آپ کی ولادت
حضرت امام حسن علیہ لسلام کی ولات کے بعدپچاس راتیں گزریں تھیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کانطفہ وجودبطن مادرمیں مستقرہواتھا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں کہ ولادت حسن اوراستقرارحمل حسین میں ایک طہرکافاصلہ تھا(اصابہ نزول الابرار واقدی)۔
ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھاکہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاپ کرمیری آغوش میں رکھاگیاہے اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوئیں کہ حضورآج ایک بہت براخواب دیکھاہے ،حضرت نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایاکہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے اے ام الفضل کی تعبیریہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جو تمہاری آغوش میں پرورش آئے گا ۔
آپ کے ارشاد فرمانے کوتھوڑی ہی عرصہ گزراتھاکہ خصوصی مدت حمل صرف چھ ماہ گزرکرنورنظررسول امام حسین بتاریخ ۳/ شعبان ۴ ء ہجری بمقام مدینہ منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آگئے۔ (شواہدالنبوت ص ۱۳ ،انوارحسینہ جلد ۳ ص ۴۳ بحوالہ صافی ص ۲۹۸ ،جامع عباسی ص ۵۹ ، بحارالانوارومصاح طوسی ابن نما ص ۲ وغیرہ)۔
ام الفضل کابیان ہے کہ میں حسب الحکم ان کی خدمت کرتی رہی ،ایک دن میں بچہ کولے کر آنحضرت کی خدمت میں حاضرہوئی آپ نے آغوش محبت میں لے کرپیارکیااورآپ رونے لگے میں نے سبب دریافت کیا توفرمایاکہ ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے وہ بتلاگئے ہیں کہ یہ بچہ امت کے ہاتھوں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہیدہوگا،اوراے ام الفضل وہ مجھے اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دے گئے ہیں (مشکواة جلد ۸ ص ۱۴۰ طبع لاہور)۔
اورمسنداامام رضا ص ۳۸ میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایادیکھویہ واقعہ فاطمہ سے کوئی نہ بتلائے ورنہ وہ سخت پریشان ہوں گی ،ملاجامی لکھتے ہیں کہ ام سلمہ نے بیان کیاکہ ایک دن رسول خدامیرے گھراس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سرمبارک کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اورچہرہ پرگردپڑی ہوئی تھی ،میں نے اس پریشانی کودیکھ کرپوچھا کیابات ہے فرمایامجھے ابھی ابھی جبرئیل عراق کے مقام کربلامیں لے گئے تھے وہاں میں نے جائے قتل حسین دیکھی ہے اوریہ مٹی لایاہوں ائے ام سلمہ اسے اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ خون ہوجائے توسمجھنا کہ میرا حسین شہیدہوگیا ۔الخ(شواہدالنبوت ص ۱۷۴) ۔
آپ کااسم گرامی
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعدسرورکائنات صلعم نے امام حسین کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایااوراپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرماکر حسین نام رکھا (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔
علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کارکھاہواہے (ارجح المطالب وروضة الشہداء ص ۲۳۶) ۔
کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھاہواہے۔
حضرت امام حسين عليه السلام
آپ کاعقیہ
امام حسین کانام رکھنے کے بعد سرورکائنات نے حضرت فاطمہ سے فرمایاکہ بیٹی جس طرح حسن کاعقیقہ کیاگیاہے اسی طرح اسی کے عقیقہ کابھی انتظام کرو،اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن کے لیے کرچکی ہو ،الغرض ایک مینڈھا منگوایاگیا،اوررسم عقیقہ اداکردی گئی (مطالب السؤل ص ۲۴۱) ۔
بعض معاصرین نے عقیقہ کے ساتھ ختنہ کاذکرکیاہے جومیرے نزدیک قطعا ناقابل قبول ہے کیونکہ امام کامختون پیداہونا مسلمات سے ہے۔
کنیت والقاب
آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی ،البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں جن میں سیدوصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ سبط اورسیدخودرسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص ۳۱۲) ۔
آپ کی رضاعت
اصول کافی باب مولدالحسین ص ۱۱۴ میں ہے کہ امام حسین نے پیداہونے کے بعدنہ حضرت فاطمہ زہراکاشیرمبارک نوش کیااورنہ کسی اوردائی کادودھ پیا، ہوتایہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرورکائنات تشریف لاکرزبان مبارک دہن اقدس میں دے دیتے تھے اورامام حسین اسے چوسنے لگتے تھے ،یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے ،معلوم ہوناچاہئے کہ اسی سے امام حسین کاگوشت پوست بنااورلعاب دہن رسالت سے حسین پرورش پاکر کاررسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔
خداوندعالم کی طرف سے ولادت امام حسین کی تہنیت اورتعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسین کی ولادت کے بعدخلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمدمصطفی کومیری طرف سے حسین کی ولادت پرمبارک بادد یدو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت اداکردو،جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پرواردہوئے اورانہوں نے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے ،یہ سن کرسرورکائنات کاماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا ،جبرئیل ماجراکیاہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولاایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرخنجرآبداررکھاجائے گا اورآپ کایہ نورنظربے یارومددگارمیدان کربلامیں یکہ وتنہاتین دن کابھوکاپیاسا شہیدہوگا یہ سن کرسرورعالم محوگریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ ہوگئے ۔
جناب سیدہ نے جوحضرت علی کوروتادیکھا دل بے چین ہوگیا،عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیاہے فرمایابنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اوروہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبرہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیرہوگیا،آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا،فرمایاجب میں نہ ہوں گانہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھابابامیرابچہ کس خطاپرشہید ہوگافرمایافاطمہ بالکل بے جرم وخطاصرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی، فاطمہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گااوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا،راوی کابیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزندکاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کاماتم قیامت تک جاری رہے گا ایک روایت میں ہے کہ رسول خدانے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایاتھا کہ خداکچھ لوگوں کوہمیشہ پیداکرتارہے گا جس کے بوڑھے بوڑھوں پراورجوان جوانوں پراوربچے بچوں پراورعورتیں عورتوں پر گریہ وزاری کرتے رہیں گے۔
فطرس کاواقعہ
