کیا شیعوں کی کتابوں میں ذکر کی گئی یہ حدیث موثق ہے کہ " امام حسن ﴿ع﴾اور امام حسین ﴿ع﴾ نے مروان بن حکم کے پیچھے نماز پڑھی ہے"؟
ایک مختصر
امام حسن ﴿ع﴾ اور امام حسین﴿ع﴾ کے مروان بن حکم کے پیچھے نماز پڑھنے کی روایت، شیعوں کی بعض احادیث کی کتابوں میں دو متنوں کی صورت میں نقل کی گئی ہیں کہ ان میں سے ایک روایت حضرت امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ہے اور دوسری روایت حضرت امام موسی بن جعفر ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ہے۔ یہ روایتیں تقیہ پر مبنی ہیں، اور حقیقت میں تقیہ ایک قسم کی حکمت عملی ہے جس سے انسانی افراد کو بچانے اور مؤمن افراد کو ضائع ھونے نہ دینے کے لئے چھوٹے اور کم اہمیت شمار ھونے والے موضوعات کے سلسلہ میں استفادہ کیا جاتا ہے۔
تفصیلی جوابات
امام حسن ﴿ع﴾ اور امام حسین﴿ع﴾ کے مروان بن حکم کے پیچھے نماز پڑھنے کی روایت، شیعوں کی بعض احادیث کی کتابوں میں دو متنوں کی صورت میں نقل کی گئی ہیں کہ ان میں سے ایک روایت حضرت امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ہے۔ اور دوسری روایت حضرت امام موسی بن جعفر ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ہے
پہلی روایت نوادر راوندی نے نقل کی ہے کہ اس روایت کا ترجمہ یوں ہے:" امام صادق ﴿ع﴾ نے فرمایا: امام حسن﴿ع﴾ اور امام حسین﴿ع﴾ نے کئی بار نماز جماعت میں " مروان حکم" کی اقتداء کی ہے، ان میں سے ایک سے کہا گیا : جب آپ کے والد گھر پہنچتے ہیں، تو کیا وہ نماز کو دوبارہ نہیں پڑھتے؟ ﴿ کیونکہ انھوں نے ان افراد کے پیچھے نماز پڑھی تھی﴾ ۔ جواب میں فرمایا: خدا کی قسم نہیں، کیونکہ وہ نماز میں کسی آیت کا اضافہ نپیں کرتے تھے۔[1]
لیکن دوسری روایت کو علی بن جعفر﴿ع﴾ نے ایک طولانی روایت میں امام موسی بن جعفر ﴿ع﴾ سے نقل کیا ہے۔[2] شیخ حرعاملی ﴿رہ﴾ نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں روایت کے زیر بحث حصہ کو یوں نقل کیا ہے:" امام موسی بن جعفر﴿ع﴾ نے فرمایا: امام حسن ﴿ع﴾ اور امام حسین﴿ع﴾ مروان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور ہم بھی ان ﴿ وقت کے ظالموں﴾ کا اقتداء کرتے ہیں۔"[3]
پہلی روایت کو مرحوم راوندی نے کتاب الجعفریات ﴿ الاشعثیات﴾ سے نقل کیا ہے: محمد بن محمد بن اشعث کوفی نے روایت نقل کی ہے کہ وہ مسافرت پر مصر گیا تھا، موسی بن اسماعیل بن موسی بن جعفر﴿ع﴾ کے درس میں شرکت کی، اور اس نے وہیں پر فیصلہ کیا کہ "کتاب الجعفریات" کی تالیف کرے، جس میں اکثر روایتیں موسی بن اسماعیل بن موسی بن جعفر ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ہیں، اتفاق سے مذکورہ روایت کو بھی انھوں نے اسی اسناد سے امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ علامہ حلی، نجاشی اور دوسرے علمائے شیعہ جیسی شخصیتیں، شیعہ علماء میں محمد بن محمد بن اشعث کوفی کی وتاقت کی دلیل پیش کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری روایت کی سند کے بارے میں انجام پائی تحقیق کے پیش نظر، قابل بیان ہے کہ مذکورہ روایت صحیح ہے، یعنی اس حدیث کے تمام راوی شیعہ اثنا عشری اور قوی عادل ہیں۔
