وہ عوامل اور اسباب جو ان باتوں کی حقیقت و ماہیت سے مربوط ہیں ان کے علاوہ بیرونی عوامل و اسباب بھی اسلامی رنگ کو پھیکا کرنے کے لئے موثر اور اہم ہیں ؛ انقلاب کے ابتدائی دنوں میں امریکہ اور دوسرے مشرقی اور مغربی ممالک، نے یہ سوچا تھا کہ یہ انقلاب بھی دوسرے دنیاوی انقلابوں کی طرح اپنے زمانے پر کچھ اثر نہیں ڈال پائے گا اور پھیل نہیں سکے گا؛ لیکن آج بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا دنیا میں کتنے تغّیرات ہوئے ان لوگوں نے یقین کر لیا کہ اسلام ایک بہترین اور ترقی دینے والا ،لوگوں کی زندگیاں بنانے ،دنیا کوچلانے اور معاشرہ کو بلندیوں کی طرف لے جانے کے لئے طاقت و قوت رکھتا ہے ؛آج ان لوگوں نے اس خطرہ کو پوری طرح سے محسوس کر لیا ہے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اسی وجہ سے عظیم سرمایہ اور وسیع پروگرام کے ساتھ اس تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح سے آمادہ ہو گئے ہیں اور اس کے مٹانے کے در پے ہو گئے ہیں ۔آج دشمن کے تجزیہ کاروں نے ہمارے انقلاب کی قوتوں،کمزوریوں اور ان کے شگاف کو پہچان لیا ہے جن کے ذر یعہ وہ اس محکم قلعہ میں نفوذ کر سکتا ہے اور ایسے پلان اور کارناموں کے ساتھ جن کو ہم تصّور بھی نہیں کر سکتے انقلاب کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ البتہ بعض باتوں اور ان سے متعلق پلانوں کا ظاہر ہونا مشکل بھی نہیں ہے ایک معمولی تجزیے اور تجربے سے مشخّص کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی حرکتوں اور افعال کے اصلی عنصر اور قلب کو دو چیزوں سے یعنی اسکی شناخت و معرفت اور اس کے یقین و اعتقاد سے معلوم کیا جا سکتا ہے لہٰذا جب بھی کسی انسان کے بارے میں ارادہ ہو کہ اس کی حرکت اور رفتار کو بدلیں تو فقط اس کی شناخت اوراس کے اعتقاد کا جائزہ لیں ؛اسی وجہ سے اسلام اور اس ملّت کے دشمنوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے اعتقادات دینی کو کمزور کریں اور دوسری طرف اس بات میں لگے ہوئے ہیں کہ مادّی اور مغربی چیزوں کی اہمیت کو دینی اہمیت کی جگہ پیش کریں اور لوگوں کے اعتقاد کو بدل دیں ؛یہ حکمت عملی یعنی لوگوں کے اعتقاد و معرفت کو بدلنے کی کوشش خاص طور سے نوجوان نسلوں میں بہت ہی موثر ہے کیونکہ یہ نسل اعتقادی اور فکری اصول میں اتنی محکم اور مضبوط نہیں ہوئی ہے، زیادہ تر سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر استوار ہے اور سرسری طور سے صرف چند مسائل کو جانتی ہے اور ان پر اعتقاد رکھتی ہے ان کے پاس محکم تحقیقی اور استدلالی چیزیں نہیں ہیں،اعتقادات کے اعتبار سے بھی جوانی کی عمر خاص خواہشیں رکھتی ہیں یہ انسانی زندگی کا بہت ہی بحرانی مرحلہ ہوتا ہے جب مختلف طرح کا انسانی جسم میں خواہشوں کا طوفان ہوتا ہے،فطری طور سے نوجوان اپنی زندگی کی ظاہری اور مادی چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے ۔
ا لبتہ مغربی حکومتیں یہ حکمت عملی صرف مسلمان ملت وقوم اور تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے استعمال نہیں کرتی بلکہ یہحکمت عملی اپنے ملک کے ا فراد کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں وہ مغرب کے اکثر جوانوں کو سیکس، جنسی مسائل ، الکحل، شراب اوربیگ جوتے چپّل،لباس ،چہرہ اوربال وغیرہ کے ماڈلوںمیں لگا دیتے ہیں اور ان چیزوں کو نئے نئے انداز سے پیش کرتے ہیں نیز کھیل کود سنیما ،اسباب آرائش اور اسی طرح کے دوسرے لوازمات میں مشغول رکھتے ہیں، ان لوگوں میں فقط کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ اچھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ لوگ ان کی تشخیص کرتے ہیں اور ان کو علمی و تحقیقی شعبوں میں لگا دیتے ہیں اور ان پر سرمایہ خرچ کرتے ہیں ان کے خیالات اور تفکّرات سے نئی چیزوں کی ایجادات میں (جو کہ مختلف میدانوں میں ترقی کا ذریعہ ہیں) استفادہ کرتے ہیں ۔
لہٰذا جس ملک کا اساسی قانون اسلام کے فرامین پر استوار ہو اور اس میں اصل محور ولایت فقیہ ہو اور وہاں پر اسلامی اقدار حاکم ہو اور اس ملک کا سربراہ فقیہ، اسلام کو پہچاننے اور اس کے احکام کو جاننے والا،تقویٰ کے عظیم مرتبہ پر فائز اور الٰہی اقداراور انسانی کا حامل ہو، وہاں پر کیا کرنا چاہئے کہ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوں ؛اس کا واضح سا جواب ہے کہ مختلف ثقافتی طریقوں جیسے کلاس، مدرسہ،یو نیورسٹی ، اخبارات ومطبوعات ، فلم ، سنیما، ریڈیو،کتاب ،کھیل کود اور ان جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ وارد ہونا چاہئے اور یہ روش اور طریقے انسان کی شناخت اوراس کے اعتقاد کو پوری طرح سے بدل دیتے ہیں اور حقیقت میں اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ شاید آپ کے ذہن میں وہ ریڈیوئی گفتگوہوگی کہ جس وقت کسی نامہ نگار نے ایک عورت سے سوال کیا کہ تمھارا آئیڈیل کون ہے تو اس نے جواب دیا کہ ''اوشین''مرحوم امام خمینینے فوراًریڈیو اسٹیشن کوٹیلی فون کیا اور اس ریکارڈینگ کے نشر ہونے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ عورت مرتد ہونے والی ہے آپ خود ہی غور کریں اور دیکھیں کہ علی اور فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہماکے ملک میں خود امام خمینیکی زندگی میں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شیعہ عورت کا آئیڈیل اور نمونہ زینب و زہرا علیہما السلام نہیں بلکہ اوشین ہو سب سے اہم وہی پہلا قدم ہے اگرمعرفت اور اعتقاد کی دیوار ٹوٹ گئی تو دشمن کے لئے پھر پورا راستہ آسان ہو جائیگا ۔
قانون اور اجراء قانون کے شعبے میں دشمن کی دخل اندازی
دشمن کا دوسرا سب سے اہم پلان لوگوں کے اعتقادات اور یقین کو کمزور کرنے کے لئے یہ ہے کہ ملک کی سیا ست کے شعبہ میں دخل اندازی کی جائے ایسے لوگوں کو حکومت اور عہدوں پر لایا جائے جن کے اعتقاد اور فکری اصول اور خیالات کچھ حد تک امام سے دور ہوں اور ان کے تفکرّات مغربی فرہنگ وتہذیب سے متاثرہوں ؛ اس لئے کہ دیوار کو توڑیں کچھ اخبارات میں با واسطہ یا بلا واسطہ اپنااثرو رسوخ جماتے ہیں اور پھر اسلام پر حملہ شروع کرتے ہیں اور اسلامی قوانین کو زیر سوال لاتے ہیں اور مقدّسات کی توہین کرتے ہیں جو لوگ اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اسلامی اقدار کے پیرو اور طرف دار ہیں ان کی شخصیتوں کو مخدوش اور مجروح کرتے ہیں اور اسلامی و دینی اقدار پر تاکید کے بجائے نیشنلزم اور قومی اقدار کو پیش کرتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اس کے علاوہ اور دسیوں باتیں ہیں جن کا ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں ،دشمن دھیرے دھیرے تمام شعبوں میں آگے اپنا قدم بڑھا رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ یکبارگی شروع ہی میں وہ اپنامدّعا اور ہدف بیان کر دے گااوراپنے مطالب کو پہلی ہی مرحلے میں پایہ تکمیل تک پہونچا دے گا ۔
