اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

صحیفه حسینی(ع) پہلا فصل

مختلف ملکوں سےمشاهدین 

احیائے اسلام اور امن عالم کا داعی رضویه دات نیت "رضویه اسلامک ریسرچ سینتر اپنے قارئین کو خوش آمدید اور محرم الحرام کے موقع پر تسلیت و تعزیت پیش کرتا هے . " بسم الله الرحمن الرحیم اللّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلى آبائِهِ فی هذِهِ السّاعَةِ وَفی کُلِّ ساعَةٍ وَلِیّاً وَحافِظاً وَقائِدا وَناصِراً وَدَلیلاً وَعَیْناً حَتّى تُسْکِنَهُ أَرْضَک َطَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فیها طَویلاً آمین یا رب العالمین.السلام علی الحسین و علی علی بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین. یاد رهے! رضویه ڈات نیت کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں هے.

صحیفه حضرت امام حسین (ع)

محسن اسلام ،سيد الشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام

صحیفه حسینی(ع)

فصل اوّل

آنحضرت کی دعائیں اور مناجات

اللہ تعالیٰ کی تعریف اور توصیف میں۔

نماز اور خدا کے ساتھ ربط میں۔

دشمنوں کے خلاف جہاد کے بارے میں۔

لوگوں کی مدح یا مذمت میں۔

مشکلات کے رفع ہونے اور حاجات کے بر لانے میں۔

خطرات اور بیماریوں کے دور کرنے میں۔

مبارک ایام میں۔

پھلا باب

اللّٰہ کی تعریف اور توصیف میں

ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو اللہ سبحانہ کی تسبیح و تقدیس

خدائے بزرگ و برتر کے حضور مناجات

حجر اسود کے قریب اللہ تعالیٰ سے رازونیاز

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں

آخرت کی رغبت میں

خلافِ معمول کاموں سے بچنے کیلئے

مردوں کے لئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے

ہر ماہ کی پانچ تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقد یس

پاک ہے وہ ہستی جواعلیٰ اور رفیع الدرجات ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو بزرگوار اور بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو اس طرح ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی اس کی برابری کی طاقت نہیں رکھتا۔ پاک ہے وہ ذات جس کی ابتداء علم سے ہے ،جو قابلِ توصیف نہیں اور اس کی انتہا ایسی دانائی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگی۔

پاک و منزہ ہے وہ ذات جو اپنی ربوبیت سے تمام موجودات پر برتری رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی آنکھ اس کو پانہیں سکتی اور کوئی عقل اُسے مثال میں نہیں لا سکتی۔ وہم سے اُس کو تصور نہیں کرسکتے ،جس طرح زبان اُس کی توصیف کرنے سے قاصر ہے۔

پاک ہے وہ ہستی جو آسمانوں میں بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کیلئے موت کومقرر کیا۔پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہی قدرت مند ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کی حکمرانی میں کوئی عیب نہیں۔پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔(دعوات:۹۲،بحار۹۴:۲۰۵)

اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام انس بن مالک کے ہمراہ چل رہے تھے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی قبر کے پاس پہنچے تو روئے۔ پھر فرمایا:اے انس! مجھ سے دور چلے جاؤ۔ وہ کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام کی نگاہوں سے دور چلا گیا۔ جب انہیں نماز پڑھتے پڑھتے دیر ہوگئی تو میں نے سنا کہ یوں فرمارہے تھے:

پروردگارا! پروردگارا! تو میرا مولا ہے۔

اپنے اس بندے پر رحم فرما جو تیری بارگاہ میں پناہ گزین ہے۔

اے عظیم الشان صفات والے! میرا تجھ ہی پر بھروسہ ہے۔

اُس کے لئے خوشخبری ہے جس کا تو مولا ہے۔

خوشخبری ایسے شخص کیلئے جو خدمت گزار اور شب زندہ دار ہے۔ جو اپنی مشکلات کو اپنے رب کے سامنے رکھتا ہے اور جو چیزیں اپنے رب کے سامنے پیش کرتا ہے۔

کوئی دل میں بیماری نہیں رکھتا بلکہ زیادہ تر اپنے مولا سے محبت کی خاطر ۔بہرحال جو بھی غصہ اور پریشانی بارگاہِ ربوبیت میں رکھی ہے، خدا جل شانہ نے سنی اور قبول فرمایا۔

کوئی بھی اگر اپنی پریشانیوں کو اندھیری رات میں اُس کی بارگاہ میں رازونیاز کرے، خدا اُس کو عزت بخشتا ہے اور اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔

پھر اُس بندے کو ندا دی جاتی ہے۔

اے میرے بندے! تو میری حمایت میں ہے اور تونے جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اُس کو جانتے ہیں۔

میرے فرشتے تیری آواز سننے کے مشتاق ہیں۔ کافی ہے کہ ہم تیری آواز کو سن رہے ہیں۔آپ کی دعا میرے قریب ہے اور پردوں میں گردش میں ہے۔ کافی ہے کہ ہم تیرے لئے حجاب کو ہٹا دیتے ہیں۔

اگر اُس کی جانب سے ہوا چلے تو زمین پر بیہوشی سی طاری ہوجائے۔مجھ سے طمع، ڈر اور حساب کے بغیر مانگ کیونکہ میں تیرا رب ہوں۔(بحار۴۴:۱۹۳)

حجر اسود کے قریب اپنے رب سے رازو نیاز

اے پروردگارا!تو نے مجھے نعمت سے نوازا لیکن مجھے شکر بجالانے والا نہیں پایا۔ مجھے مصیبت کے ذریعے آزمایا لیکن مجھے صابر و شاکر نہیں پایا۔

اس کے باوجود شکر نہ بجا لانے پر نعمتوں کو سلب نہیں فرمایا اور میرے صبر نہ کرنے پر مصیبت میں اضافہ نہیں فرمایا۔پروردگارا! تیرے علاوہ کسی کو عزت دار نہیں پایا۔(کشف الغمہ۱:۴۱۴،عددالقویۃ:۳۵)

