اس خطبہ میں آنے والی عبارتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق موجودہ صورت میں بلاواسطہ ہوئی نہ یہ کہ پست ترین حیوانوں نے پہلے کمال کے مراحل طے کئے اور ان سے حضرت آدم (علیه السلام) وجود میں آئے ہوں اور یہ وہی نظریہ ہے جس کا تخلیق انسان کے بارے میں قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے ۔
البتہ ہم جانتے ہیں ”قرآن مجید“ اور اسی طرح ”نہج البلاغہ“ مادی علوم یا سائنس کی کتابیں نہیں ہیں بلکہ انسان ساز کتابیں ہیں جن میں عقیدہ یا تربیت کے موضوع پر گفتگو کی مناسبت سے مادی علوم کے مسائل کی جانب بھی اشارہ ہوا ہے ۔
لیکن جو نظریہ آج کے دور میں علمی محفلوں پر حاکم ہے زیادہ تر ”انواع کے تکامل (ڈاروین) کا نظریہ ہے، اس نظریے کے طرفدار معتقد ہیں کہ دنیا میں جتنی زندہ موجودات ہیں وہ شروع میں موجودہ شکل میں نہیں تھیں بلکہ سمندروں کے پانی اور دریا کی گہرائیوں میں پائی جانے والی کیچڑ میں دفعةً ایک عنصری موجودات کی شکل میں پیدا ہوئیں اور تدیجاً ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک قسم سے دوسری قسم کی صورت اختیار کرتی رہیں اور پھر سمندروں سے صحرا اور ہوا میں منتقل ہوگئیں ۔
یہ لوگ انسان کو بھی اس نظریہ سے الگ نہیں سمجھتے اور معتقد ہیں کہ آج کاانسان ”انسان نماں بندروں“ کی مترقی شکل ہے اور وہ بندر بھی اپنے سے پست ترین موجودات سے وجود میں آئے ہیں ۔
اس مفروضہ کے طرفدار بھی چند گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں جیسے ”لامارک“ اور ”ڈاروین“ کے پیروکار نیز اس نظریہ کے جدید ماننے والے، اسی طرح ”دفعی“ نظریہ کے طرفدار وغیرہ، اِن میں سے ہر گروہ نے اپنے نظریہ کی تائید میں کچھ دلائل پیش کئے ہیں ۔
ان گروہوںکے مقابلہ میں ایک اور گروہ ہے جو موجودات کے ثابت ہونے کا قائل ہے، اس نظریہ کے طرفدار کہتے ہیں کہ تمام جاندار موجودات شروع میں ہی الگ الگ اور موجودہ شکل میں پیدا ہوئے ہیں، یہ لوگ تدریجی اور تکاملی نظریہ کے خلاف کچھ دلائل پیش کرتے ہیں، جن کے بارے میں بحث کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے ۔
یہاں پر جن باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ چند موضوعات پر مشتمل ہیں جنھیں خلاصہ کے طور پر ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:
۱۔ ”قرآن مجید“ اور اسی طرح ”نہج البلاغہ“ کے خطبوں سے موجودات کے، ثابت اور موجودہ شکل میں پیدا ہونے کا مسئلہ کم از کم انسان کے بارے میں استفادہ ہوتا ہے، لیکن تمام موجودات کے بارے میں کوئی خاص صراحت نظر نہیں آتی ۔
اگرچہ تکامل کا مفروضہ جوعام طور پر انسان کو بھی شامل ہے، اس کے بعض طرفداروں کا اصرار ہے کہ قرآنی آیات اور نہج البلاغہ کی عبارتوں کی اس طرح توجیہ کی جاسکتی ہے کہ تکامل کے نظریہ سے سازگار ہوجائیں یہاں تک کہ وہ لوگ آیات قرآن اور نہج البلاغہ کے خطبوں کو اپنے دعوے کی دلیل شمار کرتے ہیں ۔
لیکن ہر بے طرف ناظر جانتا ہے کہ یہ دعویٰ بیجا تکلفات کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
۲۔ موجودات کے تکامل یا ثبوت کا مسئلہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے تجربہ، عقل اور محسوس دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جاسکے کیونکہ اس کی جڑیں لاکھوں سال پہلے چُھپی ہوئی ہیں،لہٰذا اس بناپر جو کچھ بھی طرفدار یا اس نظریہ کے مخالف کہتے ہیں سب مفروضے کی شکل میں ہیں اور اُن کے دلائل بھی گمان پر مبنی دلیلوں پر قائم ہیں لہٰذا یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کے نظریات سے آیات قرآنی اور نہج البلاغہ کے خطبوں کا انکار ہوجائے گا ۔
