میں سے تھے۔ [5]متذکرہ حدیثوں کے گڑھنے والوں نے اپنے ماں باپ اور اجداد کے بت پرستی اور شرک کے سنگین بار کو ان سے ھلکا کرنے کے لئے مذکورہ دونوں حدیثوں کو جعل کیا ھے ،ایسے آبا ء واجدا د جو ھمیشہ شریعت ِمحمدی کو نابود اور شرک وبت پرستی کی دےوار کو مضبوط کرنے کی خاطر اسلام کے مقابلہ میں جنگ کرتے رھے ،اور قرآن اور رسول(ص) خداکے مقابلہ میں علم بغاوت لے کر بت پرستی اور شرک کی حالت میں واصل جہنم هو گئے ،یا پھر با جبرو اکراہ مال دنیا کے لالچ میں ظاھری ایمان لے آئے ،اور در حقیقت وہ لوگ ھمیشہ شرک وبت پرستی کے اوپر قائم رھے، ان حدیثوں کے گڑھنے والوں کی کوشش یہ تھی کہ اپنے خاندان کے ننگ و عار کو اس طرح بر طرف کریں، اور ا پنے حقارت کی گرہ کو اس طریقہ سے باز کریں کہ پیغمبر اکرم کے والدین کو بھی ان کی صف میں لے آئیں، اور انھیں بھی ان کے ھم پلہ قرار دیں (جی ھاں! ایسے لوگوں کوخاندان رسالت سے قیاس کرنا اززمین تا آسمان فرق دارد )مجھے تعجب ھے مسلمانوں کی جمهوریت پر جو صحیحین کی ایسی روایات کو صحیح اور درست مان کر ان کے مضمون پر اپنے عقیدہ کی دےوار قائم کرکے عقل و احتیاط کا دامن چھوڑے هوئے ھیں!![6]

۲۔ کیا رسول الله (ص) حرام گوشت کھاتے تھے؟!

روایت سازوں اور حدیث گڑھنے والوں کو جب پیغمبر(ص) کے والدین کو کافر ومشرک ثابت کرنے پر تشفی نہ هوئی تو انهوں نے یہ بھی گڑھ مارا کہ خود رسول خدا  (ص) قبل ِ بعثت صنم پرست اور حرام گوشت کھاتے تھے !!

محترم قارئین ! مذکورہ بحث( رسو ل کے والدین مشرک تھے !) میں جو مطالب ھم نے بیان کئے ان کی روشنی میں اس حدیث کی اھمیت اور اس کے ضعیف اور صحےح هونے کے بارے میں آپ اچھی طرح فےصلہ کر سکتے ھیں ۔

۱۔” ۔ اخبرنی سالم ؛انہ سمع عبدَ اللّٰہ یُحدِّث عن رسول (ص) اللّٰہ: انہ لَقِیَ زید ابن عمروبن نُفَیل باسفل بَلْدَحَ قبل ان یُنزَل علی رسول(ص) اللّٰہ الوحی، فقدم  رسول(ص) اللّٰہ سفرتاًفیھا لحم،فاٴَبٰی ان یاکل منھا،ثم قال: انی لا آکل مما تذ بحون علی انصابکم،ولا آکل الامما ذکراسم اللّٰہ علیہ“[7]

ترجمہ:۔۔عبد اللہ ابن عمر نے رسول(ص) سے نقل کیا ھے : ایک مرتبہ رسول خدا(ص) نے بعثت سے پھلے زید ابن عمر و بن ُنفیل سے کوہ بلدح کے دامن میں ملاقات کی، تو رسول(ص) نے وھیں پر د ستر خوان بچھادیا اس میں گوشت بھی تھا، زید نے اس گوشت کے کھانے سے انکار کیا ،اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں نھیں کھا رھے هو ؟ تو کہنے لگے : میں اُس گوشت کو نھیں کھاتا جو بتوں اور انصاب کے نام پر ذبح کیا جائے، میں فقط ان حیوانوں کا گوشت کھاتا هوں جو خدا ئے وحدہ لاشریک کے نام پر ذبح کئے جائیں۔ اس حدیث کو امام بخاری نے دو جگہ نقل کیا ھے، اور ان میں سے ایک مورد پر کچھ اضافہ کے ساتھ نقل کیا ھے ۔

نتیجہٴ روایت:

۱۔  زید بن عمرو دور جاھلیت اور قبل بعثت رسول(ص) سے زیادہ توحید میں اعرف تھے!!