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں

پروردگارا! ہدایت یافتہ لوگوں کی سی توفیق عطا فرما ،پرہیزگاروں کے سے اعمال عطا فرما، توبہ کرنے والوں کی سی خیرخواہی عطا فرما، ڈرنے والوں کی سی خشیت عطا فرما، اہلِ علم کی سی طلب عطا فرما، متقی اور زاہد لوگوں کی سی زینت عطا فرمااور جزع و فزح کرنے والوں کا سا خوف عطا فرما۔

پروردگارا! ہمیشہ میرے دل میں اپنا خوف قرار دے جو مجھے گناہ کرنے سے روکے اور تیرے فرامین پر عمل پیرا ہو کر تیری کرامت اور بزرگواری کا مستحق ٹھہر سکوں۔تیرے خوف سے تیری بارگاہ میں توبہ بجا لاؤں۔

 

اورپھر تجھ سے محبت میں اعمال کوخلوص سے بجالاؤں۔ اپنے کاموں میں تجھ پر حسن ظن کرتے ہوئے تیری ذات پر ہی توکل کروں۔نور کے پیدا کرنے والی ذات پاکیزہ ہے اور پاک ہے وہ ذات جو عظیم الشان ہے ۔ تمام حمد و ستائش اُسی کے ساتھ سزاوار ہے۔(مہج الدعوات:۱۵۷)

آخرت میں رغبت اور توجہ طلب کرتے ہوئے

پروردگارا! مجھے آخرت میں رغبت اور اشتیاق عطا فرما تاکہ اس کے وجودکی صداقت سے امورِ دنیا میں زہد کو اپنے اندر محسوس کروں۔

پروردگارا! مجھے اُمورِ آخرت کی پہچان اوربصیرت عطافرما تاکہ میں نیکیوں میں اشتیاق اور تیرے خوف کی وجہ سے گناہوں سے دورر ہوں۔(کشف الغمہ۲:۶۳)

استدراج سے امن میں رہنے کیلئے

پروردگارا! مجھے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے غافل نہ فرمانا تاکہ میں تیرے عذاب کی راہ پر چل نکلوں اور مجھے اپنی ناراضگی سے ادب نہ سکھانا۔(درة الباہرہ:۲۴)

مُردوں کیلئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے

پروردگارا!اے ان فنا ہونے والی ارواح کے رب! بوسیدہ جسموں کے رب اور نرم شدہ ہڈیوں کے رب!جو تجھ پر ایمان اور اعتقاد کی صورت میں دنیا سے گئے ہیں،اُن پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میری جانب سے سلام بھیج۔(بحار۱۰۲:۳۰۰)

دوسرا باب

نماز اور اللّٰہ سے رازونیاز کے بارے میں آنحضرت کی دعائیں

قنوت میں

قنوت کی حالت میں

 

نمازِ وتر کی قنوت میں

سجدئہ شکر میں

صبح اور شب کی نماز میں

بارانِ رحمت کی طلب میں

بارش کی طلب میں

منافقین کی نمازِ جنازہ میں

قنوت میں آنحضرت کی دعا

پروردگارا! ہر چیز کا آغاز بھی تجھ سے ہے اور انجامِ کار بھی تیرے ارادے کے تحت ہے۔ قوت و قدرت بھی تیرے لئے مخصوص ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ تو نے اپنے اولیاء کے دلوں کو اپنی مشیت اور ارادے کا محل قرار دیا ہے اور ان کے کردار سے امرونہی کی تعلیم فرمائی ہے تاکہ تیری یاد سے ایک لمحہ بھی غافل نہ ہوں۔

جب تو کسی چیز کا ارادہ کرلے تو اپنے اولیاء کو ودیعت شدہ اسرار کو متحرک کردیتا ہے اور ان کی زبانوں سے وہی کچھ جاری کروادیتا ہے جو انہیں سمجھا رکھا ہے اور وہ تیری عطا کردہ عقل سے تجھے پکارتے ہیں۔جو کچھ مجھے تعلیم دیا ہے، میں جانتا ہوں اور جو چیزیں مجھے دکھائی ہیں ، مجھے پناہ دی ہے۔ توہی شکرگزاری کا سزاوار ہے۔

پروردگارا! اس قدرت اور طاقت کے باوجود تیری پناہ کا طلب گار ہوں۔ میں راضی ہوں کہ مجھے اپنی قضا و قدر کے متعلق اپنے علم کی راہ پر قرار دیا اور اس کے راستے پر متحرک کیا۔ جو کچھ تو چاہتا ہے ، میں اس پر سختی سے کاربند ہوں اور جن چیزوں کے متعلق تو مجھ سے راضی ہے، بخیل نہیں ہوں۔جس چیز کی طرف مجھے بلایا ہے، کوتاہی نہیں کروں گا۔

جس چیز کی مجھے تعلیم دی ہے، اس میں جلدی کروں گا۔ جس چیز سے تو نے میری ابتداء کی تھی، میں بھی اسی سے آغاز کروں گا۔ تیری ہی راہِ ہدایت سے ہدایت کا طلب گار ہوں۔ جن امور میں بچنے کا حکم دیا ہے، بچوں گا یا جن امور میں احتیاط برتنے کو کہا ہے، احتیاط کروں گا۔ پس تو بھی مجھے رعایت سے محروم نہ فرما اور اپنی عنایت سے باہر نہ فرما۔ مجھے اپنی تائیداور توفیقات کے فیض سے محروم نہ فرما۔ اپنی خوشی اور خوشنودی والی راہ سے خارج نہ فرما۔

