٢_ آیات حکم
ان آیت کریمہ میں بھی یہ بات واضح طور پر بیان کردی گئی ہے کہ حکم و فیصلہ (حکومت) صرف باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔چنانچہ حکم اسی کیلئے اور فیصلہ کا حق اسی کو ہے اس کے علاوہ کسی کو اس کا کوئی حق و جواز نہیں۔جیسا کہ اس آیت سے صاف طور پر ظاہر ہے:
(لاَلَہُ الْحُکْمُ) (١)
''سن لو حکومت صرف اللہ کیلئے ہے۔''
اسی طرح دوسری جگہ پر ہے :
(ِنْ الْحُکْمُا ِلاَّ لِلَّہِ) (٢)
'' حکومت صرف اللہ کیلئے ہے۔''
نیز فرمایا:
(وَلاَ یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ َحَدًا) (٣)
''اس کی حکومت میں کوئی اس کا ساجھی نہیں۔''
اس کے حکم میں کسی کو اس کا ساجھی اور شریک ٹھہرانا ممکن نہیں ہے اور حکم کو اللہ اور اس کے غیر یا عوام اور اللہ کے درمیان تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ حکم صرف اللہ کیلئے خاص ہے۔ اور حکم و فیصلہ اور حاکم کا تعیین و تقرر پر سارے امور اللہ کی ذات پر ہی موقوف ہیں۔ اس میں اس کا کوئی شریک اور شراکت دارنہیں۔
٣_ آیات ملک
اس آیت میں بھی بادشاہت و حکومت کو صرف اللہ کیلئے خاص کردیا گیا ہے اللہ نے فرمایا :
(قُلْ اللّٰھُُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ منْ تَشَائُ وَتاَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمنْ تَشَائُ) (٤)
''(اے پیغمبر)کہہ دو میرا خدا سارے ملک کا مالک ہے تو جس کو چاہے بادشاہ بنادے اور جس سے چاہے بادشاہت چھین لے۔''
..............
(١) سورہ انعام ،آیت٦٢۔
(٢) سورہ انعام ،آیت٥٧۔
(٣) سورہ کہف ،آیت٢٦۔
(٤) سورہ آلعمران ،آیت٢٦۔
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ملک و بادشاہت صرف اللہ کے لئے خاص ہے وہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے ۔پھر آگے ارشاد ہوتا ہے:
(وَتُعِزُّ منْ تَشَائُ وَتُذِلُّ منْ تَشَائُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ) (١)
''اور تو جس کو چاہے عزت دے اور تو جس کو چاہے ذلت دے ساری بھلائی تیرے ہی مبارک ہاتھ میں ہے۔''
..............
(١) سورہ آل عمران ،آیت٢٦۔
اس آیت کے آخر میں ''عزو ذل'' جو دو الفاظ مذکور ہیں ہم ان کے مفہوم پر بحث کریں گے کیوں کہ یہ ایک اہم بحث ہے اور ان دونوں الفاظ کے مفہوم کا امامت اور ولایت کے مفہوم سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔یہاں اس جانب اشارہ کرنا مناسب ہوگا کہ امر و حاکمیت سے متعلق اوپر پیش کردہ تمام قرآنی مفاہیم ایک وسیع ہمہ گیر، متحد المعنی اور باہم ہم آہنگ نظام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر ایک مفہوم سے دوسرے مفہوم کی تکمیل ہوتی ہے اور ہر ایک مفہوم کا دوسرے سے گہرا رابطہ ہوتا ہے۔اس سیاق میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عزت و ذلت کے مفہوم کا امامت سے گہرا ربط ہے، ان دونوں کو قرآن کریم کے نظام تفہیم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ جیساکہ قرآن کے اس آیت کے ٹکڑے(بِیَدِکَ الْخَیْرُ) ''تمام خیر و فلاح اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے''میں لفظ ''الْخَیْرُ' ' خاص قرآنی مفہوم رکھتا ہے اور اس کا امامت کے معنی سے بھی خصوصی ربط ہے۔ کیوں کہ امامت کمال انسانی کا ذریعہ ہے اور وہ خیر کے ان تمام معانی کو شامل کرتا ہے جو اللہ سبحانہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا انسان کے لئے خیر کا حصول صرف نظام امامت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ہمارا موضوع اس وقت اس آیت کی تفسیر و توضیح نہیں ہے بلکہ ہم تو بطور شہادت آیت کے اس ٹکڑے کو پیش کرنا چاہیں گے کہ اللہ نے فرمایا:
(قُلْ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ منْ تَشَائُ) (١)
''کہہ دو ! اے خدا ملک کا مالک تو ہی ہے تو جسے چاہتا ہے بادشاہ بنا دیتا ہے۔ ''
اس آیت میں یہ بات صاف طور سے بیان کردی گئی کہ بادشاہت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے وہی جسے چاہتا ہے بادشاہ بنا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتاہے۔
قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے:(وَاﷲُ یُؤْتِی مُلْکَہُ منْ یَشَاء) (٢)
''اللہ جسے چاہتا ہے اپنی بادشاہت عطا کرتا ہے۔ ''
اس آیت میں ہم نے دیکھا کہ لفظ ''ملک'' کی اضافت اللہ کی طرف ہے۔ جس سے اس بات کی توثیق و تائید ہوجاتی ہے کہ ملک و بادشاہت صرف اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔
اس آیت میں اور اس جیسی دوسری آیتوں میں امامت کے تعین کے نظریہ کیلئے صریح قرائن موجود ہیں۔ چنانچہ یہ آیت جو بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی :
(وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْا ِنَّ اﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا) (٣)
''اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنایا ہے ۔''
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت٢٦۔
(٢) سورہ بقرہ،آیت٢٤٧۔
(٣) سورہ بقرہ ،آیت٢٤٧۔