 

۲۔ رسول اسلام (ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح بت و اصنام رکھتے تھے، اور انھیں کے نام پر حیوانوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت تناول فرماتے تھے ”انی لا آکل مما تذ بحون علی انصابکم ولا آکل الا مما ذکراسم اللّٰہ علیہ “لیکن زید ان بتوں اور بت پرستی سے دور وادی ٴ توحید کے باشندہ تھے!!  اس سے بھی صریح تر اےک اور د وسری حدیث ھے جس کو احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نوفل بن ھشام بن سعد بن زید سے نقل کیا ھے:

”ایک مرتبہ رسول خدا(ص) ابو سفیان کے ساتھ ایسے حےوان کے گوشت کو تناول فرمارھے تھے جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، جب زید کو کھانے کے لئے بلایا گیا تو زید نے انکار کر دیا، اور اس کے بعدرسول اسلام(ص) بھی زید کی پیروی کرتے هوئے اٹھ کھڑے هوئے، اور اس کے بعد سے رسول اکرم(ص) نے اعلان ِ بعثت تک اس گوشت کو نھیں کھایا جو اصنام و ازلام کے نام پر ذبح کیا جاتا “[8]([9])

مورخین اور سیرت نگاروں نے بھی اس روایت کو معتبر اور صحیح جانتے هوئے صحیح بخاری اور مسند احمد بن حنبل کی پیروی کرتے هوئے اپنی کتابوں میں نقل کیاھے : مثلاً ابن عبد البر نے اپنی کتاب استیعاب میں مسند احمد بن حنبل سے اور ابو الفرج اصفھانی نے اپنی کتاب ”الاغانی “میں صحیح بخاری سے نقل کیا ھے ۔[10]

زید بن عمر و بن نفیل کا تعارف :

صحیح بخاری کی روایت سے استفادہ هوتا ھے کہ زید بن عمروخدا شناسی اور معرفت باری تعالیٰ میں ا تنے بلند مرتبہ پر پهونچے هوئے تھے کہ حضرت رسالت مآب (ص) بھی قبل ِ بعثت ان کے برابر نہ تھے، اورموصوف خلیفہ ٴدوم حضرت عمر کے قریبی رشتہ دار تھے یعنی خلیفہ ٴ دوم کے چچا کے لڑکے اور آپ کے سسرتھے، چنانچہ زو جہٴ عمر ابن خطاب” عاتکہ “زید ھی کی لڑکی تھی۔

مورخین اور سوانح حیا ت لکھنے والوں نے آپ کے بارے میں کافی فضائل تحریر کئے ھیں، کھا جاتا ھے کہ آپ زمانہٴ جاھلیت میں حنفاء سے تھے ،یعنی آپ کا شمار ان افراد میں هوتا تھا جو توحید پرست ، خداشناسی اور معرفت باری تعالی میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے ، آپ کی جھالت سے دور نماز و استغفا ر میں مشغول رہتے ،اور سجدے میں ایسے جملے کہتے تھے جن سے ثابت هوتا ھے کہ آپ مسئلہ ٴ توحید میں جناب ابراھیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرتے ھیں ۔[11]