میری حرکت کو میری بصیرت پر قرار دے اور میری راہ کو ہدایت کے ساتھ قرار دے۔ میری زندگی رشدوکمال کے ساتھ قرار دے۔ اگر مجھے ہدایت فرمائی ہے تو میرے وسیلہ سے دوسروں کو بھی اسی راہ کی ہدایت فرما جس کو تو پسند فرماتا ہے،جس کیلئے مجھے خلق کیا ہے، اسی کیلئے مجھے پناہ دے رکھی ہے اور مجھے وہاں پر اتارے گا۔

بارِ الٰہا!اپنے اولیاء کو میرے وسیلہ سے امتحان کرنے سے اپنی پناہ میں رکھ بلکہ ان کو اپنی رحمت اور نعمتوں کے وسیلہ سے امتحان فرما۔اپنے اولیاء کو پلیدیوں سے پاک ہونے کیلئے میرے طریقہ اور میری راہ سے ان کے برگزیدہ ہونے کا سبب قرار دے۔مجھے اپنے آباء و اجداد اور صالح عزیزواقارب سے ملحق فرما۔(مہج الدعوات:۴۸،بحار۸۵:۲۱۴)

حالت ِقنوت میں پڑھی جانے والی دعا

پروردگارا! لوگ جہاں بھی پناہ لیتے رہیں، میری پناہ گاہ تو ہی ہے اور لوگ جس کو اپنا ملجا ء قرار دیں، میرا ملجاء تو ہی ہے۔ بارِ الٰہا!محمد وآلِ محمد پر درود بھیج۔ میری دعاؤں کو سن اور میری دعاؤں کو قبول فرما۔ اپنے نزدیک ہی مجھے جگہ عطا فرما اور امتحان اور ابتلا کے وقت، شیطان کے ذریعے گمراہی یا کسی بھی جہت سے لڑکھڑانے سے محفوظ فرما۔ اپنی بزرگواری کے صدقے جو انسانی کذب و افترا اور خیال پردازیوں سے محفوظ ہے اور کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہے، مجھے اپنے ارادے اور مشیت سے اپنی طرف لوٹا۔البتہ تیرے اور تیری رحمت سے میں شکوک و شبہات سے بالا تر رہوں، اے بہترین رحم کرنے والے۔(مہج الدعوات:۴۹،بحار۸۵:۲۱۵)

نمازِ وتر کے قنوت میں

 

بارِ الٰہا! تو دیکھتا ہے لیکن تجھے نہیں دیکھا جا سکتا، تیری جگہ بہت بلند ہے۔ تیری ہی طرف بازگشت ہے۔ دنیا و آخرت تیرے ہی لئے ہے۔بارِ الٰہا! زلت و رسوائی میں تیری پناہ گاہ کا طلب گار ہوں۔(کنزالعمال۸:۸۲)

سجدئہ شکر میں دعا

شریح سے روایت ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہواتو حسین علیہ السلام کو دیکھا جو مسجد میں تھے۔ سر میں خاک ڈال کر کہہ رہے تھے:

"اے بارِ الٰہا! کیا میرے بدن کے اعضاء کو آگ بگولا گرزوں کیلئے خلق کیا تھا؟ کیا میرے وجودکو جہنم کے کھولتے پانی پینے کیلئے خلق کیا تھا؟ پروردگارا! اگر تو مجھے گناہوں سے روکے تو میں کریم اور بخشنے والے کو ہی پکاروں گا اور اگر مجھے خطاکاروں سے قرار دے تو میں تیری دوستی کے بارے میں اُنہیں بتاؤں گا۔ اے میرے آقا!میری اطاعت تجھے فائدہ نہیں پہنچاتی اور میرے گناہ تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پس وہ چیز جو تیرے لئے فائدہ مند نہیں ہے، مجھے عنایت فرمادے اور جو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی، اس سے مجھے محفوظ فرما۔پس تو بہترین رحم کر نے والا ہے۔(احقاق الحق۱۱:۴۲۴)

صبح و شب میں دعا

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ کے نام سے ، اللہ کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے اور اس کی راہ میں ، اس کے رسول کے مذہب پر اور میں خدا پر توکل کرتا ہوں، قوت و طاقت صرف بزرگ و برتر اللہ کیلئے ہے۔

پروردگارا! میں اپنی جان کو تیرے حوالے کرتا ہوں۔ میں نے تیری طرف رخ کیا ہے اور اپنے امور کو تجھے تفویض کیا ہے۔ دنیا و آخرت میں ہر بدی اور برائی سے بچنے کا سوال کرتا ہوں۔

پروردگارا!تو نے مجھے دوسروں سے بے نیاز کردیا ہے اور کوئی بھی مجھے تجھ سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔پس خوف وہراس میں میری کفایت فرما اور کاموں میں میرے لئے آسانیاں فرما کیونکہ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ تو قدرت والا ہے جبکہ میں قادر نہیں ہوں۔ تو ہر کام پر توانا ہے ، اے بہترین رحمت کرنے والے۔(مہج الدعوات:۱۵۷)

طلب ِ باران کیلئے دعا

پروردگارا! اے خیرات کو اس کی مخصوص جگہوں سے دینے والے اور رحمتوں کے خزانوں سے رحمتیں برسانے والے، اہل لوگوں پر برکتیں نازل کرنے والے! بارش تیری جانب سے مدد دینے والی ہے اور تو بھی بہترین مددگار اور دوست ہے۔ہم گناہگار اور خطاکار ہیں جبکہ تو وہ ہے کہ جس سے طلب ِبخشش ہو، تو بخشنے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔

بارِ الٰہا!آسمان سے مسلسل بارشیں نازل فرما اور ہمارے لئے زیادہ بارشیں برسا۔ باعث ِ رحمت بارشیں، بہت زیادہ اور وسیع بارشیں نازل فرما۔موسلا دھار تیز بارشیں جو بادلوں کی گرج چمک کے ساتھ ہوں۔ بہت زیادہ بارانِ رحمت کا نزول فرما۔ ایسی بارشیں جو ہر کسی کیلئے مفید ہوں۔ اس طرح کہ اس کے قطرات پے در پے اور اس کا جاری ہونا منقطع نہ ہو۔ البتہ خالی گرج چمک کے ساتھ گزر جانے والے بادلوں سے نہ ہو۔ ایسی بارشیں ضعیف اور کمزور لوگوں کو زندہ کریں اور تیرے غیر آباد دیہاتوں کو زندگی بخش دیں۔شہروں میں موجود گھروں کو روشنی بخش دے ۔ اس بارش کے وسیلہ سے ہمیں اپنے احسانات کے قابل اور لائق قرار دے ، اے جہانوں کے پروردگار۔(قرب الاسناد:۱۵۷،بحار۹۱:۳۲۱)

