پاک و منزہ ہے ذات پروردگار جس نے اپنے جمال و جلال کیساتھ کون و مکان کی تخلیق فرمائی۔ ہر ذرہ کو مناسب قطر و اندازہ عطاء فرمایا۔ کائنات کو اپنے حسن و جمال سے زیبائی عطاء فرما کر بہترین گھڑی میں دنیا کو انسانی حیات کے لئے تخلیق فرمایا۔ اس کو تمام تر زیبائیوں اور تازگیوں سے مالامال فرمایا۔ پھر خلاّق عالم نے اپنے ارادے سے انسان کی تصویر گری فرمائی اور اسے بہترین صورت عطاء فرمائی۔ پھر خود اپنے امر سے تن بے جان خاکی کو روح سے زندگی عطاء فرمائی۔
لطیف و خبیر ہے وہ ذات جس نے نظام ہستی کی تخلیق، انسانی ضروریات کے مطابق فرمائی۔ اور اس سب کچھ کے بعد خلّاق عالم نے اپنی تعریف فرمائی کے ’’ فتباٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقین‘‘ یعنی اللہ کی ذات پر آفرین ہے جو بہترین خالق ہے۔
قادر متعال نے اس دنیا میں انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا فرمایا ہے۔ انبیاء عظام علیہم السلام اور اپنے آسمانی صحیفوں کے ذریعے انسان کی روحانی نشو و نما کا بندوبست فرمایا تا کہ انسان خاک سے افلاک کی جانب عروج حاصل کرسکے۔در حقیقت انسان کی تخلیق کا مقصد بھی یہی ہے، جیسا کہ قرآن میں خدای تعالی فرماتا ہے کہ ’’ وَمَا خَلَقْتُ الجِنّ وَ الانْسَ الاّ لیَعبدُون ‘‘ یعنی جن و انس کو صرف عبادت کے لئے خلق فرمایا ہے اور کوئی بھی عبادت بغیر عرفان و پہچان کے مکمل نہیں ہوسکتی۔ یعنی عبادت سے قبل معبود کی پہچان، اس کی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان اور حق و باطل کی پہچان لازمی ہے۔ حتی معرفت سے متعلق زیارت کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ قم میں آیا ہے کہ ’’ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی معرفت ہم سے سلب نہ فرمائیں۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عرفان و معرفت بھی عطاء و سلب ہوسکتی ہے۔
اسی ہدایت کی ایک کڑی انبیا اور دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام ہیں۔ یہ سب انسان کی بھلائی اور تربیت و تعلیم کے لئے خدای تعالی نے فراہم کیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو انبیا ؑ ، ائمہؑ اور اپنے نیک بندوں کے ذریعے تربیت و تعلیم عطا فرمائی ہے۔ دین اسلام مرد و عورت کے لیے مساوات کا قائل ہے اور خدا کے نزدیک دونوں مساوی ہیں۔ قانون اور شریعت کے نزدیک بھی یہ دونوں مساوی ہیں۔ وہ چیز جو انہیں ایک دوسرے پر برتری دیتی ہے ان کا اخلاق و کردار اور تقویٰ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں رب العزۃ کا فرمان ہے: ’’ اِنّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّہِ اَتْقٰیکُم ‘‘ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے کریم اور بلند مرتبہ وہ ہے جو تم میں زیادہ با تقوی ہے۔
یعنی خدا کے ہاں معیار ایمان و عمل صالح ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی شخصیت میں بے حد مؤثر ہے۔ متقی افراد اپنے اندر تمام وہ اوصاف جمع کرلیتے ہیں جو خدا نے انسانوں کے لیے پسند فرمائے ہیں۔ اولاد کی تربیت میں تمام نیک صفات کا ماں میں موجود ہونا اور ناپسندیدہ صفات سے بری ہونا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولای کائنات جناب امیراللمومنین علی ؑ نے جناب فاطمہ زہرا علیھا سلام کی شھادت کے بعد جب تجدید فراش کرنا چاہا تو اپنے بھائی عقیل سے عرض کیا کہ میرے لیے کسی دلیر خاندان سے زوجہ انتخاب کرو! جناب عقیل نے جناب فاطمہ ام البنین کو انتخاب فرمایا جن سے جناب عباس علمدار علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ماں کے اوصاف کا بچے کی شخصیت پر نہایت گہرا اثر ہوتا ہے۔انسان کی تربیت کا آغاز اس کے دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہوجاتا ہے۔ خدای تعالی نے قرآن میں اس بارے میں فرمایا ہے: ’’ وَاللّہُ اَخْرَجَکُم مِن بُطونِ اُمّھٰاتِکُم لٰا تَعْلمُون شَیئاً وَ جَعلَ لکُم السّمْعَ وَ الٰابْصارَ وَ الاَفءِدۃَ لَعلّکم تَشکُرون‘‘ خدا نے تمہیں تمہاری ماؤں کہ بطن سے پیدا کیا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور جوارح قرار دئے تاکہ تم شکر اداء کرو۔ (سورہ نحل ۷۸)
گویا اس آیت میں رب کریم نے انسان کو توجہ دلا کہ اسے عطاء کردہ نعمتیں یاد دلائی ہیں۔ قوت سماعت، قوت بصارت اور اعضاء و جوارح کو ایک خاص ترتیب سے خلق فرمایا ہے، جس میں قوت سماعت کو قوت بصارت پر ترجیح دی ہے۔ حالانکہ انسان کے لئے دیکھنا، سننے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن قرآن میں متعدد بار سماعت کو بصارت سے پہلے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ انسان میں انسانی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ انا خلقنا الانسان من نطفۃٍ امشاجٍ نبتلیہ فَجَعلناہ سَمیعاً بصیراً ‘‘ سورہ انسان آیت ۲ یعنی ہم نے انسان کو نطفہ سے خلق کیا تاکہ اسے آزمائیں اسی لئے اسے سماعت و بصارت عطاء فرمائی۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خلقت انسان کے وقت جب بچہ ماہ کے بطن میں ہوتا ہے تو پہلے سننے کی قوت کا آغاز ہوتا ہے۔ ۴ ماہگی سے بچہ صاحب روح ہوجاتا ہے اور اسی وقت سے وہ آوازوں کو سننا شروع کردیتا ہے، پھر پہچاننا شروع کرتا ہے۔ حتی جدید علوم اور ٹیکنالوجی نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔ گذشتہ سال ۲۰۰۵ میں ایک امریکی تحقیقاتی ادارے National Geographic Society نے ایک جامع تحقیق انجام دی جس میں ایک حاملہ خاتون کو نوں ماہ تک جدید آلات کے ذریعے ۲۴ گھنٹوں تحت نظر رکھا گیا۔ ان آزمایشات میں خوراک، ماحول اور ماں کے حالات کا بچے پر پیدا ہونے والے اثرات کا نہایت دقت کے ساتھ جائزہ لیا گیا۔ اس دوران ایک آزمائش جسے کئی بار آزمایا گیا، وہ ماں اور بچے کے درمیان ایک خاص رابطہ اور ہماہنگی تھی یعنی ماں اور بچے کے احساسات یکسان تھے۔ اگر ماں کسی چیز سے چونک جاتی یا خوف محسوس کرتی تو بچے پر بھی وہی اثر پڑتا۔ اسی طرح اگر کوئی چیز ماں کے مزاج کو پسند نہ آتی تو وہ بچے کو بھی نہ بھاتی۔ بچہ چار پانچ مہینے سے ماں کی آواز پہچانتا ہے، ماں کے جذبات سمجھتا ہے، احساسات کا بخوبی ادراک کرتا ہے۔ در حقیقت بچہ ماں کی آنکھوں، کانوں اور احساسات کے ذریعے باہر کے ماحول کا ادراک کر رہا ہے۔ در ایں اثناء ماں کے ذریعے بچہ دوسرے افراد اور اشیاء سے معرفت حاصل کرتا ہے۔
انسان کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے : ’’ اُطْلِبُوا الْعِلمَ مِن المَھْدِ الٰی اللّحَد‘‘ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ ماں کی گود انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ہے۔ بے شمار احادیث میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ بچے کی دینی پرورش کا آغاز نوں ماہ سے ہوتا ہے کہ جب وہ ماں کہ جسم کا حصہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ دو چیزوں کا ان کی تربیت میں بہت زیادہ اثر تھا: ایک تولد سے قبل ماؤں کا دینی محافل میں شرکت کرنا، قرآن کریم سے انس اور آیات الہی کی باقائدہ تلاوت اور دوسرا تولد کے بعد بچے کو با وضو ہو کر دودھ پلانا۔ اکثر حافظان قرآن ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے جن میں قرآن و مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی بچے نے یا ماں کے آغوش میں یا پھر کمسنی میں تلاوت قرآن سنی ہے۔ اسی طرح رزق حلال نیک اولاد کی پرورش میں نہایت مؤثر ہے۔