لفظ ''مَلِکً'' صراحت کے ساتھ بادشاہت پر دلالت کرتا ہے اور اس میں کسی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس سے مراد صاحب سلطان اور سیاسی قائد ہے۔اس آیت سے صاف طور پر یہ واضح ہوگیا کہ بغیر کسی شک و شبے کے کہ بادشاہت کے معاملات صرف اللہ سبحانہ کی ذات عالی کے ساتھ ہیں وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اس آیت کے سیاق و سباق پر نظر ڈالنے سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے بادشاہت کے امور میں دخل دینے کی کوشش کی اور ربانی اختیار و انتخاب پر اعتراض کیا ۔یہ کہتے ہوئے کہ
(َنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َاحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ) (١)
''طالوت ہمارا بادشاہ کیونکر ہوسکتا ہے طالوت سے تو ہم زیادہ حقدار ہیں بادشاہت کے۔ اور اس کو مال و دولت کی فراغت بھی نہیں۔''
چنانچہ اللہ نے ان کی مقابلے میں یہ آیت نازل فرمائی :
(قَالَا ِنَّ اﷲَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ وَ اﷲُ یُؤْتِی مُلْکَہُ منْ یَشَاء وَاﷲُ وَاسِع عَلِیم) (٢)
''اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے کیوں کہ وہ علم اور جسم میں تم سے بڑا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی بادشاہت عطا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔''
اللہ کے علاوہ کسی بھی شخص کو امور بادشاہت اور سیاسی قیادت میں دخل دینے کا حق نہیں ہے کیوں کہ بادشاہت و قیادت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے بادشاہ بنا دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے کہ '' اللہ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے''۔
..............
(١) ، (٢) سورہ بقرہ ،آیت ٢٤٧۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ تعین الٰہی یا من جانب اللہ نصب امامت کے نظریہ سے حکومت و ولایت میں امت کا کردار کالعدم نہیں ہوجاتا بلکہ حقیقت میں امت کا بھی اس سلسلہ میں اہم کردار ہوتا ہے قرآن کے مطابق ،حکومت میں امت کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور وہ کردار حکومت کو قوت بہم پہنچاتا ہے ۔اس لئے کہ سیاسی حکومت کو عوام ہی سے اطاعت و قوت کی شکل میں مدد اور طاقت حاصل ہوتی ہے ۔اگر عوام اپنے سیاسی قائد سے خوش نہ ہوں تو وہ قائد یاحاکم بجا طور پر حکومت کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا ظالم کو ظلم کی سزا اور طالب انصاف کو انصاف نہیں دلا سکتا۔ بنابریں ایسی عوام کی رضامندی ناگزیر ہے جس پر یہ ا لٰہی قیادت اعتماد اور بھروسہ کرسکے تو نصب امامت کا جو نظریہ ہم پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میںقرآنی نظریہ ہے اسی نظریہ کا تقاضا ہے کہ حکومت کو اللہ کے ساتھ خاص سمجھا جائے،اور سیاسی قیادت کے قانون جواز کو من جانب اللہ نسب امامت میں محصور سمجھا جائے، لیکن حقیقت میں قیادت کے خدائی تعین سے صرف اس کا قانونی جواز ہی ثابت ہوتا ہے ،عوام کو اس نظام حکومت میں خصوصی مقام حاصل ہے اور وہ اسے ضرورت قوت اور مدد پہنچاتا ہے تاکہ وہ قیادت اپنا فریضہ ٹھیک ٹھیک طور پر انجام دے سکے۔
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے کہ امامت و بادشاہت اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اس کے علاوہ کسی اور کیلئے نہیں ہے اس کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ ملک و بادشاہت اور سیاست قیادت کا قانونی جواز صرف اللہ کی ذات میں منحصر ہے لہٰذا قائد و امام کا تعیین ربّانی تعیین کے ذریعے ضروری ہے تاکہ لوگوں کے درمیان بادشاہت و حکومت کی باگ ڈور کا سنبھالنا قائد کے لئے ممکن ہوسکے کیوں کہ قیادت کا قانونی قائد الٰہی تعیین کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا ۔لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمین پر اللہ کے حکم کا نفاذ اور لوگوں کی قیادت کا عمل قائد کے لئے کب ممکن ہوگا؟اس کا جواب یہ ہے کہ قیادت کے امور کی انجام دہی کیلئے عوامی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ لہٰذا امت یا عوام کا اصل کردار قیادت کو قوت و مدد دینا ہے۔ جہاں تک سوال قیادت کے قانونی جواز کا ہے تو یہ صرف اللہ ہی سے حاصل ہوگا کیوں کہ امامت، حکومت و بادشاہت سے متعلق کچھ آیات یہ بھی ہیں:
(لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ) (١)
'' اس کیلئے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔''
دوسری جگہ یوں ارشاد ہے:
(وَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیک فِی الْمُلْکِ)(٢)
'' اور آپ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیںجس کے پاس کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک و ساجھی ہے۔''
اللہ کے اس قول کہ ''اس کی حکومت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے'' سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں کسی شریک و ساتھی کو پسند و قبول نہیں کرتا ہے ایسے ہی اپنی بادشاہت میں بھی کسی شریک و ساجھی کو قبول نہیں کرتا ہے ۔
(تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر) (٣)
''اللہ کی ذات بڑی برکت والی ہے جس کے ہاتھ میں سارے جہان کی بادشاہت ہے۔''
..............