عرض موٴلف :۔

آیات و روایا ت کی روشنی میں تمام انبیاء ومرسلین بالخصوص حضرت محمد مصطفی  (ص)کی شخصیت و فضیلت سے متعلق مطالب جلد اول میں بطور اختصار نقل کر چکے ھیں کہ آپ زمانہٴ جاھلیت میں تمام رذائل و خبائث سے پاک وپا کیزہ تھے، اور آپ کا اوصاف حمیدہ میں کوئی ثانی نہ تھا، رھی آپ کے خاندان کی بات تو یہ بھی گذشتہ بحث میں صحیح اور معتبر مدارک کے ذریعہ ھم ثابت کرچکے ھیں کہ آپ کے آبا ء و اجداد جن میں سر فھرست جناب عبد المطلب اور ابو طالب ھیں سب کے سب موحد اور دین ابراھیم (ع) پر قائم تھے ، اور ان حیوانات کا گوشت نھیں کھاتے تھے جو بتوں کے نام پر ذبح کئے جاتے تھے، چنانچہ رسول(ص) اسلام بھی قطع نظر اس بات کے کہ آپ منصب نبوت کے لئے زمانہٴ شیر خوارگی ھی سے لیاقت وآمادگی رکھتے تھے جیساکہ ھم گذشتہ مباحث میں نقل کرچکے ھیں، اسی خاندان کے چشم وچراغ تھے،اسی پاکیزہ خاندان میں آپ نے پرورش پائی تھی ،کیا یہ سوچا جاسکتا ھے کہ رسول(ص) اسلام اپنے خاندان کی اعلیٰ تعلیم و تہذیب کو جس کی تبلیغ و گسترش کے لئے یہ حضرات ھمیشہ کوشاں رہتے تھے ، چھوڑکر بت پرستوں کی پیروی کریں گے ، اور نادان لوگوں کے ساتھ ناپاک گوشت تناول کریں گے؟! کیا رسو ل خدا  ا (ص) توحید کے اس مر تبہ تک بھی نھیں پهونچے هوئے تھے جو زید بن عمر و جیسے افراد کو حاصل تھا ؟!تعجب یہ ھے کہ آپ(ص) حرام گوشت تناول کرتے ھیں، لیکن زید ابن عمرو دین ِ خدا  سے آشنا هو نے کی وجہ سے اس گوشت کو نھیں کھاتے جو بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے، اوررسول خدا  زید بن عمرو کی اس خدا پسند انہ عمل میں تا زمانہٴ بعثت پیروی کرتے ھیں، اور زمانہٴ بعثت تک اس کو ایک سنت حسنہ اور اچھی عادت کے طور پر زندہ رکھتے ھیں؟!!

ھمارے نزدیک یہ دونوں حدیثیں بھی انھیںسینکڑوں حدیثوں کے مانند ھیں جو خلفاء اور ان کے خاندان کی اھمیت اور عظمت اجاگر کرنے کے لئے اور خاندانی تعصب اور رقابت کی بنا ء پر جعل کی گئیں ھیں، کیونکہ زید بن عمرو کوئی دور کے رشتہ دار نہ تھے بلکہ خلیفہ صاحب کے چچا زاد بھائی اور آپ کے خسر معظم تھے (اگر ان کے حق میں حدیث ِ فضیلت جعل نہ کی جاتی توزوجہٴ محترمہ ناراض نہ هوجاتیں!!) ھماری بات کی تصدیق اس چیزسے بھی هوتی ھے کہ اس حدیث کے ناقل جناب عبدالله ا بن عمر(حضرت عمر کے صاحبزادے) اور نوفل بن ھشام بن سعد بن زید ( زید کے پر پوتے) ھیں ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا راوی نظر نھیں آتا، لہٰذا اس سے پتہ چلتا ھے کہ دال میں ضرور کالا ھے ؟!! کیا اس روآیت کے گڑھنے والے اس بات کی طرف متوجہ نہ تھے کہ مذکورہ روآیت کا  مضمون ،قرآن ا ور صرےح روا یات سے عدمِ مطابقت کے ساتھ ساتھ مقام رسالت کی ایسی توھین ھے کہ جس کا جبران ناممکنات میں سے ھے ؟! [12]