علامہ مذکوربحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ رقمطرازہیںکہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھاکہ ایک فرشتہ زمین پرپڑاہوازاروقطاررورہاہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھااس نے کہااے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرسترہزارفرشتوں کی قیادت کرتاتھا میرانام فطرس ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبودکے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہاہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاںکنج تنہائی میں پڑاہوں ۔
ائے جبرئیل خدارامیری کچھ مددکروابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیاائے روح الامین آپ کہاں جارہے ہیں انہوں نے فرمایاکہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلعم کے یہاں ایک فرزندپیداہواہے جس کانام حسین ہے میں خداکی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جارہاہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خداکے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفااورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضورکی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین آغوش رسول میں جلوہ فرماتھے جبرئیل نے عرض حال کیا،سرورکائنات نے فرمایاکہ فطرس کے جسم کوحسین کے بدن سے مس کردو ،شفاہوجائے گی جبرئیل نے ایساہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔
وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتاہوااپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجاپہنچا اورمثل سابق سترہزارفرشتوں کی قیادت کرنے لگا ،بعدازشہادت حسین چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیاجس میں امام حسین نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجاکردشمنان حسین سے جنگ کروں ارشادہواکہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توسترہزارفرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیاکراوراس کاجوثواب ہواسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلاپرجاپہنچا اورتا قیام قیامت شب وروزروتارہے گا(روضة الشہداازص ۲۳۶ تاص ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی)۔
امام حسین سینہ رسول پر
صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کابیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھاہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے اورامام حسین نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں ،ان کے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تومیرے سینے پرکودچنانچہ امام حسین آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعدحضورصلعم نے امام حسین کامنہ چوم کرخداکی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حدچاہتاہوں توبھی اسے محبوب رکھ ،ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت امام حسین کالعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کجھورکوئی چوسے (ارجح المطالب ص ۳۵۹ وص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۱ ،کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴ ،کنوزالحقائق ص ۵۹) ۔
جنت کے کپڑے اورفرزندان رسول کی عید
امام حسن اورامام حسین کابچپناہے عیدآنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کاکیاذکرپرانے کپڑے بلکہ نان جویں تک نہیں ہے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عیدکے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عیدمنائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤنہیں ،تمہارے کپڑے درزی لائے گا عیدکی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کاتقاضاکیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔
ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا،دروازہ کھٹکھٹایافضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدئہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیااب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کادل باغ باغ ہوگیاوہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہابچوں کوجگایاکپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہامادرگرامی یہ توسفیدکپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، امام جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔
حضور انورکواطلاع ملی ،تشریف لائے، فرمایاگھبراؤنہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل آفتابہ لیے ہوئے آپہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفی کے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہناسرخ جوڑاحسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگالیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے نونہالو،رسالت کی باگ ڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار) ۔
بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشت پربٹھاکردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کی آوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔
امام حسین ک ا سردارجنت ہونا
پیغبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران دنوں سے بہترہیں (ابن ماجہ)صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن سرورکائنات صلعم کوبے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھاحضور،افراط مسرت کی کیاوجہ ہے فرمایااے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہواہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں ایاتھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہاہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ، تاریخ الخلفاص ۱۲۳ ،اسدالغابہ ص ۱۲ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۲ ،ترمذی شریف ،مطالب السول ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔
اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کاذاتی شرف موجوتھا اورخودسرورکائنات نے باربارآپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب ،سیدالمتقین ،سیدالمومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے حضرت علی کاسرداران جنت امام حسن اورامام حسین سے بہترہونا واضح کرتاہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلنددرجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک جملہ اولادعلی سیدہیں یہ اوربات ہے کہ بنی فاطمہ کے برابرنہیں ہیں۔
امام حسین عالم نمازمیں پشت رسول پر
