کعبہ جس کا ان آیات اور گذشتہ آیات میں دومرتبہ ذکر کیا گیا ہے اصل میں مادہ ”کعب “ سے مشقق ہے، جس کا معنی ہے ”پاوٴں کے اُوپر کی ابھری ہوئی جگہ“، بعد از اں یہ لفظ ہر قسم کی بلندی اور اُبھری ہوئی چیز کے لئے استعمال ہونے لگا اور ”مکعب“ کو بھی اس لئے مکعب کہتے کہا جاتاہے کہ وہ چاروں اطراف سے ابھرا ہوا ہوتا ہے، اُن عورتوں کو جن کے سینے تازہ تازہ ابھر رہے ہوتے ہیں ”کاعب“ کہا جاتا ہے جس کی جمع ”کواعب“ ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے بہرحال یہ لفظ (کعبہ) خانہٴ خدا کی ظاہری بلندی کی طرف اشارہ بھی ہے اور اس کے مقام کی عزت وبلندی کی علامت بھی ہے ۔
کعبہ ایک طویل اور پُرحوادث تاریخ کا حامل ہے، یہ تمام حوادث بہرحال اس کی عظمت واہمیت ہی کے باعث ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔
کعبہ کی اہمیت اس قدر ہے کہ روایات اسلامی میں اسے خراب ویران کرنے کو پیغمبر اور امام(علیه السلام) کے قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی طرف دیکھنا عبادت او ر اس کے گرد طواف کرنا بہترین اعمال میں سے ہے، یہاں تک کہ ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”لاینبغی لِاَحدٍ اٴن یرفع بنائہ فوق الکعبة“
”مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنا گھر کعبہ سے اونچا بنائے“(1)
لیکن اس طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ کعبہ کی اہمیت اور احترام قطعاً اس کی عمارت کی وجہ سے نہیں ہے؛ کیونکہ نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں حضرت امیرالمومنین(علیه السلام) کے ارشاد کے مطابق:
”خدا نے اپنے گھر کو ایک خشک جلی ہوئی اور سخت پہاڑوں کے درمیان والی زمین میں قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے بہت ہی سادہ مصالحہ سے بنایا جائے، عام اور معمولی پتھر سے“(2)
لیکن چونکہ خانہٴ کعبہ ایک قدیم ترین اور بہت ہی سابق ترین توحید اور خدا پرستی کا مرکز ہے اور مختلف ملل واقوام کی توجہ کی مرکزیت کا نقطہ ہے لہٰذا اسے درگاہ خداوندی سے ایسی اہمیت میسّر آئی ہے ۔ -
۱۰۰ قُلْ لاَیَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اٴَعْجَبَکَ کَثْرَةُ الْخَبِیثِ فَاتَّقُوا اللهَ یَااٴُولِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ
۱۰۰۔ کہہ دو کہ پاک وناپاک (کبھی) برابر نہیں ہوسکتے اگرچہ ناپاکوں کی کثرت تجھے بھلی معلوم ہو، خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو اے صاحبان عقل وخرد! تاکہ تم فلاح ونجات حاصل کرسکو ۔
1۔سفینة البحار، ج۲، ص۴۸۲-
2۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲، خطبہ قاصعہ
source : http://www.makaremshirazi.org