لیکن شیطانی قوتوں نے تاریخ میں انسانی اخلاق و کردار کو مسمار کرنے کی انتھک کوشش کی ہے اور اس درمیان سب سے زیادہ ظلم خواتین پر ہوا ہے۔ کبھی عورت زندہ دفنا دی جاتی، کبھی عورت کو زینت کا وسیلہ بنایا جاتا، کبھی عورت کو آزادی کے نام پر فساد و فحشا کا نشانہ بنایا جاتا، کبھی عورت تمدن و ترقی کے نام پر ہوس کا نشانہ بنتی اور کبھی عورتوں کے نام پر تساوی حقوق کا نعرہ لگا کر سیاست بازوں نے انے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ یہ سب اس لئے ہوتا رہا کہ عورت کو ضعیف اور کمزور سمجھا جاتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں مغربی اقوام میں تو عورت سے جانوروں سا سلوک کرتے تھے۔ عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے اور اس کو اپنے گھریلو کام کاج کے لئے استعمال کرتے۔ نہ عورت کو حق انتخاب دیتے نہ ہی اس کے لئے کوئی حقوق معین کیے تھے۔ جب چاہتے اسے گھر سے نکال دیتے، کسی کو بخشش کردیتے یا پھر غلاموں کی طرح اسے خرید و فروش کرتے۔ آج بھی مغربی تمدن میں عورت صرف حوس اور مردوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایک صدی پہلے تک عورت کو نہ وُوٹ دینے کا حق تھا اور نہ ہی اسے اپنے لئے کسی قسم کا حق انتخاب حاصل تھا۔ یہ اسلام ہے جس نے عورت کو مقام بلند مقام و منزلت عطا کی ہے۔
الغرض معاشرے کی سب سے پہلی اور سب سے مؤثر درسگاہ ماں کی گود ہے جو ہر شخص کی تربیت، تزکیہ نفس اور اخلاق میں بنیادی کردار اداء کرتی ہے۔ تاریخ خود بہترین گواہ ہے کہ ہر کامیاب انسان کے ہمراہ ایک باکردار عورت کا ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ناموفق انسان کے پیچھے بھی ایک بے کردار اور ناموفق عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خدا کے عظیم نبی ؑ ، ائمہ اطھار ؑ ، اولیاء اور اوصیاء کے ساتھ کم از کم ایک با کردار، قوی ہمت اور مضبوط ارادہ خاتون دیکھائی دیتی ہے۔ جو کبھی ایک ماں، بہن، بیوی، پھوپھی یا خالہ کی صورت میں کردار ادا کرتی ہے۔ نیک عورت خدا کی جانب سے نیک لوگوں کو ان کے نیک اعمال کا صلہ ہے۔ یہ ایک عطیہ الہی ہے۔ گویا کہ خدا نے ارادہ فرما دیا ہے کہ ہر نبی و امام بلکہ ہر صالح بندے کی پیدائش و تربیت عفیف و پاکدامن ماؤں کی گود میں انجام پائے گی۔ بلکہ یہاں تک کہ بچے کی تربیت میں ماں کا سایہ باپ کی نسبت زیادہ ضروری اور مؤثر بتایا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کے بسا اوقات بچوں کی پیدائش باپ کی وفات کے بعد ہوئی جیسا کہ بہت سے انبیاء کی ہوئی۔ جیسا کہ جناب رسالتماب ﷺ کی تاریخ میں ملتا ہے۔ بلکہ حضرت عیسیٰ کی زندگی میں تو باپ کا وجود ہی نہیں لیکن خدا نے ثابت کردیکھایا کہ پیدائش و پرورش کے لئے ماں کا وجود نہایت ضروری ہے۔عورت نہ صرف ایک فرد کی بلکہ قوم و ملت کی کردارسازی کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام مردوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کی خاص توجہ دلائی ہے بلکہ یکساں طور پر دونوں کی تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔ رسول اعظم اسلام ﷺ کا فرمان ہے : ’’ طَلَبُ العِلمِ فَریضۃٌ علیٰ کلِ مسلمٍ و مسلمۃٍ‘‘ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی تعلیم اسی حد تک ضروری ہے جس قدر مرد کی تعلیم۔ بلکہ یہ کہنا نابجا نہ ہوگا کہ عورت کی تعلیم کی اہمیت کسی لحاظ سے بھی مرد سے کم نہیں بلکہ شایدکہیں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ایک مرد علم حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ اپنے گھر کے لے مفید واقع ہوسکتا ہے جبکہ عورت کی تعلیم کا اثر گھر و گھرانے سے بڑھ کر شہر و معاشرے تک پھیل جاتا ہے۔ ایک مہذب عورت ہی بہترین انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ ایک با کردار اور مضبوط ارادہ عورت ہی دلیر قوم کو جنم دیتی ہے۔ ایک پرہیزگار و صاحب تقویٰ عورت ہی متقی و عبادت گزار بندے تربیت کرتی ہے۔ بالاخر یہ ماں ہی ہے جو ابتدا میں اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول فراہم کرتی ہے۔ اپنے گھریلو ماحول اور معاشرے کی فضاء کو اپنے اور دیگر بچوں کے لیے مہیا کرتی ہے۔ گویا جس معاشرے میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کی کثرت ہوگی وہاں نہ صرف گھر کا ماحول بلکہ معاشرہ بھی انسانی نشو ونما کے لیے نہایت سازگار ہوگا۔ جیسا کہ مشہور ہے انسان کا لباس اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح ایک پاک و پاکیزہ ماحول اور صاف ستھرا محلہ وہاں بسنے والوں کی شخصیت کی مفسر و مبیّن ہوتا ہے۔ یعنی ایک صاف ستھری گلی، پاکیزہ در و دیوار اور مھذب لوگ پڑھے لکھے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایک مناسب تعلیم یافتہ اور مہذب خاتون گھر یلو معاملات سے لے کر اہم اجتماعی امور میں قوم و ملت کے لیے نہایت مفید و کار آمد واقع ہوسکتی ہے۔ عورت کو خدا نے سکون و آرامش کا سبب بنایا ہے۔ یعنی عورت اپنے گھر میں اور معاشرے میں باعث سکون و آرامش ہوتی ہے۔ قرآن کی سورہ روم کی آیت ۲۱ میں خدا فرماتا ہے کہ ’’وَ مِن آیاتِہِ ان خَلقَ لَکُم من اَنفُسکم ازواجاً لتَسکُنُوا الیھا‘‘ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے تمہارے لیے بیویاں خلق فرمائیں تاکہ ان کے ساتھ سکون حاصل کرسکو۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مردوں کی تندخوئی کے مقابلے میں عورتوں کو نرم و لطیف مزاج عطا کیا ہے۔ عورت کو خدای تعالیٰ نے ایسا عظیم صبر و حوصلہ عطا فرمایا ہے کہ اس میں بڑی سے بڑی مشکل کو برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ اسی طرح عورت اپنے حوصلے اور بردباری سے مسایل کو نہایت دقت کے ساتھ حل کرنے کی طاقت ہے۔ خدا نے اپنے جلال سے مردوں کو اور جمال سے عورتوں کو نوازا ہے۔
جدید تحقیقات کہ مطابق مردوں کی نسبت خواتین، دفاتر میں آفس سیکٹری کا کام نہایت خوش اصلوبی سے انجام دیتی ہیں کیونکہ ان میں غصّہ برداشت کرنے اور افراد کے درمیان حسن روابط ایجاد کرنے کی توانائی ہوتی ہے۔ ایک مہذب عورت سے نہ صرف معاشرے میں لڑائی جھگڑے جنم نہیں لیتے بلکے اس کا وجود معاشرے کو سکون و آرامش مہیا کرتا ہے۔تمام مسایل کا آغاز گھر میں نامناسب ماحول کی وجہ سے ہوتا ہے جس وقت شوہر اور بیوی کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ گھروں کے جھگڑے معاشرے میں نا امنی کا باعث بنتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے چل کر قوم و ملت کے لیے عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر ابتدا ہی میں مسائل کو حل و فصل کرلیا جائے تو نہ صرف گھر و معاشرہ ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رہ جاتا ہے بلکہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی جنم لیتی ہے جو آئندہ نسلوں کی بہبود و سلامتی کی ضمانتدار ہوتی ہے۔ جس گھر میں بچے اپنے والدین کی مکمل توجہ اور محبت پاتے ہیں، ان کے وجود میں خود اعتمادی اور محبت جنم لیتی ہے۔ جن گھروں میں والدین کے مابین ناچاکی اور دشمنی پائی جاتی ہے وہاں پرورش پانے والے بچے ذہنی توانائیوں سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ وقت خیالی دنیا میں گزارتے ہیں، جھوٹ بولنا سیکھتے ہیں، اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں، ناقابل اعتماد و ناقبل بھروسہ شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں۔ در نتیجہ گھر میں بے توجھی اور بے حسی کی وجہ سے انکی شخصیت مجروح ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے سکول میں انہیں وہ سزائیں سہنی پڑتی ہیں جن کے وہ حقدار نہیں تھے۔ بچے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے والدین اور اساتذہ کو قصوروار سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے لیے گھر اور اسکول کی فضا مکمل طور پر اجیراً بن جاتی ہے۔