لیکن اگر اخبار والے چاہیں کہ ان تمام باتوں کو لکھیں تو ان کے سامنے قانونی مشکل ہے لہٰذا وہ قانونی مشکل کو حل کرنے کے لئے اور مطبوعات کی آزادی کے لئے قانون بدلنا چاہتے ہیں قانون بدلنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ان کے بقول اعتدال پسند حکومت وجود میں آئے، ابتدا ہی میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں بے اسلامی کا نعرہ لگائیں؛ بلکہ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو لچکدار رویےّ کے حامل ہوں اور بہت ہی زیادہ سخت و متعصّب نہ ہوں اور بعض اسلامی مسائل میں سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کریں اعتدال پسندوں کو بر سر اقتدار لانے کے لئے وہ یہ کام کرتے ہیں کہ پچھلے جو متدّین عہدہ دار افرادگذرے ہیں؛ ان کی معمولی غلطیوں کو ( جو کہ ابتدائے انقلاب یا اور دوسرے مشکلات کے سبب ہو گئی تھیں) بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان س سوء استفادہ کر کے ان ذمہ داروں اور عہدہ داوں کی عوامی مقبولیت کو کمزور کر دیتے ہیں تاکہ وہ طاقتیں جو کسی حد تک اسلامی اقدار سے دور ہیں اور کم و بیش مصالحت پر آمادہ ہیں اوران کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہو جائے ۔ اس درمیان ہم کو یونیورسٹی اور وہاں رہنے والوں سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ لوگ ہر حال میں سماج کے موثر اور آئندہ کے ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والے ذمہ دار افراد ہیں ان کے لئے ہم کو الگ سے سوچنا ہو گا اور علیحدہ نظام و پلان بنانا ہوگا، خلاصہ یہ کہ یہ مفصّل اورمنظّم طور پر بنائے ہوئے ایک فلمی ڈرامے کے مانند ہے کہ دشمن جس کے پردوں کو یکے بعد دیگرے اٹھا رہا ہے اس ڈرامے میں آپ اجنبی یا ان افرادکو جو کہ اسلام اور انقلاب کے دشمن ہیں یا ظاہری طور پر انقلاب یا اسلام کے مخالف ہیں بہت ہی کم دیکھئے گا اکثر آپ ڈرامہ میں ان لوگوں کو کھیلتے ہوئے دیکھئے گا جو اسلام کا اعتقاد رکھتے ہوں چاہے وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو، ضروری نہیں ہے کہ امریکہ کا ایک آدمی یا سی آئی اے تنظیم کا ایک جاسوس آئے اور وہ یہ کام انجام دے بلکہ آپ خود دیکھتے ہیں کہ ایک وزیر یا نائب وزیر جو نمازی اور روزہ دار بھی ہے کربلا اور سوریہ کی زیارت بھی کی ہے حج پربھی گیا ہے اکثر خمس و زکوٰة بھی ادا کرتا ہے اور یہاں تک کہ کبھی وہ حافظ قرآن بھی ہوتا ہے لیکن اس کی فکر اور چال ایک سو اسیّ درجہ امام خمینیسے مختلف ہوتی ہے ،یہاں تک کی آپ بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کا نظریہ آج پہلے سے بہت حد تک بدلا ہوا دکھائی دیگا ،مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جو امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے میں شریک تھا اور اس کام میں اس شخص نے اہم رول ادا کیا تھا لیکن آج وہی شخص اس کام کی مذمت کر رہا ہے اور مغربی مملک میں جاکر ایک ٹی وی کے پروگرام میں اسی جاسوس سے ہاتھ ملاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھتا ہے اور سب کے سب ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔ وہی شخص جو دو تین سال پہلے اس بات پر معترض تھا کہ ایک پارلیمنٹ کا ممبرانگلینڈ کے سفرمیں نا مناسب باتیں کیوں کرتا ہے اور اس پر امریکی ہونے کا الزام لگارہا تھا آج وہی شخص امریکہ سے رابطہ اور گفتگو کے لئے مشورے دے رہا ہے، کل تک امریکہ مردہ باد کا نعرہ خود لگاتا تھا آج اس کے متعلّق کہتا ہے کہ چند سر پھرے لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں ۔ آج میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوںجو جنگ کے زمانے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ جنگ کے حق میں تھے آج اسی جنگ پر اعتراض کرتے ہیں البتہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں لوگوں میں بہت سے لوگ جو انقلاب کے ابتدائی دنوں میں سخت نعرے لگاتے تھے اس پر ان کا دلی اعتقاد نہیں تھا زیادہ تر جذبات اور ماحول کے زیر اثران نعرو کو وہ دہراتے تھے اس طرح کے لو گ خود اپنے بقول دلیلوں کے تابع ہو گئے ہیں اور اپنے تصور میں جذبات کی وادی سے نکل کر عقل کے مرحلہ میں داخل ہوگئے ہوں اور کہتے ہیں کہ ہماری پہلے کی حرکتیں اور باتیں غلط تھیں ۔