اردو
Friday 3rd of May 2024
0
نفر 0

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت از نظر قرآن

مقدمہ:

اللہ تعالی نے دین اسلام کو انسانی معاشرے کی فلاح و اصلاح کی غرض سے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نازل کیا۔ دین در حقیقت ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو خالق کائنات کی جانب سے انسان کی ہدایت کے تمام پہلووں پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید میں انسانی ضرورت کے تمام اصول و ضوابط کو بیان کیا گيا ہے ، انسان چونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگي کا حامل ہے بنابریں قرآن کا اکثر بیشتر حصہ بلکہ مکمل طورپر اجتماعی و سیاسی مسائل پر مشتمل ہے۔ مباحث قرآن کا محور ومرکز توحید ہے ، توحید کی اقسام میں جہاں توحید ذاتی، افغالی اور عبادی پر بحث و تفسیر کی ضرورت ہے وہیں توحید ربوبیت بھی حائز اہمیت ہےجو توحید افعالی کی ہی ایک قسم شمار ہوتی ہے جس سے انسان کو یہ درس ملتا ہےکہ جس طرح خدا کےعلاوہ خالق کوئي نہيں ہوسکتا اسی طرح اللہ کے سوا پورے عالم کے امور کی مدیریت کے لائق بھی کوئي نہيں ہوسکتا ۔ نظام کائنات کو چلانے میں خدا کا شریک تسلیم کرنے والابھی اسی طرح سے مشرک ہے جس طرح تخلیق کائنات میں خدا کا شریک ٹہرانے والا مشرک ہے ۔

حقیقت میں توحید خالقیت پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ تمام امور کی تدبیر کا مالک بھی ایک خدا ہے ۔ انسانی معاشرہ کی تدبیر کو عملی صورت دینے کے لئے اللہ تعالی نے انسان ہی کو زمیں پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بناکر بھیجا، انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور معاشرے پرعادلانہ نظام کا قیام تھا۔

ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم ۔

وہی خدا ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجاجو انہیں اس کی آیات پڑھ کرسناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے۔

نیزفرمایا: لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط ۔

اور ہم نے اپنے انبیاء کو واضح نشانیاں دے کربھیجا اور ان کے ساتھ کتاب (قانون) اور میزان(عدالت ) کو بھی نازل کیا تاکہ لوگوں میں انصاف قائم کریں۔

اسلام کا بنیادی مقصد انسان کی اندرونی اور بیرونی سطح پر تربیت کرنا ہے۔ بنابریں تزکیہ نفس کے بعد معاشرتی تزکیہ ( اصلاح ) کی غرض سے اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء علھیم السلام کو ایک مشترکہ لائحہ عمل دے کربھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے نظام کے تحت زندگي گذارنے اور ہر قسم کے غیر متعادل نظام سے پرہیز کرنے کا درس دیں۔

ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدواللہ و اجتنبوا الطاغوت۔

یعنی ہم نے ہر زمانےمیں رہنے والے لوگوں کے لئے جورسول بھیجا اس کا ایک ہی شعارتھا کہ اللہ کی بندگي وعبادت کرو اور ظالم و طاغوت سے دوررہو۔

اس آیت اور بہت سی دیگرآیات سے یہ معلوم ہوتاہےکہ ہرنبی نے اپنے زمانے میں موجود غیر الہی حکمرانوں کے تسلط سے قوموں کوآزاد کرانے کے لئے نہ صرف زبانی تبلیغ کی ہے بلکہ طاغوتی حاکمیت کے خاتمے کے لئے عملی جدوجہد بھی کی اور بعض نے کامیابی کے بعد اللہ کی حاکمیت کو معاشرے پرنافذ بھی کیا ہے۔ حضرت داود اور حضرت سلیمان علیھما السلام کا ذکر قران میں موجود ہے ۔ اسی طرح دیگر انبیاء جن میں حضرت موسی اور حضرت ابراہیم علیھماالسلام کی طاغوت شکن جدوجہد کا بھی ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں پرصرف اللہ کی حکومت ہونے کی صورت میں ہی توحید عملی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت میں عقلی اعتبار سے تو کوئي شک شبہ نہیں ہے اس لئے کہ ایک طرف انسان کابغیر حکومت کے زندگي گذارنا ممکن نہیں ہے اور دوسری طرف خالق انسان کے علاوہ حکومت کا کامل نظام دینے کا کوئي اہل نہیں ہے نیز دیگر انبیاء کی بعثبت کا مقصد معاشرے پراللہ کی حاکمیت کا نفاذ ہے تو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف تبلیغ و ارشاد کی ذمہ داری تک محدود کرنا کس طرح ممکن ہے؟