ان تمام مشکلات کا سرچشمہ والدین اور خصوصاً ماں کا کردار ہے، جو آغاز ہی میں ان تمام مسایل کو نہایت خوش اسلوبی سے حل و فصل کر سکتی ہے۔ یہاں پر یہ سمجھنا کے عورت قربانی کا بکرا بن رہی ہے سراسر غلط بلکہ نافہمی ہوگی اس لیے کے ایک پڑھا لکھا معاشرہ اپنے مسایل کو باہمی صلاح مشورہ سے حل و فصل کرتا ہے جس میں کبھی مرد اور کبھی عورت معذرت کی پالیسی کو بروئے کار لاتے ہیں، اور اگر ایک گھر ، صرف ایک لفظ معذرت سے بچ سکتا ہے تو اس میں ہار کسی کی نہیں بلکہ یہاں پر قابل قدر وہ ہے جس نے معذرت میں پہل کی۔ البتہ اور صد البتہ اگر ابتدا ہی سے گھرانے میں عشق و محبت کی فضا قائم ہو تو کبھی افراد میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوگی۔ ایک مہذب مذہبی گھرانے میں عورت مرکزی کردار اداء کرتی ہے۔ درحقیقت ماں افراد خانہ کو باہم متصل کرتی ہے اور انکے درمیان مناسب انس و محبت برقراررکھتی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب کبھی افراد خانہ کے درمیان کم توجہی پیدا ہوتی ہے اس کے منفی اثرات پورے گھر پر رونما ہوتے ہیں۔ ماں اپنی مہربانی اور شفقت سے بھری ممتا کے ذریعے، جو اس کو خداوند ارحم الراحمین کا خاص عطیہ ہے، گھر کو جنّت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ چیز اہلبیت اطھار علیھم السلام کے ہاں بھی ملتی ہے۔ رسول اعظم اسلام نے ۲۴ ذی الحجۃ الحرام عید مباہلہ کے روز جناب فاطمہ زہرا علیھا سلام کو درمیان میں قرار دے کر ثابت کر دیکھایا کہ اہلبیت علیہم السلام کہ درمیان محور و مرکز بی بی دو عالم حضرت فاطمہ علیھا سلام ہیں۔
در حقیقت مرد و عورت ایک دوسرے کے مکمِّل ہیں یعنی مرد کے بغیر عورت نامکمل ہے اور عورت کے بنا مرد۔ اسی لیے خالق یکتا و علیم نے مرد و عورت کو دو مختلف مزاج عطاء کیے ہیں تاکہ دونوں مل کر ایک پرُ مہر و روح فزا ماحول کی تشکیل دے سکیں جس میں اعلی انسان نشو و نما پا سکیں۔ قرآن کریم میں خدا نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس تعبیر کیا ہے جہاں سورہ بقرہ ۱۸۷ میں فرماتا ہے ’’ ھُنَّ لباسٌ لکم و انتم لباسٌ لھُنَّ‘‘ وہ تمہارے لیے حجاب اور تم ان کا حجاب ہو۔ یعنی ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے ہو۔ گویا کہ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
مرد کو بیرون منزل کے دشوار امور انجام دینے کے لیے اور عورت کو اندرون خانہ کے امور نمٹانے کے لیے بنایا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ جناب رسول اعظم اسلام ﷺ نے جناب سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا علیھا سلام اور جناب امیراللمومنین علی علیہ السلام سے نکاح کے موقع پر خطاب فرمایا:
’’ یا علی ! بیرون خانہ کے امور آپ کے ذمہ اور درون خانہ کی ذمہ داریاں فاطمہ کے سپرد!‘‘ اس موقع پر دُخت رسول جناب بطول نے اظہار مسرّت فرمایا۔ جیسا کہ جب جناب فاطمہ علیھاسلام سے پوچھا گیا کہ ایک عورت کے لیے کیا چیزباعث سعادت ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا ’’نہ کوئی (نا محرم) اسے دیکھے اور نہ وہ کسی (نا محرم) کو دیکھے۔‘‘
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین معاشرے میں ایفاء نقش نہ کریں اور اپنا مثبت کردار اداء نہ کریں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت عفت و طہارت کہ حجاب میں رہتے ہوئے اپنا کردار اداء کرے۔ جناب بتول علیھا سلام کہ اس کلام کا مقصد معاشرے میں عورت کا مقام محفوظ رکھنا اور حوس و شہوت کا سد باب کرنا ہے۔ حجاب کی حکمت بھی یہی ہے کیونکہ عورت کا حسن و جمال صرف اس کے شوہر کے لیے ہے اور اس کا شیرین لب و لہجہ اور لطیف مزاج اولاد کی بہتر تربیت کے لیے ہے۔ تمام آسمانی و الہی خواتین نے اپنے زمانے کے اولیاء اور اوصیاء الہی کی مدد و نصرت کی ہے۔ اسلام میں بھی بانوی اول اسلام جناب خدیجۃ الغرّ اء نے اسلام کے آغازین دور میں اپنے مال سے دین اسلام اور مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائی اور اپنی شفقت و مہربانی سے رسول اللہ کو دلگرمی اور حوصلہ عطاء فرمایا۔ اسی طرح سیدۃ النّساء العالمین جناب فاطمہ زہراء علیھا سلام نے بھی جنگوں اور غزوات میں دیگر مسلمان خواتین کے ہمراہ زخمیوں کی تیمار داری کے فرائض انجام دیے ہیں اور اسی طرح جب ضرورت پیش آئی تو امامت و ولایت جناب امیراللمومنین علی علیہ سلام کے دفاع کے لیے اور امت کو صحیح راستہ دیکھانے کے لیے چادر عصمت اوڑھ کر انصار و مہاجرین کے گھر گھر جا کر انہیں غدیر خم میں بیعت مولا علی (ع) یاد دلائی۔ یہاں تک کہ بھری مسجد میں مسلمانوں کے سامنے لب و لہجہ رسول ﷺ میں وہ عظیم تاریخی و یادگار خطبہ بیان کیا جس سے تاریخ پر حقیقت ہمیشہ کے لیے آشکار ہوگئی۔ بلکہ وقت آنے پر جناب سیدہ علیھا سلام نے امامت و ولایت کی حفاظت میں اپنی جان تک قربان کردی۔ جناب فاطمہ زہرا کی گود میں پرورش پانے والی ثانی زہراء محافظہ انقلاب عاشورہ زینب علیھا سلام نے بھی دوران حیات حجاب کی قداست رکھتے ہوئے معاشرے میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا مقدس کام جاری رکھا۔ امیراللمومنین علی (ع)کے دوران حکومت میں جناب زینب علیھا سلام نے شہر کوفہ میں ۲۰۰۰ سے زائد خواتین اور بچیوں کے لیے تعلیمی سلسلہ کا انعقاد فرمایا اور بذات خود بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس عظیم مخدرہ نے، کے جن کو حتی بنی ہاشم نے کبھی دن میں گھر سے باہر نہ دیکھا اور نہ نا محرموں نے کبھی آواز سنی تھی، صرف مکتب اسلام اور انقلاب حسین (ع) کی پاسداری کی خاطر، کوفہ و شام اور حتی دربار شام میں علی (ع) کے لب و لہجہ میں ایمان افروز خطبے بیان کیے اور اسلام کے وجود کو تازہ روح بخشی۔
اگر عظیم با کردار ماؤں کی تربیت نہ ہوتی تو ان مصائب کا برداشت کرنا ناقابل تصور تھا۔ یہ محسنہ دین، جناب خدیجہ علیھا سلام کا دامن تھا، یہ مظلومہ تاریخ، جناب فاطمہ زہرا علیھا سلام کا پاکیزہ آغوش تھا جن سے حسنین علیھما السلام اور زینبین علیھما السلام جیسے گوہر وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانے کے محی الدین و الاسلام امام خمینی ؒ ، جس نے اپنے انقلاب کو انقلاب کربلای حسینی سے متصل کر کے مسلمانوں کو ایک نیا جوش اور ولولہ عطاء کیا، اپنے ایک نہایت اہم اور تاریخی کلام میں جناب فاطمہ زہرا علیھا سلام کی تعریف میں فرمایا ہیں:
’’ تمام کمالات جو کسی عورت یا انسان میں تصور کیے جاسکتے ہیں یکجا جناب فاطمہ کی شخصیت میں نمایاں تھے۔ حضرت زہرا کوئی معمولی شخصیت نہیں تھیں۔۔۔ وہ ایک روحانی ہستی تھیں۔۔۔ایک ملکوتی ہستی۔۔۔ صحیح معنوں میں انسان کامل ۔۔۔ مکمل انسانی نسخہ ۔۔۔ حقیقۃً ایک کامل خاتون ۔۔۔ حقیقتاً کامل انسان۔ ہرگز عام معمولی انسان نہیں تھیں؟ بلکہ ایک ملکوتی ہستی تھیں جو انسان کے روپ میں جلوہ افروز ہوئیں ۔۔۔ ایک الہی جبروتی ہستی جو عورت کے روپ میں ظاہر ہوئیں۔ ان میں تمام انبیاء کے اوصاف موجود تھے ۔۔۔ ایسی خاتون، کہ جو اگر مرد ہوتیں تو نبی ہوتیں ۔۔۔ جو اگر مرد ہوتیں تو رسول اللہ کے مقام پر فائز ہوتیں‘‘
کس قدر فاصلہ ہے ہماری پہچان میں۔۔۔ہماری معرفت میں۔۔۔ہماری سوچ میں ۔۔۔ اور کس قدر فقدان ہے ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں۔کیا ان ہستیوں کو ٹھیک سے پہچانے بغیر کوئی بھی عمل مکمل ہوسکتا ہے؟!!