خدانے جوشرف امام حسن اورامام حسین کوعطافرمایاہے وہ اولادرسول اورفرزندان علی میں آل محمدکے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کاذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوارہوجائیں ،تونمازمیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا،اکثرایساہوتاتھاکہ یہ نونہالان رسالت پشت پرعالم نمازمیں سوارہوجایاکرتے تھے اورجب کوئی منع کرناچاہتاتھا توآپ اشارہ سے روک دیاکرتے تھے اورکبھی ایسابھی ہوتاتھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہاکرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خودنہ اترآئیں آپ فرمایاکرتے تھے خدایامیں انہیں دوست رکھتاہوں توبھی ان سے محبت کر؟ کبھی ارشادہوتاتھااے دنیاوالو! اگرمجھے دوست رکھتے ہوتومیرے بچوں سے بھی محبت کرو(اصابہ ص ۱۲ جلد ۲ ومستدرک امام حاکم ومطالب السؤل ص ۲۲۳)
حدیث حسین منی
سرورکائنات نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشادفرمایاہے کہ اے دنیاوالو! بس مختصریہ سمجھ لوکہ ”حسین منی وانامن الحسین“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدااسے دوست رکھے جوحسین کودوست رکھے (مطالب السؤل ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴ ،نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ ومسنداحمدجلد ۴ ص ۹۷۲ ،اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱) ۔
مکتوبات باب جنت
سرورکائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتاہواجنت کے قریب پہنچاتودیکھاکہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھاہواہے۔
”لاالہ الااللہ محمدحبیب اللہ علی ولی اللہ وفاطمة امةاللہ والحسن والحسین صفوة اللہ ومن ابغضہم لعنہ اللہ“
ترجمہ : خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدصلعم اللہ کے رسول ہیں علی ،اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں،حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱ )
امام حسین اورصفات حسنہ کی مرکزیت
یہ تومعلوم ہی ہے کہ امام حسین حضرت محمدمصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے نواسے،حضرت علی وفاطمہ کے بیٹے اورامام حسن کے بھائی تھے اورانہیں حضرات کو پنتن پاک کہاجاتاہے اورامام حسین پنجتن کے آخری فردہیں یہ ظاہرہے کہ آخرتک رہنے والے اورہردورسے گزرنے والے کے لیے اکتساب صفات حسنہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ،امام حسین ۳/ شعبان ۴ ہجری کوپیداہوکرسرورکائنات کی پرورش وپرداخت اورآغوش مادرمیں میں رہے اورکسب صفات کرتے رہے ، ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری کوجب آنحضرت شہادت پاگئے اور ۳/ جمادی الثانیہ کوماں کی برکتوں سے محروم ہوگئے توحضرت علی نے تعلیمات الہیہ اورصفات حسنہ سے بہرہ ورکیا، ۲۱/ رمضان ۴۰ ہجری کوآپ کی شہادت کے بعدامام حسن کے سرپرذمہ داری عائد ہوئی ،امام حسن ہرقسم کی استمدادواستعانت خاندانی اورفیضان باری میں برابرکے شریک رہے ، ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری کوجب امام حسن شہیدہوگئے توامام حسین صفات حسنہ کے واحدمرکز بن گئے ،یہی وجہ ہے کہ آپ میں جملہ صفات حسنہ موجودتھے اورآپ کے طرزحیات میں محمدوعلی وفاطمہ اورحسن کاکردارنمایاں تھا اورآپ نے جوکچھ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا،کتب مقاتل میں ہے کہ کربلامیں حب امام حسین رخصت آخری کے لیے خیمہ میں تشریف لائے توجناب زینب نے فرمایاتھا کہ ائے خامس آل عباآج تمہاری جدائی کے تصورسے ایسامعلوم ہوتاہے کہ محمدمصطفی ،علی مرتضی، فاطمةالزہراء، حسن مجتبی ہم سے جداہورہے ہیں۔
حضرت عمرکااعتراف شرف آل محمد
عہدعمری میں اگرچہ پیغمبراسلام کی آنکھیں بندہوچکی تھی اورلوگ محمدمصطفی کی خدمت اورتعلیمات کوپس پشت ڈال چکے تھے لیکن پھربھی کبھی کبھی ”حق برزبان جاری“ کے مطابق عوام سچی باتیں سن ہی لیاکرتے تھے ایک مرتبہ کاذکرہے کہ حضرت عمرمنبررسول پرخطبہ فرمارہے تھے ناگاہ حضرت امام حسین کاادھرسے گزر ہوا آپ مسجدمیں تشریف لے گئے اورحضرت عمرکی طرف مخاطب ہوکربولے ”انزل عن منبرابی“ میرے باپ کے منبرسے اترآئیے اورجائیے اپنے باپ کے منبرپربیٹھے آپ نے کہاکہ میرے باپ کاتوکوئی منبرنہیں ہے اس کے بعدمنبرسے اترکرامام حسین کواپنے ہمراہ گھرلے گئے اوروہاں پہنچ کرپوچھاکہ صاحب زادے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ہے توانہوں نے فرمایاکہ میں نے اپنے سے کہاہے ،مجھے کسی نے سکھایانہیں اس کے بعدانہوں نے کہاکہ میرے ماں باپ تم پرفداہوں ،کبھی کبھی آیاکروآپ نے فرمایابہترہے ایک دن آپ تشریف لے گئے توحضرت عمرکومعاویہ سے تنہائی میں محوگفتگوپاکوواپس چلے گئے ۔۔۔۔ جب اس کی اطلاع حضرت عمرکوہوئی توانہوں نے محسوس کیااورراستے میں ایک دن ملاقات پرکہاکہ آپ واپس کیوں چلے آئے تھے فرمایا کہ آپ محوگفتگوتھے اس لیے میں نے عبداللہ (ابن عمر) کے ہمراہ واپس آیاحضرت عمرنے کہاکہ ”فرزندرسول میرے بیٹے سے زیادہ تمہاراحق ہے“ فانما انت ماتری فی روسنااللہ ثم انتم“ اس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ میراوجودتمہارے صدقہ میں ہے اورمیرا رواں تمہارے طفیل سے اگاہے (اصابة ج ۲ ص ۲۵ ،کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ،ازالة الخفاء )۔
ابن عمرکااعتراف شرف حسینی
ابن حریب راوی ہیںکہ ایک دن عبداللہ ابن عمرخانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں حضرت امام حسین علیہ السلام سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دئیے ابن عمرنے لوگوں کی طرف مخاطب ہوکرکہاکہ یہ شخص یعنی امام حسین اہل آسمان کے نزدیک تمام اہل زمین سے زیادہ محبوب ہیں۔
کرم حسین کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں زیرآیة ”علم آدم الاسماء کلہا“ لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگناہوتوچارقسم کے لوگوں سے مانگو : ۱ ۔ شریف عرب سے ۲ ۔ کریم حاکم سے ۳ ۔ حامل قرآن سے ۴ ۔ حسین شکل والے سے ۔
میں آپ آپ میں یہ جملہ صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ،کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاگ آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ صبیح وحسین ہیں، رسول خداکاارشاد ہے کہ جومجھے دیکھناچاہے وہ حسن اورحسین کودیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفرازفرمائیے، آپ نے فرمایاکہ جدنامدارنے فرمایاہے کہ ”المعروف بقدرالمعرفة“ معرفت کے مطابق عطیہ دیناچاہئے، تومیرے سوالات کاجواب دے ۔ بتا:
سب سے بہترعمل کیاہے؟اس نے کہااللہ پرایمان لانا۔ ۲ ۔ ہلاکت سے نجات کاذریعہ ہے؟ اس نے کہااللہ پربھروسہ کرنا۔ ۳ ۔ مردکی زینت کیاہے؟ کہا ”علم معہ حلم“ ایساعلم جس کے ساتھ حلم ہو، آپ نے فرمایادرست ہے اس کے بعدآپ ہنس پڑے۔ ورمی بالصرةالیہ اورایک بڑاکیسہ اس کے سامنے ڈال دیا۔ (فضائل الخمسة من الصحاح الستہ جلد ۳ ص ۲۶۸) ۔
امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسول اوراصحاب صفہ میںسے کہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیاررکررہے تھے ،اسی دوران میں فرمایا،ان ابنی ہذا یقتل بارض یقال لہاکربلاء فمن شہدذالک منکم فلینصرہ“ کہ میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گاجس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مددکرے۔
راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلامیں شہیدہوگئے تھے(اسدالغابہ جلد ۱ ص ۱۲۳ و ۳۴۹ ،اصابہ جل ۱ ص ۶۸ ،کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۲۳ ،ذخائرالعقبی محب طبری ص ۱۴۶) ۔
امام حسین علیہ السلام کی عبادت
علماء ومورخین کااتفاق ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام زبردست عبادت گزارتھے آپ شب وروزمیں بے شمارنمازیں پڑھتے تھے اورانواع واقسام عبادات سے سرفرازہوتے تھے آپ نے پچس حج پاپیادہ کئے اوریہ تمام حج زمانہ قیام مدینہ منورہ میں فرمائے تھے، عراق میں قیام کے دوران آپ کواموی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی حج کاموقع نہیں مل سکا۔ (اسدالغابہ جلد ۳ ص ۲۷)
امام حسین کی سخاوت
مسندامام رضا ص ۳۵ میں ہے کہ سخی دنیاکے لوگوں کے سرداراورمتقی آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین سخی ایسے تھے جن کی نظیرنہیں اورمتقی ایسے تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسول علیل تھے امام حسین انھیں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حدرنجیدہ ہیں، پوچھا،ائے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے”واغماہ“ کیوں کہتے ہو،عرض کی مولا، ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبراو نہیں اسے میں اداکردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرضے کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اوراس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکربذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں،اس نے شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعدآپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اپنی پشت پرلادکراشرفیاں اورغلوں کے گٹھربیواؤں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایاکرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک غیرمعصوم فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزاراشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۴ ص ۷۴) ۔
امام شلبجی اورعلامہ محمدابن طلحہ شافعی نے نورالابصاراورمطالب السؤل میں ایک اہم واقعہ آپ کی صفت سخاوت کے متعلق تحریرکیاہے جسے ہم امام حسن کے حال میں لکھ آئے ہین کیونکہ اس واقعہ سخاوت میں وہ بھی شریک تھے۔
جنگ صفین میں امام حسین کی جدوجہد
اگرچہ مورخین کاتقریبااس پراتفاق ہے کہ امام حسین عہدامیرالمومنین کے ہرمعرکہ میں موجودرہے، لیکن محض اس خیال سے کہ یہ رسول اکرم کی خاص امانت ہیں انہیں کسی جنگ میں لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی (نورالحسینہ ص ۴۴) ۔
لیکن علامہ شیخ مہدی مازندرانی کی تحقیق کے مطابق آپ نے بندش آپ توڑنے کے لیے مقام صفین میں نبرآزمائی فرمائی تھی(شجرئہ طوبی طبع نجف اشرف ۱۳۵۴ ئھ وبحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۵۷ طبع ایران)۔
علامہ باقرخراسانی لکھتے ہیں کہ اس موقع پرامام حسین کے ہمراہ حضرت عباس بھی تھے (کبریت الاحمرص ۲۵ وذکرالعباس ص ۲۶) ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام گرداب مصائب میں واقعہ کربلاکاآغاز
حضرت امام حسین علیہ السلام جب پیغمبراسلام حضرت محمدمصطفی صلعم کی زندگی کے آخری لمحات سے لے کرامام حسن کی حیات کے آخری ایام تک بحرمصائب وآلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہدمیں داخل ہوئے جس کے بعدآپ کے علاوہ پنجتن میں کوئی باقی نہ رہاتوآپ کاسفینہ حیات خود گرداب مصائب میں آگیاامام حسن کی شہادت کے بعدسے معاویہ کی تمام ترجدوجہدیہی رہی کہ کسی طرح امام حسین کاچراغ زندگی بھی اسی طرح گل کردے، جس طرح حضرت علی اورامام حسن کی شمع حیات بجھاچکاہے اوراس کے لیے وہ ہرقسم کاداؤں کرتارہااوراس سے کامقصدصرف یہ تھاکہ یزیدکی خلافت کے منصوبہ کوپروان چڑھائے ،بالآخراس نے ۵۶ ء میں ایک ہزارکی جمیعت سمیت یزیدکے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجازکاسفراختیارکیا اور مدینہ منورہ پہنچا۔
وہاں امام حسین سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزیدکاذکرکیا،آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کاحوالہ دے کرانکارکردیا،معاویہ کوآپ کاانکار کھلاتوبہت زیادہ لیکن چندالٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوااورکچھ کرنہ سکا اس کے بعدمدینہ اورپھرمکہ میں بیعت یزید لے کرشام کوواپس چلاگیا۔ علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ امیرمعاویہ نے جب مدینہ میں بیعت کاسوال اٹھایاتوحسین بن علی، عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرنے بیعت یزید سے انکارکردیا اس نے بڑی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہ مانے اوررفع فتنہ کے لیے امام حسین کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے ۔
معاویہ ان کے پیچھے مکہ پہنچااوروہاں ان پردباؤڈالا لیکن کامیاب نہ ہوا،آخرکار شام واپس چلاگیا (روضة الشہداء ص ۲۳۴) ۔
معاویہ بڑی تیزکی ساتھ بیعت لیتارہا اوربقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلہ میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کے دین بھی خریدلیے، الغرض رجب ۶۰ ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دنیاسے چلاگیا،یزیدجواپنے باپ کے مشن کوکامیاب کرناضروری سمجھتاتھا سب سے پہلے مدینہ کی طرف متوجہ ہوگیا اوراس نے وہاں کے والی ولیدبن عقبہ کولکھا کہ امام حسین ،عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرسے میری بیعت لے لے ،اوراگریہ انکارکریں توان کے سرکاٹ کرمیرے پاس بھیج دے ،ابن عقبہ نے مروان سے مشورہ کیااس نے کہاکہ سب بیعت کرلیں گے لیکن امام حسین ہرگزبیعت نہ کریں گے اورتجھے ان کے ساتھ پوری سختی کابرتاؤ کرناپڑے گا۔
صاحب تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ولیدنے ایک شخص (عبدالرحمن بن عمربن عثمان) کوامام حسین اورابن زبیرکوبلانے کے لیے بھیجا، قاصد جس وقت پہنچادونوں مسجدمیں محوگفتگوتھے آپ نے ارشادفرمایاکہ تم چلوہم آتے ہیں، قاصدواپس چلاگیااوریہ دونوں آپ میں بلانے کے سبب پرتبادلہ خیالات کرنے لگے امام حسین نے فرمایاکہ میں نے آج ایک خواب دیکھاہے جس سے میں یہ سمجھتاہوںکہ معاویہ نے انتقال کیااوریہ ہمیں بیعت یزیدکے لیے بلارہاہے ابھی یہ حضرات جانے نہ پائے تھے کہ قاصدپھرآگیا اوراس نے کہاکہ ولیدآپ حضرات کے انتظارمیں ہے امام حسین نے فرمایاکہ جلدی کیاہے جاکرکہہ دوکہ ہم تھوڑی دیرمیں آجائیں گے ۔
