روزہ بھی اسلام کے دیگر احکام کی طرح کسی حکمت اور مصلحت کے تحت واجب کیا گیا ہے۔ متعدد روایات کے اندر مختلف تعبیرات میں روزہ کی حکمت اور مصلحت کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: اخلاص اور خود سازی
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
« فرض الله الصیام تثبیتاً للاخلاص » (۱)
خدا وند عالم نے روزہ کو واجب قرار دیا ہے تاکہ اخلاص کو ثابت کرے۔
روزہ دار نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتے ہوئے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور عالم ملکوت سے معنوی رشتہ برقرار کرتا ہے اور حیوانی کاموں کو ترک کر کے اپنے اندر پاگیزگی اور طہارت پیدا کرتا ہے۔ اسی طریقے سے جسمانی اور مادی لذات سے دوری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مادی اور روحانی حرام لذتوں سے بھی دور رہتا ہے اور چونکہ روزہ ایسی عبادت ہے جو بظاہر نہ دیکھنے کی وجہ سے بہت کم ریاکاری اور دکھاوے کا شکار ہوتی ہے لہذا اس عمل میں زیادہ اخلاص پائے جانے کا امکان ہے۔
ب: جسمانی قوتوں کو متعادل کرنا۔
انسانی بدن کی مشینریاں پورا سال کام کرنے سے سست، کمزور اور بیماری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو انہیں صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ اس وجہ سے خدا وند حکیم نے اپنے بندے کی صحت و سلامتی کی حفاظت کے لیے اور اس کے جسمانی قواہ کو متعادل رکھنے کے لیے روزہ کو واجب قرار دیا۔ رسول اسلام [ص] کی یہ حکمت آمیز حدیث اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے:
« صوموا تصحوا» (۲)
روزہ رکھو صحت پاو۔
ج: حصول تقوی کی مشق
روزہ رکھنے کی تیسری حکمت تقوی اور پرہیزگاری کی مشق کرنا ہے مسلمان ماہ مبارک میں خواہشات نفسانی کو پورا نہ کر کے اپنے نفس پر قابو پانے کی مشق کرتے ہیں تاکہ پورا سال اس کی نامناسب خواہشات کے مقابلہ میں مقاومت کر سکیں۔ مثال کے طور پر روزہ دار حلال غذا کا استعمال نہ کر کے یہ مشق کرتا ہے کہ اگر نفس حرام غذا کی طرف ہاتھ بڑھائے تو اسے منع کر سکے۔ اپنی بیوی کے پاس نہ جا کر یہ مشق کرتا ہے کہ دوسروں کی ناموس کی طرف لذت کی نگاہ کرنے سے نفس کو بچا سکے۔ خدا اور اس کے رسول [ص] پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز کر کے بدکلامی، غیبت، تہمت اور دیگر فضولیات سے اپنی زبان کو پاک رکھ سکتا ہے۔
تقوی کی مشق اور اس کے درجات میں اضافہ کے مسئلہ کی طرف قرآن کریم کی "آیت روزہ" میں واضح طور پر اشارہ کیا گیا ہے:
« لعلکم تتقون » (۳)
شاید آپ تقوی اختیار کر لیں۔و
د: فقراء اور اغنیا میں فاصلہ کا کم ہونا
بھوک اور پیاس کا احساس بھی روزہ کی ایک حکمت ہے یعنی مالدار لوگ پورا سال ناز و نعمت میں غرق رہتے ہیں اور جب بھی جس چیز کی خواہش کرتے ہیں ان کے پاس حاضر ہوتی ہے اگر ماہ رمضان نہ ہو تو انہیں کبھی بھی کسی فقیر کی یاد نہ آئے۔ وہ کہاں سے سمجھیں گے کہ بھوک کیا ہوتی ہے پیاس کسے کہتے ہیں؟ وہ جب ایک مہینہ بھوک اور پیاس کا احساس کریں گے تو انہیں فقیروں کی سال بھر کی بھوک اور پیاس کا احساس ہو گا۔ اور کسی حد تک وہ ان کے حال پر رحم کھائیں گے۔ امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: کیوں خدا نے روزہ واجب کیا ہے۔ فرمایا:
« لیجد الغنی مس الجوع فیعود بالفضل علی المسکین » (۴)
تاکہ مالدار بھوک کا احساس کرے اپنی ضرورت سے زیادہ کو مسکین کی طرف لوٹائے۔
ھ: آخرت کی یاد
روزہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے امام رضا علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں اس سوال کے جواب میں کہ کیوں خدا وند عالم نے روزہ کو واجب قرار دیا، فرمایا:
« لکی یعرفوا ألم الجوع و العطش فیستدلوا علی فقر الاخره » (۵)
تاکہ لوگ بھوک اور پیاس کے درد کو پہچانیں اور اس سے آخرت کی بھوک اور پیاس پر رہنمائی حاصل کریں۔
پیغمبر اکرم – صلی الله علیه و آله – نے اپنے ایک خطبہ میں جو ماہ مبارک رمضان کے استقبال میں پیش کیا فرمایا:
« ... واذکروا بجوعکم وعطشکم فیه جوع یوم القیمه و عطشه ...» (۶)
اس مہینہ میں تم اپنی بھوک اور پیاس کے احساس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحه ۳۶۸
(۲) وہی ، صفحه ۲۵۵
(۳) بقره (۲) ، آیه ۱۸۳
(۴) بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحه ۳۷۵
(۵) وہی ، صفحه ۳۹۶
(۶) وہی ، صفحه ۳۵۶
source : http://ahlulbaytportal.ir