تربیت کے موضوع میں سب سے زیادہ اہمیت ماں کے کردار کی ہے اور افسوس کی بات ہے اس موضوع میں سب سے زیادہ ظلم عورت پر ہوا ہے۔ حتی ہمارے دینی گھرانوں میں بجائے اس کے کہ دین کو سہی طریقے سے اور سہی ذرائع سے حاصل کرتے، افسوس کا مقام ہے کے اس موضوع پر بے جا تعصب کی وجہ سے شاید بالکل توجہ نہیں دی گئی۔ جس کے نتیجہ میں نسلوں کی نسلیں برباد ہوکر رہ گئیں۔ البتہ اس مقام پر کسی خاص فرد یا گروہ کو قصوروار ٹہرانا منظور نہیں، بلکہ موضوع کی اہمیت اجاگر مقصود ہے۔ شاید آسان ترین راستہ یہ ہوگا کہ دیکھیں ایران کا انقلاب اس زمانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ لبنان میں بار بار فتح کیسے نصیب ہوئی؟
پوری تاریخ میں کہیں کوئی ایسی فتح دکھائی نہیں دیتی جس میں خواتین کے مضبوط ارادوں کے بغیر مردوں کو کچھ حاصل ہوا ہو۔ اسلام کے آغاز کی سختیوں میں ام عمار ؑ کی دلیرانہ شجاعت نظر آتی ہے، ہجرت حبشہ میں جناب ام حبیبہ نظر آتی ہیں، شعب ابیطالب میں جناب خدیجہ نمایاں دیکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح جناب فاطمہ زہرا ؑ جنگ بدر کے معرکے سے لے کر، احد کے میدان میں، خندق کے حصار میں، ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ کہیں زخمیوں می تیمارداری، کہیں مردوں کو رجزخوانی کے ساتھ حوصلہ اور وقت آنے پر ہاتھوں میں ہتھیار لے کر رسول اللہ ؐ کی جان کی حفاظت کرتی نظر آتی ہیں۔اور کبھی امامت کے دفاع میں گھر سے باہر نکل آتا ہیں، اگر امیرالمومنین کو زبردستی مسجد لیجانے آتے ہیں تو بی بی نہ صرف مخالفت کرتی ہیں بلکہ عملی طور پر دشمن سے اظھار دشمنی فرماتی ہیں اور آخر حیات تک مدینے والوں سے ناراض رہ کر اپنی استقامت اور مخالفت کا اظھار فرماتی ہیں۔
اسی طرح کربلا میں جناب زینب علیھا سلام نے قافلہ سالار بن کر دنیا کی خواتین کو ایک بار پھر اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ البتہ انصاف تو یہ ہے کہ کوئی سوچ اور قلم اس شجاعت و استقامت کو بیان نہیں کرسکتی جو امیراللمومنین کی صاحبزادی جناب زینب نے حادثہِ کربلا میں دیکھائی۔ کہ اگر وہ مصائب پہاڑ پر گرتے تو انہیں پاش پاش کردیتے، اگر زمین پر برستے تو اسے ویران کردیتے اور اگر دریاؤں پر جاری ہوتے تو شدت گرما سے انہیں خشک کر دیتے۔ لیکن قافلہ سالار جناب زینب کبریٰ شجاعت اور استقامت کے ساتھ اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں۔اگرچہ مشیت الہی میں مومنین اور صالحین کو آزمائیشوں سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ جناب ابراہیم خلیل اللہ، اپنے زمانے کے نمرود سے بے شمار بحث و جدل کے بعد آتش نمرود سے آزمائے گئے، جسے خدا نے آپ کے لیے گلستان بنادیا۔ پھر جناب ابراہیم ، ہاجرہ اور اسماعیل سے جدائی کے ذریعے آزمائے گئے اور ایک دن اپنے تنھا فرزند اسمعیل کو ذبح کرنے کے حکم سے آزمائے گئے۔ اور جب جناب ابراہیم تمام آزمائیشوں پر پورا اترے تو خدا نے انہیں مقام امامت عطا فرمایا۔پھر انبیاء میں سے جناب ایوب نہایت دشوار آزمائیشوں سے آزمائے گئے، انہوں نے تمام پر صبر کیا اور یوں صبر ایوب زباں زدِ خاص و عام ہوگیا۔
خود جناب سید الشّھداء امام حسین (ع) نے بھی صبح عاشور سے ظہر تک شدید آلام و مصائب برداشت کئے اور اسی روز ظہر سے لے کر عصر عاشور تک اپنے جگر گوشوں اور معزز اصحاب رسول (ص) کو اپنی ہی نگاہوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھا، اور آخر میں ذبح عظیم کی تفسیر اپنے خون مبارک سے فرمائی۔ لیکن امام حسین (ع) نے دین کی حفاظت اور پیغام کربلا کو بہتر طریقے سے ہر جگہ پہنچانے کی خاطر اپنی خواتین اور بچیوں کو ساتھ لا کر حادثہ عاشورہ کو مزید دلخراش بنادیا۔ جب امام حسین (ع) سے پوچھا گیا؛ ’’آپ اپنے ساتھ میں عورتوں اور بچوں کو کیوں لے کر جا رہے ہیں؟‘‘ آپ (ع) نے فرمایا: ان کو میرے ساتھ ضرور جانا ہے۔‘‘ در حقیقت جناب سّید الشّھداء نے ایسے شجاع اور با استقامت مبلغین کو انتخاب کیا تھا کہ جو آپ ؑ کی شھادت کے بعد دشمن کے قلب یعنی شام و کوفہ پر ضرب کاری لگا سکیں۔ درحقیقت یہ امام حسین (ع) کی ایک نہایت ہی گہری اور عمیق جنگی حکمت عملی تھی۔
امام حسین کی اسی نہج کو مد نظر رکھتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے فرمایا: ’’۱۵ خرداد ۱۳۴۲ (۱۹۶۳) کی تحریک کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں خواتین کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘‘ اور ۲۲ بہمن ۱۳۵۷ (۱۹۷۸) میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے متعلق متعدد بار فرمایا: ’’ انقلاب کی کامیابی میں ہماری خواتین کا بنیادی کردار تھا، اگر مردوں سے آگے نہ ہوں، تو ہرگز اُن سے پیچھے بھی نہیں تھیں۔‘‘
یہ حکمت عملی امام خمینی نے اپنے سرور و سالار امام حسین سے سیکھی تھی اور آپ معتقد تھے کہ مسلمانوں کی فتح و کامیابی کا راز عاشورہ کو اس کے تمام زوایا کے ساتھ زندہ رکھنے میں ہے۔
انقلاب حسینی اور حماسہ عاشورہ میں جس شخصیت نے سب سے بیشتر امام حسین سے نورانیت حاصل کی اور بہترین درس حاصل کیا وہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا تھیں۔ جیسا کہ فارسی زبان میں ایک مشہور شعر ہے:
ترویج دین اگرچہ بہ قتل حسین شد
تکمیل آن بہ موی پریشان زینب است
یعنی اگرچہ دین کی ترویج امام حسین کے خون سے ہوئی لیکن اس کی تکمیل بی بی زینب کے پردہ چھننے نے کی۔
حقیقتاً عجیب ماجرا ہے، زینب جو دامن علی (ع) و زہرا میں پروان چڑی ہیں، جنہوں نے کبھی دن میں مدینے کے گلی کوچوں کو نہ دیکھا تھا، کس قدر مظلومیت ہے کہ وہ اب کربلا میں کیا کیا کچھ سہیں گی۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جناب زینب کی شخصیت نے کربلا کے بعد مزید عظمت اور وقار حاسل کرلیا۔ یعنی کربلا سے پہلے والی زینب ؑ اور بعد والی زینب ؑ میں فرق ہے۔ کربلا میں ہم دیکھتے ہیں کے بی بی زینب ایک دو بار پریشان اور مضطرب ہوئیں اور رونے پر قابو نہ پاسکیں۔ یہاں تک ایک مرتبہ اس قدر روئیں کے دامن حسین ؑ میں غش کھا گئیں لیکن حسین نے آرام آرام بہن کو دلاسہ دیا۔ زینب! دامن صبر کو ہاتھ سے مت جانے دو! وسوسوں کو نزدیک نہ آنے دو! کیا تمہیں یاد نہیں میرے نانا مجھ سے بہتر تھے وہ بھی اس دنیا سے چل بسے! میرے بابا ، میرے بھائی اور میری مادر اسی طرح۔ اس وقت جناب زینب نے فرمایا: ’’بھائی حسین (ع) : جب وہ سب گئے تو میری کوئی سرپناہ تھی لیکن آپ کے بعد میرا کون ہے؟‘‘