کسی کو یہ غلط فھمی نہ هو کہ ھم زید کے زمانہ ٴجاھلیت میں موحد هونے کے منکر ھیں ،بلکہ ھمارا مقصد آنحضرت(ص) کی شخصیت کو زید کے مقابلہ میں دیکھنا ھے بس، و گرنہ شیعہ روایات میں بھی آیاھے کہ زیدھمیشہ آ ئین توحید کی تلاش اور خدا پرستی کی جستجو میں رہنے کے ساتھ ساتھ بت پرستی سے بیزاری کرتے تھے۔[13]

یوں کھا جائے تو بہترھے کہ حدیث جعل کرنے والوں نے ان دونوں حدیثوں میں زید ابن عمرو کے بارے میں جو مبالغہ آرائی فرمائی ھے، وہ جعلی اور من گڑھت ھے، یعنی آنحضرت (ص) کو پست ظاھر کرکے زید کو جس بناء پر بلند کیا ھے وہ ایک خاص مقصد کے تحت ھے، اس کے بعد اس کو صحیح حدیث کے قالب میں اھل سنت کی اصلی اور معتبر کتابوں میں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا  ھے، تاکہ مسلمان با آسانی قبول کر لیں، چنانچہ هوا بھی ایسا ھی کہ آج پڑھے لکھے اھل سنت بھی مذ کورہ روآیت کو صحیح اور معتبر مانتے ھیں!!

۳۔ جبریل امین اورسینہ ٴ رسول(ص) کاآپریشن !!

قارئین کرام !اس داستان کو بہت سے محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے لیکن ھم یھاں پر صرف صحیح بخاری اورصحیح مسلم سے نقل کرتے ھیں:

۱۔”۔ عن انس بن مالک؛ان رسول(ص) اللّٰہ اتاہ جبرئیل وهویلعب مع الغلمان، فاخذہ فصرعہ،وشق عن قلبہ،فاستخرج القلب، فاستخرج منہ عَلَقةً، فقال:ہذ ا حظ الشیطان منک،ثم غسلہ فی طست من ذھب بماء زمزم،ثم لامہ اعادہ فی مکانہ،وجاء الغِلمانُ یَسْعوَن الی امہ (یعنی ظِئْرَہُ) فقالوا:ان محمداً قد قتل ،فاستقبلوہ وهومنتقَع اللَّون،قال انس:وقد کنتُ اری اثر ذالک المِخیَط فی صدرہ۔“[14]

ترجمہ: ۔۔ انس بن مالک سے روایت ھے: ایک روز رسول خدا(ص) بچوں کے ھمراہ کھیل رھے تھے، (اچانک) جبرئیل ان کے پاس آئے، اورانھیں پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا، اور ان کا سینہ چاک کر کے دل باھر نکالا، اور حضرت (ص) کے دل کے اندر سے خون کا ایک ٹکڑا باھر نکال دیا اور کھا یہ آپ کے اندر شیطان کا حصہ تھا، اس کے بعد آنحضرت(ص) کے قلب کو سونے کے ایک طشت میں آب زمزم سے دھو کر اپنی جگہ پر لگا دیا ،اور سینہ کے شگاف کو سی دیا۔ ادھر بچے دوڑتے هوئے ان کی دودھ پلانے والی ماں (حلیمہ سعدیہ) کے پاس آئے، اور ان سے بولے: محمد(ص) قتل کر دیئے گئے، لوگ ان کی تلاش میں نکلے، اور انھیں ایسی حالت میں دیکھا کہ ان کا رنگ اڑا هوا تھا،انس کہتے ھیں: میں آنحضرت کے سینے پر ٹانکوں کے نشان دیکھا کرتا تھا۔

۲۔۔”عن انس بن مالک؛ قال:کان ابوذرےحدث:ان رسول الله(ص) قال: فرج عن سقف بیتی وانا بمکة،فنزل جبرئیل، ففرج صدری،ثم غسل بماء زمزم،ثم جاء بطست من ذھب ممتلی حکمة وایمانا ً فافرغہ فی صدری ثم اطبقہ،ثم اخذ بیدی،فعرج بی الی السماء الدنیا “[15]