قرآنی آیات کے تناظرمیں ہم ثابت کرنا چاہتےہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبلغ احکام ہونے کےساتھ ساتھ سیاسی حاکمیت کے حامل بھی تھے جو درحقیقت خلافت کی شکل میں الہی حاکمیت ہے البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ عقلی ادلہ اور بہت سی آیات کے باوجود بعض علماء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیاسی منصب اور آپ کی سیاسی حاکمیت کا انکار کرتےہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاوف اس طرح پیش کرتےہیں کہ آپ صرف مبداء ومعاد کی تبلیغ پرمامورتھےاورآپ کا معاشرے کی سیاسی قیادت اور رہبری سے کوئي تعلق نہ تھا جس کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

دین اور معاشرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی قیادت کےاثبات سے پہلے دین کی حقیقت کا سرسری جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ آپ جس دین کے مبلغ تھے اس کی صحیح صورت سامنے آسکے۔ قرآن مجید کی نظر میں دین سے مراد انسانی زندگي کی عملی روش کا حدود اربعہ ہے جس کی ایک دلیل وہ آیات ہيں جن میں خداوندمتعال نے کفارو مشرکین کے راہ ورسم اور زندگي گذارنے کی روش کوبھی دین سے تعبیر کیا ہے۔

لکم دینکم ولی دین

تمہارے لئے تمہارادین اور میرے لئےمیرا دین ۔

اس طرح فرعون جو اپنے علاوہ کسی کو خدا تسلیم نہيں کرتا تھا لیکن حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے عوام کو بھڑکانےکی خاطر دین کا سہارا لیتےہوئے کہتاہے

انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظہر فی الارض الفساد ۔

مجھے ڈر ہے کہ یہ (موسی ) تمہارا دین بدل ڈالے گا یازمین میں فساد برپاکرے گا۔

بنابریں انسانی زندگي گذارنے کی روش اور طور طریقے دو قسم کے ہوسکتےہیں، ایک باطل راستہ ہے جو شیطان اور شیطانی حکمرانوں کا طورطریقہ ہے اور دوسرا فطرت انسانی کا راستہ ہے کہ جس کی طرف خدا نے اپنے نمائندوں کے ذریعے دعوت دی ہے اور اسی راہ و روش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہرنبی الہی نے کوشش بھی کی ہے لیکن شیطانی و طاغوتی حکمرانوں کی عوام فریبی کی وجہ سے صرف چند انبیاء حاکمیت الہی نافذ کرنےمیں کامیاب ہوئے جس میں ہمارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں قائم ہونےوالی حکومت ایک بہترین نمونہ ہے، عصر حاضر کے عظیم مفسر قرآن علامہ طباطبائي نے بھی انسانی معاشرے کی راہ و روش کو دین سے تعبیر کیا ہے اور سورہ روم کی آیت تیس کی تفسیر میں دین کو دین فطرت کے طورپر ثابت کیا ہے۔

دین فطرت سے مراد یہ ہےکہ انسانی خلقت کے اندر خالق انسان نے زندگي گذارنے کے وہ طریقے جو انسان کو کمال و ترقی تک لے جانے کا وسیلہ ہیں ودیعت کردئےہیں۔ اسی بناپر اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اسی فطری دین پرقائم رہیں تاکہ اپنی امت کی قیادت و رہبری کرتےہوئے انہیں کمال کی منزل پر فائزکرسکیں۔

