ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کےلئے آمادہ ھوئے ، پیغمبر اکرم نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نھیں ھوا تھا کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ھو کر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:
” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ھے ، ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں ، اور اسی پر توکل کرتے ھیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رھنے کےلئے اس خدا کی پناہ لیتے ھیں ، جس کے سوا گمراھوں کی ھدایت و راھنمائی کرنے والا کوئی نھیں ھے ۔ ھم گواھی دیتے ھیں کہ جس کی خداوند کریم ھدایت کرے کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا ھم اس خدا کی گواھی دیتے ھیں جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ۔
اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ ھر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پھلے کی رسالت کی آدھی ھوتی ھے ، اور میں جلدی ھی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ھونے والا ھوں ، میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ھو؟
اصحاب رسول نے کھا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ھمارے بارے میں خیر خواھی کی اور ھماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔
مجمع پر خاموشی چھا گئی تو پیغمبر نے فرمایا:
کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ، جنت ، جھنم اور موت حق ھے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟
اصحاب رسول : جی ھاں ! جی ھاں ! ھم گواھی دیتے ھیں ۔
پیغمبر : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رھا ھوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟
ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ھیں ؟
پیغمبر : ثقل اکبر خدا کی کتاب ھے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ھاتہ میں ھے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رھو تا کہ گمراہ نہ ھو اور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اھل بیت(ع) ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی۔
خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رھنا تاکہ نابودی سے بچے رھو۔
اس موقع پر پیغمبر نے علی(ع) کا ھاتہ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ھوگئی اور تمام لوگوں نے علی(ع) کو پیغمبر کے پھلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پھچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی(ع)سے مربوط کوئی اعلان ھے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر کی بات سننے کے منتظر تھے۔
پیغمبر : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ھے ؟
اصحاب پیغمبر : خدا اور اس کا پیغمبر بھتر جانتے ھیں ۔
پیغمبر : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ھوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس جس کا میں مولا --- خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار ھوں اس کے علی(ع) بھی مولا ھیں “ اور پیغمبر نے اس جملہ کو تین بار فرمایا(1)
اس کے بعد فرمایا: پروردگارا! اس کو دوست رکہ ، جو علی (ع) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکہ جو علی(ع)سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی(ع) کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی کو مرکز حق قرار دے “
اس کے بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ھے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پھنچا دیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔
ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ھے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ھو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ھو (2)
یھاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ھوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع)کی ولایت پر خوشنود ھوا۔
اس کے بعد پیغمبر اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع) کو مبارکباد دی اور انھیں اپنے اور تمام مؤمنین و مومنات کا مولا کھا۔
اس موقع پر رسول خدا کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یہاں پر ذکر کرتے ھیں :
” پیغمبر نے علی(ع) سے فرمایا : کھڑے ھو جاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راھنمائی کےلئے منتخب کیا ھے ۔ (3) جس کا میں مولا ھوں ، اس کے علی(ع) بھی مولا ھیں ۔
لوگو! تم لوگوں پر لازم ھے کہ علی(ع) کے سچے اور حقیقی دوست رھو ۔
اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ھے جو اھل سنت علماء کے اسناد و مآخذ میں ذکر ھوا ھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔
مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ھے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ھیں (4)
حوالہ جات
1۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر نے اس جملہ کو چار بار فرمایا
2۔ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ 3)
3۔فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
4۔ احتجاج طبرسی ، ج 1 ص 71 تا 74 طبع ، نجف ۔
source : http://ahl-ul-bayt.org