ترجمہ :۔۔ انس بن مالک نے جناب ابوذر سے اور ابوذر نے رسول اسلام سے روایت کی ھے : میں مکہ میں تھا کہ گھر کی چھت اچانک ایک مرتبہ شگافتہ هوئی اورجبرئیل نازل هوئے، اورمیرے سینہ کو شگافتہ کیا، اور اس کو آب زمزم سے دھویا، اس کے بعد ایک سونے کاطشت جو حکمت و ایمان سے مملوٴ تھا اور اس کو میرے سینے میں ڈال دیا، اور پھر میرے سینے کو سی دیا اس کے بعد میرا ھاتھ پکڑ کر آسمان اول کی طرف لے کر چلے گئے۔

لائے  بخاری نے اس روایت کو مختلف طرق اور متضاد مضمون کے ساتھ نقل کیا ھے،نیز یھی روایت تھوڑے اختلاف کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی موجود ھے ۔

روایت پر کئے گئے اعتراضات:

یہ حدیث بھی ا ن عجائبات میں سے ایک ھے جو بےشتر صحیحین میںصحیح حدیث کے نام سے منقول ھیں ! اور صحیحین کی اتباع میں اکثر سنی موٴرخین نے بھی اس روآیت کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے[16]اسی طرح صحیحین کی اندھی تقلید کرنے والے مفسرین نے بھی اس حدیث کو آیہ ٴ<اَلَمَْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ>کی تفسیر کے طور پر اپنی تفسیر کی کتابوں میں قلمبند فرمایا ھے.[17]

لیکن ھمارے عقیدہ کے اعتبار سے مذکورہ حدیث چند جہت سے قابل بحث ھے اور جب تک ا ن جھات کی طرف توجہ نھیں کی جاتی اس وقت تک اس کے اوپر سے حقیقت کا پردہ اٹھا یا نھیں جا سکتا، چنانچہ مندرجہ ذیل جھات سے ھم اس کو مورد بحث قرار دیتے ھیں :  

۱۔ زمانے کے لحاظ سے اختلاف:

مذکورہ حدیث رسول اکرم(ص) کے ِسن کے لحاظ سے بہت متضاد نقل کی گئی ھے ،کیونکہ یہ حدیث کئی مضمون کے ساتھ بیان کی گئی ھے، بعض جگہ آیا ھے کہ یہ واقعہ رسول(ص) اسلام کے بچپنے میں پیش آیا ، بعض روایتوں میں ھے کہ یہ واقعہ رسول خدا(ص) جب مبعوث برسالت هوگئے تب پیش آیا ،اور اس کے  فوراًبعد رسول(ص) کو معراج هوگئی،پس اختلاف اور تضادِ زمانی واقعہٴ شق صدر کے جعلی هونے پر بین دلیل ھے ،کیو نکہ اس صورت میں تقریباً ۴۰/ سال کا فرق پایاجاتاھے۔ (یعنی جو راوی بچپنے کی بات کہہ رھا ھے وھی راوی چالیس سال کے بعد اسی روایت کو ۴۰/سال کے فرق کے ساتھ بیان کر رھا ھے۔[18]

۲۔مکان کے اعتبار سے اختلاف

متذکرہ روایت کامکان و محل ایک نھیں ھے بلکہ واضح طور پرتضاد و تناقض نظر آتا ھے، کیونکہ بعض روایتوں میں آیا ھے کہ یہ واقعہ مسجد الحرام ، حجر اسمٰعیل یا حطیم میں پیش آیا ،اور بعض روایتوں میںآیا  ھے کہ رسول اسلام(ص) جب بیابان میں تھے تب پیش آیا،اور بعض روایتوں میں آیا ھے کہ یہ واقعہ رسول کے گھر میں پیش آیا ،اور سقف شگافتہ هوئی ،اسی طرح بعض میں آیا  ھے کہ رسول خدا(ص) کے دل دھونے کے لئے جبرئیل آبِ زمزم کے پاس لے کر گئے، اور بعض میں ھے کہ طشت ِ طلا لا کر دل دھویا گیا، چنانچہ ان اختلافات او رتضادات کے هوتے هوئے ھم کونسی روایت کے مضمون کو قبول کریں پتہ نھیں؟! کیا ایسی حدیث کو صحیح کھا جا سکتا ھے ؟!