لیکن جوں ہی عاشور کے دن ڈھلتا ہے جناب زینب کی شخصیت تبدیل ہوگئی اور حسین کا وقار اور عظمت آپ میں دیکھائی دینے لگی۔ یہ چیز ہمیں ایران میں دیکھائی دیتی ہے کہ جہاں صدّام کے خلاف جنگ میں مائیں اپنے بچوں کو جنگ کے لیے روانہ کرتی ہیں اور فطرتاً بعض مائیں پریشان بھی ہوتی تھیں لیکن جب ان کی شہادت کی خبر موصول ہوتی اور ساتھ میں شہید کی وصیت ملتی کہ’’ میرے جنازے پر گریہ نہ کرنا بلکہ اگر کبھی رونا چاہیں تو حسین کی مظلومیت پر رو لینا یا اگر میری جوانی کی یاد آئی تو حسین (ع) کے علی اکبر ؑ کو رولینا! کبھی امام خمینی کو تنھا نہ چھوڑنا اور ہمیشہ اپنا جان مال ان کے لیے قربان کرنا۔ کیونکہ وہ نائب امام زمان (عج) ہیں۔‘‘
یہ سُن کر مائیں اپنے ہاتھ آسمان کی جانب بلند کرتیں اور دعا کرتیں ’’خدا ہماری قربانی قبول فرما‘‘۔ پھر خود بھی کوشاں نظر آتیں کہ اپنے ہاتھوں سے مجاہدین کے لیے مختلف اشیاء خورد و نوش کی جمع آوری اور ارسال میں مدد کرتیں۔ گویا اپنے فرزندوں کے گرے ہوئے پرچم اپنے ہاتھوں سے بلند کرتیں۔یہ رشادت یہ شجاعت مکتب حسین (ع) کی ہے جو ان ماؤں نے جناب زینب سے پائی ہے۔یعنی اگر مردوں نے حسینی کام کیا تو عورتوں نے زینبی کام کر دیکھایا۔ بلکہ گھروں میں خواتین مشعل بردار انقلاب تھیں، یعنی خواتین کے ذریعے انقلاب گھر وں کے اندر داخل ہوا۔عرض ہوا کہ جناب زینب واقعہ کربلا کے بعد تبدیل ہوگئیں، اب آپ کے آگے کسی مستکبر کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
جناب امام سجاد (ع) فرماتے ہیں؛ ’’ہم بارہ افراد تھے جنہیں ایک ہی زنجیر سے باندھا ہو تھا۔ زنجیر کا ایک سرا میرے بازو میں اور دوسرا سرا میرے پھوپی زینب کے بازو میں تھا۔‘‘ کہتے ہیں کے اسراء دوم صفر کو دمشق میں داخل ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ شام میں داخلے کے وقت جناب زینب کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ۲۲ دن بیت چکے تھے۔ ۲۲ دن اسارت کی سختیاں برداشت کیں؛ اور اس حال میں انہیں یزید بن معاویہ کے دربار میں حاضر کیا گیا؛ وہ دربار جسے معاویہ نے تعمیر کروایا تھا جو قلعہ اخْضَر یعنی سبز کے نام سے مشہور تھا؛ اور جس کا شکوہ و دبدبہ اور جس کی رعنائیاں ہر دیکھنے والے کو مسحور کردیتی تھیں۔ اس حال میں اسراء کو لایا گیا، جناب زینب ؑ کبریٰ رنجور اور ماتم زدہ جب اس محفل میں داخل ہوئیں توآپ کے رعب و وقار سے محفل پر ایک عجیب دہشت چھا گئی یہاں تک کہ یزید جس کی فصاحت و بلاغت مشہور تھی، گونگا ہوگیا۔ پھر اس محفل میں بنت علی ؑ نے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ یزید پر موت کا سکتہ تاری ہوگیا۔ یزید اس بے آبروئی سے بچنے کے لیے احمقانہ کوششیں کرتا رہے لیکن جناب زینب کبری علیھا سلام اسی طرح مضبوط اور مستحکم ارادے کے ساتھ مقاوم کھڑی رہیں۔امام خمینی اپنے ایک خطاب میں شہر قم مقدسہ کی خواتین سے فرماتے ہیں:
’’آپ خواتین نے ثابت کر دیکھایا ہے کہ آپ پیش قدم ہیں۔ آپ نے ثابت کردیا کہ آپ مردوں سے آگے پیش پیش ہیں۔ مرد حضرات آپ سے الہام حاصل کرتے ہیں۔ ایرانی مردوں نے خواتین سے تعلیم پائی، خواتین سے سیکھا ہے، اور قم کے مرد حضرات نے آپ سے عبرت حاصل کی اور تعلیم پاتے ہیں، آپ خواتین اس تحریک میں پیشاپیش ہیں۔۔۔‘‘
آگے فرماتے ہیں؛ ’’ میں آپ تمام کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس قیام میں شرکت فرمائی، اور اُن تمام ماؤں کا جنہوں نے اس راہ میں اپنے فرزند قربان کیے، اور اس ماں کا جس نے ایک شہید دینے کے بعد کہا کہ میں اپنے دوسرے بیٹے کو بھی قربان کروں گی۔‘‘یہ افکار یہ سیرت و کردار سارے کا سارا کربلائی و عاشورائی ہے۔ تاریخ بنانے میں مردوں کا کردار ہے یا عورتوں کا، اس سے متعلق تین قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔
۱۔ تاریخ میں بنیادی کردار صرف مرد کا ہے اور خواتین کا کوئی کردار نہیں۔
۲۔ مرد و عورت دونوں کا ملا ہوا کردار ہے یعنی کبھی مرد عورت کی جگہ لے لیتا ہے اور عورت مرد کی جگہ۔ جیسا کہ بعض اوقات مرد عورتوں کی ذمہ داریاں سنبھال لیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد بچے سنبھالتا ہے اور عورت کاروبار کرتی ہے۔ در حقیقت مرد و عورت ایک دوسرے کے دایرہ اختیارات میں داخل ہوجاتے ہیں۔
۳۔ مرد و عورت تاریخ کی تشکیل میں دونوں برابر اہمیت رکھتیں ہیں لیکن مرد اپنے حدود و اختیارات میں اور عورت اپنے حدود و اختیارات کے اندر۔ جب ہم قرآن کریم میں تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دین و مذہب میں مرد و عورت دونوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسا کہ شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں تاریخ مذنّث یعنی مذکر و مونث دونوں کے بشمول لیکن نہ ایک دوسرے کہ ساتھ مل جل کر بلکہ ہر کوئی اپنی حدود میں جدا جدا۔
تاریخ کربلا در حقیقت ایک مذکر و مونث تاریخ و حادثہ ہے، ایسی تاریخ جس میں مرد و عورت دونوں کی نقش آفرینی ہے، اور دونوں نے صبر و شجاعت کے ساتھ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے قیام کیا ہے۔
اسی لیے حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) نے اپنے اہل بیت کو اپنے ہمراہ لیا ہے کیونکہ ان کی بھی تاریخ میں عظیم ذمہ داری ہے، انہوں نے بلا واسطہ تاریخ کی تشکیل میں اپنا کردار اداء کرنا ہے۔ انہوں نے جناب زینب کبریٰ علیھا سلام کی سپہ سالاری میں اپنی حدود سے خارج ہوئے بغیر نقش آفرینی کرنی ہے۔ ایرانی خواتین نے بھی کربلا کی خواتین کی تقلید و پیروی میں دوران انقلاب اور صدام کی آغاز کردہ جنگ میں بھی خود اپنے مردوں اور جوانوں کو میدان کارزار کے لیے آمادہ کیا اور بعد شھادت بھی صبر کا جام نوش کرکے قافلہ سالار شام کی طرح شھداء کے مشن اور مقاصد کے پرچار کی خاطر سرگرم عمل ہوگیءں۔ اس مقام پر امام خمینی کا قول یاد آتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں؛
’’ ہمیں جتنی بھی کامیابیاں نصیب ہوئیں ہیں اس کے لیے ہم مردوں کی نسبت خواتین کے زیادہ مرہون منت ہیں۔ ہماری خواتین ہمیشہ اگلی صفوں میں پیش پیش رہی ہیں۔ ہماری خواتین مردوں میں جرات و شجاعت کا سبب بنیں۔ ہم آپ خواتین کی زحمتوں کے مرہون منت ہیں اور ہمیشہ آپ کے لیے اور پوری ملّت کی سربلندی کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘
جیسا کہ قبلاً ذکر ہوا ہے کہ کربلا میں مرد و عورت ہر کسی نے اپنے حدود و اختیارات کے دائرے میں ذمہ داری انجام دے رہا تھا اور جناب زینب کبریٰ علیھا سلام نے عصر عاشورہ سے تجلّی فرمائی۔