میں مناسبت کی وجہ سے اسی جگہ اشارہ کررہا ہوں کہ اس حساب سے جو لوگ ماضی میں انقلابی کردار ادا کئے ہوں اور انقلاب کے سلسلے میں امام خمینیکے معین و مدد گار ہوں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان کے عقاید اور نظریات کو پوری طرح سے قبول کر لیں ؛کیونکہ ہم امام خمینیکے بہت سے ساتھیوں اور دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ امام خمینیکے افکار اور بنیادی اصول میں شک رکھتے ہیں اور امام خمینیکے افکار کو صحیح نہیں جانتے ہیں، البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہین کہ ان کا اختلاف ہم سیزیادہ تر سلیقہ اور روش کی حد تک ہے اور یہ معمولی اختلاف اس چیز کا سبب نہ بننے پائے کہ ہم ان کو پوری طرح سے امام خمینیکے دوستوں سے جدا کر دیں اور ان کو دوسروں کا کارندہ و حامی تصور کریں اور ان سے سیاسی کشمکش اور اختلاف کو اختیار کریں ۔
بہر حال اس جلسے اور پچھلے جلسے کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب کے شروع میں شناخت و تفکّر کے اسباب بہت کم رکھتے تھیاور خاص سبب جو اس بات کا باعث ہوا کہ لوگ امام خمینیکے پیچھے حرکت کریں اور انقلاب لاکر اسکو محفوظ رکھیںوہ ان کے دینی احساسات اور جذبات تھے البتہ یہ صرف امام خمینی کا ہنر تھا کہ آپ نیان احساسات اور جذبات کو انقلاب کی سمت میں لا کر رہبری فر مائی اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیالیکن انقلاب کی تحریک کو باقی رکھنے اور اس کو جاری رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ فکری اور ثقافتی کام کرنا لازم ہے
آج یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم اس تصوّر میں رہیں کہ جب چاہیں لوگوں کے دینی احساسات پر بھروسہ کرتے ہوئے ماتم اور حسین حسین کے ذریعہ اس انقلاب کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں وہ صرف امام خمینیکی ذات تھی جو کہ روحانی، عرفانی اور الٰہی شخصیت کی مالک تھی ؛اپنی اس عظیم شخصیت کے ذریعہ وہ دلوں پرحکومت کرتے تھے اور لوگوں کے احساسات اور جذبات کو اپنے تابع کر لیتے تھے ایسی بات اگر ہم کرنا چاہیں تو ممکن نہیں ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اسلام کو اچھّی طرح پہچانیں اور دوسروں کو پہچنوائیں
آج بہت سے لوگ ایسے بھی ہیںجو اپنی فکر و عمل میں غلطی اور انحراف رکھتے ہیں حقیقت میں یہ جان بوجھ کر اپنے کام میں غلطی نہیں کرتے ہیں یہ کمزوری صرف شناخت نہ ہونے کا نتیجہ ہے یہ ایسے لوگ ہیں کہ اپنی تعلیم کے دوران اگر بہت زیادہ مسلمان تھے تو بس اتنا کہ نمازی اور روزہ دار تھے ان چیزوں کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اسلام کے اصول ومبانی کی شناخت اور تحقیق کریں ؛اس کے بعد جب ملک کے کسی اہم عہدہ پر متمکن ہوئے تو اتنی فرصت کہاں ملتی ہے ؛اپنے ہی کام کے لئے وقت نہیں ملتا تو بھلا پھر کیسے وہ اسلام کے اصول و مبانی کے متعلق تحقیق کریں گے؟ آج ہی ہم کو یہ کام کرنا چاہئے اور اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ یہ لوگ اسلام کو بہتر طریقے سے پہچانیں یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تعلیمات صرف مدرسے کے بچوّں اوریونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم وزیر یا اس کے نائب سے کہیں آؤ کلاس میں بیٹھ کریہاں پڑھو