اس کے بعدامام حسین دولت سرامیں تشریف لائے اور ۳۰ بہادروں کوہمراہ لے کرولیدسے ملنے کاقصد فرمایا آپ داخل دربارہوگئے اوربہادران بنی ہاشم بیرون خانہ درباری حالات کامطالعہ کرتے رہے ولیدنے امام حسین کی مکمل تعظیم کی اورخبرمرگ معاویہ سنانے کے بعدبیعت کاذکرکیا ،آپ نے فرمایاکہ مسئلہ سوچ بچارکاہے تم لوگوں کوجمع کرواورمجھے بھی بلالومیں ”علی روس الاشہاد“ یعنی عام مجمع میں اظہارخیال کروں گا۔
ولیدنے کہابہترہے ،پھرکل تشریف لائیے گا ابھی آپ جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول اٹھا اے ولیداگرحسین اس وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے توپھرہاتھ نہ آئیں گے ان کواسی وقت مجبورکردے اورابھی ابھی بیعت لے لے اوراگریہ انکارکریں توحکم یزیدکے مطابق سرتن سے اتارلے یہ سننا تھا کہ امام حسین کوجلال آگیاآپ نے فرمایا”یابن الزرقا“ کس میں دم ہے کہ حسین کوہاتھ لگاسکے، تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبورکیاجاسکتاہے کہ ہم یزید جیسے فاسق وفاجراورشرابی کی بیعت کرلیں، امام حسین کی آوازکابلند ہونا تھاکہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہوگئے اورقریب تھاکہ زبردست ہنگامہ برپاکردیں لیکن امام حسین نے انہیں سمجھابجھاکرخاموش کردیا اس کے بعدامام حسین واپس دولت سراتشریف لے گئے ولیدنے ساراواقعہ یزیدکولکھ کربھیج دیااس نے جواب میں لکھاکہ اس خط کے جواب میں امام حسین کاسربھیج دو،ولیدنے یزید کاخط امام حسین کے پاس بھیج کر کہلابھیجا کہ فرزندرسول ،میں یزید کے کہنے پرکسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا لیکن آپ کوباخبرکرتاہوں اوربتانا چاہتاہوں کہ یزیدآپ کے خون بہانے کے درپے ہے_
امام حسین نے صبرکے ساتھ حالات پرغورکیااورناناکے روضہ پرجاکردرددل بیان فرمایااوربے انتہاروئے ،صبح صادق کے قریب مکان واپس آئے دوسری رات کوپھرروضہ رسول پرتشریف لے گئے اورمناجات کے بعد روتے روتے سوگئے خواب میں آنحضرت کودیکھاکہ آپ حسین کی پیشانی کابوسہ لے رہے ہیں اورفرمارہے ہیں کہ اے نورنظرعنقریب امت تمہیں شہیدکردے گی بیٹاتم بھوکے پیاسے ہوگے تم فریادکرتے ہوگے اورکوئی تمہاری فریادرسی نہ کرے گا امام حسین کی آنکھ کھل گئی آپ دولت سراواپس تشریف لائے اوراپنے اعزا کوجمع کرکے فرمانے لگے کہ اب اس کے سواکوئی چارہ کارنہیں ہے کہ میں مدینہ کوچھوڑدوں ،ترک وطن کافیصلہ کرنے کے بعدروضہ امام حسن اورمزارجناب سیدہ پرتشریف لے گئے بھائی سے رخصت ہوئے ماں کوسلام کیاقبرسے جواب سلام آیا، ناناکے روضہ پررخصت آخری کے لیے تشریف لے گئے روتے روتے سوگئے سرورکائنات نے خواب میں صبرکی تلقین کی اورفرمایا بیٹاہم تمہارے انتظارمیں ہیں۔
علماء کابیان ہے کہ امام حسین ۲۸/ رجب۶ ۰ ھ یوم سہ شنبہ کومدینہ منورہ سے بارادہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے علامہ ابن حجرکاکہناہے کہ ”نفرلمکتہ خوفا علی نفسہ“ امام حسین جان کے خوف سے مکہ تشریف لے گئے (صواعق محرقہ ص ۴۷) ۔
آپ کے ساتھ تمام مخدرات عصمت وطہارت اورچھوٹے چھوٹے بچے تھے البتہ آپ کی ایک صاحبزادی جن کانام فاطمہ صغری تھا اورجن کی عمراس وقت ۷/ سال تھی بوجہ علالت شدیدہ ہمراہ نہ جاسکیں امام حسین نے آپ کی تیمارداری کے لیے حضرت عباس کی ماں جناب ام البنین کومدینہ میں ہی چھوڑدیاتھا اورکچھ فریضہ خدمت ام المومنین جناب ام سلمہ کے سپردکردیاتھا، آپ ۳/ شعبان ۶۰ ھ یوم جمعہ کومکہ معظمہ پہنچ گئے آپ کے پہنچتے ہی والی مکہ سعیدابن عاص مکہ سے بھاگ کرمدینہ چلاگیا اوروہاں سے یزیدکومکہ کے تمام حالات لکھے اوربتایاکہ لوگوں کارجحان امام حسین کی طرف اس تیزی سے بڑھ رہاہے جس کاجواب نہیں ،یزیدنے یہ خبرپاتے ہی مکہ میں قتل حسین کی سازش پرغورکرناشروع کردیا۔
امام حسین مکہ معظمہ میں چارماہ شعبان،رمضان،شوال،ذیقعدہ مقیم رہے یزیدجوبہرصورت امام حسین کوقتل کرناچاہتاتھا اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ حسین اگرمدینہ سے بچ کرنکل گئے ہیں تومکہ میں قتل ہوجائیں اوراگرمکہ سے بچ نکلیں توکوفہ پہنچ کرشہیدہوسکیں، یہ انتظام کیاکہ کوفے سے ۱۲ ہزارخطوط دوران قیام مکہ میںبھجوائے کیونکہ دشمنوں کویہ یقین تھاکہ حسین کوفہ میں آسانی سے قتل کئے جاسکیں گے ،نہ یہاں کے باشندوں میں عقیدہ کاسوال ہے اورنہ عقیدت کا یہ فوجی لوگ ہیں ان کی عقلیں بھی موٹی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شہادت حسین سے قبل جب تک جتنے افسر بھیجے گئے وہ محض اس غرض سے بھیجے جاتے رہے کہ حسین کوگرفتارکرکے کوفہ لے جائیں (کشف الغمہ ص ۶۸) ۔
اورایک عظیم لشکر مکہ میں شہیدکئے جانے کے لیے ارسال کیااور ۳۰ / خارجیوں کوحاجیوں کے لباس میں خاص طورپربھجوادیاجس کاقائد عمرابن سعدتھا (ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۲۱ ،منتخب طریحی خلاصة المصائب ص ۱۵۰ ،ذکرالعباس ص ۱۲۲) ۔
عبدالحمید خان ایڈیٹر رسالہ مولوی دہلی لکھتے ہیں کہ ”اس کے علاوہ ایک سازش یہ بھی کی گئی کہ ایام حج میں تین سوشامیوں کوبھیج دیاگیاکہ وہ گروہ حجاج میں شامل ہوجائیں اورجہاں جس حال میں بھی حضرت امام حسین کوپائیں قتل کرڈالیں (شہیداعظم ص ۷۱) ۔
خطوط جوکوفہ سے آئے تھے انہیں شرعی رنگ دیاگیاتھا اوروہ ایسے لوگوں کے نام سے بھیجے گئے تھے جن سے امام حسین متعارف تھے شاہ عبدالعزیز دہلوی کاکہناہے کہ یہ خطوط ”من کل طائفة وجماعة“ ہرطائفہ اورجماعت کی طرف سے بھجوائے گئے تھے (سرالشہادتین ص ۶۷) ۔ علامہ ابن حجرکاکہناہے کہ خطوط بھیجنے والے عام اہل کوفہ تھے (صواعق محرقہ ص ۱۱۷) ابن جریرکابیان ہے کہ اس زمانہ میں کوفہ میں ایک دوگھرکے علاوہ کوئی شیعہ نہ تھا (طبری) حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے لیے تفحص حالات کی خاطرجناب مسلم ابن عقیل کوکوفہ روانہ کردیا۔
مکہ معظمہ میں امام حسین کی جان نہ بچ سکی
یہ واقعہ ہے کہ امام حسین مدینہ منورہ سے اس لے عازم مکہ ہوئے تھے کہ یہاں ان کی جان بچ جائے گی لیکن آپ کی جان لینے پرایساسفاک دشمن تلاہواتھا جس نے مکہ معظمہ اورکعبہ محترمہ میں بھی آپ کومحفوظ نہ رہنے دیا اوروہ وقت آگیاکہ امام حسین مقام امن کومحل خوف سمجھ کر مکہ معظمہ چھوڑنے پرمجبورہوگئے اورقریب تھاکہ آپ کوعالم حج وطواف میں قتل کردیں۔
امام حسین کوجیسے ہی سازش کاپتہ لگا،آپ نے فوراحج کوعمرہ منفردہ سے بدلااور ۸/ ذی الحجہ۶ ۰ ھ کوجناب مسلم کے خط پربھروسہ کرکے عازم کوفہ ہوگئے ابھی آپ روانہ نہ ہونے پائے تھے کہ اعزاء واقربانے کمال ہمدردی کے ساتھ التوائے سفر کوفہ کی درخواست کی ،آپ نے فرمایا کہ گرچیونٹی کے بل میں بھی چھپ جاؤں توبھی ضرورقتل کیاجاؤں گا اورسنومیرے نانا نے فرمایاہے کہ حرمت مکہ ایک دنبہ کے قتل سے بربادہوگی میں ڈرتاہوں کہ وہ دنبہ میں ہی نہ قرارپاؤں میری خواہش ہے کہ میں مکہ سے باہرچاہے ایک ہی بالشت پرکیوں نہ ہوں قتل کیاجاوں گا(تاریخ کامل جلد ۴ ص ۲۰ ،ینابع المودة ص ۲۳۷ ، صواعق محرقہ ص ۱۱۷) ۔
یہ واقعہ ہے کہ کہ یزیدکاارادہ بہرصورت امام حسین کوقتل کرنااوراستیصال بنی فاطمہ تھا۔(کشف الغمہ ص ۸۷) ۔
یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین کے مکہ معظمہ سے روانہ ہونے کی اطلاع والی مکہ عمربن سعیدکوہوئی تواس نے پوری طاقت سے آپ کوواپس لانے کی سعی کی اوراسی سلسلہ میں اسی نے یحی بن سعیدابن العاص کوایک گروہ کے ساتھ آپ کوروکنے کے لیے بھیج دیا”فقالوا لہ انصرف این تذہب“ ان لوگوں نے آپ کو روکااورکہاکہ آپ یہاں سے کہاں نکلے جارہے ہیں فورالوٹیے ،آپ نے فرمایاایساہرگز نہیں ہوگا،یہ روکنامعمولی نہ تھا بلکہ ایساتھاجس میں مارپیٹ کی بھی نوبت آئی (دمعةساکبة ص ۳۱۶) مقصدیہ ہے کہ والی مکہ یہ نہیں چاہتاتھاکہ امام حسین ا سکے حدوداقتدارسے نکل جائیں اوریزید کے منشاء کوپورانہ کرسکے کیونکہ اس کے پیش نظروالی مدینہ کی برطرفی یاتعطل تھا،وہ دیکھ چکاتھا کہ حسین کے مدینہ سے سالم نکل آنے پروالی مدینہ برطرف کردیاگیاتھا۔
امام حسین کی مکہ سے رونگی
الغرض امام حسین اپنے جملہ اعزاء واقرباء اورانصارجان نثار کوہمراہ لے کرجن کی تعدادبقول امام شبلنجی ۸۲ تھی مکہ سے روانہ ہوگئے آپ جس وقت منزل صفاح پرپہنچے توفرزدق شاعرسے ملاقات ہوئی وہ کوفہ سے آرہاتھا استفساربراس نے بتایاکہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہوں لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں آپ نے اپنی روانگی کے وجوہ بیان فرمائے اورآپ وہاں سے آگے بڑھے پھرمنزل حاجزکے ایک چشمہ پراترے وہاں عبداللہ ابن مطیع سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی کوفیوں کی بے پروائی کاذکرکیا،اسکے بعد آپ منزل بطن الرمہ پہنچے اوروہاں سے منزل ذات العرق میں ڈیرہ ڈالا،وہاںشخص بشیربن غالب سے ملاقات ہوئی اس نے بھی کوفیوں کی غداری کاتذکرہ کیا۔
پھرآپ وہاں سے آگے بڑھے ایک مقام پرایک خیمہ نصب دیکھا پوچھااس جگہ کون ٹہراہے معلوم ہوکہ زبیرابن ایقین ،آپ نے انہیں بلوابھیجا،جب وہ آئے توآپ نے اپنی حمایت کاذکرکیاانہوں نے قبول کرکے اپنی بیوی کوبروائتے اپنے بھائی کے ہمراہ گھرروانہ کردیااورخودامام حسین کے ساتھ ہوگئے ، پھروہاں سے روانہ ہوکر منزل ”زبالہ“ میں پہنچے وہاں آپ کوحضرت مسلم وہانی اورمحمدبن کثیراورعبداللہ بن یقطرجیسے دلیروں کی شہادت کی خبرملی آپ نے اناللہ واناالیہ راجعون فرمایا اورداخل خیمہ ہوکرحضرت مسلم کی بچیوں کوکمال محبت کے ساتھ پیارکیا اوربے انتہاروئے اس کے بعد ارشادفرمایا کہ میراقتل یقینی ہے ،میں تم لوگوں کی گردنوں سے طوق بیعت اتارے لیتاہوں تمہاراجدھرجی چاہے چلے جاؤ،دنیادارتوواپس ہوگئے ،لیکن سب دیندارہم رکاب ہی رہے۔
پھروہاں سے روانہ ہوکر منزل قصربنی مقاتل پراترے وہاں عبداللہ ابن حرجعفی سے ملاقات ہوئی آپ کے اصرارکے باوجودوہ بقول واعظ کاشفی آپ کے ہمرکاب نہ ہوا پھرمنزل ثعلبیہ پرپہنچے ،وہاں جناب زینب کی آغوش میں سررکھ کے سوگئے خواب میں رسول خداکودیکھاکہ وہ بلارہے ہیں آب روپڑے ،ام کلثوم نے سبب گریہ پوچھاآپ نے خواب کاحوالہ دیااورخاندان کی تباہی کاتاثرظاہرفرمایا ،علی اکبرنے عرض کی باباہم حق پرہیں ہمیں موت سے ڈرنہیں۔
اس کے بعدآپ نے منزل قطقطانیہ پرخطبہ دیااوروہاں سے روانہ ہوکرقبیلہ بنی سکون میں ٹہرے آپ کی یہاں سکونت کی اطلاع ابن زیادہ کودی گئی اس نے ایک ہزاریادوہزارکے لشکرسمیت حربن یزیدریاحی کوامام حسین کی گرفتاری کے لیے روانہ کردیاامام حسین اپنی قیام گاہ سے نکل کرکوفہ کی طرف بدستورروانہ ہوگئے راستے میں بنی عکرمہ کاایک شخص ملا، اس نے کہاقادسیہ سے غدیب تک ساری زمین لشکرسے پٹی پڑی ہے آپ نے اسے دعائے خیردی اورخودآگے بڑھ کر”منزل شراف“ پرقیام کیاوہاں آپ نے محرم ۶۱ ئھ کاچانددیکھا اورآپ رات گذارکر علی الصباح روانہ ہوگئے۔
حربن یزیدریاحی
صبح کاوقت گزرادوپہرآئی لشکر حسین بادیہ پیمائی کررہاتھا کہ ناگاہ ایک صحابی حسین نے تکبیرکہی لوگوں نے سبب پوچھا،اس نے جواب دیاکہ مجھے کوفہ کی سمت خرمے اورکیلے کے درخت جیسے نظرآرہے ہیں یہ سن کرلوگ یہ خیال کرتے ہوئے کہ س جنگل میں درخت کہاں، اس طرف غورسے دیکھنے لگے ،تھوڑی دیرمیں گھوڑوں کی کنوتیاں نظرآئیں امام نے فرمایاکہ دشمن آرہے ہیں لہذا منزل ذوخشب یاذوحسم کی طرف مڑچلو، لشکرحسین نے رخ بدلا اورلشکرحرنے تیزرفتاری اختیارکی بالآخرسامنے آپہنچا اوربروایتے لجام فرس پرہاتھ ڈال دیا یہ دیکھ کرحضرت عباس آگے بڑھے اورفرمایاتیری ماں تیرے ماتم ماتم میں بیٹھے ”’ماترید“ کیاچاہتاہے (مائیتین) ص ۱۸۳) ۔
مورخین کابیان ہے کہ چونکہ لشکرحرپیاس سے بے چین تھا اس لے ساقی کوثرکے فرزندنے اپنے بہادروں کوحکم دیاکہ حرکے سواروں اورسواری کے جانوروں کواچھی طرح سیراب کردو، چنانچہ اچھی طرح سیرابی کردی گئی اس کے بعدنمازظہرکی اذان ہوئی حرنے امام حسین کی قیادت میں نمازاداکی اوریہ بتایاکہ ہمیں آپ کی گرفتاری کے لیے بھیجاگیاہے اورہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم آپ کوابن زیادکے دربارمیں حاضرکریں، امام حسین نے فرمایاکہ میرے جیتے جی یہ ناممکن ہے کہ میں گرفتارہوکرخاموشی کے ساتھ کوفہ میں قتل کردیاجاؤں۔
پھراس نے تنہائی میں رائے دی کہ چپکے سے رات کے وقت کسی طرف نکل جائیے آپ نے اس کی رائے کوپسندکیا اورایک راستے پرآپ چل پڑے جب صبح ہوئی توپھرحرکوتعاقب کرتے دیکھے اورپوچھاکہ اب کیابات ہے اس نے کہامولاکسی جاسوس نے ابن زیادسے غمازی کردی ہے چنانچہ اب اس کاحکم یہ آگیاہے کہ میں آپ کوبے آب وگیاہ جنگل میں روگ لوں گفتگوکے ساتھ ساتھ رفتاربھی جاری تھی کہ ناگاہ امام حسین کے گھوڑے نے قدم روکے، آپ نے نے لوگوں سے پوچھااس زمین کوکیاکہتے ہیں کہاگیاکربلا آپ نے اپنے ہمراہیوں کوحکم دیاکہ یہیں پرڈیرے ڈال دواوریہیں خیمے لگادوکیونکہ قضائے الہی یہیں ہمارے گلے ملے گی(نورالابصار ص ۱۱۷ ،مطالب السؤل ص ۲۵۷ ، طبری جلد ۳ ص ۴۰۷ ،کامل جلد ۴ ص ۲۶ ،ابوالفداء ج ۲ ص ۲۰۱ ،دمعة ساکبة ص ۳۳۰ اخبارالطوال ص ۲۵۰ ،ابن الوردی جلد ۱ ص ۱۷۲ ،ناسخ جلد ۶ ص ۲۱۹ ،بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۸۶) ۔
کربلامیں ورود
۲/ محرم الحرام ۶۱ ھ یوم پنجشنبہ کوامام حسین علیہ السلام واردکربلاہوگئے نورالعین ص ۴۶ حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۵۱ مطالب السؤل ص ۲۵۰ ، ارشادمفید،دمعة ساکبة ص ۳۲۱ ۔
واعظ کاشفی اورعلامہ اربلی کابیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین نے زمین کربلاپرقدم رکھا زمین کربلازردہوگئی اورایک ایساغباراٹھاجس سے آپ کے چہرئہ مبارک پرپریشانی کے آثارنمایاں ہوگئے ،یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اورجناب ام کلثوم رونے لگیں (کشف الغمہ ص ۶۹ روضة الشہداء ص ۳۰۱) ۔
صاحب مخزن البکالکھتے ہیں کہ کربلاپرورودکے فورابعد جناب ام کلثوم نے امام حسین سے عرض کی ،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارے دل دھل رہے ہیں امام حسین نے فرمایابس یہ وہی مقام ہے جہاں باباجان نے صفین کے سفرمیں خواب دیکھاتھا یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہماراخون بہے گا ،کتاب مائین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہوگیا۔
