اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

قیام الحسین (ع) فی کلام الحسین (ع)

حسین ع وارث انبیاء جانتے تھے کہ اگر آج میں نے خاموشی اختیار کی اور دین کو اسی طرح بے یارو و مدد گار چھوڑ کر اپنی راہ لی تو آدم تا خاتم الانبیاء تمام الہی نمائندوں کی ریاضتیں، شہدائے بدر و حنین کا خون بلکہ یوں کہوں کہ وحی و ہدایت کا تمام تر سلسلہ بے اثر ہو جائے گا، روح اسلام جاتی رہے گی۔ اذان تو ہو گی مگر ظلم کو ظلم کہنے والا کوئی نہ ہو گا، نمازیں تو پڑھی جائیں گی مگر روح نماز ایک معبود کی بندگی سے خالی ہو گی۔ عقیدہ توحید کی تمام تر حکمتیں شرک کی ایک نئی صورت تلے دب کر بے معنی ہو جائیں گی۔ 

بہتر ہو گا کہ اس مقام پر یزید کے کچھ بیانات قلمبند کیے جائیں، تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ یہ شخص کس قماش کا انسان تھا اور امام عالی مقام اس کی بیعت کے کیوں مخالف تھے۔ ویسے تو یزید کا سر عام شراب پینا، بندروں سے کھیلنا، شکاری کتے پالنا؛ امام ع کے قبل ازیں درج کردہ خطبے سے واضح ہے۔ یزید کن نظریات کا حامل تھا، آئیں اسی کے اشعار سے سمجھتے ہیں۔

لما بدت تلک الرووس و اشرقت 

تلک الشموس علی ربی جیرون 

صاح الغراب فقلت صح او لا تصح 

فلقد قضیت من النبی دیونی

جب وہ سر نمودار ہوئے اور سورج قصر جیرون پر نکلا تو کوے نے کائیں کائیں شروع کی۔ میں نے کہا تو کائیں کائیں کر یا نہ کر میں نے نبی سے اپنا قرض وصول کر لیا۔(3)

اسی طرح یزید کے سامنے جب سر حسین ع پیش کیا گیا تو یزید نے دندان حسین ع پر چھڑی ماری جس سے اہلبیت رسول ص نے بلند آواز سے گریہ شروع کیا تو یزید نے یہ اشعار پڑھے۔

لیت اشیاخی ببدر شھدوا 

جزع الخزرج من وقع الاسل 

لا حلو واستھلوا فرحا 

ثم قالوا یا یزید لا تشل 

لعبت بنی ہاشم بالملک فلا ن 

خبر جاءولا وحی نزل

کاش بدر میں مارے جانے والے میرے بزرگ قبیلہ خزرج کی نیزہ لگنے سے آہ و زاری دیکھتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے، اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں، بنی ہاشم نے سلطنت حاصل کرنے کے لیے ایک ڈھونگ رچایا، نہ تو کوئی (غیب سے) خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی (نعوذباللہ)۔ (4)

یزید کو امیر المومنین کہنے والوں کے لیے یہ اشعار آئینہ ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ امیر شام نے مختلف حیلوں بہانوں اور سازشوں کے ذریعے یزید کی بیعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ امیر شام کا بیعت لینے کا انداز امام ث کی زبانی ہی سنئے:

۔۔۔۔ الست القاتل حجر بن عدی اخا کندہ و اصحابہ المصلین العابدین ، کانوا ینکرون و یستفظعون البدع ویامرون بالمعروف ، و ینھون عن المنکر۔ولا یخافون فی اللہ لومة لائم ؟ 

کیا تو حجر بن عدی ان کے بھائیوں اور نماز گزار ساتھیوں کا قاتل نہیں ہےو جو تجھے ظلم کرنے سے روکتے تھے اور بدعتوں کے مخالف تھے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔؟

۔۔۔۔او لست قاتل عمر و بن الحمق صاحب رسول اللہ العبد الصالح، الذی ابلتہ العبادہ فنحل جسمہ و ا صفر لونہ؟ 

کیا تو صحابی رسول عمرو بن حمق جیسے عبد نیک خصال کا قاتل نہیں ہے، جن کا جسم عبادت خدا کی وجہ سے نڈھال ہو چکا تھا اور کثرت عبادت کے سبب ان کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔؟

۔۔۔ولقد نقضت عھدک بقتل ھو لاءالنفر الذین قتلتھم بعد الصلح والایمان ، و العھود و المواثیق فقتلتھم من غیر ان یکونوا قاتلو ا و قتلوا ، ولم تفعل بھم الا لذکر ھم فضلنا و تعظیمھم حقنا فقتلتھم مخافة امر لعلک لو لم تقتلھم مت قبل ان یفعلو او ماتوا قبل ان یدرکوا۔ 