لیکن یہ کہ ائمہ معصومین ﴿ع﴾ کیسے ایسے افراد کا اقتداء کرتے تھے؟ اس کے جواب میں کہنا چاہئیےکہ: ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کے اس قسم کے اعمال تقیہ پر مبنی ھوتے ہیں، جیسا کہ شیخ حرعاملی مذکورہ روایت کو " باب استحباب شرکت با تقیہ در نماز جماعت پشت سر کسی کہ نباید بہ او اقتداء کرد"[4] ، ﴿ تقیہ کے ساتھ ایسے شخص کی نماز جماعت میں شرکت کرنا، جس کے پیچھے اقتداء نہں کرنا چاہئیے﴾ میں ذکر کیا ہے۔
قابل توجہ بات ہے کہ ہمارے مذہب کے اہم مسائل میں سے ایک انتہائی اہم مسئلہ، "تقیہ" ہے۔ لغت میں تقیہ کے معنی تحفظ ، ذاتی بچاؤ اور اپنے آپ کی حفاظت کرنا ہیں اور فقہی اصطلاع میں تقیہ کے معنی حق کو چھپانا اور حق کے اعتقاد کو چھپانا ، مخالفین سے پردہ پوشی، اور یہ کہ مخالفین کے سامنے وہ کام انجام نہ دینا، جو دین یا دنیا کے لئے نقصان دہ ھو۔ حقیقت میں تقیہ ایک قسم کی حکمت عملی ہے، جس سے انسانی افراد کو بچانے اور مؤمن افراد کو ضائع ھونے نہ دینے کے لئے چھوٹے اور کم اہمیت شمار ھونے والے موضوعات کے سلسلہ میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقیہ کی اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایتیں نقل ھوئی ہے کہ نمونہ کے طور پر ہم ذیل میں ان میں سے چند روایتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
١۔ حضرت امام محمد باقر ﴿ع﴾ فرماتے ہیں:" تقیہ میرے اور میرے آباواجداد کے دین کے پروگراموں میں سے ہے اور جو تقیہ کے فریضہ پر عمل نہ کرے ، وہ ایمان نہیں رکھتا ہے۔"[5]
۲۔ حضرت امام جعفر امام صادق ﴿ع﴾ فرماتے ہیں: " تقیہ سے محبوب تر چیز سے خداوند متعال کی پرستش نہیں کی گئی ہے۔"[6]
۳۔ شیخ صدوق ﴿رہ﴾ نے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق ﴿ع﴾ نے فرمایا: " اگر تقیہ کو ترک کرنے والے کو تارک نماز کے مانند کہا جائے تو، آپ نے سچ کہا ہے۔"[7]
اس موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل موضوعات کا مطالعہ کرسکتے ہیں:
١۔ ﴿ دلائل تقیہ کردن ائمہ ﴿ع﴾ ﴿ ائمہ کےتقیہ کرنے کے دلائل﴾ سوال نمبر: ١۷۷۹
۲۔ " تقیہ کردن امام معصوم﴿ع﴾" ﴿ امام معصوم ﴿ع﴾ کا تقیہ کرنا﴾ سوال نمبر: ۳۰۳۲
۳۔ " حدود تقیہ" ﴿ تقیہ کے حدود﴾ سوال نمبر: ١۲۳۷۷
[1] راوندی کاشانی، فضل الله بن علی، النوادر، ص 30، دار الکتب، قم،طبع اول.
[2] عريضى، على بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتها، ص 144، مؤسسة آل البيت(ع)، قم، طبع اول، 1409ق.
[3] حر عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج 8 ص 301، مؤسسة آل البيت(ع)، قم، طبع اول، 1409ق.
[4] " باب استحباب حُضُورِ الْجَمَاعَةِ خَلْفَ مَنْ لَا یقْتَدَى بِهِ لِلتَّقِیةِ».
[5] [5]. حر عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج 16، ص 204.
[6] ایضا، ج 16 ص 207.
[7] ابن بابویه، من لایحضره الفقیه، محقق، غفاری، علی اکبر، ج 2، ص 127، دفتر انتشارات اسلامی، طبع دوم، قم، 1413ق.
source : www.islamquest.net