در حقیقت کہا جا سکتا ہے کہ حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام دو حصوں میں انجام پذیر ہوا ہے؛ پہلا حصہ امام حسین کی شہادت کے ساتھ ختم ہوااور دوسرا حصّہ، جو دراصل پہلے حصّے کا ہی تسلسل تھا، صبر و استقامت کی بے مثل مثال ثانی زہرا جناب زینب کبریٰ علیھا سلام کی قافلہ سالاری کے ساتھ آغاز ہوا۔ وہ قافلہ، جو کربلا کو فتح کرنے کے بعد اب صرف چند عورتوں، بچوں اور ایک بیمار مرد پر مشتمل تھا۔ سب کے سب اپنا کوئی نہ کوئی عزیز قربانگاہ الہی میں فدیہ دے کر آئے تھے۔ اور ان سب کے درمیان جناب زینب ؑ کا غم سب سے بیشتر تھا۔
تمام شہیدوں کا غم دل میں سمیٹتے ہوئے،
دوسروں کو حوصلہ دیتے ہوئے،
بیمار کربلا کی تیمار داری کرتے ہوئے،
منصب امامت کی حفاظت کرتے ہوئے،
بیواؤں کو ہمت دیتے ہوئے،
معصوم یتیموں کے آنسو پونچھتے ہوئے،
اور امام حسین اور شہداء کربلا کی قربانیوں کے مقاصد کو زندہ کرتے ہوئے،
وقار مصطفوی ، شجاعت حیدری اور غیرت زہرائی کے ساتھ ؛
جناب زینب کبریٰ قافلہ لے کر شام کو فتح کرنے چلیں۔
اس قافلے میں تنھا مرد سید السّاجدین امام زین العبدین (ع) تھے، جو روز عاشورہ سے بامر الہی بستر بیماری پر تھے۔ حاکم کوفہ ابن زیاد کا حکم تھا کہ کسی مرد کو زندہ باقی نہ رہنے دیا جائے، چند مرتبہ دشمنان خدا نے امام کو قتل کرنا چاہا، لیکن جناب زینب کبریٰ کی شجاعانہ اور دلیرانہ استقامت کے آگے بے بس ہوگئے۔ جناب زینب کبریٰ علیھا سلام نے دوران سفر امام زین العابدین کی تیمارداری کر کے در حقیقت نسل امامت کی حفاظت فرمائی۔ یہ شجاعت اور دلیری در حقیقت جناب علی و زہرا علیہم السلام کی تربیت و تعلیم کا ثمرہ تھا۔
سب سے پہلی مجلس عزا جناب سیدہ زینب کبریٰ علیھا سلام نے گیارہ محرم الحرام کو مقتل و معراج شہداء کربلا میں برپا کی۔ اسراء و ناموس اہلبیت کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کیا گیا؛ جناب زینب کبریٰ نے تمام یتیموں اور بیواؤں کو سوار کیا؛ امام صبر و استقامت امام زین العابدین (ع) کو سوار کیا، بیماری کی وجہ سے امام کے پیر اونٹ کے شکم سے باندھ دیے گئے۔ قافلہ لُٹے ہوئے، جلے ہوئے خیام حسینی سے چلا۔ جیسے ہی مقتل سید الشّھداء (ع) کے قریب پہنچا تمام اسراء نے محملوں کو رہا کر کے خود کو خاک کربلا پر گرا دیا۔ سب سید الشّھداء کے بدن اطہر کے گرد جمع ہوئے۔ نواسہ رسول، دلبند بتول کو ایسی حالت میں دیکھا جو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ امام عاشقاں کا برہنہ ، سر بریدہ زخموں سے چور بدن جسے شکستہ تیروں، نیزوں اور پتھروں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ جناب زینب کبریٰ نے خود کو بھائی کے بدن پر گرا دیا۔ اس قدر شدید آہ و نالہ کیا ’’فاَبْکت کُلّ عَدُوٍ ٍ وَ صَدیقٍ‘‘ کہ جس سے ہر دوست و دشمن رونے لگ پڑا۔ اور عصر عاشورا شہادت حسین بن علی (ع) کے بعد جناب زینب کبریٰ نے فرمایا؛ ’’ ربّنا تقبّل مِنّا ہذا القلیل‘‘ ہمارے پالنے والے ہم سے یہ بہت تھوڑا قبول فرما۔‘‘
امام خمینی نے کربلا کے حقائق کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے، مجالس نوحہ و ماتم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ مجالس کے گہرے اور عمیق اثرات سے اکثر لوگ ناواقف ہیں اور بعض تو اسے بے اہمیت سمجھتے ہیں۔ یہ جو ہماری احادیث میں ایک قطرہ اشک بہانے اور تباکیٰ (یعنی رونے کی صورت بنانے) کی اس قدر اہمیت اور ثواب بیان ہوا ہے اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ امام حسین (ع) اپنے شیعوں کے اشک و نالہ و ماتم کے منتظر ہوں، بلکہ اس ثواب کے بیان کا اصل مقصد انقلاب عاشورا کو زندہ رکھنا ہے۔‘‘ایک اور جگہ پر امام خمینی تاریخ انقلاب اسلامی کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’پہلی مرتبہ جب حکومت شاہ کے کارندوں نے مجھے قم سے گرفتار کر کے گاڑی میں لے جا رہے تھے تو انہوں نے کہا ’’کہ ہم آتے ہوئے ان کالی چادروں سے (انقلابی خواتین جو شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرتی تھیں) خوفزدہ تھے کے کہیں انہیں خبر نہ ہوجائے اور یہ ہمارے کام میں رکاوٹ بن جائیں۔‘‘ یہ لوگ تو کیا، تمام بڑی قوتیں ان سے ڈرتی ہیں، یہ خواتین جن کی کوئی سربراہی کرنے والا نہیں؛ یہ اپنے ذاتی جذبے کے ساتھ پوری ملت کو آپس میں متحد کرتی ہیں۔ سید مظلومان کی انہی مجالس عزا و سوگواری اور نوحہ خوانی اور ذکر مظلومیت امام حسین (ع) کے جنہوں نے خدا اور اس کی رضا کی خاطر اپنی جان اور اولاد و اصحاب کو فدا کردیا، نے ایسے جوان پیدا کئے جو جنگ (ایران پر صدام کی مسلت کردہ آٹھ سالہ جنگ) میں شرکت اور شھادت کی آرزو رکھتے ہیں اور شھادت پر افتخار کرتے ہیں۔ اور ماؤں کو صبر اور جرات سے ایسا دلیر بنا دیا کہ جب ان کا فرزند شہید ہوتا تو کہتیں؛ ہمارے پاس جنگ میں بھیجنے کے لیے مزید ایک دو فرزند اور موجود ہیں۔‘‘
امام خمینی کے الفاظ اس قدر لوگوں کی جانوں میں اثرگزار ہوتے ہیں کے جب جنگ کے دس بارہ سال بعد شہداء کی صرف چند ہڈیاں اور گلے میں نمبر والی زنجیر اُن عظیم ماؤں کو دی جاتی تو جناب زینب کبریٰ (س) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ بھی کہہ دیتیں کہ، اے خدا! ہم نے تیرے مقرب بندے کی پکار پر لبیک کہا۔ یہ معاملہ ہم نے تیرے ساتھ کیا اور جو تیری راہ میں دے دیا اس کی بازگشت کی بھی ہمیں تمنا نہیں ہے۔یہاں پر میں ایران کے ایک شہر اراک میں بسنے والے شہید کے ایک خاندان کا واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ اس گھر میں ماں نے تین بیٹے، ایک بھائی اور چند بھانجے دوران جنگ اسلام کو ہدیہ کیے ہیں، اور دو بیٹے جنگ میں معذور ہوگئے ہیں۔ ایرانی سال کے آغاز سے ایک روز پہلے جسے نوروز کہتے ہیں، شہر اراک میں سیکڑوں شہید لائے گئے جن میں اس گھر کے دو شہید بھی شامل تھے۔ تمام شہداء سے وداع کے لیے ایک محفل کا انتظام کیا گیا جہاں پر شہداء کے جنازوں کے علاوہ ان کے ورثاء بھی موجود تھے۔ ان دو شہیدوں کی ماں،
دوسرے شہیدوں کے ورثاء کی مانند، نہایت قوی روح اور مضبوط ارادے کے ساتھ کھڑی ہوکر ہزاروں آنے والوں کی تعزیت قبول کرتی رہیں اور غفلت زدہ کو درس استقامت کا ایک بے مثال درس دیتی رہیں۔ کبھی کبار آنے والوں سے کہتیں میرے بیٹے علی اکبر اور قاسم سے زیادہ عزیز تو نہیں۔ یہاں تک کہ امام خمینی کی وفات ہوگئی۔ جب لوگ انہیں ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ امام خمینی ؒ کی وفات ناقابل تحمل ہے، اور ساتھ ہی ان کی آنکھیں اشک آلود ہوجاتیں۔ وہ کہتیں، ’’میرا دل چاہتا ہے جتنا جلدی ہوسکے میں امام خمینی ؒ کے گھر والوں سے جاکر ملاقات کروں اور انہیں بتاؤں کے ہم ان کے ساتھ ہیں جیسے امام خمینی ہمیشہ ہمارے ساتھ تھے۔‘‘
ایران کے لوگوں پر امام خمینی کا اتنا گہرہ اثر صرف عاشورا میں قیام حسینی (ع) اور صبر زینبی کا واضح نمونہ ہے۔ امام خمینی نے کس قدر فصیح و بلیغ کربلا کی تفسیر کی اور لوگوں نے کس قدر خوبصورتی سے آپ کے فرمان پر جان نچھاور کی۔