یقیناً تو نے عہد شکنی کی، اس جماعت سے اور ان کو صلح کرنے، عہد کرنے اور اس کی توثیق کے بعد قتل کر ڈالا، تو نے ایسا نہیں کیا مگر فقط اس لیے کہ یہ لوگ ہمارے فضائل و مناقب بیان کرتے تھے اور ہمارے حق کو عظیم جانتے تھے، پس تو نے ان کو صرف اس لیے قتل کیا کہ مبادا تو ان کو قتل کیے بغیر مر نہ جائے۔

۔۔۔ ولیس اللہ بناس لاخذک بالظنة ، وقتلک اولیاءہ علی التھم ، ونفیک اولیائہ من دورھم الی دار الغربة ، و اخذک للناس ببیعة ابنک غلام حدث ، یشرب الشراب ، و یلعب بالکلاب۔ 

خدا نہیں بھولا، ان گناہوں کو جو تو نے کیے، کتنوں کو محض گمان پر تو نے قتل کیا۔ کتنے اولیائے خدا پر تو نے تہمت لگا کر انہیں قتل کیا۔ کتنے اللہ والوں کو تو نے ان کے گھروں سے نکال کر شہر بدر کیا اور کس طرح تو نے یزید جیسے شرابی اور کتوں سے کھیلنے والے کے لیے لوگوں سے زبردستی بیعت لی۔ (5)

اس ایک خط میں امام عالی مقام نے امیر شام کے ایفائے عہد، اسلام دوستی، احترام میثاق کی قلعی کھول کر رکھ دیو اگرچہ یہ خط کافی طویل ہے اور اس کا ہر جملہ لکھے جانے کے قابل ہے، تاہم کچھ محنت قارئین کے ذمے بھی چھوڑتا ہوں کہ اس خط کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ وہ کیا حالات تھے جن کے سبب امام حسین ع قیام پر مجبور ہوئے۔ امیر شام کی موت کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت یزید تخت حکومت پر براجمان ہوا اور اس نے اپنے گورنروں کے ذریعے بیعت کا انکار کرنے والے افراد حسین ع، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس سے بیعت کا تقاضا شروع کر دیا۔ مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ نے امام عالی مقام کو اس بیعت کے لیے دربار میں طلب کیا، بیعت کے سوال پر امام عالی مقام نے فرمایا:

ایھا الامیر انا اھلبیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکہ وبنا فتح اللہ و بنا ختم اللہ ۔ ویزید ! رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس المحترمةمعلن بالفسق ۔۔۔مثلی لا یباع بمثلة۔ 

اے حاکم (مدینہ) ! میں نبی کی اہلبیت ہوں، میں رسالت کی کان ہوں، ہمارا گھر ہی فرشتوں کی آماجگاہ ہے۔۔۔۔۔یزید! ایک فاسق شخص ہے، جو شراب پیتا ہے، صاحب حرمت انسانوں کا قاتل ہے، فسق و فجور کا کھلم کھلا ارتکاب کرتا ہے۔۔۔مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ (6)

مروان بن حکم نے جرات کی اور امام عالی مقام سے کہا کہ آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں۔ تو امام نے جواب دیا: 

۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون ! و علی الاسلام السلام۔ 

ہم خدا کی جانب سے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اسلام پر سلام ہو۔ (7)

اب حسین ع کے لیے مدینہ جائے سکونت نہ رہا، آپ نانا کے روضہ پر جاتے ہیں اور انتہائی اندوہ کے ساتھ عرض کرتے ہیں: 

۔۔۔با بی انت وامی یا رسول اللہ لقد خرجت من جوارک کرھاو فرق بینی و بینک واخذت قرھا ان ابائع یزید شارب الخمر وراکب الفجور۔ وان فعلت کفرت وان ابیت قتلت۔ 

اے رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ میں آپ کے جوار سے بادل ناخواستہ جا رہا ہوں، میرے اور آپ کے مابین جدائی پیدا کی جا رہی ہے اور مجھ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ میں یزید کی بیعت کروں جو کہ شرابی اور فاجر ہے۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو یہ کفر ہے اور اگر میں انکار کرتا ہوں تو قتل کر دیا جاﺅں گا۔ (8)

امام عالی مقام نے مدینہ سے مکہ کی جانب روانگی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو وصیت کی جس کے الفاظ درج ذیل ہیں: 

۔۔۔انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسد ا ولا ظالما وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید امر بالمعروف و انھی عن المنکراسیر بسیرة جدی و سیرة علی ابن ابی طالب فمن قبلنی بقبول الحق فاللہ اولی بالحق وھو احکم الحاکمین۔ 