طلب ِ باران کیلئے

پروردگارا! وسیع ، ہمہ گیر، مفید اور (ضرر سے پاک) بغیر ضرر کے بارش نازل فرما جو شہروں اور دیہاتوں میں برابر جاری ہو تاکہ ہماری روزی اور ہمارے شکر میں اضافہ ہو۔

بارِ الٰہا! ہمیں ایمان کی اساس پر اپنی روزی اور عطا کا مستحق قرار دے۔بے شک تو دینے کے بعد واپس نہیں لیتا۔بارِ الٰہا! ہماری زمین پر بارش بھیج اور زمین کی رونقیں، ہریالی اور سبزہ جات کو پیدا فرما۔(عیون الاخبار۲:۲۷۹)

منافقین میں سے کسی ایک کی نمازِ جنازہ کے دوران کی دعا

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمارہے تھے کہ منافقین میں سے کوئی شخص مرگیا۔ امام حسین علیہ السلام اس کی تشیع جنازہ میں شریک ہوئے۔ پھر فرماتے ہیں کہ مردہ شخص کے ولی اور سرپرست نے تکبیر کہی لیکن امام علیہ السلام نے اس طرح تکبیر کہی:

"اللہ سب سے بڑا ہے۔ پروردگارا! فلاں شخص پر ہزار بار لعنت بھیج۔ البتہ ایسی لعنت جو پے در پے اور مسلسل ہو۔بارِ الٰہا! فلاں بندے کو لوگوں اور شہروں میں ذلیل و خوار فرما۔ اس کو آتش جہنم میں اتار اور بہت سخت اور بُرے عذاب میں مبتلا فرما کیونکہ وہ تیرے دشمنوں کو دوست اور تیرے دوستوں سے دشمنی رکھتا تھا۔ خصوصاً اہل بیت اطہار علیہم السلام کا بہت بڑا دشمن تھا"۔

ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:

بارِ الٰہا! فلاں آدمی کو لوگوں اور اپنے شہروں میں ذلیل و خوار فرما۔ بارِ الٰہا! اسے جہنم کی آگ نصیب فرما۔ بارِ الٰہا! بہت سخت عذاب اس پر نازل فرما کیونکہ وہ تیرے دشمنوں کو دوست اور دوستوں کو دشمن رکھتا تھا، خصوصاً خاندانِ پیغمبر اسلام کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔(کافی:۳:۱۸۹)

تیسرا باب

دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت آپ کی دعائیں

مدینہ سے روانگی سے قبل

مکہ پہنچنے پر

قیس بن مسہر کی شہادت کی خبر پہنچنے پر

کربلا داخل ہونے سے قبل

کربلا داخل ہوتے وقت

اس وقت جب کربلا میں دشمن کا لشکر زیادہ ہو گیا

شب ِ عاشورمیں

روزِ عاشور

روزِ عاشور اپنے لشکرکی صف بندی سے قبل

روزِ عاشور

جب حضرت علی اکبر علیہ السلام میدان میں گئے

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے بعد

اپنے چھوٹے فرزند حضرت عبداللہ کی شہادت پر

حضرت قاسم کی شہادت پر

حضرت قاسم کی شہادت کے وقت

حضرت عبداللہ بن حسن کی شہادت پر

جب آپ کی پیشانی پر تیر آکر لگا

جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی

جب گھوڑے سے دائیں سمت گرے

روزِ عاشور کے آخری وقت

اپنی شہادت سے قبل مناجات

مدینہ سے روانگی سے قبل

روایت ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام ایک رات میں گھر سے نکلے اور اپنے جد کی قبر اور مزار کی طرف چل دئیے۔ وہاں پر چند رکعت نماز بجا لائے۔ پھر یوں گویاہوئے:

"پروردگارا! یہ تیرے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر ہے۔ میں ان کی بیٹی کا لخت ِجگر ہوں۔ ایک مشکل درپیش ہے جسے تو جانتا ہے۔ بارِ الٰہا!میں ہر اچھے کام کو پسند کرتا ہوں اور بُرے کاموں سے نفرت کرتا ہوں۔ اے صاحب ِجلال و اکرام! تجھ سے اس قبر اطہر کے صدقہ میں اور جو اس میں محو خواب ہیں، سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اور جس جس پر تو راضی اور خوش ہے، میرے لئے وہی قرار دے۔(بحار۴۴:۳۲۸)

مکہ پہنچنے پر آپ کی دعا

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نکلے ، یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ جب دور سے مکہ کے پہاڑوں پر نظر پڑی تو اس آیہٴ مجیدہ کی تلاوت فرمائی:

"جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین آئے تو کہا :شاید میرا پروردگار مجھے راہِ راست کی ہدایت فرمائے"۔

پھر جب مکہ پہنچے تو فرمایا:"پروردگارا! میرے لئے خیروبرکت قرار دے اور میری راہِ راست کی طرف رہنمائی فرما"۔(طریحی در منتخب:۴۲۲)

جب قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر پہنچی

روایت ہے کہ جب قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ روئے اور فرمایا:"بارِ الٰہا!ہمارے اور ہمارے شیعوں کیلئے اپنے نزدیک جگہ مقدر فرما اور ہمیں اور ہمارے شیعوں کو اپنی رحمت کی جگہ پر جمع فرما"۔

ایک روایت میں ہے:بارِ الٰہا! ہمارے اورہمارے شیعوں کیلئے جنت کو بہترین مکان قرار دے۔ بے شک تو ہر کام پر قادر ہے۔(لہوف:۴۴،مثیر الاحزان:۴۴،بحار۴۴:۳۷۴)

کربلا میں داخل ہونے سے پہلے

خداوندا! ہم تیرے پیغمبر حضرت محمد کا خاندان ہیں۔ ہمیں اپنے جد کے حرم سے نکالا گیاہے اور چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بنو اُمیہ نے ہم پر ظلم کیااور تجاوز کیا۔ بارِ الٰہا! ہمارا بدلہ، ہمارا انتقام ان سے لے لے اور قومِ ظالمین کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔(بحار۴۴:۳۸۲)

کربلا میں داخل ہوتے وقت

بارِ الٰہا! میں کرب و بلا سے تجھ سے پناہ کا طلب گار ہوں۔(لہوف:۳۵)

جب دشمن کے لشکر کی تعداد زیادہ ہوگئی

روایت ہے کہ جب سید الشہداء علیہ السلام کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا یا اضافہ ہونا شروع ہوا تو امام علیہ السلام کو یقین ہوگیا کہ اب کوئی راہِ نجات نہیں ہے تو فرمایا:"پروردگارا!ہمارے اور اس گروہ کے درمیان جنہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں، لیکن اب ہمارے قتل کے ارادے کرچکے ہیں، تو ہی فیصلہ فرما"۔ (مروج الذہب۳:۷۰)

شب ِ عاشورا کو آنحضرت کی دعا

بارِ الٰہا! بہت اچھے انداز میں حمدوثناءِ الٰہی کرنے والا ہوں اور مشکل اور آسانی میں تیرا ثنا گو ہوں۔ بارِ الٰہا! تیری حمدوثنا کرتا ہوں کہ تو نے نبوت سے ہمیں عزت بخشی اور ہمیں قرآن کی تعلیم دی۔ ہمیں دین میں فصاحت نصیب فرمائی اور ہمارے لئے کان، آنکھیں اور دل بنایا۔ پس ہمیں توفیق عطا فرما کہ تیری نعمتوں پر شکر گزار ہوں۔(اعلام الوری:۲۳۸)

عاشورا کے دن آپ کی دعا

امامِ سجاد علیہ السلام سے روایت ہے جو فرما رہے تھے کہ جب عاشورا کے دن دشمنوں کے لشکر امام حسین علیہ السلام کے قتل کرنے پر جمع ہوگئے تو سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا:

"پروردگارا! ہر سختی میں تو ہی میری پناہ ہے اور ہر مصیبت میں میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ ہر آنے والی مشکل گھڑی میں تو ہی میرا موردِ وثوق اور سرمایہ ہے۔کتنی ایسی سختیاں ہیں جو دلوں کو لرزادیتی ہیں ۔ تمام کوششیں اور طریقے بے فائدہ ہوجاتے ہیں، جہاں پر دوست بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جب دشمن جری ہو کر کھلی دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ میں ایسے کاموں کو تیرے حضور میں پیش کرتاہوں اور تیری بارگاہ میں ہی شکایت کرتاہوں کیونکہ میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ پس تو نے ہی میرے کاموں کے انجام پانے کیلئے کوئی راہ مقرر فرمائی اور میری مشکلات کو حل فرمایا؛ پس تو ہی ہر نعمت کے دینے والا اور ہر ایک اچھائی اور نیکی کا مالک ہے۔ ہر ایک کیلئے تو ہی آخری اُمید ہے۔(بحار۴۵:۴،مستدرک الوسائل۱۱:۱۱۲)

عاشور کے دن اپنے لشکر کی صف بندی کرنے سے پہلے دعا

روایت ہے کہ جب عمر بن سعد نے اپنے لشکر کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے آمادہ کرلیا اور اس کی صف بندی کرلی تو امام حسین علیہ السلام ان کی طرف آئے اور تھوڑی دیر کیلئے خاموشی اختیار کرنے کو کہا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار نہ کی۔سیدالشہداء علیہ السلام نے اسی دوران میں اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

"پروردگارا! ان پر بارانِ رحمت کا نزول نہ فرما۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح قحط نازل فرما۔ ثقفی خاندان کے جوان کو ان پر مسلط فرما تاکہ وہ ان پر بہت زیادہ سختی روا رکھے اور ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکے۔ مگر وہ لوگ جنہیں کسی صورت میں قتل کرنا ہے یا موردِ ضرب و شتم واقع ہونا ہے۔ میرا، میرے دوستوں اور عزیزواقارب اور مددگاروں کا انتقام ان سے لے۔ بے شک اس جماعت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ، ہمیں جھٹلایا ہے اور ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کی ہے۔تو ہی ہمارا پروردگار ہے۔ تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی بارگاہ میں آہ و بکا کرتے ہیں۔ہم سب کی بازگشت تیری ہی طرف ہے۔(بحار۴۵:۱۰)

عاشورا کے دن آپ کی دعا

پروردگارا! مجھے اپنے حق سے محروم کیا ہے، پس اس کو مجھے عطا فرما۔بارِ الٰہا!تحقیق میں نے ان کو غضبناک کیا ہے ، انہوں نے مجھے غضبناک کیا ہے۔ میں نے انہیں پریشان کیا ہے، انہوں نے مجھے رنجیدہ کیا ہے۔ انہوں نے مجھے ایسا رویہ اور اخلاق اپنانے پر مجبور کیا ہے جو میرے شایانِ شان نہیں ہے۔

پروردگارا! میرے لئے ان سے بہترگروہ اور جماعت کو مقدر فرما۔ میرے علاوہ کوئی بہت بُرا انسان ان پر مسلط فرما۔ پروردگار! جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے، ان کے دلوں میں ایسے ہی ایمان گھول دے۔(مستدرک۴:۳۹۲)

حضرت علی اکبرعلیہ السلام کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت دعا

