علم اخلاق بھی دوسرے علوم کی طرح بعض موجودہ علوم سے مربوط ہے۔ہم یہاں دوسرے علوم پر علم اخلاق کے اثر اور اس سے مربوط بعض علوم جیسے علم فقہ، عرفان عملی و علوم تربیتی کا ایک جائزہ پیش کریں گے۔
١۔ علم اخلاق اور فقہ
علم فقہ مکلّف انسان کے اعمال و رفتار کے بارے میں دو جہت سے بحث کرتا ہے:
الف۔ اُخروی آثار کے لحاظ سے یعنی ثواب وعقاب کے لحاظ سے، جو واجب و حرام جیسے عناوین کے تحت بیان ہوتے ہیں۔
ب۔ دنیاوی آثار کے لحاظ سے جس میں صحیح و باطل جیسے عناوین کے تحت گفتگو ہوتی ہے۔
فقہ کی پہلی قسم کے احکام کی حیثیت اخلاقی ہے اور ان میں سے بہت سے علم اخلاق سے مربوط ہیں۔
فقہ کی دوسری قسم کے احکام کا ربط علم اخلاق سے نہیں ہے، ان کی حیثیت صرف فقہی اور حقوقی ہے۔ (١)
٢۔ علم اخلاق اور حقوق
علم حقوق کا موضوع، معاشرے کے لئے وہ لازم الاجراء قوانین ہیں جنہیں حکومت پیش کرتی ہے اور وہ اس کی ذمہ دار ہے۔ اس بناء پر علم حقوق کا ربط فقط انسان کی اجتماعی و دنیاوی زندگی سے ہے اور اس کے سارے قوانین سب کے لئے ہوتے ہیں اور ان کا اجراء دنیاوی فلاح کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ علم اخلاق کا ربط، انسان کی فردی زندگی سے بھی ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری بھی نہیں ہوتا۔اس طرح اخلاق کا ربط، فردی و اجتماعی زندگی سے بھی ہے اور اس میں بعض پر عمل ضروری اور بعض پر عمل ضروری نہیں ہوتا ہے ۔ وہ اخلاقی احکام جن کی حقوقی حیثیت نہیں ہوتی۔ (٢)
اور اُن میں دنیاوی فائدے بھی نہیں ہوتے وہ پاکیزگی ٔ نفس کے لئے اور اُخروی لحاظ سے لازم الاجرء ہوتے ہیں۔
علم اخلاق اور حقوق میں فرق ہونے کے باوجود دونوں میں یگا نگت بھی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف حقوق عدالت اجتماعی کے اجراء میں جس کا شمار بلند اخلاقی اقدار میں ہوتا ہے، اخلاق کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف علم اخلاق، اخلاقی خوبیوں کی ترویج اور برائیوں سے مقابلہ کر کے معاشرے کو پاک و پاکیزہ بناتا ہے۔ اس طرح یہ معاشرے میں نظم و ضبط اور عدالت برقرار کرکے علم حقوق کا بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس وجہ سے دونوں میں سے کسی ایک کا بھی نہ ہونا معاشرے کے لئے بہت زیادہ نقصاندہ ہے۔
٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی
عرفان ایک علمی اور ثقافتی نظام ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں: نظری اور عملی۔عرفان نظری کا رابطہ ہستی (وجود)، یعنی خدا، دنیا اور انسان سے ہے۔ عرفان کی یہ قسم فلسفہ سے زیادہ مشابہ ہے۔ عرفان عملی، خدا، دنیا اور خود سے
.......................................