۳۔واقعہٴ شق صدر عصمت نبی سے منا فات رکھتا ھے:

تیسرا اشکال یہ ھے کہ سینہ چاک کرنے کا واقعہ عصمتِ رسول اسلام (ص) کے منافی ھے کیو نکہ رسول(ص) معصوم تھے ،لہٰذا جب آپ تمام شےطانی خباثت، نجاست ا و ر آلائش سے پاک و پاکیزہ تھے تو پھر آپ کے سینے میں شیطان کے حصہ کا کیا مطلب جسے جبرئیل نے آکر آپرےشن کے ذریعہ نکالا ؟!

۴۔شرانسان کے غدہ ٴجسمی سے مترشح نھیں هوتا:

شر وفسادانسان کے وجود کے اندرظاھری مادہ کی بناء پر نھیں هوتا کہ ترشح کرے !یہ انسان کے جسم سے مربوط شی ٴ نھیں کہ منقطع کرنے سے منقطع هو جائے !نیکی و بدی یا علم وحکمت غذائی موادکی مانند نھیں کہ ایک ظرف سے دوسرے ظرف میں منتقل کردیں! یا ان کو انجکشن کے ذریعہ انسان کے وجود میں داخل کردیں، اور جبرئیل آپریشن کر کے نکال لیں ؟! بلکہ نیکی وبدی ،علم وحکمت کا تعلق اعتقادی اور معنوی امور سے هوتا ھے ۔[19]([20])

شرح صد ر یعنی چہ ؟ !

جیساکہ ھم بتا چکے ھیں کہ مذکورہ واقعہ سورہٴ ”الم نشرح لک صدرک“ کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا جاتا ھے ،لیکن یہ بات یاد رکھیں شق صدر (سینہ کا چاک کرنا) اورشرح صدر میں کوئی رابطہ نھیں ھے، بلکہ شرح ِصدر سے مراد رسول اسلام (ص) کا وسیع القلب هوناھے یعنی خدا نے رسول اکرم (ص) کو وسعت قلب عطا کی تاکہ آپ احکام الٰھیہ کی تبلیغ میںجو زحمتیں اور مشقتیں اٹھائیں ان کو وسعت قلبی کے ساتھ برداشت کرلیں ،چنانچہ شرح صدر سے مراد یھاں وھی ھے جس کی جناب موسیٰ نے بارگاہ خداوندی سے دعا کی تھی: <قَاْلَ رَبِّ اْشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ.وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ>[21]

ترجمہ:۔اے میرے خدا !میرے قلب کو وسیع کر اور میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے امر کو آسان کردے۔

[1]صحیح مسلم جلد۱، کتاب الایمان، باب(۸۸)” بیان ان من مات علی الکفر فھو فی النار“حدیث ۲۰۳۔  سنن ابن ماجہ جلد۱ ،حدیث ۱۵۷۲۔  سنن داؤد جلد ۲ ،صفحہ ۵۳۲۔

[2]صحیح مسلم جلد ۳ ،کتاب الجنائز، باب(۳۶)” استیذان النبی ربہ فی زیارت قبر امہ“ حدیث۹۷۶ ،طریق دوم،   سنن داؤد جلد۲ ،صفحہ ۱۹۵۔

[3]سیرہ ابن ھشام ج۱،ص ۲۵۲۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱، ص۱۲۰۔ المحبر، ص۱۷۱،تالیف محمد بن حبیب بغدادی متوفی ۲۴۵) ھ۔ اسنی المطالب فی نجاة ابی طالب۔ شیعہ کتب: کمال الدین ۔ بحارالانوار ج ۱۵،ص۱۴۴۔ خصال۔ من لا یحضرہ الفقیہ، باب النوادر۔