روایت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت علی اکبرعلیہ السلام کو قومِ اشقیاء کے مقابل روانہ کیا تو امام علیہ السلام سر جھکائے گریہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"پروردگارا! تو ان پر گواہ رہنا، اب ایسے جوان کو ان کی جانب روانہ کر رہا ہوں جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تیرے رسول کے مشابہ ہے"۔(مقاتل الطالبین:۸۵)

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا

پروردگارا! زمینی برکتوں کو ان سے روک لے اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ فرما۔ ان کی صفوں کو پراگندہ فرما۔ ان کیلئے مختلف راہیں قرار دے۔حکمرانوں کو ان سے راضی نہ فرما۔ انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں لیکن وہ ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے قتل کے درپے ہوئے۔(بحار۴۵:۴۲)

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ کی دعا

اے اللہ! اس قوم کو قتل کرجس نے تجھے قتل کیا ہے۔(لہوف:۴۹)

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا

پروردگار! اگر آسمان سے ہماری مدد کو روک رکھا ہے تو اس چیز کو ہمارے لئے اُس سے بہتر قرار دے اور اس قومِ ستم گار سے انتقا م لے۔(اعلام الوری:۲۴۷)

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام خیموں کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ معصوم پیاس کی شدت سے گریہ کناں ہے۔

اس کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور فرمایا:"اے قوم! اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے تو کم از کم اس بچے پر رحم کرو"۔ اتنے میں لشکر میں سے ایک آدمی نے ایسا ظلم کا تیر پھینکا کہ حضرت علی اصغر ذبح ہو گئے۔ امام حسین علیہ السلام دیکھ کر روئے اور فرمایا:"پروردگارا! میرے اور اس قومِ اشقیاء کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری مدد کریں لیکن ہمارے قتل کے درپے ہیں"۔

اتنے میں ہاتف غیبی سے آواز آئی: "اے حسین ! اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ جنت میں اس کو دودھ پلانے والی موجود ہے۔(تذکرة الخواص:۲۵۲)

حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد آنحضرت کی دعا

روایت ہے کہ جب تیر حضرت علی اصغر کے گلے میں پیوست ہوا تو امام علیہ السلام روئے اور اپنے دونوں ہاتھ جنابِ علی اصغر کے گلے کے نیچے رکھ دئیے اور فرمایا:"اے نفس! صبر سے کام لو اور وارد شدہ مصائب کو خدا کا امتحان شمار کرو"۔بارِ الٰہا! حالِ حاضر میں جو کچھ ہم پر مصائب آئے، تو خود شاہد ہے۔ پس ان کو قیامت کے دن کیلئے ہمارا توشہ اور مددگار قرار دینا۔(معالی السبطین۱:۴۲۳)

شہزادہ قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا

پروردگارا!تو جانتا ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد حاصل کریں لیکن ہمیں ذلیل و خوار کرکے ہمارے دشمنوں کے مددگار بنے بیٹھے ہیں۔ خداوندا! بارانِ رحمت کے نزول سے انہیں محروم فرما اور بارش کی رحمتوں سے محروم فرما۔ ہر گز ان سے راضی نہ ہونا۔

بارِ الٰہا! اگر دنیا میں ہماری مدد کرنے سے گریز کیا ہے تو اس کو ہماری آخرت کیلئے ذخیرہ قرار دے اور اس گروہِ ستم گار سے ہمارا بدلہ اور انتقام لے۔(ینابیع المودة:۳۴۵)

حضرت قاسم بن حسن مجتبیٰ علیہم السلام کی شہادت کے بعد دعا

خداوندا! ان تمام کو نابود فرما۔ ان کو منتشر اور پراگندہ فرما اور انہیں قتل فرما۔ ان میں کوئی بھی زندہ نہ رہے اور ان سے ہرگز درگزر نہ فرما۔(بحار۴۵:۳۶)

عبداللہ بن حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہاد ت کے بعد دعا

پروردگارا! اگر انہیں ایک عرصہ تک زندہ رکھنا ہے تو انہیں پراگندہ فرما اور ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم فرما۔ ہرگز ان سے راضی نہ ہونا۔

ایک اور روایت میں یوں ہے:

بارِ الٰہا! بارانِ رحمت سے انہیں محروم فرما۔ ان سے زمین کی برکتیں روک دے۔ پروردگارا! اگر انہیں کچھ عرصہ تک زندہ رکھنا ہے تو ان کی صفوں کو اتحاد کی دولت سے محروم فرما۔ انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم فرما۔ کبھی بھی ان کے رہبروں کو ان سے راضی نہ فرما۔انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں لیکن ہم پر حملہ آور بن کر ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔(اعلام الوری:۲۴۹،بحار۴۵:۵۳)

آنحضرت کی پیشانی پر تیر لگنے کے بعد دعا

روایت ہے کہ جب تیر امام حسین علیہ السلام کی پیشانی میں پیوست ہوا تو اس کو نکالتے ہوئے چونکہ خون پورے چہرے اور داڑھی پر جاری ہوگیا تو فرمانے لگے:خداوندا! جو کچھ میں اس گناہ گار گروہ سے مصائب اٹھا رہا ہوں، تحقیق تو دیکھ رہا ہے۔ خداوندا! انہیں تباہ و برباد فرما اور پراگندہ صورت میں قتل فرما۔روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہے۔ انہیں ہرگز معاف نہ فرما۔(بحار۴۵:۵۲)