١۔ البتہ کبھی کبھی اُن احکام کو جن پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے مثلاً مستحب و مکروہ، احکام اخلاقی یا آداب کہا جاتا ہے اور فقہ میں ان کے شامل ہونے کا معیار حکم کا لازم ہونا مانا جاتا ہے۔ یہ استعمال صرف ایک خاص اصطلاح ہے اور عام طور پر اس کا واسطہ اخلاق سے نہیں ہے۔
٢۔غیر مذہبی حقوقی نظام میں حقوق کو اخلاق کے مقابل قرار دیاگیا ہے اور اُن دونوں کے لئے مشترک حدود اور موضوعات کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اسلامی حقوقی نظام میں بعض اجتماعی زندگی کے طریقے، اخلاقی ماہیت بھی رکھتے ہیں اور حقوقی ماہیت بھی۔جس کے نتیجہ میں وہ حقوقی حکم اور اجراء کی ضمانت بھی رکھتے ہیں، جیسے چوری اورقتل۔
انسان کے رابطے اور ان کے فرائض کوبیان کرتا ہے۔ عرفان کی یہ قسم جس کو سیر و سلوک کا علم بھی کہتے ہیں، علم اخلاق سے زیادہ مشابہ ہے۔ عرفان عملی میں گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ سالک کو انسانیت کی معراج (توحید) تک پہنچنے کے لئے کہاں سے آغازاور کن منزلوں کو ترتیب سے طے کرنا چاہئے اور اس سفر کی منزلوں میں کون سے حالات، اس سے روبرو ہوسکتے ہیں اور اس کے سامنے کون سے واقعات پیش آئیں گے۔ البتہ یہ تمام مراحل اس کامل اور تجربہ کار انسان کے زیر نظر ہوں جو خود اس سفر کو طے کر چکا ہو اور ان منزلوں کے قاعدے اور قانون سے آگاہ ہو اور اگر انسان کامل کی رہنمائی ہمراہ نہ ہو تو گمراہی کا خطرہ ہے۔ (١)
اس طرح عرفان عملی کی بحثیںخاص طور پر اخلاقی تربیت اور معنوی مقامات تک پہنچنے کے طریقوں اور وسیلوں کے ارد گرد گھومتی ہیںاور حقیقت میں یہ مسئلہ علم اخلاق کے اصلی موضوعات میں شمار ہوتا ہے۔
٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم
تربیتی علوم، علم نفسیات کے نتیجوں سے بہرہ مند ہو کر اور انسان کے سلیقوں پر حاکم قوانین کوپہچنواکر اور اُن فارمولوں سے آگاہی کی کوشش کر کے جو انسان کے عمل اور رد عمل کے دائر ہ میں ہیں، شکل اختیار کرتے ہیں اور علمی، اخلاقی و فنی مہارتوں کی قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے وسائل امکانات فراہم کرتے ہیں اور اگر ان کی توجہ اخلاقی عوامل پر ہے تو ان کی اُن عاملوں پر نظر وسیلہ اور آلہء کار کی حثیت رکھتی ہے اور چونکہ اخلاقی فضیلتوں کی وجہ سے تربیتی مرحلوں کو طے کرنے میں مدد ملتی ہے، لہٰذا اُن پر بھی توجہ کر تے ہیں۔ (٢)
اگر چہ علم اخلاق اس سے بلند ہے کہ اس کو تربیت کے ایک وسیلہ کے عنوان سے پہچنوایا جائے لیکن بعض اخلاقی حدود میں علم اخلاق اور تربیتی علوم (دونوں) حدود اور مسائل میںاخلاق علمی کے مانندمشترک ہیں۔
علم اخلاق اس (اخلاق علمی کے) دائرہ میں بھی، اصل علم وموضوع اور متعلقات پر اخلاقی نظر رکھتا ہے اور معلم وشاگرد کے مقاصد کو بھی اخلاقی لحاظ سے منظم کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے ایک دوسرے سے متعلق رابطوں کو، اخروی معیار کے مطابق مستحکم کر تا ہے۔ علو م تربیتی کی تربیت کر نے والے ان اخلاقی فارمولوں سے اور علم نفسیات
کی معلومات نیز، خطا و آزمائش کے نتیجوں سے بہرمند ہوکر اپنے بلند اور قیمتی اہداف تک تیزی سے اور آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔
.......................................
١۔ رجوع کیجئے: شہید مطہری، مرتضیٰ: آشنائی باعلوم اسلامی (عرفان) ص: ١٨١، ١٨٦۔
٢۔ تعلیم وتربیت کی تعریف اور ماہیت کے سلسلہ میں مجموعی نظریات سے زیادہ معلومات حاصل کر نے کے لئے''فلسفہء تعلیم وتربیت، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ، جلد اول، بخش دوم، ، کی طرف رجوع کیجئے۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3830&link_book=ethics_and_supplication/ethics_books/akhlaq_kay_usool