ایک اور مقام پر امام خمینی جمعہ اور جماعات کے پیش نماز حضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ جس قدر میں آگاہ ہوں اس سے بڑھ کر صحیح طریقے سے مسئلہ عاشورا کو لوگوں کے لیے واضح کریں۔ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کے ہم رونے والی قوم ہیں۔ ہم وہ ملت ہیں جس نے دو ہزار پانچ سو سالہ جابر حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔‘‘
ان تمام چیزوں کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ عاشورا کا اصل مقصد سمجھ میں آجائے اور وہ ہر ظلم کے مقابلے میں آواز، ہر برائی کا خاتمہ، مظلوم کی فریادرسی اور ظلم و ظالم کا قلع قمع ہے۔ چاہے اس راہ میں جان، مال، عزت، آبرو اور حتی ناموس ہی کیوں نہ فدا کرنی پڑھ جائے۔ اسی طرح ایک اور درس خواتین کا کردار ہے کہ جس کی بہترین مثال ہمیں کربلا میں ملتی ہے۔ آج اس کی مثال ایران کے انقلاب اور لبنان کے مُٹھی بھر شیعوں میں دیکھائی دیتی ہے۔ جنہوں نے مکتب عاشورا سے صحیح درس حاصل کرکے پرچم پر افتخار حسینی ؑ کو ایک مرتبہ پھر برافراشتہ کر دیکھایا۔ اور سوتی ہوئی انسانیت کو ماننے پر مجبور کردیا کہ جیت صرف حق والوں کی ہوتی ہے ولو وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔
ایک اور چیز جو ان مثالوں میں بہت خوبصورتی سے دیکھائی دیتی ہے وہ اطاعت ولی ہے۔ جس طرح کربلا میں سب امام کی اجازت سے انجام پاتا اسی لیے کوئی بغیر اذن کے مقتل و جنگ کو نہ گیا۔ اسی طرح امام خمینی کے زمانے میں بھی ایرانی ملت نے اطاعت کی۔ لبنان میں بھی یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ چیز جو فتح کی باعث بنی اطاعت رہبر اور وحدت تھی۔ سید حسن نصراللہ، حزب اللہ کے جنرل سیکٹری نے اسرائیل کی ذلت بار شکست کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ فتح ہمیں رہبر مسلمین جہاں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی اطاعت و فرمانبرداری سے حاصل ہوئی ہے۔
جیسا کہ عرض ہوا جناب زینب کبریٰ علیھا سلام نے سب سے پہلی عزاداری گیارہویں کہ روز کربلا میں برپا کی اور شجاعت و استقامت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی انجام دیتی رہیں؛ بیمار کربلا سید السّاجدین (ع) کی تیماردای کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں؛ ایک وقت دیکھا کہ امام زین العابدین (ع) بالکل نڈھال ہوگئے اور بدن جان دینے کو ہے، فوراً آپ نے بھائی کے بدن مبارک کو چھوڑا اور خاص تدبیر کے ساتھ امام زین العابدین (ع) کو تسلّی دی اور ان دشوار گھڑیوں میں یہ حدیث بیان کی کہ ’’ یہ شہادت بامقصد تھی! ہرگز ایسا نہ سمجھ لینا کہ بس حسین ؑ شہید ہوگئے اور ختم ہوگئے۔ میں نے اپنے جد امجد سے یہ حدیث سنی ہے کے انہوں نے فرمایا کہ حسین (ع) اسی جگہ پر جہاں ان کا جسد مبارک دیکھ رہے ہو، بغیرکفن کے دفن کئے جائیں گے اور یہیں پر ان کی قبر لوگوں کی زیارت گاہ بنے گی۔‘‘
در واقع آئندہ کی خبر دے کر جناب زینب کبریٰ نے امام زین العبدین (ع)کو حوصلہ بھی دیااور یہ بھی بتا دیا کہ ہم اپنے کردار سے ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں جس میں فتح ہماری ہوگی اور یہی مظلوم امام جو ابھی بے غسل و کفن کہلے آسمان تلے، اپنے مخلص اصحاب کے ساتھ یاں آرمیدہ ہیں، ایک دن صاحب گنبد و بارگاہ ہونگے اور زوّار دور و نزدیک سے تشرف حاصل کرنے کے لیے یہاں حاضر ہونگے۔
اسی طرح جب بارہ محرم کو قافلہ دروازہ کوفہ پر پہنچا تو اس قدر شور و غوغا تھا اور اکثر لوگ معرفت نہ رکھنے کی وجہ سے تالیاں بجا رہے تھے اور اظہار خوشی کر رہے تھے کہ اگر اس وقت ڈھول بجایا جاتا تو اس کی آواز بھی کسی کو سنائی نہ دیتی؛ لیکن اس وقت جناب سیدہ ، جو نویں کی رات سے مسلسل بیدار تھیں اور ایک لمحے کے لیے بھی نہ سو سکیں، اس قدر باوقار اور شہامت و شجاعت کے ساتھ شہر میں داخل ہوئیں کہ آپ کے ایک اشارے پر لوگوں کی سانس سینوں میں محبوس ہوگئی، بچوں کے رونے کی آواز اور یہاں تک کے ارباب تاریخ نے لکھا ہے کہ جانوروں کی گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز بھی بند ہوگئی۔ مجمع پر ایک سکتا تاری ہوگیا۔ پھر جناب ثانی زہرا (س) نے خطاب فرمایا۔کربلا بہت ہی عظیم سانحہ تھا لیکن جو خدا کو عظیم جانتا ہے اس کے لیے ہر شئے معمولی رہ جاتی ہے۔
پھر جب حکومت بنی امیہ نے پوچھا کہ اس سب کو کیسا دیکھا؟ جناب زینب کبریٰ نے فرمایا؛ ’’ ما رایتُ الاّ الجمیلاً‘‘ مجھے خوبصورتی کے سوا کچھ دیکھائی نہیں دیتا‘‘۔ عارف کی نگاہ میں خدا کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔ اس کے ہر ارادے میں انسان کی تربیت دیکھائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ عارف ہمیشہ اس کے سب امور کو خوبصورت دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں رب کی رضا تھی۔
راوی کہتا ہے کہ جب جناب زینب کبریٰ خطبہ دیتیں تو آپکے کلام میں شجاعت حیدری اور عصمت زہرائی واضح دیکھائی دیتی گویا کہ علی (ع) کے لہجے میں فاطمہ خطاب فرما رہی ہیں۔یہ اسی تربیت کا اثر تھا جو آپکو جناب رسول (ص) کے گھرانے سے نصیب ہوئی، یہ اس ماں کی گود کا اثر تھا جس نے کسی کے کہے بغیر سب کچھ خود کر دیکھا۔ یہ اس باپ کی حلال روزی کا اثرہے جس نے زندگی کے مقیاس کوہمیشہ صداقت، عدالت اور شجاعت کے ترازو میں رکھا؛ اسی لیے نہ کسی پر ظلم کیا اور نہ غیر خدا سے کوئی توقع رکھی۔یہی وہ چیزیں ہیں جو پیام زینب (س) میں آج بھی سنائی دے رہی ہیں اور تا قیامت سنائی دیتی رہیں گی۔ آج بھی اگر معاشرے میں عورت کا وقار بحال ہوجائے تو گذشتہ بہاریں پھر سے لوٹ آئیں گی۔اور جب جناب زینب کبریٰ (س) کا نہایت مختصر خطبہ تمام ہوا تو سب انگشت بدندان حیران وپریشان کھڑے دیکھتے رہے۔ ان کی فتح کی خوشیاں عزا میں تبدیل ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب تاریخ کربلا میں کوفیوں کی خیرہ سری کی ایک وجہ ان کی خواتین کا اجتماعی امور سے مطلع نہ رہنا، حالات سے بے خبری اور مسلمانوں کے امور میں دلچسپی نہ لینا بیان کیا ہے۔ اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کوفہ کا گورنر کون ہے؟ یزید کون ہے؟ کس قسم کا انسان ہے؟ ان خواتین کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جناب مسلم بن عقیل (ع) کتنے دنوں سے کوفہ میں مقیم ہیں اور ان کے مردوں سے بیعت جمع کر رہے ہیں۔ ان کی عورتوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حسین (ع) اس وقت کہاں ہیں اور کن کی دعوت پر اپنی آل و اولاد اور اصحاب کہ ساتھ حج بیت اللہ الحرام کو عمرہ مفردہ میں بدل کر کوفیوں کے مہمان بننے آرہے ہیں۔البتہ بعض واقعات ایسے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ خواتین کو مختصر واقعات کی اطلاع تھی، لیکن یا اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی یا وہ بھی دشمن کی سازشوں اور فریب کارانہ ہتھکنڈوں میں پھنس گئیں تھیں۔