میں تکبر، خود خواہی یا فساد اور ظلم کے لیے نہیں نکلا، میرے خروج کا مقصد امت محمد کی اصلاح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ انھیں نیکی کی تلقین کروں اور برائی سے منع کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے جد (رسول اللہ) اور (اپنے بابا) علی ابن ابی طالب ع کی سیرت کی پیروی کروں۔ جو میرے حق کو سمجھتے ہوئے اسے قبول کرے گا تو خدا حق کا زیادہ سزاوار ہے اور وہ ہی تمام فیصلے کرنے والوں میں بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (9)

حالات کے تناظر میں حسین ع کو مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کی ذات کی عظمت و اہمیت کا ادراک رکھنے والے ہر شخص نے روکا۔ جن میں آپ کے بھائی، چچا زاد سبھی شامل تھے۔ امام عالی مقام ع کے قبل ازیں درج کردہ خط کے تناظر میں جو امیر شام کے نام لکھا گیا؛ یہ بات عیاں ہے کہ حسین ع خود بھی اموی حکومت کی ریاستی دہشتگردیوں اور مظالم سے آگاہ تھے۔ حسین ع جانتے تھے کہ میرے اس انکار اور سفر کا کیا انجام ہو سکتا ہے، ملت اسلامیہ کی حالت بھی آپ سے پنہاں نہ تھی۔ ایسا نہیں کہ حسین ع اچانک ان حالات سے نبرد آزما ہوئے۔ آپ اپنے بابا علی ع اور بھائی حسن ع کا زمانہ دیکھ چکے تھے، امت مسلمہ کی دین اور اہلبیت رسول سے وفاداریوں سے بھی آگاہ تھے۔ آپ جانتے تھے کہ معاشرہ کن امراض کا شکار ہے۔ قبل ازین درج کردہ مکہ کا نہایت فصیح خطبہ انہی امور پر دلالت کرتا ہے۔

حسین ع جانتے ہیں کہ جس دشمن سے میرا سامنا ہے وہ انتہائی رذیل و بے رحم ہے، حسین ع جانتے ہیں کہ امت مسلمہ افتراق میں مبتلا ہے، حسین ع جانتے ہیں کہ امت رسول میں کوئی بھی شخص اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتا کہ اموی بربریت کے مقابل قیام کرے۔ شرفائے مکہ و مدینہ سید الشرفاء حسین ع کو سرحدی علاقوں کی جانب کوچ کرنے کی نصیحتیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بیعت نہ کریں، مگر حکومت سے متعارض بھی مت ہوں، تو کوئی یمن کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہونے کی بات کرتا ہے۔ قیام کے ظاہری وسائل کی عدم دستیابی کا ادراک رکھنے والے اشخاص اپنے آپ کو قافلہ حسین ع سے دور کرتے نظر آتے ہیں۔ موت کا خوف، زندگی کی آسائشوں سے دوری، اپنے گھر بار کی تاراجی کا وسوسہ سینوں کو تنگ و تاریک کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حسین ع ان تمام خطرات کے باوجود 9 ذوالحجہ 60 ھ کو مکہ سے حج کی رسومات کو ترک کرتے ہوئے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔

حسین ع وارث انبیاء جانتے تھے کہ اگر آج میں نے خاموشی اختیار کی اور دین کو اسی طرح بے یارو و مدد گار چھوڑ کر اپنی راہ لی تو آدم تا خاتم الانبیاء تمام الہی نمائندوں کی ریاضتیں، شہدائے بدر و حنین کا خون بلکہ یوں کہوں کہ وحی و ہدایت کا تمام تر سلسلہ بے اثر ہو جائے گا، روح اسلام جاتی رہے گی۔ اذان تو ہو گی مگر ظلم کو ظلم کہنے والا کوئی نہ ہو گا، نمازیں تو پڑھی جائیں گی مگر روح نماز ایک معبود کی بندگی سے خالی ہو گی۔ عقیدہ توحید کی تمام تر حکمتیں شرک کی ایک نئی صورت تلے دب کر بے معنی ہو جائیں گی۔ مسیحی اور یہودی اقوام کی مانند اسلام فقط اخلاقیات اور عبادات کا مجموعہ رہ جائے گا۔ حسین ع کے جیتے جی یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے نانا کی شریعت خدا کا پسندیدہ دین اسلام، مسخ کر دیا جائے۔ حسین ع فتح یا شہادت ہر دو صورت میں یہ چاہتے ہیں کہ دین کی حقیقی تعلیمات کا احیاء کریں، خواہ اس کے لیے کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے، آپ چاہتے ہیں کہ حق کا ایک ایسا معیار قائم کر جائیں، جس کو آنے والے دور کے انسان میزان سمجھیں۔)


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment