اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

مکتب اہل بیت میںاجماع کی شرعی حیثیت

مذہب اسلام میں مکتب خلفاء اور مکتب اہل بیت دونوں کے ہا ں اجماع امت یا علماء کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ اولہ شرعی کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اجماع کی حیثیت مکتب اہل بیت میں کیا ہے اس پر بہت اختصار کے ساتھ کچھ عرائض پیش خدمت ہیں:

اجماع کی لغوی معنی:

اجماع یعنی عزم، اجمع ملذن علی کذا (اذا عزم علیہ)کسی چیز پر نیت اور قصہ کر ے اسی سے ہے تولہ تعالی:'' فاجمو امرکم''یونس آیت ٧١ ''محمد جواد مغنیہ''

مرحوم مظفر فرماتے ہیں :اجماع یعنی : کسی چیز پر اتفاق کرنا ،اونٹنی کی پستان کو باندھنا ،تیار کرنا ،ھلکاکرنا،آپس میں محبت ڈالنا،کسی کام کا قصد کرنا،کسی شرط وقید کے بغیر اتفاق کرنا ،چاہیے ایک امت ہو یا پوری امت یا تھوڑے لوگ ،کسی حکم شرعی پرا تفاق کریں یا کسی عقلی کام پر یا علمی اور فلسفی مسئلہ پر اس

معنی سے ہے قرآن میں

'' واجمعو ا ان یجعلوہ فی غیابت الجب' سورہ یوسف ١٥

'ای اتفقو علی ذالک ' سب اس پر متفق ہوئے ،

''معنی اصطلاحی ''

١۔ مجتہدین او فقہا کا کسی مسئلہ شرعی پر اتفاق نظر کرنا واجبی

٢۔اھل حل و عقد (علماء اسلا م )کا کسی احکام شرعی پر اتفاق رائے کرنا فخررازی

٣۔امت محمدی کا کسی فقہی مسئلہ پر اتفاق رائے کرنا غزالی

٤جامع اور کامل تعریف :۔ان لوگوں کا اتفاق نظر ہونا جو کسی مسئلہ شرعی کو ثابت کرنے میں اثر رکھتا ہو ۔ مرحوم مظفر

''اقسام اجماع ''

١۔اجماع دخولی ،طریقہ حس، ٢۔اجماع لطفی ، ٣۔اجماع حدسی ، ٤۔اجماع تقریری

مکتب اہل بیت میں شیعہ علما کے ہاں اجماع بذات خود حجت شرعی کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ قول معصوم پہ دلا لت کر تی ہے اس لحاظ سے یہ حجت ہے

برادران اہل سنت کے ہاں یہ اجماع بذات خو د حجت شرعی اور مسئلہ شرعی کو ثابت کر نے میں مستقل دلیل شرعی کی حیثیت رکھتی ہے ۔

یہ اجماع دلیل ہی ہے یعنی مفہوم اور روح کلام معصوم کو بیان کر تا ہے اور لبھی حکم شرعی ہے ،امام کی الفاظ سے کوئی کا م نہیں ہے ، اسی وجہ سے اس کو دلیل لُبی کہا جاتا ہے ،اور یہ بھی مسلم ہے مکتب اہل بیت والے اجماع سے مراد تمام علماء امامیہ کا اجماع اور اتفاق ہو نے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں ، بلکہ کچھ علماء

اجماع کا ادعیٰ کرے اور دوسرے بعض مخالف بھی ہو تو بھی اجماع کے لیے کو ئی نقصان نہیں پہنچاتا ،اجماع حدسی میں تمام علماء شرط ہے تاکہ امام کی رائے ثابت ہو جائے اور اسی اجماع کی بہت سی اقسام کو علماء نے بیان کیے ہیں لیکن ہم اس ی مہم چار طریقے کوبیان کرتے ہیں اور یہی مشہور اور معروف ہیں،

''اجماع دخولی طریقہ حس سے ''

اس اجماع حس سے مراد یہ ہے کہ اس میں امام علماء اجماع میں داخل ہو تا ہے اس اجماع کو بیان کر نے والے ،سید مرتضیٰ سید بن زہرہ ،محقق ، علامہ متقدمین میں سے اور شہید اول ،دوم اور صاحب معالم متاخرین میں سے اس اجماع کو قبول کیا ہے ،اور یہ اجماع دو قسم پر تقسیم ہو تا ہے،

١۔اجماع محصل ۔ ٢۔اجماع منقول خبر متواتر سے

اجماع محصل یہ ہے :۔اجماع کے دعویٰ کرنے والے خود جا کے تمام علما کے نظریہ کو تحقیق کرنے یقین حاصل کرتا ہے کہ امام کی با اور رائے یہ ہے اگر اس نے امام کو پہنچانا نہیں ہے ،''یہ خود تین قسم ہیں ''

١۔ ایک علماء کی جماعت سے خود نقل کر نے والے نے سنا ہے اور وہ جاتا ہے ان کے درمیان امام موجود ہے ،

٢۔نقل کرنے والے نے پورے فتویٰ پر اطلاع حاصل کیا ہے اور یہ جا نتا ہے ان کے درمیان سے ایک فتویٰ امام کا ہے ،

٣۔یا یہ دونوں ملا کر ہے ایک شخص امام ہے یا ایک فتویٰ امام کا ہے یقینا،

''اجماع منقول خبر متواتر ہے '':اس میں خود فائل نے تحقیق نہیں کیا ہے ،بلکہ ایک گروہ علماء نے یا ایک شہر کے یا ایک زمانے کے علما نے جا کے تحقیق کیا ہے اور اجماع کو حاصل کر کے متواتر نقل کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور اس کو یقین ہو ا ہے کہ ان کے درمیان امام موجود ہیں اس اجماع دخولی اور حسی کی خصوصیات

الف : اس اجماع میں امام ہو نے پر اس وقت یقین حاصل ہو تا ہے کہ امام کے حضور کے زمانے میں ہو تو غیبت کے دور میں یہ اجماع ثابت نہیں ہو تا ،کسی مسئلہ میں علی ـ کا اتفاق رائے ہو نا اور امام بھی ان کے ساتھ ہو نا یہ دور غیبت ہی امکان نہیں ہوتا،

ب: اس اجماع میں متفق علماء کے درمیان کوئی مجہول النسب شخص کا ہو نا ضروری ہے ،اگر امام خود معلوم ہو تو امام کا قول خود حجت ہے ،اجماع کی ضرورت نہیں ہے ،اگر امام نہیں ہے تو اجماع کا کوئی فائدہ نہیں

ج: اس اجماع میں مخالف علماء اگر سب کے سب معلوم النسب ہو تو اجماع کے لے کوئی نقصان نہیں ہے ،اور اگر مجہول النسب ہو تو اجماع پر یقینی نہیں ہوتا ،

٢۔طریقہ قاعدہ لطف اجماع لطفی:

لطف یہ ہے ہر وہ عامل اور سبب جو بندوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کے نزدیک کر ے اور اطاعت کی وسائل کو فراہم کر تا ہے اور ایسی طرح گناہ سے دور کر تا ہے ،کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اس وسائل اور عوامل کا،فراہم کرنا اور تیار کرنا اللہ تعالیٰ پر لازم اور فرض ہے ،

اس لیے انبیا کے ۔۔۔۔لازم ہے ،کتاب آسمانی کا اتارنا ضروری ہے ،اس لیے امام کی وجود لطف الہی ہے

اور امام کی ولایت اور تصرفات بھی لطف ہے ،بقول خواجہ نصیر الدین طوسی

'وجودہ لطفاوتصرنہ لطفا آخر' امام کا وجود لطف الہی ہے اور تصرف ایک اور لطفا ہے ۔

بعض علماء کے نزدیک یہ لطفا الہی پر واجب ہے بعض دوسرے فرماتے ہیں یہ لطفا واجب نہیں ہے اس مقدمہ کے ساتھ ہم یہ استدلال کرتے ہیں اگر کسی دور میں علماء کسی بات پر اتفاق رائے پیدا کریںجیسے نماز جمعہ واجب ہے ،

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجماع جو کوئی بھی مخالف نہیں ہے ،اور واقع کے مطابق ہے اور امام کی رائے بھی شامل ہے ،

اگر یہ رائے اور فتویٰ غلط ہوتا تو امام پہ لازم تھا قاعدہ لطفا کی عنوان سے ۔۔۔۔کہ روکیں یا امام خود ان کی رائے کی مخالفت کریں یا کسی کومخالفت کرنے پر تیار کریںتاکہ اجماع ثابت نہ ہو وگرنہ اس پر دو اشکال آتا ہے ۔

(الف)۔۔۔۔۔کا معطل ہو نا لازم آتا ہے اور یہ بالا تفاق بالکل ہے ،

(ب)یا یہ لازم آتا ہے کہ امام نے اپنے وظیفہ جو تبلیغ دینی ہے اس پر عمل نہیں کیا

امام اپنے وظیفہ پر عمل نہ کرے یہ محال ہے پس اگر کسی کلمہ پر علما ء اتفاق رائے پیدا کرے اور امام فی لغت ظاہر نہ کرے اور اجماع اور اتفاق ہو نے سے نہ روکے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے عقل یہ کشف کر تا ہے یہ اجماع واقع میں بھی صحیح تھا اور واقع کے مطابق تھا ۔اس نظریہ کے قائل علماء شیخ طوسی ہے اور فخر الدین علامہ کے بیٹے

اورمحقق ثانی شہید اول نے قبول کیا ہے ۔

''اس اجماع لطفی کی خصوصیات ''

١۔یہ اجماع حضور کے دور میں مختص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں اجماع ہو سکتا ہے ،

٢۔کچھ علماء کی مخالفت اس کے لیے ضروری نہیں ہے چاہیے وہ لوگ معلوم النسب ہو یا ،مجہول النسب اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں یقین ہو ان کے درمیان امام نہیں ہے اور ان کے فتویٰ صحیح ہو نے پر کوئی یقین دلیل نہ ہو ،اگر اس طرح سے ہو گا توا جماع کے لے ضر رہو گا ،

٣۔اس اجماع میں مجہول النسب عالم کا ہونا شرط نہیں ہے اگر سب کے سب معلوم النسب بھی ہو تب بھی اجماع کے لیے ضرر ہیں ہو گا،

٤۔اگر واقع اورحقیقت میں کوئی آیت یا حدیث متواتر یا خبر واحد قرینہ اور اس اجماع کے خلاف ہو تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا،

 

٣۔اجماع حدسی،مرقعیہ حدس سے

مقدمہ :حدس میں کسی ظاہری حواس کی ضرورت نہیں ہے کسی بات کو کشف کرنے میں حسی کے خلاف جو ظاہری حواس خمسہ میں سے کسی چیز پر عمل حاصل کر تا تھا ،نکر میں ایک شی مجہول سے کچھ مقدمات اور مراحل طی کر کے دوسری چیز تک پہنچ جاتا ہے لیکن حدسی میں اچانک ایک مطلب پرعلم حاصل

ہو تا ہے ،یہ ایک قسم الھام ہے ،بہت سی چیزیں انسان کے لیے اسی راستے سے کشف ہوا ہے اور ہو تا ہے ،

اسی مقدمہ کے ساتھ

انسان کو علما کے اتفاق رائی اور کسی مسلہ پر اتفاق ہو نے سے حدس قطعی اور یقینی حاصل ہو تا ہے کہ امام کی رائے بھی شامل ہے اور یہی امام کی رائے ہے ،اور یہ نظریہ اور فتویٰ امام سے سند بعد نسل ہم تک پہنچ گیا ہے یہ وجدان کے ساتھ مشاہدہ کر تے ہیں باوجود اس کے بہت سے مسائل ہیں اختلاف کے ساتھ کسی مسئلہ پر اتفاق

رائے کرنا اسی بات پر دلالت کرتا ہے یہ انہوں نے اپنے ۔۔۔۔نہیں کہا ہے بلکہ اپنے رہبر اور معصوم سے لیا ہے ،

اس اجماع حدسی کی خصوصیات

١۔تمام زمانے میں تمام علماء کا اتفاق ہو نا ضروری ہے تاکہ ہمیں یقین ہو جاتے کہ امام کی رائے بھی شامل ہے

٢۔مجہول النسب افراد کا ہونا ضروری نہیں ہے ،یا نہ ہو نا بھی ضروری نہیں ہے ،

٣۔اگر اس اجماع کے خلاف بڑے علما جو فقر میں تخصص رکھتے ہیں خلاف ہو جا تے تو اجماع کے لیے ضرر ہو گا اور اجماع ثابت نہیں گا،

 

٤۔اجماع تقریری طریقہ تقریر سے

یہ اجماع یوں ہے کہ معصوم کے سامنے اور ا ن کے ۔۔۔۔۔میں کسی مسئلہ یاحکم شرعی پر علما ء اتفاق رائے پیدا کر ے اور معصوم دیکھتے اور سنتے ہو تے خاموش رہیں تو یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ معصوم اس اجماع پررا ضی ہے اگرراضی نہ ہو تے تو امام پر واجب تھا حامل کو ہدایت کر نے کی ۔۔۔۔یا امر بمعروف کے طور پر منع کر تے

اور احکام الہیٰ کر بیان کر تے ،امام کا خاموشی رہنا اس اجماع پر راضی ہو نے کی دلیل ہے ،

اس اجماع تقریری کی خصوصیات

١۔ امام اس اجماع کی طرف متوجہ تھا ،اور کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہ تھا اس کے باوجود کچھ نہ فرمائیں تو یہ اجماع حجت ہو گا ٢۔یہاں تمام علما کی اتحاد او ر اجماع شرط نہیں ہے اگر ایک شخص بھی ایسا کر ے تب بھی از راہ تقریر معصوم حجت ہو گا، لیکن اس میں دو بات باقی رکھتی ہے

١۔ کیا اصولی طور پر ایسا اجماع غیبت کی دور میں واقع ہو تا ہے یا نہیں اگر واقع بھی ہو جائے زمان غیبت میں تو یہ حضور کے دور کے مانند قابل ہو گا یا نہیں ایک جیسا اجماع ہو گا یا نہیں یہ قابل بحث ہے ،

٢۔کیا اصول طور پر غیبت کے دور میں تعلیم حاصل یا امر بمعروف امام پر واجب ہے یا نہیں ؟

یہ بھی قابل غور بات ہے یہ بطور اختصار اجماع کی اقسام اور ان کی تقریر اور تشبیت

اجماع کے بارے میں علما امامیہ کے نظریات

سید مرتضی فرماتے ہیں:

صرف اجماع دخولہ حجت اور قابل قبول ہے قول امام یہی ایک راستہ ہے ثابت ہو تے ہیں بس بقیہ تمام اجماع کی کوئی اعتبا ر نہیں ہے

شیخ طوسی فرماتے ہیں:

اجماع لطفیٰ مورد قبول اور حجت ہے باقی تمام اجماع قابل قبول نہیں ہے ان کو ئی اعتبار نہیں ہے

مرحوم نائینی آپ فرماتے ہیں :

'لیس الا جماع دلیلا برامہ فی مقابل الادلة الثلا الکتاب والسنة والعقل '

اجماع بذاتہ کو ئی دلیل اور حجت نہیں ہے باقی ادلہ ثلاثہ کتاب سنت اور عقل کے مقابل میں یہ سنت میں داخل ہے یعنی قول معصوم کو کشف کرنے کی عنوان سے حجت ہو تا ہے ،

شیخ انصاری آپ فرماتے ہیں :

حقیقت میں اجماع سنت سے ہے ،

قول معصوم کو کشف کر نے کی عنوان سے حجت ہے وگرنہ اجماع من حیث الا جماع کو ئی اعتبار نہیں ہے ،

محقق قمی آپ فرماتے ہیں:

'یجوز الخطا علی کل واحد من المجمعین فھکذا المجوع '

ہرایک اجماع والے افراد میں خطا اور غلطی ہونا امکان ہے پس تمام مجموعہ میں بھی خطا امکان ہے پس اجماع حاجة الخطا ہے یہ ایک حکم اور دلیل مستقل نہیں ہے بلکہ کتاب اور کی حاکی ہے یہ روایت جیسی ہے

محمد جواد مغنیہ فرماتے ہیں:

ٍ ایک اور اجماع بھی ہے اجماع وکب کے نام سے جیسے مجتہدین (فقہا )کسی مسئلہ میں حرام کا حکم لگائین اور بعض نے مکروہ کا حکم لگائیں تواس سے پتہ چلتا ہے یہ واجب نہیں ہے یا مستحب نہیں ہے ۔اس کے مقابل میں اجماع سبیط ہے سب کے سب ایک ہی حکم دے دیا ۔

شیعہ عما کے ہاں اجماع حدسی قابل قبول ہے ،رضایت معصوم کو کشف اور ظاہر کرتاہے متقی لوگ کسی غلط کام پر اتفاق نہیں کر تے ہیں اور یہ عمل سے ظاہر ہو تا ہے اس کے ساتھ قاعدہ لطفا بھی ہے اور یہ اجماع شروع سے لے کر ابھی تک شہرت کے حامل ہیں اور عمل بھی کر تے آرہے ہیں۔

 

شہید باقر صدر :

اجماع بذات خود کوئی اس کی قیمت نہیں ہے اس کا دارو مدار اس کا مدرک اور دلیل ہے اس کو دیکھ کر حکم لگا سکتے ہیں لہذا اس کے مدرک کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔اور مشکلات پائی جاتی ہے پس یہ اجماع میں بھی مشکلات ہے اس سے ثابت ہو نا مشکل ہے باقی تمام اجماع میں بھی یہی مشکل پائی جاتی

ہے ۔

سید علی نقی حیدری :

اصول الاستنباط میں فرماتے ہیں اجماع اگر حجت ہے تو قول معصوم کو کشف کرنے کی عنوان سے محبت ہے وگرنہ نہیں اجماع منقول اس وقت حجت ہے جب وہ تمام زمانہ میں از راہ حس اور وجدان سے ثابت ہو اور اسی راہ سے نقل کریں اگر عادل ہو نقل کر نے والا تو حجت ہے اور یہ جز ۔۔۔۔کی طرح ہے اگر

رائے معصوم کو ظاہر کر ے اور کشف کرے تو حج ہے اگر پورا زمانہ نہ ہو یا کسی کی فتویٰ نقل نہ ہو تو یہ اجماع حجت نہیں ہے ۔

مرحوم مظفر فرماتے ہیں:۔

معیار اور ملاک اجماع کشف قول معصوم ہے اگر معصوم کی رائے ظاہر ہو تی ہے تو حجت ہے وگرنہ نہیں اور یہ طریقہ جس طریقے سے ظاہر ہو جائے کافی ہے کوئی ماضی اجماع کی خصوصیت نہیں ہے جس اجماع سے قول معصو م کشف ہو جائے وہی حجت ہو گا ،خلاصہ مطلب یہ ہے مطلب اصلی اور تحقیق

یہ ہے ان اجماع میں سے بعض (جیسے اجماع دخولی اور تقریری )صرف زمانہ حضور کے ساتھ مختص ہے دوسرے زمانے میں کوئی فائدے نہیں ،بعض اجماع عام فائدہ دیتے ہیں دوران غیبت میں بھی کام آتے ہیں لیکن حجیت نہیں رکھتا ،جیسے اجماع لطفی اور حدسی اور بعض اجماع زمانہ غیبت میں حاصل ہو تا ہے ان کا کوئی

فائدہ نہیں ہے اور رائے معصوم بھی حاصل نہیں ہو تا ۔

طریقہ استدالال

اجماع کی حجت ہو نے پر کس طرح استدلال کیا جاتا ہے بغیر دلیل کے کو ئی ادعیٰ کرے تو قابل قبول بھی نہیں ہے مثلا:تمام مجتہدین نما ز جمعہ کی واجب ہو نے پر اتفاق رائے ہو جا ئے تو یہ اجماع اور اتفاق دلیل کے ساتھ ہو گا یا دلیل کے بغیر ہو گا ،بغیر دلیل کے سب نے اس بات پر اتفاق کرنا محال اور باطل ہے

،فتویٰ دینا محال ہے اور صحیح نہیں ہے ۔اگر فتویٰ دے دیں سب بھی صحیح نہیں ہے پس دوسرا قسم صحیح ہے جو مسئلہ جس پر اجماع کیا ہے دلیل کے ساتھ اجماع کیا ہے اور و ہ دلیل یا قرآن ہو گا یا سنت ہو گی یا اجماع ہو گا یا عقل:ابھی اس اجماع کی مدرک اور دلیل اس چار میں سے کو نسا ہے اور کس طرح سے ہے ،اگر

اجماع کی مدرک قرآن ہو تو اس کی تین حالت ہو گی ۔

١۔ اجماع کرنے والوں نے کسی آیت پر تمسک کرکے فتویٰ دیا ہے اور اجماع کیا ہے لیکن وہ آیت دوسروں تک نہیں پہنچی ہے ،ابھی وہ آیت قرآن میں نہیں ہے یہ باطل ہے،کیونکہ تحریف قرآن لازم آتا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے قرآن میں کمی پیشی نہیں ہو تی ہے ۔

٢۔ اگر اجماع کرنے والوں نے کسی آیت پر تمسک کر کے اجماع کیا ہے اور فتویٰ دیاہے وہ آیت ابھی بھی قرآن میں موجود ہے لیکن وہ لوگ اس آیت کو جانتے تھے ہم اس آیت سے غافل ہیں ہم پر وہ آیت مخفی ہے ۔یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ محال ہے کوئی آیت قرآن میں ہو او ر ہمیں معلوم نہ ہو اس آیت سے غافل ہو ۔

٣۔اگر اجماع کی مدرک اور دلیل قرآن کی کوئی آیت ہو اور وہ آیت ابھی بھی قرآن میں ہو اور ہم اس آیت کی طرف متوجہ بھی ہوںلیکن وہ لوگ اس آیت سے کو ئی معنی لیا تھا ان کے ذہن میں کوئی معنی آیاتھا وہ معنی ہمارے لیے واضح نہیں ہے ،ان کے لیے حجت ہے ہمارے لیے حجت نہیں ہے اس کا نیتجہ یہ ہو گا ۔یہ اجماع نہ

ان کے لیے یقین اور قطع آور ہو گا نہ ہمارے لیے ایسے اجماع کا کو ئی فائدہ نہیں۔

اگر دلیل اجماع خود اجماع ہو

وہ لوگ پہلے علماء کی اجماع کو دلیل بنا کر اجماع کر کے فتویٰ دیا ہو اور اس فتویٰ دینے پر بھی اجماع کیاہو ،تمام بالا تفاق سے پہلے والے علماء کی اجماع پر اجماع کیا ہو،تواس میں وہی بات آجاتی ہے پہلے والوں کی اجماع کی مدرک کیا تھا،یا قرآن یا سنت یا اجماع یا عقل ہو گا ،یہ چار مدرک کو ہم رد

کریں گے تو پہلے والوں کی اجماع کا کوئی فائدہ نہیں رہے گا تو یہاں ان کے مدرک جو اجماع ہے اس کا بھی کوئی قیمت نہیں ہو گی،اور یہ اجماع بھی مدرک اور دلیل نہیں بنتا ،''مدرک اجماع عقل ہو تو ''یہ بھی اشکال سے خالی نہیں ہے

حکم عقل کی بھی تین حالت ہے

١۔ ایسے احکام عقلیہ سے ہے جو عقلا کو اسی عنوان سے کہ وہ عاقل ہے دلیل قرار دیتے ہیں جیسے عدل کی اچھائی ،ظلم کی بڑائی ،حسن و قبح عقلی کہتے ہے اس عنوان سے ہوگا ۔

٢۔ ایک شخص کی عقل یا کچھ لوگوں کی عقل سے اجماع ہوا ہو تو یہ سب کے لیے حجت نہیں ہے اور سب کے لیے قابل قبول نہیں ہے

٣۔ سارے عقلا نے اس پرحکم دیا ہے اس لحاظ سے کہ اپنی نفس کی چاہت ہے اور اپنی چاہت کی وجہ سے ہے ،عاقل ہو نے کی عنوان سے نہیں

نیتجہ :

اس میں دوسرے اور تیسرے قسم کی کو ئی قیمت نہیںہے اوراس سے حکم واقعی یہ یقین حامل نہیں ہو تا اگر فائدہ ہو تو پہلی قسم ہے اور یہ بھی محال ہے کیونکہ عقلی حکم ہو لیکن کچھ لوگوں کے لیے ظاہر ہو ہمارے لیے نہ ہو یہ صحیح نہیں ہے عقل کی مستقل حکم سب کے لیے برابر ظاہر ہو تا ہے سب کی ذہن میں آتے ہیں۔

پس مدرک عقلی بھی نہیں ہے اگر مدرک اوردلیل سنت ہو :۔

اگر اجماع کی مدرک سنت ہو تو بھی اس میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں

١۔ اجماع کرنے والے تمام علماء یا کچھ علماء امام کی خدمت میں پہنچ کر سب نے حکم کو سن کو اجماع کہا ہے اور فتویٰ دیا ہے ،

زمان غیبت میں نماز واجب ہے ،اور اس پر اتفاق رائے کیا ہے ،اس پراشکال آتا ہے

١۔پہلا یہ کہ یہ صرف امام کے دور میں واقع ہو تا ہے غیبت کے دور میں نہ یقین ہو تا ہے نہ ظن اور گمان اگر کچھ علماء خدمت امام میں پہنچ کر اجماع کیا ہو تو اس پر بھی یقین حاصل نہیں ہوتا معرفت بعد والے زمانے کے لیے یہ امکان نہیں ہے ۔

٢۔ اگر ہم قبول کریں امام کی خدمت میں پہنچ کر فتویٰ دیا ہے تواس میں یہ احتمال پایا جاتا ہے انہوں نے کوئی قابل قبول روایت سن کر فتویٰ دیا ہو جب یہ احتما ل آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے ،

٣ ۔کسی بھی عالم کے لیے یہ امکان نہیں کہ عصر حضور کی تمام علماء کی رائے کو حاصل کرے اور اجماع کا دعویٰ کر ے اور کہے کہ امام کی رائے بھی یہی ہے کیونکہ ان کی تمام ارا اور فتویٰ کتابوں میں موجود نہیں ہے اصول اربعاة کے علاوہ کو ئی کتاب نہیں اور یہ روایت کا مجموعہ ہے علماء کے فتویٰ اور رائے نہیں ہے ،

٢۔دوسرا ۔اجما ع کی مدرک کو ئی معتبر روایت ہو جو ہم تک نہیں پہنچی ہے ، اگر اس طرح سے ہو تو اس پر بھی اشکال آتا ہے

ایسا ممکن نہیں ہے امام کسی بات کو کریں اور کسی کلمہ کو فرمائیں لیکن ہم تک نہ پہنچیںاور یہ قابل عمل نہیں ہے درجہ سے ایک سند کی اعتبار سے دوسرا دلدلت کی اعتبار سے ،

(الف)پہلے والے علما ء نئے ایسی خبر اور روایت پر اعتماد کیا ہو جو بعد والے علماء جس پر اعتماد نہیں کر تے ہیں ،جیسے انہوں نے خبر حسن یہ اعتبار کیا ہو جس پر ہم اعتماد نہیں کر تے ہیں ،اگر اس طرح سے ہو تو اجماع ثابت نہیں ہو تا ،

(ب)اگر ہم سند اور وایت کی اعتبار سے قبول کر یں تو دلالت کی اعتبار سے پھر بھی اشکال باقی رہتاہے وہ اس طرح سے ہے کہ انہوں نے خبر کی ظاہر کو دیکھ کر فتویٰ دیا ہے ،واضح دلالت نہیں ہے وہی حدیث اور روایت بعد والے علماء تک پہنچ بھی جاتی وہی حکم نہیں نکلتا واستنباط نہیں ہو تا ،اس کی بھی کو ئی ۔۔۔۔اور قیمت

نہیں ہے ،

نیتجہ:عصر غیبت میں اجماع وجود نہیںہے ،ایک اجماع قابل قبول ہے وہ اجماع دخولی ہے لیکن یہ زمان حضور کے ساتھ اختصاصی ہے زمان غیبت میں یہ بھی کام نہیں آتے کیونکہ وجود خارجی نہیں رکھتا ،باقی تین طریقے بھی مورد قبول نہیں ہے ،یہی اشکال ان پر بھی وارد ہو تا ہے ،

١۔اجماع اگر ثابت ہو قاعدہ لطف کی اعتبار سے اس اجماع لطفی کو شیخ طوسی نے قبول کیا ہے ۔

لیکن شیخ انصاری اور سید مرتضی اور باقی علماء نے قبول نہیں کیا ہے،اس اجماع پر بھی دو اشکال وارد ہو تا ہے ۔

١۔ ہم ان علما ء سے سوال کر تے ہیں زمان ظہور مہم ہے یا زمان غیبت ؟ ظاہر ہے زمان ظہور حضور آئمہ مہم ہے ۔

کیونکہ اس زمانے میں تمام مصالح مسلمین پر عمل ہو تا ہے ،عدالت برپا ہو تی ہے ایک حکومت قائم ہو تی ہے ۔

اگر کسی مسئلہ فرعی کی وجہ سے ظہور امام کی اقتضاء کریں

٢۔کیا اشکال ہے وہی علت اور اسباب امام کی غیبت کی سبب بنی ہے ہمارے لیے حکم الہی بھی مخفی رہنے کے سبب بنی ہو

تو یہ عوامل خود ہماری طرف ہے ان کی طرف نہیں ہے

اس کے سا تھ ساتھ باب اجتہاد بھی کھلا ہے صرف اجماع میں نہیں بلکہ تمام امور میں حتی ایک شخص کو بھی ہدایت ہو جائے اگر ایک شخص بھی کو ئی خلاف انجام دیں تو امام پر فرض بنتا ہے اس کی ہدایت کریں یہ قاعدہ لطف کی اقتضا ہے ایسا تو ہو نہیں رہا پس یہ قاعدل لطف بھی قابل قبول نہیں ہے

اجماع حوسی اس اجماع کے بارے میں ادعیٰ صرف دعویٰ کی حد تک ہے قابل اثبات نہیں ہے ضروریات دینی اور ان جیسے احکام میں یہ طریقہ اجماع حدسی امکان ہے ،لیکن تمام مسائل جزیہ میں امکان نہیں ہے کیونکہ تمام علما ء کی رائے پہلے سے موجود نہیں ہے یہاں تک کہ کتابیں بھی موجود نہیں ہے ،کس طرح سے ان کی

ارا ء اور فتویٰ کو حاصل کریں بہت سے اثار علمی ابھی ختم ہو چکی ہے پس یہ اجماع بھی قابل قبول نہیں ہے ۔

اجماع تقریری

اس کے بارے میں بھی رائے یہ ہے کہ یہ ادعیٰ کی حد تک ہے قابل ثبوت نہیں ،چاہے حضور کے دور میں ہو یاغیب کی دور میں عصر حضور میں علماء بہت زیادہ تھے تمام کے نظریات کو جمع کر نا نا ممکن تھا ،اور جمع ہوا بھی نہیں ہے ،زمان غیب میں قاعدہ لطف کے قریب ہے ،امام نے بیان کیا ہو کیونکہ باب

اجتہاد کو کھلا ہے ،تمام اختیارت ولا یت فقیہ کودیا ہو ا ہے اس کے باوجود اما م پہ لازم نہیں ہے اگر کچھ لوگ خطا کریں تو بیان کریں ۔

نیتجہ یہ نکلا کہ دوران غیبت میں بھی اجماع محصل سے امام کی رائے کو حاصل نہیں کر سکتا اب باقی رہا اجماع منقول حوز اجماع منقول کی چار قسمیں ہیں ،

١۔ اجماع محصل قطعی اور یقینی ٢۔اجماع محصل ظنی

٣۔اجماع منقول از خبر متواتر ٤۔اجماع منقول خبر واحد سے

ان اقسام میں سے ہماری بحث اجماع منقول خبر واحد سے ہے اور یہ قسم خود تین قسم کی ہے ۔

١۔کبھی اجماع نقل کر نے والا اجماع دخولی کو نقل کر تے ہیں ۔ ٢۔کبھی ناقل اجماع لطفی کو نقل کر تا ہے۔

٣۔کبھی ناقل اجماع حدسی کو نقل کر تا ہے۔

ان میں سے اجماع دخولی محصل حجت ہے لیکن یہ غیبت کے دور میں وجود خارجی نہیں رکھتا اس کا فائد ہ عمومی نہیں ہے ۔تواس طرح اسی اجماع دخولی محصل کی منقول بھی حجت نہیں ہے کیونکہ یہ خبر واحد کی اندر داخل ہے ،اور ہماری بحث اجماع منقول از خبر واحد میں ہے ۔یہ ناقل حوذ کے لیے

یقین لانے والی ہے لیکن جس کے لیے نقل کیا ہے ظن اور ہے اور یہ ان ظنون میں سے ہے جو معتبر اور حجت ہے اور اصل والیٰ کی بنیاد پر یہ ظنون سے خارج ہو کر حجت ہواہے ۔

یا یہ ظن کی اندر موجود ہے اور اس پر عل کرنا حرام ہے ،کیونکہ ظن پر عمل کرنا حرام ہے ؟

اس اجماع کے بارے میں تین نظریے پا ئے جا تے ہے ۔

١۔ اجماع منقول بغیر کسی شرط و قید کے حجت ہے کیونکہ یہ خبر واحد کی اقسام میں سے ہے ،خبر واحد کی ادلہ اس پر بھی شامل ہو تا ہے اور حجت ہے باقی تمام اقسام کبھی اس پر شامل ہو تا ہے جیسے منقول حسن، موثق ،ضعیف ،باقی احکام بھی اس پر شامل ہو تا ہے ۔

٢۔ اجماع منقول بغیر کسی ۔۔۔۔۔۔کے مکلفا حجت نہیں ہے ،خبر واحد اسی عنوا ن خبر واحد سے اجماع کو بھی شامل ہو تا ہے لیکن حجت ہونے کے اعتبار سے اجماع منقول کو شامل نہیں ہو تاکیونکہ خبر واحد کی دو قسمیں ہیں

الف:خبر واحد حسی ب:خبر واحد حدسی

۔۔۔۔خبر واحد کی بنیاد بنا فطعیہ عقلائیہ ہے جو حس کو شامل ہو تا ہے حدسی کو شامل نہیں ہوتا،اور اس پر دلیل بتادر ہے ۔

یہاں ہمارے بحث میں اجماع منقول غیر دخولی اور رائے معلوم سے خبر دینا ہے ،وہ بھی حدسی کی بنا پر ہے ۔اور یہ خبر واحد کی اندر شامل نہیں ہے اور اس پر کو ئی دلیل بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔یہ بھی حجت نہیں ہے ۔

شیخ انصاری صاحب فرماتے ہیں :۔ یہاں بحث تفصیل طلب ہے اگر نقل کر نے والے نے تمام زمانے اور تمام اقوال اور اراء کو نقل کیا ہو اور حدسی ہو جا ئے قول معصوم کا تو یہ حجت ہے اگر ایسا نہیں ہے تو حجت نہیںہے ۔اگر بعض علماء کی رائے بیان کریں خود نقل کر نے والے کے لیے ظن حاصل ہو جاتے ،اور یہ حد ظنی قول

معصو م سے حاصل ہو جائے یااس نے ایک دور کے اقوال کو نقل کر یں اور قانون لطف سے قول معصوم حاصل کر ے یہ حجت نہیں ہے اخبار حسی اس پر شامل نہیں ہو تا ۔

اصلی بحث:

اس مسئلہ میں اصلی بحث ،مرحلہ میں ہے

١۔ایک ان تما م اقوال کی معانی اور بنیاد اور مدرک کے بارے میں ہے ۔

٢۔ اس میں سے حق کی بات کو ن سی ہے ۔

۔۔۔۔اورمدرک بحث کو بیان کر نے سے پہلے نکتہ اور ایک مقدمہ کی ضرورت ہے پہلا نکتہ یہ ہے ،۔۔۔کے معنی واجب الا تباع ہے ،یعنی عمل کر نا اور ماننا واجب ہے اور یہ تعبد دوقسم کے ہوتے ہیں ۔

(الف )تعبہ عقلای ہے ،عقلا عالم تمام اخبار تقدیر عمل کر تے ہیں اور اس پر اعتماد کر تے ہیں ۔

(ب)تعبد شرعی ہے شارع مقدس ہم پر لازم قرار دیتے ہیں احکام شرعیہ میں استعحاب کریں ۔

دوسرا نکتہ جن امور کے بارے میں ہمیں شارع حکم دیتا ہے عمل کر نے کا وہ دو امر ہو تے ہیں ۔

(الف)وہ امور جن کے بارے میں حکم شریعت موجود ہے دلیل شرعی موجود ہے ۔

(ب)جن امور کے بارے میں حکم شرعی موجود نہیں ہے لیکن یہ احکام شرعیہ کی موضوعات کے لیے یہ اثر رکھتے ہیں مثلا زید نذر کر تا ہے جب تک میرا بیٹا زندہ ہے روازنہ میں ایک روپیہ صدقہ دوں گا ۔

تو ابھی اس کی موت کے بارے میںشک ہو گیا کیا وہ زندہ ہے یا نہیں تو یہاں استصحاب حیات کر تے ہیں ابھی بھی وہ زندہ ہے ،پس صدقہ دینا بھی واجب ہو تا ہے ۔

متعدیہ ہے اجماع منقول حجت ہے یا نہیں ہے ،یہ خود ایک اختلاف کی وجہ سے ہو تا ہے وہ یہ ہے کہ اجماع منقول سے گمان حاصل ہو تا ہے اور اصلی اولی کی بنا پر ظن پر عمل نہیں کر سکتا ،دلیل خبر واحد کے علاوہ کو ئی اور چیز نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ اولہ حجت خبر واحد اس کو بھی شامل ہو تا ہے یا نہیں

؟اقول علما مجاہد اقوال خبر واحد کی اولہ کی شمولیت نہیں ہو تا پس حجت نہیں ہے مگر امید قول معصوم کو کشف کر ے ،اسی عنوان سے شارع نے ہمیں حکم دیا ہے اس پر مکمل کر یں اور اسی عنوان سے ہو تو ادلہ خبر واحد اس کو شامل کر تا ہے ۔

مطلب اصلی کا خلاصہ یہ ہوا :۔ وہ علما جواجماع منقول کو مطلق حجت مانتے ہیں وہ اس بنا پر عمل کر تے ہیں یہ خبر قول معصوم کو کشف کر تا ہے او ر وہ کشف حسی ہو یا حدسی ہو ،یا اعتقادی ،مطلق الاستکشاف ہے ،جیسے نقل روایات کی اجازت دیتے ہیں یہاں نقل لفظ کوشرط نہیں کر تے تو اجماع منقول مطلقا

حجت ہے وہ لوگ جو طلق حجت نہیں ما نتے اجماع منقول کو ،ان کی مدرک اور مبنی یہ ہے حجت خبر واحد میں مطلق کشف کا فی نہیں ہے بلکہ کشف رائے معصوم حسی ہو نا شرط ہے پس یہاں ادلہ حجت خبر واحد اس کو شامل نہیں ہو تا کیونکہ ادلہ خبر واحد۔۔۔۔۔۔کی فتویٰ کو شامل نہیں ہو تا اگر چہ خود مجتہد کے

لیے یقین آور ہے اور یہ فتویاوراجتہاد حدسی ہے اور حکم شرعی کو نقل کر تا ہے۔پس یہاں بحث نہیں ہے ۔

اور وہ لوگ جو تفصیل کے قائل ہیں ان کے مبنی یہ ہے ادلہ خبر واحد خبر حسی کو شامل ہو تا ہے ۔اگر کسی نے تمام زمانے اور تمام اقوال اور ارا ء کو نقل کریں اور اس سے حدسی حاصل ہو جا ئے قول معصوم کا یہ بمنزلہ حس ہو گا اور ادلہ اس پر شامل ہو تا ہے اور حجت ہے اگر فاعل نے ایک علماء کی رائے اور فتویٰ

کو نقل کر لیا اور قانون لطف کے عنوان سے حدسی حاصل کر یں کہ قول معصوم بھی اس میں شامل ہے اس کی بات کو کشف کریں تو یہ حس کی جگہ پر نہیں آسکتا پس ادلہ خبر واحد اس کو شامل نہیں کر تا پس یہ حجت نہیں ہے ،نیتجہ اور اصلی بحث اور فیصلہ مرحوم مظفر اور شیخ انصاری ان کی تابعین کا نظریہ یہ ہے کہ اس

مسئلہ میں ہم تفصیل کے قائل ہو جائیں وہ یہ ہے اجماع منقول فاعل کے لیے قول امام کو کشف کر نا ہے منقول الیہ کی عقیدہ اور رائے میں کاشفیت نہیں رکھتی یہ حجت نہیں ہے کیونکہ خبر واحد کی ادلہ اس کو شامل نہیں ہوتا ۔

کبھی دونوں کے لیے کاشفیت رکھتی ہے ،یا فاعل کے لیے کاشفیت نہیں رکھتی لیکن منقول الیہ کے لیے کاشفیت رکھتی ہے یہ دونوں حجت ہیں،کیونکہ خبر واحد کی ادلہ اس پرسائل ہو تا ہے یہاں منقول الیہ کے پاس اگر قو ل معصوم کی کاشغیت رکھتی ہو اجماع منقول تب بھی حجت ہے ،تو نیتجہ یہ ہوا اجماع

بذات خود حجت نہیں ہے قول معصوم کو کشف کر نے کے عنوان سے حجت ہے


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته

 
user comment