دوسرے لفظوں میں: اس قسم کے مفروضوں میں مادّی علوم، مذہبی عقیدوں کو کسی طرح کا نقصان پہنچائے بغیر، اپنا راستہ طے کرتے ہیں چونکہ علمی مفروضے ہمیشہ تغیر وتحول کے دہانے پر دستک دیتے رہتے ہیں اور عجب نہیں کہ کل کے زمانے میں نئے قرائن وشواہد کشف ہوجائیں، مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے نشریوں میں یہ خبر نظر آئی کہ ۲۰ لاکھ سال پہلے کے انسانوں کی کچھ کھوپڑیاں ملی ہیں جن میں آج کے انسانوں سے کوئی خاص فرق نہیں ہے، اس خبر نے تکامل کے فرضیے کو ہلاکر رکھ دیا، چونکہ اس کے طرفدار معتقد ہیں کہ چند ہزار سال پہلے کے انسان، آج کے انسان کی صورت میں ہر گز نہیں تھے ۔
اس بات سے بخوبی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ مفروضے کس قدر پائدار ہیں اور ممکن ہے جدید انکشافات کی روشنی میں متزلزل ہوجائیں لیکن مادی علوم میں چونکہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے لہٰذا اُن کے اوپر اس وقت تک ایک اصل اور قاعدہ کے عنوان سے اعتماد کیا جاتا ہے جب تک کہ کوئی جدید مفروضہ سامنے نہیں آجاتا ۔
خلاصہ یہ کہ سائنس کے یقینی مسائل سے اُس کے مفروضوں کا حساب بالکل جدا ہے؛ سائنس کے یقینی مسائل جیسے آکسیجن (O2)اور ہائیڈروجن (H2)سے پانی کی ترکیب، حسّی اور تجربہ شدہ امور ہیں جو یقینی دلائل سے اثبات کے قابل ہیں، لیکن مفروضے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں جن کی تائید گمان پر مبنی قرائن سے ہوتی ہے اور جب تک ان کے مخالف قرائن حاصل نہیں ہوتے اس وقت تک وہ مفروضے سائنس میں مانے جاتے ہیں بغیر اس کے کہ کوئی اُن کے یقینی ہونے کا دعویٰ کرے ۔(۱)
۱۔ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے ”داروینیسم وآخرین فرضیہ ہای تکامل“ نامی کتاب کی طرف رجوع کریں، اس کے خلاصہ کو تفسیر نمونہ: ج۱۱، سورہٴ حجرات کی چھبیس اور چوالیسویں آیات کے ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
۲۔ جسم اور روح کی ترکیب
خطبہ کے اس حصّہ میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ قرآنی آیات سے سازگار ہے اور اس سے بخوی استفادہ ہوتا ہے کہ انسان دو اصل سے پیدا کیا گیا ہے: ایک مادی عنصر جو آب وگِل (دنیا کا سادہ ترین مادّہ) ہے اور دوسرا عنصر ایک بڑی باعظمت روحِ الٰہی، انسان کے اندرونی تضاد کا راز بھی یہی ہے کہ بعض خواہشات اس کو مادی دنیا کی طرف اور بعض محرکات واسباب عالَم ملائکہ کی طرف کھینچتے ہیں، ایک طرف حیوانی عادت واطوار اور دوسری طرف ملکوتی اور روحانی فطرت وجبلّت۔
اسی وجہ سے اس کے کمال کی ترقی اور تنزل کی شرح بہت عظیم ہے اس میں ترقی کرنے اور ”اعلیٰ علّیین“ تک پہنچنے کی صلاحیت اور لیاقت ہے جبکہ تنزل اور انحطاط کی صورت میں ”اسفل السافلین“ میں بھی گرسکتا ہے اور یہ خصوصیت انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتی، یہی صفت ایک پاک وپاکیزہ انسان کو بے حساب قدر وقیمت عطا کرتی ہے چونکہ اس نے ہر طرح کے انحطاط، پستی، دنیا کی طرف رغبت اور دنیا پرستی کے تمام اسباب کے مقابلہ میں خودکو محفوظ رکھا ہے اور مادی دنیا کی سات بادشاہتوں سے دامن بچاکر گزرا ہے ۔
عالَم ارواح سے سربلند اٹھے اور وہ بن گئے جو وہم وخیال میں بھی نہیں آسکتا ۔
جان گشودہ سوی بالا بالہا تن زدہ اندر زمین چنگالہا!