[4]کمال الدین نقل از بحارالانوار جلد ۱۵ ،ص۱۴۴۔

[5]خصال نقل از بحار الانوار جلد۱۵،ص۷ ۲ ۱۔  من لایحضرالفقیہ، باب النوادر۔ (۳)مسند احمد  بن حنبل جلد ۵،ص۴ ۷ا۔  طبقات جلد۴،ص۱۳۶۔

[6]عرض مترجم :۔بھلا بتائیے خاندان رسول(ص) کھے کہ ھم توحید پرست ھیں اور مسلمان دوسروں کی باتوں پر صدق دل سے ایمان لاکر ان کو کفر کا ٹائٹل دے؟! ذرا غور فرمائیں! گھر والوں کی بات گھر والا بہتر جانے گا یا باھر والا؟! ”ادریٰ مافی البیت اھل البیت“ احتیاط کا تقاضہ تو یہ ھے کہ جن افراد کا کفر آپ کے نزدیک مسلم دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ذریعہ ثابت نھیں ان کو کافر نہ کھیں بلکہ حسن ِ ظن سے کام لیں کیو نکہ کھیں ایسا نہ هو کہ آپ سے سو ٴظن کی وجہ سے روز قیامت یہ سوال هو جائے کہ جب تمھیں رسول(ص) کے آبا ء واجداد کے بارے میں دلیل قطعی کے ذریعہ کا فر هونا نھیں معلوم تھا تو کیوں ھر جگہ بغلیں بجا کر انھیں کا فر کہتے تھے ؟!۱۲

[7]صحیح بخاری:ج۷، کتاب الذباح والصید، باب” ما ذبح علی النصب والاصنام“  حدیث۵۱۸۰۔ ج ۳ ،کتاب فضائل الصحابة،  باب” حدیث زید بن عمر ابن نفیل“ حدیث۳۶۱۴۔

[8]دور جاھلیت کے عرب مجسمہ بنا کر ان کی پوجا اور عبادت کرتے تھے انھیں صنم کھا جاتا ھے اور صنم کی جمع اصنام ھے، اور کبھی کسی لکڑی یا پتھر کو زمین میں نصب کرکے ان کی عبادت کرتے اور ان کو نصب و انصاب کہتے تھے۔

[9]مسند احمد بن حنبل،ص۱۸۹.

[10]اسد الغابہ کے نقل کے مطابق ج،۴ ص۷۸۔و استےعاب جو اصابہ کے حاشیہ میں چھپی ھے جلد ۲،ص۴۔

[11]تفصیل دیکھئے :اسد الغابہ جلد ۴،ص۷۸،جلد۲،ص۲۳۷۔۲۳۹،اغانی جلد۳،ص۲۹۔

[12]قطع نظراس بات سے کہ اس روآیت کو صرف خلیفہ صاحب کی عظمت دکھانے کی غرض سے گڑھا گیا  ھے ، ان دونوںحدیثوں کی روشنی میں مقام نبوت نھایت پائین گر جاتا ھے!لیکن اس کو وھی سمجھ سکتا ھے جسے عرفان ِ رسالت هو، اےرے غےرے نتھو خےرے کیا جانیں ؟!!مترجم ۔