امام حسین کاخط اہل کوفہ کے نام
کربلاپہنچنے کے بعدآپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کے لیے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہرکے ذریعہ سے ایک ارسال فرمایا ،جس میں آپ نے تحریرفرمایا کہ تمہاری دعوت پرمیں کربلاتک آگیاہوں،الخ۔ قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتارکرلیے گئے اورانہیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکرپیش کردیاگیا،ابن زیادنے خط مانگا قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے خط کوکھالیا ابن زیادنے انہیں بضرب تازیانہ شہیدکردیا(روضة الشہداء ص ۳۰۱ ،کشف الغمہ ص ۶۶) ۔
عبیداللہ ابن زیادکاخط امام حسین کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین کے کربلاپہنچنے کے بعدحرنے ابن زیادکوآپ کی رسیدگی کربلاکی خبردی اس نے امام حسین کوفوراایک خط ارسال کیاجس میں لکھاکہ مجھے یزیدنے حکم دیاہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں، یاآپ کوقتل کردوں ،امام حسین نے اس خط کاجواب نہ دیا ”القاہ من یدہ“ اوراسے زمین پرپھینک دیا(مطالب ا لسؤل ص ۲۵۷ ،نورالابصار ص ۱۱۷) ۔
اس کے بعد آپ نے محمدبن حنفیہ کواپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اورتحریرفرمایاکہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیاہے اورعنقریب عروس موت سے ہم کنارہوجاؤں گا(جلاء العیون ص ۱۹۶) ۔
حضرت امام حسین میدان جنگ میں
جب آپ کے بہتراصحاب وانصاراوربنی ہاشم قربان گاہ اسلام پرچڑھ چکے توآپ خوداپنی قربانی پیش کرنے لیے میدان کارزارمیں آپہنچے ،لشکر یزیدجوہزاروں کی تعدادمیں تھا،اصحاب باوفااوربہادران بنی ہاشم کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکاتھا امام حسین جب میدان میں پہنچے تودشمنوں کے لشکرمیں تیس ہزارسواروپیادے باقی تھے ،یعنی صرف ایک پیاسے کوتیس ہزاردشمنوں سے لڑناتھا (کشف الغمہ)۔میدان میں پہنچنے کے بعدآپ نے سب سے پہلے دشمنوں کومخاطب کرکے ایک خطبہ اراشادفرمایاآپ نے کہا:
”ائے ظالمو! میرے قتل سے بازآؤ،میرے خون سے ہاتھ نہ رنگو،تم جانتے ہومیں تمہارے نبی کانواسہ ہوں، میرے باباعلی سابق الاسلام ہیں، میری ماں فاطمة الزہراتمہارے نبی کی بیٹی ہیں اورتم جانتے ہوکہ میرے نانا رسول اللہ نے مجھے اورمیرے بھائی حسن کوسردارجوانان بہشت فرمایاہے،افسوس تم اپنے نبی کی ذریت اوراپنے رسول کی آل کا خون بہاتے ہواورمیرے خون ناحق پرآمادہ ہوتے ہو،حالانکہ نہ میں نے کسی کوقتل کیاہے نہ کسی کامال چھیناہے کہ جس کے بدلے میں تم مجھ کوقتل کرتے ہو،میں تودنیاسے بے تعلق اپنے نانارسول کی قبرپرمجاوربیٹھاتھا تم نے مجھے ہدایت کے لیے بلایااورمجھے نہ نانا کی قبرپربیٹھنے دیا نہ خداکے گھرمیں رہنے دیا،سنواب بھی ہوسکتاہے کہ مجھے اس کاموقع دے دو، کہ میں ناناکی قبرپرجابیٹھوں یاخانہ خدامیں پناہ لے لوں۔
اس کے بعدآپ نے اتمام حجت کے لیے عمرسعدکوبلایا اوراس سے فرمایا تم میرے قتل سے بازآؤ ۲ ۔ مجھے پانی دیدو ۳ ۔ اگریہ منظورنہ ہوتوپھرمیرے مقابلہ کے لیے ایک ایک شخص کوبھیجو۔
اس نے جواب دیاآپ کی تیسری درخواست منظورکی جاتی ہے اورآپ سے لڑنے کے لیے ایک ایک شخص مقابلہ میں آئے گا۔(روضة الشہداء)۔
امام حسین کی نبردآزمائی
معاہدہ کے مطابق آپ سے لڑنے کے لیے شام سے ایک ایک شخص آنے لگا اورآپ اسے فناکے گھاٹ اتارنے لگے سب سے پہلے جوشخص مقابلہ کے لیے نکلاوہ ثمیم ابن قحطبہ تھا آپ نے اس پربرق خاطف کی طرف حملہ کیا اوراسے تباہ وبربادکرڈالا،یہ سلسلہ جنگ تھوڑی دیرجاری رہا اورمدت قلیل میں کشتوں کے پشتے الگ گئے اورمقتولین کی تعدادحدشمارسے باہرہوگئی یہ دیکھ کرعمرسعدنے لشکروالوں کوپکارکرکہاکیادیکھتے ہوسب مل کریکبارگی حملہ کردو، یہ علی کاشیرہے اس سے انفرادی مقابلہ میں کامیابی قطعا ناممکن ہے ،عمرسعدکی اس آوازنے لشکرکے حوصلے بلندکردئیے اورسب نے مل کر یکبارگی حملہ کافیصلہ کیا آپ نے لشکر کے میمنہ اورمیسرہ کوتباہ کردیاآپ کے پہلے حملہ میں ایک ہزارنوسوپچاس دشمن قتل ہوئے اورمیدان خالی ہوگیا ابھی آپ سکون نہ لینے پائے تھے کہ اٹھائیس ہزاردشمنوں نے پھرحملہ کردیا،اس تعدادمیں چارہزارکمانڈرتھے اب صورت یہ ہوئی کہ سورا،پیادے اورکمانڈروں نے ہم آہنگ وعمل ہوکرمسلسل اورمتواتر حملے شروع کردئیے اس موقع پرآپ نے جوشجاعت کاجوہردکھلایااس کے متعلق مورخین کاکہناہے کہ سربرسنے لگے دھڑگرنے لگے ،اورآسمان تھرتھرایا زمین کانپی، صفیں الٹیں، پرے درہم برہم ہوگئے۔
اللہ رے حسین کاوہ آخری جہاد ہروارپرعلی ولی دے رہے تھے داد
کبھی میسرہ کوالٹتے ہیں،کبھی میمنہ کوتوڑتے ہیں ،کبھی قلب لشکرمیں درآتے ہیں کبھی جناح لشکر پرحملہ فرماتے ہیں شامی کٹ رہے ہیں کوفی گررہے ہیں لاشوں کے ڈھیرلگ رہے ہیں حملے کرتے ہوئے فوجوں کوبھگاتے ہوئے نہرکی طرف پہنچ جاتے ہیںبھائی کی لاش ترائی میں پڑی نظرآتی ہے آپ پکارکرکہتے ہیں اے عباس تم نےیہ حملے نہ دیکھے ،یہ صف آرائی نہ دیکھی افسوس کہ تم نے میری تنہائی نہ دیکھی علامہ اسفرائنی کاکہناہے کہ امام حسین دشمنوں پر حملہ کرتے تھے ،تولشکراس طرح سے بھاگتاتھاجس طرح ٹڈیاں منتشرہوجاتی ہیں نورالعین میں ایک مقام پرلکھاہے کہ امام حسین بہادرشیرکی طرح حملہ فرماتے اورصفوں کودرہم برہم کردیتے تھے اوردشمنوں کواس طرح کاٹ کرپھینک دیتے تھے جس طرح تیزدھارآلہ سے کھیتی کٹتی ہے۔
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ آنحضرت حملہ گراں افگندہرکہ بادکوشید شربت مرگ نوشیدوبہرجانب کہ تاخت گردہے را بخاک انداخت ،کہ آپ عظیم الشان حملہ کی کوئی تاب نہ لاسکتاتھا جوآپ کے سامنے آتاتھا ،شربت مرگ سے سیراب ہوتاتھا اورآپ جس جانب حملہ کرتے تھے گروہ کے گروہ کوخاک میں ملادیتے تھے (کشف الغمہ ص ۷۸) ۔
مورخ ابن اثیرکابیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کویوم عاشوراداہنے اوربائیں دونوں جانب سے گھیرلیاگیاتوآپ نے دائیں جانب حملہ کرکے سب کوبھگادیا پھرپلٹ کر بائیں جانب حملہ کرتے ہوئے آئے توسب کومارکرہٹادیاخداکی قسم حسین سے بڑھ کرکسی شخص کوایساقوی دل ثابت قدم، بہادرنہیں دیکھاگیاجوشکستہ دل ہو،صدمہ اٹھائے ہوئے ،بیٹوں ،عزیزوں اوردوست، احباب کے داغ بھی کھائے ہوئے ہو، اورپھرحسین کی سی ثابت قدمی اوربے جگری سے جنگ کرسکے، بخدادشمنوں کی فوج کے سواراورپیادے حسین کے سامنے اس طرح بھاگتے تھے جس طرح بھیڑبکریوں کے گلے شیرکے حملہ سے بھاگتے ہیں حسین جنگ کررہے تھے ”اذاخرجت زینب“ کہ جب جناب زینب خیمہ سے نکل آئیں اورفرمایا کاش آسمان زمین پرگرپڑتا اے عمرسعد تودیکھ رہا ہے اورعبداللہ قتل کئے جارہے ہیں ،یہ سن کرعمرسعد روپڑا،آنسوڈاڈھی پربہنے لگے ،اوراس نے منہ پھیرلیا، امام حسین اس وقت خزکاجبہ پہنے ہوئے تھے سرپرعمامہ باندھاہواتھا اوروسمہ کاخضاب لگائے ہوئے تھے ،حسین نے گھوڑے سے گرکر بھی اسی طرح جنگ فرمائی جس طرح جنگ جوبہادرسوارجنگ کرتے ہیں تیروں کامقابلہ کرتے تھے حملوں کوروکتے تھے اورسواورں کے پیروں پرحملہ کرتے تھے اورکہتے تھے ، اے ظالمو! میرے قتل پرتم نے ایکاکرلیاہے قسم خداکی تم میرے قتل سے ایساگناہ کررہے ہوجس کے بعدکسی کے قتل سے بھی اتنے گنہگارنہ ہوگے تم مجھے ذلیل کررہے ہواورخدمجھے عزت دے رہاہے اورسنووہ دن دورنہیں کہ میراخداتم سے اچانک میرابدلہ لے گا،تمہیں تباہ کردے گا تمہاراخون بہائے گاتمہیں سخت عذاب میں مبتلاکرے گا۔(تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۰)