میل جان اندر ترقی وشرف میل تن در کسب اسباب وعلف!
روح نے عالم بالا کی جانب اپنے پر کھولے،جسم نے زمین میں پنجے گاڑ دیئے!،روح، ترقی اور شرف کی جانب راغب ہوتی ہے ،جبکہ جسم ،اسباب زندگی اور خورد و نوش کی فکر میں رہتا ہے!
یہی صفت ہے جسے تخلیق آدم سے پہلے فرشتے بھی درک کرنے سے عاجز تھے شاید وہ ان کی پیدائش کو مکرر خلقت سمجھتے تھے اور اپنی تسبیح وتقدیس کی وجہ سے اس تخلیق کو تحصیل حاصل گمان کرتے تھے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خداوندعالم نے جناب آدم(علیه السلام) کی عظیم روح کی اپنی جانب نسبت دی ہے اور فرمایا ہے: ”وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی؛میں نے اس میں اپنی روح پھونک دی“۔ (۱)
سامنے کی بات ہے کہ خداوندعالم کے نہ جسم ہے اور نہ روح وہ جب بھی اپنی طرف کسی چیز کی نسبت دیتا ہے مثلاً کہتا ہے: ”بیت الله“ (جانہ کعبہ) اور ”شہرالله“ (الله کا مہینہ) تو یہ بات اس چیز کے انتہائی شرف اور عظمت کی دلیل ہے نیز یہ کہ انسان کی روح میں الٰہی صفات جیسے علم، قدرت اور خلاقیت پائے جاتے ہیں، اصل میں خداوندعالم نے آدم(علیه السلام) ہی سب سے شریف اور سب سے برتر روح کو پھونکا، اسی وجہ سے خود کو احسن الخالقین کا نام دیا اور فرمایا: (۲)
۱۔ سورہٴ حجر: آیت۲۹․
۲۔ سورہٴ مومنون: آیت۱۴․
کس قدر دردناک ہے کہ انسانے، کمالات کی ایسی صلاحیت، توانائی اور قدرت رکھنے کے باوجود اس مقام سے ،جس کی اس سے توقع ہے اور جس کے سایہ میں تمام مخلوقات پر برتری رکھتا ہے، نیز ”لَقَدْ کَرَّمْنَا․․․․“ کے باشکوہ تاج کا حقدار ہے، اتنا گرجائے کہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق جانوروں سے بھی بدتر ہوجائے: (۱)
۳۔ انسان،عالَم امکان کا عجوبہ
”انسان“ حقیقت میں عالم ہستی کی حیرت انگیز ترین مخلوق ہے، امام علیہ السلام کے خطبہ کے اس حصّہ میں اس کے وجود کے بعض اسرار ورموز کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسے: اس کے اندر طرح طرح کے اعضاء وجوارح، مختلف توانائیاں، قسم قسم کی طاقتیں، متضاد عناصر سے ترکیب اور طرح طرح کے اسباب سے اس کا تشکیل پانا جو ایک بہت ہی پیچیدہ معجون کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جس میں متضاد چیزیں جمع ہوگئیں ہیں اور حقیقت میں یہ، عالم کون ومکان کا ایک چھوٹا سا نمونہ بن گیا ہے ۔ یہ چھوٹا عالم ہے بڑے عالم کا ہم پلّہ۔
”اٴَتَزْعَمُ اٴَنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْر وَفِیْکَ انْطَوَی الْعَالَم الْاَکْبَرُ“(۲)
ایک طرف انسان کی یہ صفت ہمیں اس کی خلقت کی اہمیت سے آشنا کراتی ہے اور دوسری طرف اس کے خالق کی عظمت کا پتہ دیتی ہے! جی ہاں:
لائق حمد وثنا ہے وہ خالق جو آب وگِل سے ایسے دلنشین نقش ونگار بنائے ۔
ان صفات کو بیان کرنے سے امام علیہ السلام کا مقصد: خالق اور مخلوق دونوں کی عظمتوں کو بیان کرنا تھا ۔
۱۔ سورہٴ اعراف: آیت۱۷۹․
۲۔ کیا تو خود کو ایک چھوٹا سا ذرّہ سمجھتا ہے حالانکہ تیرے اندر عالم اکبر کا خلاصہ ہے ۔
source : http://www.taghrib.ir/