(١) سورہ بقرہ ،آیت١٠٧۔
(٢) سورہ اسراء ،آیت١١١۔
(٣) سورہ ملک ،آیت١۔
نیز فرمایا:
(فَتَعَالَی اﷲُ الْمَلِکُ الْاحَقُّ) (١)
'' اللہ ہی کیلئے ملک و بادشاہت ہے۔''
چنانچہ ان آیات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حقیقی بادشاہ اور مالک صرف اللہ ہے اس کے علاوہ کوئی بھی بادشاہ و مالک نہیں اور وہ بادشاہ جس کا تعیین و تقرر اللہ کی طرف سے نہ ہو وہ حقیقی بادشاہ نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(قُلْ َعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ں مَلِکِ النَّاسِ)
''آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے رب سے پناہ مانگتا ہوں جو لوگوں کا مالک بھی ہے۔ ''
اللہ سبحانہ ہی بادشاہ حق اور مالک حقیقی ہے او راس کے ساتھ بادشاہت و حکومت ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
٤_ ولایت سے متعلق آیات
ان آیات میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ولایت بھی اللہ کی ملکیت ہے باری تعالیٰ فرماتا ہے :
(مَا لَہُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَ یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ َحَدًا) (٢)
''ان کے سوا ان کا کوئی کام بنانے والا نہیں اور وہ اپنے فرمان میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔''
..............
(١) سورہ طہٰ،آیت١١٤۔
(٢) سورہ کہف،آیت٢٦۔
ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایسی تعبیراور اصطلاح استعمال کی ہے جس میں یہ بات نہایت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ بادشاہت وحکومت اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ ساتھ ہی اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ قرآن نے اہتمام کے ساتھ سب سے پہلے حکومت کے مسئلہ کو بیان کیا ہے۔ امر وحکم کو اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہونے کو دوسرے درجہ میں رکھا ہے اور اس میں تعیین الٰہی کو تیسرے درجہ میں رکھا ہے۔ارشاد خداوندی ہے:
(َمْ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِا َوْلِیَاء فَاﷲُ ہُوَ الْوَلِیُّ) (١)
''کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ کسی اور کو ولی و دوست بنالیا سن لو اللہ ہی ولی ہے۔''
ولایت اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور وہی ،لوگوں سے جسے چاہتا ہے ان کے امو و معاملات کو انجام دینے کیلئے ولی مقرر کرتا ہے نیز فرمایا:
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ں وَمنْ یَتَوَلَّ اﷲَ وَرَسُولَہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَِنَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمْ الْغَالِبُونَ) (٢)
''تمہارے دوست اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں جودرستی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جھکے رہتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں سے دوستی رکھے گا اور اللہ ہی کا گروہ غالب رہے گا''
..............
(١) سورہ شوریٰ،آیت٩۔
(٢) سورہ مائدہ،آیت٥٥،٥٦۔
دوسری جگہ ہے:
(ثُمَّ رُدُّوا ِلَی اللَّہِ مَوْلاَہُمْ الْحَقِّ) (١)
''پھر سب بندے خدا کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جو ان کا حقیقی مالک ہے۔''
گویا حقیقی اور سچا ولی و مولیٰ، صرف اللہ ہی ہے اس کے علاوہ دوسرا کوئی اس کی ولایت میں شریک نہیں۔ اس مفہوم و معنی کے حوالے سے بکثرت آیات موجود ہیں۔
..............
(١) سورہ انعام،آیت٦٢۔
source : http://www.ahl-ul-bayt.org