تیرہ صدیوں سے صحیفہ سجادیہ زاہدین و صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء و مصنفین کا مرجع و ملجأ رہا ہے۔ روحانیت و معنویت کے اس خزانے کی معرفت کی غرض سے ہم اپنی بحث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے پیش کررہے ہیں:
سند کے لحاظ سے تواتر کی حد سے بھی بالاتر ہے؛ شیخ آقا بزرگ تہرانی رقمطراز ہیں: «الصحیفة الاولی المنتهی سندها الی الامام زین العابدین۔۔۔ و هی من المتواترات عند الاصحاب لاختصاصها بالاجازة والروایة فی كل طبقة و عصر۔۔۔ ؛ (8)
صحیفہ اولی – جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک جاپہنچتی ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات [اور قطعیات] میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کہ خصوصیت یہ ہے [كہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دیتے ہو ئے حاصل کرکے اسے نقل کیا ہے»۔ صحیفہ کی شہرت کا درجہ اس قدر اونچا ہے کہ (علامہ محمد باقر مجلسی صاحب بحار الانوار کے والد ماجد) مرحوم علامہ محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل و روایت کے حوالے سے 10 لاکھ اسناد و ثبوت موجود ہیں۔ (9) اسی طرح شیخ محمد بن محمد بن نعمان «شیخ مفید» (متوفی 413) نے «ارشاد» میں اور ان کے علاوہ شیخ صدوق بن بابویہ قمی کے شاگرد علی بن محمد خزاز قمی (متوفی 381) اور احمد بن عیاشی (متوفی 401) اور ابوالفضل شیبانی، وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔۔۔،
علماء اہل سنت نے بھی صحیفہ سجادیہ کی روایت کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن جوزی نے خصائص الائمۃ میں اور حافط سلیمان بن ابراہیم القندوزی (متوفی 1294) نے ینابیع المودة میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں۔ (10)
ابوالفضل شیبانی کی سند:
ہمارے لئے عامر بن عیسی بن عامر سیرافی نے سنہ 381 کو مكہ میں روایت کی؛ کہ میرے لئے ابو محمد حسن بن محمد بن یحیی بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ بن حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السلام، نے روایت کی کہ میرے لئے میرے والد نے عمیر بن متوكل سے نقل کرتے ہوئے روایت کی، انہوں نے اپنے والد متوكل بن ہارون سے اور متوکل بن ہارون نے یحیی بن زید سے روایت کی کہ جبکہ یحیی اپنے والے زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خراسان کی جانب رخت سفر باندھے ہوئے تھے اور میں نے ان کی عقل و دانش کے پائے کا کوئی مرد نہیں دیکھا۔ اور یحیی بن زید نے مجھے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ دکھایا۔ (11)
تاریخی اور رجالی کتب کے علاوہ دعاؤں کی کوئی بھی معتبر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں صحیفہ سجادیہ کی دعائیں ثبت نہ ہوئی ہوں، جیسے:
1۔ «مصباح المتہجد» شیخ طوسی (385 - 460)۔
2۔ «سلوك الحزین » قطب الدین بن سعید بن ہبة اللہ راوندی (متوفی 573) ان کی کتاب «دعوات الراوندی » کے نام سے مشہور ہے۔
3۔ سید علی بن حسین بن باقی کی کتاب «اختیار المصباح »۔
4۔ سید رضی الدین علی بن طاؤس (متوفی 589) کی کتابیں «اقبال الاعمال»، «جمال الاسبوع» اور «فتح الابواب »۔
5۔ ابوالقاسم علی بن رضی الدین کی کتاب «زوائد الفوائد» ۔
6۔ ابراہیم بن علی كفعمی (متوفی 868) کی کتاب «البلد الامین » وغیرہ۔ ۔۔
ان سب کے علاوہ مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی روایت کے مطابق علامہ مجلسی اول، (مولی محمدتقی مجلسی) نے اپنی بہت سے اجازات میں اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیفہ سجادیہ کو بالمشافہہ اور بلاواسطہ حضرت حجة بن الحسن صاحب الزمان علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ علامہ مجلسی اول کہتے ہیں:
«میں خواب اور بیداری کی سی حالت میں تھا۔۔۔ دیکھ رہا تھا کہ گویا اصفہان کی جامع مسجد عتیق میں کھڑا ہوں اور حضرت مہدی علیہ السلام بھی کھڑے ہیں۔ میں نے وہ مسائل آپ علیہ السلام سے دریافت کئے جو میرے لئے مشکل اور دشوار تھے۔ آپ نے وہ مسائل بیان فرمائے۔
میں نے پوچھا: ایسی کوئی کتاب تجویز فرمائیں جس پر میں عمل کروں تو آپ نے مجھے "مولانا محمد التاج" کا حوالہ دیا۔ میں ان کے پاس چلاگیا اور ان سے ایک کتاب لی۔ مجھے ایسا لگاکہ وہ دعا کی کتاب تھی چنانچہ میں نے وہ کتاب چوم لی اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا لیکن اتنے میں وہ حالت ختم ہوئی اور میں پوری طرح جاگ اٹھا مگر جب دیکھا کہ وہ کتاب میرے ہاتھ میں نہیں ہے، تو صبح تک روتا رہا، دوسرے روز مولانا محمد تاج کو ڈھونڈنے نکلا۔ چلتے چلتے «دارالبطیخ »، پہنچا۔۔۔ وہاں مجھے ایک نیک و صالح مرد بنام آقا حسن «تاجا» نظر ائے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور انھوں نے مجھے اپنے قریب بلایا اور اپنے کتب خانے میں لے گئے۔
انھوں نے جو پہلی کتاب مجھ تھمادی وہی کتاب تھی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ میں رونے لگا اور ان سے کہا: یہی کتاب میرے لئے کافی ہے اور اس کے بعد شیخ محمد مدرس کی خدمت میں حاضر ہؤا اور ان کے پاس صحیفہ کے اس نسخے سے اپنے نسخے کا موازنہ کرایا جو ان کے پردادا نے شہید کے نسخے سے نقل کرکے لکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف نے مجھے عنایت فرمایا تھا شہید کے نسخے کے عین مطابق تھا۔ (12)
مشہور ہے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد «صحیفہ سجادیہ » معارف اور حقائق الہی کا عظیم ترین سرچشمہ شمار کیا جاتا ہے اور شیخ آقا بزرگ تہرانی کے بقول «اخت القرآن »: یعنی قرآن کی بہن، «انجیل اہل بیت »، «زبور آل محمد» اور «صحیفہ كاملہ » بھی کہلاتا ہے (13) اور قندوزی نے بھی صحیفہ کے بارے میں یوں قلم فرسائی کی ہے:
«فی ایراد بعض الادعیة والمناجاة التی تكون فی الصحیفة الكاملة للامام الہمام زین العابدین۔۔۔ وہی زبور اہل البیت الطیبین علیہم السلام؛ (14) ان دعاؤں اورمناجاتوں کا بیان امام ہمام زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کاملہ میں مندرج ہیں ۔۔۔ اور وہ زبور اہل بیت طیبین ہے»۔
اس کتاب کو اس لئے «صحیفہ كاملہ » کا نام دیا گیا ہے کہ زیدیہ فرقے کے پاس صحیفہ کا ایک نسخہ موجود ہے جو مکمل نہیں ہے بلکہ موجودہ صحیفے کے نصف کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے [اثنی عشری شیعوں کے پاس] موجودہ صحیفے کو صحیفہ كاملہ کہا گیا ہے۔ (15)
مرحوم علامہ «شیخ آقا بزرگ تہرانی » كتاب «الذریعة الی تصانیف الشیعة» میں تراجم کے علاوہ صحیفہ سجادیہ کے پچاس شرحوں کا تعارف کرایا ہے۔ (16)
ان شروح کے سوا ماضی اور حال کے بہت سے علماء نے اس کے متعدد تراجم کئے ہیں (17)، اور یہاں ان میں سے بعض شرحوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
1۔ «الازھار اللطیفة فی شرح مفردات الصحیفة »، تألیف سید علامہ محمد رضا اعرجی حسینی۔
2۔ شرح میرزا محمد مشہدی جمال الدین طوسی صاحب دقائق التنزیل۔
3۔ شرح محمد علی بن محمد نصیر چہاردہی رشتی (متوفی 1334)، صاحب كتاب «شرح الوقت و القبلة »۔
4۔ شرح سید افصح الدین محمد شیرازی۔
5۔ شرح مولا تاج الدین المعروف (تاجا)۔
6۔ شرح مفتی، میر محمد عباس جزائری (متوفی 1306)۔
7۔ شرح مولی حبیب اللہ كاشانی۔
8۔ شرح ابن مفتاح ابوالحسن عبداللہ بن ابی القاسم بن مفتاح الزیدی الیمنی۔
9۔ شرح مولی خلیل قزوینی۔
10۔ شرح آقا ہادی ابن مولا صالح مازندرانی۔
11۔ شرح مولا محمد طاہر بن حسین شیرازی۔
12۔ تیرہویں صدی ہجری کے زیدی عالم دین سیدمحسن بن قاسم بن اسحاق صنعانی یمنی۔
13۔ شرح سید محسن بن احمد شامی حسنی یمنی زیدی (متوفی 1251)۔
14۔ شرح سید جمال الدین كوكبانی یمنی نژاد مقیم ہند (متوفی 1339)۔ (18)
source : http://www.ahl-ul-bayt.org