بعثت کے دسویں سال شعب سے بنی ہاشم کے نکلنے کے کچھ ہی دن بعد پہلے جناب خدیجہ اوراس کے بعد ابوطالب کی وفات ہوگئی۔
ان دو بڑی شخصیتوں کا اس دنیا سے اٹھ جانا جناب رسول خدا ۖ کے لئے بہت بڑی اور جانگداز مصیبت تھی۔ ان دو گہرے دوست اور وفادار ناصر کے رحلت کر جانے کے بعد آنحضرت ۖ کے لئے مسلسل سخت او رناگوار واقعات پیش آئے۔ اور زندگی آپ پر دشوار ہوگئی۔
جناب خدیجہ کا کارنامہ
ان دو بڑی شخصیتوں کے غیر متوقع فقدان کا اثر، فطری تھا اس لئے کہ اگر چہ جناب خدیجہ سطح شہر میں جناب ابوطالب جیسا دفاعی کردار نہیں ادا کرسکتی تھیں لیکن گھر کے اندر نہ تنہا پیغمبر ۖ کے لئے مہربان جانثار اور دلسوز شریک حیات تھیں بلکہ اسلام کی سچی اور واقعی مددگار تھیں بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں رسول خدا ۖ کی تسکین قلب اور سکون کا باعث تھیں۔
پیغمبر اسلاۖم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جناب خدیجہ کو یاد کیا کرتے تھے۔ اور اسلام کے سلسلے میں ان کی پیش قدمی، زحمات اور رنج و الم کو فراموش نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ایک دن عائشہ سے فرمایا: ''خداوند عالم نے خدیجہ سے بہترمجھے زوجہ نہیں دی جس وقت سب کافر تھے وہ ہم پر ایمان لائیں۔ جب سب نے مجھے جھٹلایاتوانھوں نے میری تصدیق کی اور جب دوسروںنے مجھے محروم کیا تو اس نے اپنی ساری دولت میرے لئے خرچ کردی۔ اور خداوند عالم نے مجھے اس سے فرزند عطا کیاہے۔
source : http://ahlulbaytportal.ir/