امام کی دعا اُس وقت جب آپ کی طرف تیر اندازی کی گئی

روایت ہے کہ جب پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا تو گھوڑے پر سوار ہوئے تاکہ دریائے فرات سے شریعہ پر پہنچیں۔ حضرت عباس علیہ السلام ان کے سامنے اور ان سے آگے آگے تھے۔عمر سعد کی فوجوں نے ان کا راستہ روکا۔ اتنے میں قبیلہ بنی دارم میں سے کسی آدمی نے امام حسین علیہ السلام کی طرف تیر چلادیا جو ان کے چہرے کے نچلے حصہ میں پیوست ہوگیا۔ امام علیہ السلام اپنا ہاتھ چہرے کے نیچے لائے، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ خون سے بھر گئے۔ سید الشہداء علیہ السلام خون پھینک کر یوں گویا ہوئے:"خداوندا! جو کچھ تیرے نبی کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ کر رہے ہیں، تجھ سے شکایت کرتا ہوں"۔

ایک اور روایت میں آیا ہے:جب امام حسین علیہ السلام پر پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا تو آپ فرات کے کنارے آئے تاکہ پانی پی سکیں لیکن حصین بن نمیر نے امام علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا جو دہن اقدس میں پیوست ہوگیا۔لہٰذا سیدالشہداء علیہ السلام کے منہ سے خون جاری ہوگیا۔ خون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف بلند کر دیا۔ پھر حمدوثنائے باری تعالیٰ کی اور فرمایا:"خداوندا! جو کچھ تیرے نبی کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ کر رہے ہیں، تجھ سے شکایت کرتا ہوں۔ خداوندا! ایک دم ان کو نابود فرما اور انہیں پراگندہ صورت میں قتل فرما۔ ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ رکھ۔(لہوف:۵۱،بحار۴۵:۵۰)

چہرے اور منہ پر تیر لگنے کے بعد آنحضرت کی دعا

مسلم بن ریاح سے نقل ہے جو علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے موالیوں میں سے تھے، کہتے ہیں کہ روزِ عاشور میں مَیں امام علیہ السلام کی خدمت میں تھا۔ ایک تیر ان کے چہرے پر آکر لگاتو امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:"اے مسلم! اپنا ہاتھ میرے نزدیک کرو"۔ ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ جیسے ہی وہ خون میرے ہاتھ پر ڈالنے لگے، انہوں نے خون کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور فرمایا:"خداوندا! اپنے نبی کی بیٹی کے فرزند کے خون کا مطالبہ کر"۔

مسلم کہتے ہیں کہ اس خون میں سے ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا۔ (کفایۃ الطالب:۴۳۱)

گھوڑے سے دائیں سمت گرنے کے بعد آپ نے فرمایا:"خدا کے نام ،اس کی یاد میں اور پیغمبر اسلام کی راہ میں"۔(لہوف:۵۴)

عاشورا کے آخری لمحات میں آپ کی دعا

پروردگارا! تیری جگہ بلند، تو عظیم الشان قدرت والا، سخت قہر و غضب والا، مخلوقات سے بے نیاز، وسیع قدرت والا، جس پر چاہتا ہے قدرت رکھتا ہے۔ بہت نزدیک رحمت والا، سچے وعدے والا، زیادہ نعمتوں والا اور اچھی آزمائش والا ہے۔

جب پکارا جائے تو تو بہت نزدیک ہے۔ اپنی مخلوقات پر محیط ہے۔ جو تیری طرف آئے، تو اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اپنے ارادے پر قادر ہے۔ جسے چاہے پالیتا ہے۔ جب تیرا شکرادا کیا جائے تو شکر قبول کرتا ہے اور جب تجھے یاد کیا جائے تو یاد آتا ہے۔

تیری طرف نیاز مند ہوکر تجھے پکار رہا ہوں۔ایک فقیر اور خالی ہاتھ تیری طرف آیا ہوں۔ خوف اور ڈر سے تیری بارگاہ میں آ یا ہوں۔ دکھوں سے تیرے حضور میں گریہ کناں ہوں۔ ضعیف ناتوانی کی صورت میں تجھ سے مدد کا طلبگار ہوں۔ تجھے اپنے لئے کافی سمجھتے ہوئے توکل کرتا ہوں۔

پروردگارا! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرما۔ تحقیق انہوں نے ہمیں فریب دیا، دھوکہ دے کر ہمیں قتل کر رہے ہیں جبکہ ہم تیرے نبی کی بیٹی کی اولاد ہیں کہ جنہیں رسالت جیسے عظیم منصب کیلئے منتخب فرمایا ہے۔

انہیں اپنی وحی پر امین قرار دیا ہے۔ پروردگارا! ہمارے لئے کوئی راہ نکال دے، اے بہترین رحمت کرنے والے۔(اقبال الاعمال:۶۹۰،بحار۱۰۱:۳۴۸)

شہادت سے کچھ دیر قبل آپ کی دعا

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام شہادت سے پہلے تھوڑی دیر تک زمین پر خون میں لت پت پڑے رہے۔ منہ آسمان کی طرف تھا اور فرمارہے تھے:"خداوندا! قضا و قدر پر صبر کرتا ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اے فریاد گروں کی فریاد رسی کرنے والے!"(ینابیع المودة:۳۴۸)

چوتھا باب

لوگوں کی مذمت اور تعریف میں

حضرت علی بن حسین علیہ السلام کیلئے

جناب زہیر بن قین کیلئے

جناب قیس بن مسہر صیداوی کی تعریف میں

ابو ثمامہ صائدی کیلئے

جنابِ جون ،غلام ابوذر کیلئے

یزید بن زیاد ابو شعثاء کیلئے

یزید بن مسعود نہشلی کیلئے

ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے

اپنے شیعوں کیلئے ایک خطبہ میں

اپنے شیعوں کیلئے ایک خط میں

روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے

عمر بن سعد پر

شمر پر

قبیلہ کندہ کے ایک فرد پر

اپنے قاتلوں پر

زرعہ دارمی پر

عبداللہ ابن حصین ازدی پر

محمد ابن اشعث پر

ابن ابی جویریہ پر

ابن جوزہ تمیمی پر

تمیم ابن حصین پر

محمد بن اشعث پر

جبیرہ کلبی پر

مالک بن حوزہ پر

ابی سفیان پر

اپنے فرزند امام علی زین العابدین علیہ السلام کیلئے آپ کی دعا

خداوندمجھے بیٹے کی طرف سے جزاو خیر دے جو بہترین جزا ہر باپ سے بیٹے کو عطا کرتا ہے۔(لہوف:۳۰)