ہاں یہ ممکن ہے کسی ذریعہ اور بالواسطہ طور سے ان کے کانوں تک یہ بات پہونچا دی جائے اور کسی نہ کسی طرح سے وہ لوگ ان باتوں سے واقف ہو جائیں؛ جو لوگ آج کل ملک کی سیاست میں اہم عہدہ رکھتے ہیں ان کے علاوہ ہم کو ان لوگوں کے بارے میں بھی فکر ہونی چاہئے جو آگے چل کر اس عہدے پر فائز ہونے والے ہیں اور وہ در اصل یہی طالب علم ہیں جو آج کل مدرسوں یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں؛ مستقبل کے ذمہ داروں اور عہدے داروں کے متعلق ہم کو ابھی سے فکر کرنی ہوگی اور ہم کو اس کی پلاننگ کرنی ہوگی ،یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان باتوں سے متعلق ایک مثال کو بیان کروں:
ایک بڑے اسلامی ملک جسکی آبادی ہمارے ملک سے زیادہ ہے وہاں کے صدر جمہوریہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس طرح امریکہ پر کیوں منحصر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہمارے ملک کے دو ہزار بڑے اور تعلیم یافتہ افراد کو مختلف حصّوں سے ذخیرہ کر لیا ہے او رانھیں میں سے ہر مرتبہ چالیس افراد ملک کے بڑے عہدوں پر بنے رہتے ہیں یہ ذخیرہ اندازی برابر جاری رہتی ہے آپ اس ملک سے جہاں کے دو ہزار لوگ سیاست کے بلند مقام پر ملک میں فائز ہوں اور ان لوگوں کی تعلیم اور تربیت امریکہ میں ہوئی ہو، کیا توقّع رکھتے ہیں؟
امریکہ نے اس سیاست کو پچاس سال پہلے اپنایاتھا اور آج ا س کا فائدہ حاصل کر رہا ہے؛ اگر ہم آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آگے پچاس سال تک اسلامی حکومت قائم رہے تو اس کے لئے آج ہی سے پلاننگ کرنی ہوگی اور آیندہ ہونے والے ذمہ دار افراد کے بارے میں فکری اورثقافتی کام کو انجام دینا ہوگا یہ نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں اور جب کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے نئے سرے سے غوروفکر کریں یہ عقلی اور منطقی کام نہیں ہے بلکہ اس کی فکر ہم کو پہلے سے کرنی ہوگی۔
اساتید کرام! میں نے اس گفتگو میں جو وقت لیا ہے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ انھیں طالب علموں سے جو آپ کے ماتحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں آگے چل کر ملک کے ذمہ دار صدر جمہوریہ سے لیکر وزیر اور نائب وزیر ،پار لیمنٹ کے ممبر اور تعلیم و تربیت کے مدیر ہونگے ؛ لہذٰا آپ لوگوں کو خود اسلام کے اصول اورعقیدے کے بارے میں گہری نظر اور شناخت رکھنی چاہئے تا کہ آپ طالب علموں کو منتقل کر سکتے ہوں ۔لیکن اگر کسی طالب علم نے آپ سے کوئی سوال کیا اور آپ اس کو مطمئن نہیں کر سکے تو وہ یہی کہے گا کہ جب یونیورسٹی کے بزرگ استاد سے جواب نہیں ہو سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اس کے بعد اگر ہم جیسے عالم دین سے پوچھا اور جواب اس نے بھی نہیں دیا تو اس کے لئے یقینی ہو جائے گا کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے لہٰذایہ لوگ جو خدا، رسول، اسلاماور مسلمانوں کے متعلّق گفتگو کرتے ہیں اس کی کوئی اساس ا و ربنیاد نہیں ہے ۔
آخری نتیجہ یہ ہے کہ میں عالم دین ہونے کی وجہ سے اور آپ لوگ یونیورسٹی کے استاد ہونے کی حیثیت سے اہم ذمہ داری رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم لوگ کلچر کی اصلاح نیز اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں دوسروں کے بہ نسبت ہم لوگوں کی ذمہ داری زیادہ سنگین اور عظیم ہے لہٰذاہم کو چاہئے کہ اپنے علم کو وسیع اور مضبوط کر کے اور اسلام کے اصول و مبانی کو پہچان کر اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں ۔
source : http://www.taghrib.ir