[13]کمال الدین ص ۱۱۵ ، بحار الانوار ،جلد ۱۵ ،حدیث نمبر۲۰۵۔ کے نقل کے مطابق

[14]صحیح مسلم جلد۱،کتاب الایمان، باب(۷۴ )”الاسراء رسول اللہ(ص) “ حدیث ۱۶۲۔ ۱۶۳۔

مسلم نے دیگر طریق سے بھی اس باب میں اس بارے میں روایات نقل کی ھیں ۔

[15]صحیح بخاری:جلد۱ول،کتاب الصلوٰة،باب”کیف فر ضت الصلوات  فی الاسرآء“ حدیث۳۴۲ ، جلد۲ ،کتاب الحج ،باب”ماجاء فی زمزم “حدیث ۱۵۵۵۔  جلد ۳ ،کتاب فضایل الصحابة باب(۷۱)” معراج“ حدیث۳۶۷۴۔ کتاب بدء الخلق، باب(۶)” ذکر الملائکة“ حدیث۳۰۳۵۔  جلد ۴،کتاب الانبیاء،باب(۷) ذکر ادریس حدیث۳۱۶۴۔ جلد ۹،کتاب الانبیا ء، باب (۲۳)” قولہ تعالی: ”وقال رجل موٴمن من آل فرعون  “حدیث۳۹۲ ۔ صحیح مسلم ج۱،کتاب الایمان، باب(۷۴)”الاسراء برسول(ص) الله“حدیث۱۶۳۔ 

[16]تاریخ طبری ، تاریخ خمیس ، طبقات ابن سعد، مروج الذھب و سےرہ ٴ ابن ھشام۔

[17]تفسیر در منثور ، تفسیر خازن، تفسیر ابن کثےر ،تفسیر نیشاپوری وتفسیر آلوسی ۔

[18]صحیح کھا گیا  ھے کہ دروغ گو را حافظہ نباشد اگر کئی مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا هوتا تو سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا رسول(ص) کے دل میں کئی مرتبہ آپریشن کرنے کے بعد بھی یہ غدہٴ شیطان واپس آجاتا تھا اور جبرئیل کا آپریشن کامیاب نہ هوتا تھا؟!!مترجم۔

[19]نوٹ :اس اشکال کو فخرالدین رازی نے قاضی عبدالجبار سے نقل کیا ھے، ھم نے اختصار کے ساتھ یھاں ذکر کیا ھے ،اسی طرح علامہ نےشاپوری نے اپنی تفسیر میں اس اشکال کو قاضی عبدالجبار سے نقل کیا ھے ،اور اپنے عقیدہ کے لحاظ سے جواب بھی دیا  ھے، اور اسی جواب کو آلوسی نے اپنی کتاب روح المعانی میں نقل کیا ھے بغیر اس کے کہ نیشاپوری کا نام ذکر کریں!

[20]عرض مترجم:۔ اس روایت سے نکلنے والے معنی ومطلب کو قرآن کریم کی ان آیات کے ساتھ کیسے جمع کیا جاسکتا ھے جن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ھے کہ شیطان انبیاء کرام و اولیاء اللہ حتی کہ مومنین و متوکلین علی اللہ کے دلوں پر قابو نھیں پاسکتا؟! 

۱۔<اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ۔ سورہ بنی  اسرائیل، آیت۶۵،پ۱۵>

اے شیطان تجھے میرے اطاعت گزار بندوں پر تسلط حاصل نھیں هوسکتا۔

۲۔<ِاِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَلَٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُون.نحل،آیت ۹۹،پ۱۴>

اور وہ ایمان لانے والوں اور خدا پر بھروسہ کرنے والوں پر قابو نھیں پاسکتا۔

۳۔<۔وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عِبَاْدَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ. سورہٴ حِجر آیت۳۹،۴۰>ترجمہ:۔اور میں (شیطان) بے شک تیرے مخلص بندوں کے علاوہ سب کو گمراہ کروں گا۔۱۲۔

[21]سورہٴ طہ ۲۵،پ۱۶۔ 

 


source : http://www.shieh.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت
امام حسن مجتبی (ع) کی سوانح عمری
وصیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا
ولایت علی ع قرآن کریم میں
امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ / تحقیقی ...
امام زین العابدین علیہ السلام کے مصائب
مکتب اہلبیت علیہم السلام کی پائیداری
اصحاب امام مہدی علیہ السلام ۳۱۳افراد کیوں ؟
امام حسن مجتبی (ع) کے مناظرے
حضرت علی علیہ السلام دینی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی ...

 
user comment