مسٹرجسٹس کارکرن امام حسین کی بہادری کاذکرکرتے ہوئے واقعہ کربلاکے حوالے سے لکھتے ہیںکہ ”دنیامیں رستم کانام بہادری میں مشہورہے لیکن کئی شخص ایسے گزرے گئے ہیں کہ ان کے سامنے رستم کانام لینے کے قابل نہیں ،چنانچہ اول درجہ میں حسین بن علی ہیں کیونکہ میدان کربلامیں گرم ریت پر اورگرسنگی میں جس شخص نے ایساایساکام کیاہو،اس کے سامنے رستم کانام وہی شخص لیتاہے جوتاریخ سے واقف نہیں ہے کسی کے قلم کوقدرت ہے کہ امام حسین کاحال لکھے کس کی زبان میں طاقت ہے کہ ان بہتربزرگواروں کی ثبات قدمی اورتہودوشجاعت اورہزروں خونخوارسواروں کے جواب دینے اورایک ایک کے ہلاک ہوجانے کے باب میں ایسی مدح کرے جیسی ہونی چاہئے کس کے بس کی بات ہے جوان پرواقع ہونے والے حالات کاتصورکرسکے، لشکرمیں گھرجانے کے بعد سے شہادت تک کے حالات عجیب وغریب قسم کی بہادری کوپیش کرتے ہیں، یہ سچ ہے کہ ایک کی دوا، دومشہورہے اورمبالغہ کی یہی حدہے کہ جب کسی کے حال میں یہ کہاجاتاہے کہ تم نے چارطرف سے گھیرلیالیکن حسین اوربہترتن کوآٹھ قسم کے دشمنون نے تنگ کیاتھا چارطرف سے یزیدی فوج جوآندھی کی طرح تیربرسارہی تھی ،پانچواں دشمن عرب کی دھوپ ،چھٹادشمن ریگ گرم جوتنورکے ذرات کی مانندلودے رہی تھی ،اورساتواں اورآٹھواں دشمن بھوک اورپیاس جودغاباز ہمراہی کے مانند جان لیواحرکتیں کررہے تھے پس جنہوں نے ایسے معرکہ میں ہزاروں کافروں کامقابلہ کیا ہوان پربہادری کاخاتمہ ہوچکا،ایسے لوگوں سے بہادری میں کوئی فوقیت نہیں رکھتا (تاریخ چین دفتردوم باب ۱۶ جلد ۲) ۔
امام حسین عرش زین سے فرش زمین پر
آپ پرمسلسل وارہوتے رہے تھے کہ ناگاہ ایک پتھرپیشانی اقدس پرلگا اس کے فورابعدابوالحتوف جعفی ملعون نے جبین مبارک پرتیرماراآپ نے اسے نکال کرپھینک دیااورپوچھنے کے لیے آپ اپنادامن اٹھاناہی چاہتے تھے کہ سینہ اقدس پرایک تیرسہ شعبہ پیوست ہوگیا،جوزہرمیں بجھاہواتھا اس کے بعدصالح ابن وہب لعین نے آپ کے پہلوپراپنی پوری طاقت سے ایک نیزہ مارا جس کی تاب نہ لاکرزمین گرم پرداہنے رخسارکے بل گرے، زمین پرگرنے کے بعدآپ پھرکھڑے ہوئے ورعہ ابن شریک لعین نے آپ کے داہنے شانے پرتلوارلگائی اوردوسرے ملعون نے داہنے طرف وارکیا آپ پھرزمین پرگرپڑے ، اتنے میں سنان بن انس نے حضرت کے ”ترقوہ“ ہنسلی پرنیزہ مارااوراس کوکھینچ کر دوسری دفعہ سینہ اقدس پرلگایا، پھراسی نے ایک تیرحضرت کے گلوئے مبارک پرمارا۔
ان پیہم ضربات سے حضرت کمال بے چینی میں اٹھ بیٹھے اورآپ نے تیرکواپنے ہاتھوں سے کھینچا اورخون ریش مبارک پرملا، اس کے بعدمالک بن نسرکندی لعین نے سرپرتلوارلگائی اوردرعہ ابن شریک نے شانہ پرتلوارکاوارکیا،حصین بن نمیرنے دہن اقدس پرتیرمارا،ابویوب غنوی نے حلق پرحملہ کیا نصربن حرشہ نے جسم پرتیرلگائی صالح ابن وہب نے سینہ مبارک پرنیزہ مارا۔
یہ دیکھ کرعمرسعدنے آوازدی اب دیرکیاہے ان کاسرکاٹ لو، سرکاٹنے کے لیے شیث ابن ربیع بڑھا، امام حسین نے اس کے چہرہ پرنظرکی اس نے حسین کی آنکھوں میںرسول اللہ کی تصویردیکھی اورکانپ اٹھا،پھرسنان ابن انس آگے بڑھا اس کے جسم میں رعشہ پڑگیا وہ بھی سرمبارک نہ کاٹ سکا یہ دیکھ کر شمرملعون نے کہا یہ کام صرف مجھ سے ہوسکتاہے اوروہ خنجرلیے ہوئے امام حسین کے قریب آکرسینہ مبارک پرسوارہوگیا آپ نے پوچھاتوکون ہے؟ اس نے کہامیں شمرہوں ،فرمایاتومجھے نہیں پہچانتا ،اس نے کہا،”اچھی طرح جانتاہوں“ تم علی وفاطمہ کے بیٹے اورمحمدکے نواسے ہو، آپ نے فرمایاپھرمجھے کیوں ذبح کرتاہے اس نے جواب دیا اس لیے کہ مجھے یزیدکی طرف سے مال ودولت ملے گا(کشف الغمہ ص ۷۹) ۔ اس کے بعدآپ نے اپنے دوستوں کویادفرمایا اورسلام آخری کے جملے اداکئے۔
جب آپ اس کی شقی القلبی کی وجہ سے مایوس ہوگئے توفرمانے لگے ائے شمرمجھے اجازت دیدے کہ میں اپنے خالق کی آخری نمازعصراداکرلوں اس نے اجازت دی آپ سجدہ میں تشریف لے گئے (روضة الشہداء ص ۳۷۷)﷼
اورشمرنے آپ کے گلومبارک کوخنجرکے بارہ ضربوں سے قطع کرکے سراقدس کونیزہ پربلندکردیاحضرت زینب خیمہ سے نکل پڑیں ،زمین کانپنے لگی، عالم میں تاریکی چھاگئی ،لوگوں کے بدن میں کپکپی پڑگئی،آسمان خون کے آنسورونے لگا جوشفق کی صورت سے رہتی دنیاتک قائم رہے گا(صواعق محرقہ ص ۱۱۶) ۔
اس کے بعدعمرسعدنے خولی بن یزیداورحمیدبن مسلم کے ہاتھوں سرمبارک کربلاسے کوفہ ابن زیادکے پاس بھیج دیا (الحسین ازعمربن نصرص ۱۵۴) امام حسین کی سربریدگی کے بعدآپ کالباس لوٹاگیا،اخنس بن مرتدعمامہ لے گیا اسحاق ابن حشوہ قمیص،پیراہن لے گیا ،ابحربن کعب پائجامہ لے گیا اسودبن خالدنعلین لے گیاعبداللہ ابن اسیدکلاہ لے گیا،بجدل بن سلیم انگشتری لے گیا قیس بن اشعث پٹکالے گیا عمربن سعدزرہ لے گیا جمیع بن خلق ازدی تلوارلے گیا اللہ رے ظلم ایک کمربندکے لیے جمال معلون نے ہاتھ قطع کردیا ایک انگوٹھی کے لیے بجدل نے انگلی کاٹ ڈالی۔
اس کے بعددیگرشہداء کے سرکاٹے گئے اورلاشوں پرگھوڑوے دوڑانے کے لیے عمرسعدنے لشکریوں کوحکم دیادس افراداس اہم جرم خدائی کے لیے تیارہوگئے جن کے نام یہ ہیں کہ اسحاق بن حویہ، اطنس بن مرثد، حکیم بن طفیل،عمروبن صبیح ،رجابن منقذ،سالم بن خثیمہ صالح بن وہب، واعظ بن تاغم ،ہانی مثبت،اسید بن مالک ،تورایخ میں ہے کہ ”فداسواالحسین بحوافرخیولہم حتی رضواظہرہ وصدرہ “ امام حسین کی لاش کواس طرح گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیاکہ آپ کاسینہ اورآپ کی پشت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی بعض مورخین کاکہناہے کہ جب ان لوگوں نے چاہاکہ جسم کواس طرح پامال کردیں کہ بالکل ناپیدہوجائے توجنگل سے ایک شیرنکلااوراس نے بچالیا (دمعة ساکبة ص ۳۵۰) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے فورابعدوہ مٹی جورسول خدامدینہ میں ام سلمہ کودے گئے تھے خون ہوگئی (صواعق محرقہ ۱۱۵) اوررسول خدا،ام سلمہ کے خواب میں مدینے پہنچے ان کی حالت یہ تھی وہ بال بکھرائے ہوئے خاک سرپرڈالے ہوئے تھے ام سلمہ نے پوچھاکہ آپ کایہ کیاحال ہے؟ فرمایا”شہدت قتل الحسین انفا“ میں ابھی ابھی حسین کے قتل گاہ میں تھا اوراپنی آنکھوں سے اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھاہے (صحیح ترمذی جلد ۲ ص ۳۰۶ ،مستدرک حاکم جلد ۴ ص ۱۹ ،تہذیب التہذیب جلد ۲ ص ۳۵۶ ،ذخائرالعقبی ص ۱۴۸) ۔
source : http://www.rizvia.net