فاقم وجھک للدین حنیفا فطرت التی فطرالناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم ولکن اکثرالناس لایعلمون۔ پس اے نبی یکسو ہوکر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پراس نے سب انسانوں کو خلق کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں آتی یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اس آیت مجیدہ میں بھی خدا نے نظام حیات کو دین سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہےکہ یہ ایسا نظام حیات ہے جو کائنات کے دیگر نظاموں کی طرح نظم وضبط و ہم آہنگي پر قائم ہے اور چونکہ تخلیقی نظام ہے اس میں کبھی بھی تبدیلی نہیں آسکتی یعنی فطرت و شریعت میں وحدت و اتحاد قائم ہے اسی بناپر انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ ظالمانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس مدفون نظام فطرت کو روشن اور اجاگر کریں۔

علامہ طباطبائي کہتےہیں:

دین فطرت سے مراد تو وہ قوانین و ضوابط ہیں جو انسان پسند ہیں کیونکہ یہ انسان کی خلقت کے ساتھ مربوط ہیں اور انسانی عقل سے مکمل طورپر مطابقت رکھتےہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت سے کیا مراد ہے۔

آپ کی سیاسی حاکمیت سے یہ مراد ہے کہ معاشرےکے جملہ امور کی قیادت و رہبری اور حکمرانی کا حق خداوند تعالی نے اپنے معصوم نمائندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا ہے۔ یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف احکام الہی کو بیان کرنے والے نہیں یا لوگوں کے باہمی اختلافات اور مشاجرت کے حل کےلئے صرف قاضی تحکیم نہیں کہ قضاوت کرتےہوئے صرف فیصلہ سنادیں بلکہ اس قضاوت اور فیصلہ پر عمل درآمد کرانے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ حاکمیت کا لفظ حکم سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں حکم سے مراد تشریع یعنی قانون وضع کرنا اور معاشرے پر قانون کو حاکم قراردینا ہے جو کہ ذاتی طورپر اللہ تعالی کے ساتھ مختص ہے جیسا کہ قرآن میں فرماتا ہے ومااختلفتم فیہ من شیئي فحکمہ الی اللہ اور جس بات میں تم اختلاف کرتےہوئے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔

لیکن اللہ تعالی نے اپنے اس فیصلے کو عملی طورپر نافذ کرانے کے لئے اپنا اختیار اپنے نبی کو تفویض کرتےہوئے اعلان فرمایا انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک اللہ۔ اے رسول ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ پرنازل کی ہےتاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کریں۔

گرچہ یہ آیت ایک چوری کے فیصلے سے متعلق نازل ہوئي ہےلیکن یہ ثابت شدہ ہےکہ شان نزول مراد متکلم کو محدود و منحصر کرنے کا باعث نہیں بنتا اس بناپر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرقسم کے فیصلے کرنے اور انہیں عملی طورپر نافذ کرنے کے ذمہ دارہیں بالفاظ دیگر معاشرے پرحکومت کرنے کا اختیار رکھتےہیں۔

امام خمینی رح کا نظریہ

" حکم عقل اور ضرورت ادیان کی رو سے انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد اور کار انبیاء علیھم السلام صرف مسئلہ گوئي اور بیان احکام نہیں تھا اور ایسا نہیں ہےکہ مسائل و احکام بذریعہ وحی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچے ہوں اور آنحضرت اور امیرالمومنین اور دیگر ائمہ علیھم السلام صرف مسئلہ گو رہے ہوں کہ خداوند عالم انے ان حضرات کو صرف اس لئے معین کیا ہے کہ مسائل واحکام کو کسی خیانت کے بغیر لوگوں کے سامنے بیان کردیں اور انہوں نے بھی اس امانت کو فقہا کے حوالے کردیاہو کہ جومسائل انبیاء سے حاصل کئے ہیں کسی خیانت کے بغیر لوگوں تک پہنچا دیں اور اس طرح الفقہاامناء الرسل کا مطلب یہ ہو کہ فقہا بیان مسائل میں امین ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ انبیاء علیھم السلام کا اہم ترین فریضہ قوانین و احکام کو جاری کرکے عادلانہ اجتماعی نظام قائم کرنا ہے جویقینا بیان احکام و نشر تعلیمات الھی کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور حکومت کا خواہاں ہے۔

نیز فرماتےہیں کہ :

خداوند عالم نے جو خمس کے سلسلےمیں فرمایا ہےکہ واعلموا انما غنمتم من شيئي فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربی۔

اور جان لوجوکچھ مال کسب کرواس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور اس کے قرابتداروں کے لئے مخصوص ہے۔

اور جو زکوۃ کے لئےفرمایا ہے خذ من اموالھم صدقۃ

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے

حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف احکام بیان کرنے کےلئے معین نہیں کیا ہے بلکہ ان احکام کے نفاذ و اجراکی ذمہ داری بھی ان ہی کے سپرد کی گئي ہے۔ آپ اس پرمامورتھے کہ خمس و زکات اور خراج جیسے ٹیکسوں کو وصول کرکے مسلمانوں کونفع پہنچانے کے کام کریں، قوموں اور افراد کے درمیاں عدالت کو وسعت دیں، حدود جاری کریں، سرحدوں کی حفاظت کریں، ملک کی آزادی کو قائم کریں اورحکومت اسلامی کے ٹیکسوں کو خردبرد سے بچائيں۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت سے متعلق آیات۔

اس سلسلےمیں کثیر آیات موجود ہیں جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

الف: ایسی آیات جن میں اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کیا گيا ہے۔

ب : ایسی آيات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت وحکومت سے متعلق ہیں۔

ج: وہ آیات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام امور اجتماعی میں محور و مرکز قراردیتی ہیں۔

اطاعت پیغمبر سے متعلق آیات

اس قسم کی آيات میں مختلف صورتوں میں پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو مورد تاکید قراردیا گيا ہے۔ بعض آيات میں بلاتفریق تمام انبیاء کی اطاعت کئےجانے کو اہداف بعثت میں شمار کیا گيا ہے۔

وماارسلنامن رسول الا لیطاع باذن اللہ

ہم نے جوبھی رسول بھیجا ہے اس لئےبھیجا ہےکہ باذن اللہ اس کی اطاعت کی جاے۔

بعض آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کا تسلسل قراردیا گيا ہے۔

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔

جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

مندرجہ بالا آیات میں درحقیقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اہمیت کو مختلف انداز میں پیش کیا تاکہ لوگ دل وجان سے اپنے رہبر کی پیروی کریں،اس کےعلاوہ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں براہ راست پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گيا ہے۔

اطیعوااللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم

اللہ کی اطاعات کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اطیعوا اللہ ورسولہ و لا تولوا عنہ و انتم تسمعون۔

اور اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور تم حکم سننے کے بعد اس سےروگردانی نہ کرو۔

اگرچہ ان آیات میں اطاعت خداوندی کا بھی حکم ہے لیکن اصل مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو بیان کرنا ہے چونکہ بعد والی آیات میں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنتے تھے لیکن عمل نہیں کرتےتھے ایسے لوگوں کو بدترین جانوروں سے تعبیر کیا گيا ہے جبکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پرلبیک کہنےوالوں اور آپ کے بتائے ہوئے نظام پرچلنے والوں کوحیات بخش قراردیا گيا ہے۔

علاوہ بریں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم علیحدہ طورپرکسی آیت میں ذکرنہیں ہوا جبکہ بہت سی آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو علیحدہ بھی بیان کیا ہے۔

واقیمواالصلاۃ و آتو الزکوۃ و اطیعو الرسول لعلکم ترحمون

اور نماز قائم کرو اور زکاۃ اداکرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پررحم کیا جاے۔