کربلا ایک ایسا منظر ہے جس میں ہر قسم کی قربانی نظر آتی ہے گویا خدا نے مقدر فرما دیا ہے کہ اس میں مرد کا کردار ہو، عورت کا کردار ہو، پیر و جوان کا کردار، سیاہ و سفید کا کردار، عرب و عجم کا کردار ہو۔ یہ جو مشہور ہے کہ کربلا میں بنیادی کردار خاتون کا تھا اس کا مطلب ہے تمام خواتین کا، جبکہ سب سے زیادہ کلیدی کردار اور سپہ سالاری کے فرائض جناب زینب کبریٰ (س)کا تھا کے جن کی سب سے زیادہ قربانی تھی۔ عبد اللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ کربلا میں شہید ہو گئیں۔ کربلا میں تین افراد اپنے گھر والوں کے ساتھ میدان کارزار میں تشریف لائے؛ مسلم بن عوسجہ، عبداللہ بن عمیر کلبی اور تیسرے جنادۃ بن حرث الانصاری۔
جناب عبداللہ بن عمیر کے بارے میں ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ آپ کوفہ سے باہر تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کے کوفہ میں کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ ٓاپ مجاہدین اسلام میں سے تھے۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ رسول اللہ (ص) کی آل کی حفاظت کریں گے۔ آپ فوراً گھر پہنچے زوجہ سے مشورہ کیا، آپکی زوجہ نے آپکو تحسین کیا لیکن کہا کہ اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ مجھے بھی ساتھ لے کر چلو۔ اپنی زوجہ کو لے کر چلنے لگے تو ماں بھی ساتھ چل پڑیں۔ بہرحال عبداللہ بن عمیر میدان کارزار میں وارد ہوئے بہت سے سرکشوں کو واصل جہنم کیا لیکن کسی نے پشت سے حملہ کیا اور ایک ہاتھ جدا کردیا، آپ نے دوسرے ہاتھ سے وارکر کے اسے ختم کردیا۔ اسی حال میں رجز پڑھتے ہوئے سرور شہیدان کے پاس پہنچے ، اپنی ماں سے عرض کیا، ’’کیا میں نے خوب عمل کیا ہے، کیا تم مجھ سے راضی ہوگئیں؟‘‘ ماں نے جواب دیا؛ ’’ نہیں! میں تم سے راضی نہیں ہوں۔ میں جب تک تمہیں شہید ہوتا نہ دیکھ لوں تم سے راضی نہیں ہوں۔‘‘ اس اثناء میں اس کی بیوی جو جوان تھی آکر اس کے دامن سے لپٹ گئی۔ ماں نے فوراً کہا؛ ’’ میرے بیٹے! کہیں احساسات تم پر غالب نہ آجائیں۔ یہ وقت بیوی کی باتیں سننے کا نہیں ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کے میں تم سے راضی ہوجاؤں تو ناچار تمہیں شہید ہونا پڑے گا۔‘‘ عبداللہ بن عمیر ایک بار پھر میدان میں گیا اور اس بار شہید ہوگیا۔ دشمن نے اس کا سر کاٹ کر اس کے خیمہ کے دروازہ پر پھینک دیا۔ ماں نے جھک کر اسے اٹھایا، نوازش کیا، چوما اور کہنے لگی ’’ہاں بیٹا! اب میں تجھ سے راضی ہوگئی‘‘۔ پھر اس نے سر کو دشمن کی طرف واپس پھینکتے ہوئے کہا ’’ ہم جو چیز خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے‘‘۔ اور پھر خیمہ کا ایک ستون لے کر دشمن پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح دلیر ماں کا ایک اور واقعہ نقل ہے کے کربلا میں ایک جوان جس کا والد شہید ہوگیا تھا امام حسین (ع) سے اذن جہاد لینے آیا۔ امام نے فرمایا اس کو جانے نہ دیں، اس کا بابا شہید ہوچکا ہے بس یہی کافی ہے؛ اس کی ماں بھی یہیں پر حاضر ہے کیا معلوم وہ راضی نہ ہو۔ جوان فوراً بولا ’’یا اباعبداللہ الحسین (ع) ، میری ماں نے ہی یہ شمشیر میری کمر میں باندہی ہے اور مجھے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جاؤ تم بھی اپنے بابا کے راستے پے چلتے ہوئے اپنی جان امام حسین (ع) پر قربان کردو۔‘‘
جانفشانی اور قربانی کی یہ مثالیں انسانیت و بشریت کے لیے مکتب حسینی اور زینبی کا تحفہ ہیں۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی ایثار و قربانی کا ذکر ہوتا ہے وہاں خواہ نخواہ حسین ؑ و زینب کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ اگر کربلا نہ ہوتا تو انسانیت ہرگز فلسفہ حیات جاوداں سے باخبر نہ ہوتی۔ کربلا نے انسانیت کو صرف جینے کا ڈہنگ نہیں بلکہ مرنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا۔ یہ انہی ماؤں کا کردار ہے کہ جو مقصد حیات کو سمجھ گئیں اور با معرفت آغوش میں ایسی اولاد کی تربیت کی کے جسے اگر ابراہیم (ع) قربانگاہ میں چلنے کو کہیں تو بجای علت و سبب پوچھنے کے اسماعیل ؑ کی طرح باپ کو اس کے امتحان میں مدد کرتے ہیں اور جیسا خدا نے اپنے کلام میں فرمایا کہ جب ابراہیم (ع) نے اسماعیل (ع) سے کہا کہ مجھے تیری قربانی کا حکم ملا ہے تو اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ تو جواب میں اسماعیل (ع) نے فرمایا؛ ’’ یا ابتِ افْعَل مٰا تُؤمَر سَتَجِدُنی انشاللہ مِن الصّابرین‘‘ بابا جو آپ کو حکم ہوا ہے انجام دیجئے، انشاللہ آپ مجھ صابرین میں سے پائیں گے۔
امام خمینی فرماتے ہیں؛ ’’ امام حسین نے اپنی ذمہ داری سمجھی تاکہ اس قوت کے مقابلہ میں قیام کریں اور شہید ہوجائیں۔ تاکہ اپنی اور اصحاب کی قربانی سے حالات کو دگرگوں کریں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک جابر نے ان کی حکومت پر قبضہ کرلیا ہے، انہوں نے خدا کی جانب سے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ اس کا مقابلہ کریں، ان کی مخالفت کریں، ان کا انکار کریں اور پھر جو ہوتا ہے ہوجائے۔ اور بخوبی واضح تھا کہ اتنی کم تعداد ان کا مقابلہ نہیں کر پائے گی لیکن ان کی شرعی ذمہ داری تھی۔ لیکن سید الشہدا (ع) کے لیے یہ شرعی ذمہ داری تھی کے قیام کریں، خون دیں اور اس حکومت کا تختہ الٹ دیں، یزیدی پرچم کو سرنگوں کرڈالیں۔ اور ایسا ہی ہوا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنا خون، بچوں کا خون اور اولاد کا خون اور اپنا سب کچھ اسلام کی حفاظت اور بقاء کے لیے دے دیا۔‘‘
کس قدر خوب درس دیا ہے سید الشّہداء امام حسین نے اور کس قدر خوب امام خمینی نے درس حاصل لیا ہے۔ اور صد آفرین ان ماؤں پر جنہوں نے اپنے پیشواؤں اور راہنماؤں کی ہدایت پر عمل کر کے ایک زندہ و بیدار قوم کی تربیت کی اور ایسے فرزند پروان چڑاہے جنہیں دیکھ کر تاریخ کی مائیں رشک کرتی ہیں۔ ہمیشہ تقویٰ کی گود میں پلنے والے مجاہدوں ہی نے اسلام اور انقلاب کی نصرت و حفاظت کی ہے۔ یہ اثر ہے کربلای معلّیٰ میں موجود خواتین کا جنہوں نے اپنے کردار کے ساتھ سید الشہداء علیہ السلام اور جناب زینب کبریٰ علیھا سلام کا ساتھ دے کر تاریخ کے ایسے اوراق رقم کیے جن کی مثال نہ ملی ہے نہ مل سکے گی۔
source : http://www.alhassanain.com