گویاجس طرح سے نماز و زکاۃ یا دیگر احکام عملی زندگي کاحصہ ہیں اسی طرح پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاہرحکم بھی عملی زندگي کاحصہ ہے۔ سیکڑوں احکام میں سے نماز وزکات جیسے دونمونے ذکرکرنے کا مقصد شاید یہ تھا کہ جس طرح نماز و زکات کے بغیر انسانی معاشرہ کمال و ترقی کی منازل تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح حاکم اسلامی کی اطاعت اور ان کے دیگر اوامر کی اطاعت کے بغیر بھی انسانی کمال کا راستہ طے کرنا ممکن نہیں ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہےکہ رسول کی اطاعت کو مستقل طورپربیان کیا گيا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ایسے اوامر و احکام بھی صادر ہونگے جن کا ذکر قرآن کریم میں درج نہیں ہے۔ وگرنہ پیغمبر اکرم کی اطاعت کی الگ سے تاکید کرنا لغوو عبث قرارپاے گا، نیز یہ کہ بعض انبیاء کی زبان سے تو خدانےواضح طورپربیان کردیا ہےکہ نبی کی اطاعت کے بغیر تقوے کا مقام بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہورہا ہے

انی لکم رسول امین۔ فاتقواللہ و اطیعون

میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں، لھذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حضرت نوح علیہ السلام کا اطیعوا اللہ و اطیعوا ربی جیسی تعبیروں کےبجائے اطیعونی کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ بہت سے احکام کتاب اللہ میں موجود نہ بھی ہوں تو رسول کو امانت دار نمائندہ الہی سمجھتےہوئے اطاعت کرنےمیں انسان کی فلاح وسعادت مضمر ہے۔ اس قسم کی جملہ آیات کا انداز یہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرتی اور اجتماعی احکامات صادر کرنے کا حق بھی رکھتےہیں اور اللہ کی جانب سے ان احکام کو نافذ کرنے کا اختیار بھی انہیں حاصل ہے، نیز بعض آیات کی رو سے اللہ کا رسول اپنے اختیار حاکمیت میں دیگر افراد کو بطور نائب منصوب کرنے کامجاز بھی ہے جیسے حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو منصوب فرمایا تھا۔

وقال موسی لاخیہ ھارون اخلفنی فی قومی

میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتےرہنا۔

حضرت ہارون نےبھی قوم سے یہی کہا کہ جب رحمن پرودگار پرایمان لے آے ہوتو میرے راستے پرچلو اور میرے ہرحکم پرعمل کرو۔

ان ربکم الرحمن فاتبعونی و اطیعوا امری

اور ہارون نے ان سے پہلے کہ دیا تھا کہ اے میری قوم بے شک تم اس بچھڑے کی وجہ سے آزمائش میں پڑگئی ہو جب کہ تمہارا پروردگار تورحمن ہے لھذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔

بعض آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بطور مطلق اور عمومیت کے ساتھ بیان ہوئي ہے یعنی لوگوں پرواجب ہے کہ اپنے ہرقسم کے انفرادی و اجتماعی امور میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں۔

وماآتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا

اور رسول جوتمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ

اس آیت کےشان نزول کےبارےمیں ملتا ہےکہ فئی (بغیر جنگ کے ہاتھ آنےوالے مال) کی تقسیم کے موقع پرنازل ہوئي جس میں مسلمانوں پرواضح کردیا گيا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی مصلحت کی بناپر غیر مساوی تقسیم بھی کرتاہیں تو ان کے ہرفیصلے پردل وجان سے عمل کیا جاے۔یہاں پرما مطلق ہے اورہررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہرفرمان کو شامل ہے اور روایات میں بھی اس آیت کے ضمن میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےتمام فرامین کو مراد لیا گيا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ آنحضرت ایک الہی نمائندے اور اسلامی معاشرے کے حکمران ہونے کی حیثیت سے احکام صادرکرنے کا حق رکھتےہیں اوراس حق حاکمیت کی بناپر واجب الاطاعت بھی ہیں۔ 


source : http://www.taghrib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام
امام سجاد (ع) کو تسلي دينا
امام سجاد (ع) کی عبادت
شب قدر کا امام زمانہ (عج) سے رابطہ
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
جو اُسوہِ رسول ہے
امام زین العابدین علیہ السلام کی ماہ مبارک رمضان ...
امام موسی کاظم علیہ السلام کا یوم شہادت
جشن ولادت امام حسین علیہ السلام
بیعت عقبہ اولی

 
user comment