حضرت زہیر بن قین کیلئے آپ کی دعا

اے بارِ الٰہا!اسے اپنی رحمت سے دور نہ کرنااور اس کے قاتلوں پر اسی طرح لعنت فرماجس طرح گذشتہ پر لعنت کی تو وہ بندر اور خنزیر کی صورتوں میں بدل گئے۔(ابصارالعین:۹۹)

جناب قیس بن مسہر صیداوی کیلئے آنحضرت کی دعا

پروردگارا! ہمارے اور ان کیلئے جنت مقدر فرما۔ ہمیں اور ان کو اپنی رحمت اور ذخیرہ شدہ ثواب اور اپنی پسندیدہ جگہ پر جمع فرما۔(طبری در تاریخش۷:۳۰۴)

ابوثمامہ صائدی کیلئے آپ کی دعا

بارِالٰہا!اسے ان نماز گزاروں سے قرار دے جو ہر وقت اُس کی یاد میں رہتے ہیں۔ (بحار۴۵:۲۱)

حضرت جون غلام ابوذر کیلئے آنحضرت کی دعا

پروردگارا! اس کے چہرے کو سفیدی عطا فرما، اس کی روح کو پاکیزہ فرما، اس کو نیکوں کے ہمراہ محشور فرما، اس کے اور محمد وآلِ محمد کے درمیان شناخت قرار دے(بحار۴۵:۲۳)

 یزید بن زیاد ابوشعثاء کے لئے آپ کی دعا

پروردگارا! اس کی تیر اندازی کودقیق قرار دے اور اس کیلئے بہشت کو ثواب کے طور پر قرار دے۔(بحار۴۵:۳۰)

یزید بن مسعود النہشلی کیلئے امام کی دعا

امام علیہ السلام نے بعض اشرافِ بصرہ کو خط لکھا اور انہیں اپنی مدد کرنے کی دعوت اوراپنی اطاعت کی دعوت دی۔ ان لوگوں میں سے یزید بن مسعود نہشلی بھی تھا۔ اس نے اس حوالہ سے امام علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اس کا خط پڑھا تو فرمایا:"قیامت کے دن خدا تجھے اپنی امان میں رکھے اور تجھے عزت بخشے۔ تجھے پیاس والے دن سیراب کرے"۔

ابھی وہ خود کو تیار کرکے امام علیہ السلام کی طرف نکلنے ہی والا تھا کہ امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر اُس کو مل گئی۔(لہوف:۳۸،بحار۴۴:۳۳۹،عوالم ۱۷:۱۸۸)

ضحاک بن عبداللہ مشرقی کیلئے آپ کی دعا

تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ خداوند تجھ کو قطع نہ کرے اور تیرے نبی کے اہلِ بیتؑؑ کی طرف سے اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے۔(ابن اثیر در کامل۲:۵۶۹)

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابل میں ہماری اور آپ کی مدد فرمائے۔ اس کے عتاب سے ہمیں اور آپ کو نجات عطافرمائے بلکہ ہمارے اور آپ کیلئے بہت زیادہ اجروثواب لازم قرار دے۔(تحف العقول:۱۷۰،بحار۷۸:۱۲۰)

اپنے خطبوں میں سے ایک میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

اللہ ہمیں اورآپ کو ہدایت پر جمع فرمائے اور ہمیں اور آپ کو خود سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔(فتوح۵:۳۵،مقتل الحسین ۱:۱۹۵)

اپنے خطوط میں سے ایک خط میں اپنے شیعوں کیلئے آپ کی دعا

ہمارے لئے اور آپ کیلئے خدا بہترین چیز مقدر فرمائے اور اس پر بہترین انداز میں اجر عطا فرمائے۔(اخبار الطوال:۲۴۵)

روزِ قیامت اپنے دشمنوں کیلئے

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام قیامت کے دن اپنی مادرِ گرامی سلام اللہ علیہا کے پاس کچھ اس انداز میں آئیں گے کہ ان کی رگوں سے خون جاری ہوگا۔ آکر فرمائیں گے:

"پروردگارا! آج کے دن مجھ پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے"۔ (فرات بن ابراہیم:۱۷۲)

عمر بن سعد کی مذمت میں

اللہ تعالیٰ بہت جلد تیرے بستر پر ہی تیرے بدن سے سر کو جدا کرنے والے کو مسلط کرے اور قیامت میں تجھے اپنی بخشش سے محروم رکھے اور روزِ قیامت تو ہرگز نہ بخشا جائے۔(بحار۴۴:۳۸۹)

عمر بن سعد کی مذمت میں

خدائے بزرگ و برتر تیری نسل کو، تیرے سلسلہٴ رحم کو ایسے ہی منقطع کرے جس طرح تو نے میری نسل منقطع کی ہے اور پیغمبر اسلامﷺ سے میری قرابت اور رشتہ داری کی بھی پروا نہیں کی۔خدا تجھ پر کسی ایسے کو مسلط کرے جو سوتے میں ہی تیرے بدن سے سر جدا کردے۔(بحار۴۵:۴۳،کامل ابن اثیر۳:۲۹۳)

شمر کی مذمت میں

روایت ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے نیزے کے ساتھ خیامِ حسینی پر حملہ کیا۔پھر بولا کہ آگ لے آؤ تاکہ حسین علیہ السلام سمیت سب کو ان خیام میں ہی جلا دیں۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"اے ذی الجوشن کے بیٹے! تو میرے خاندان والوں کو جلانے کیلئے آگ چاہتا ہے، خداوند تجھے (جیتے جی) آگ میں جلائے"۔ (لہوف:۵۳)

قبیلہ کندہ کے ایک آدمی کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب خولی بن یزید کا چلایا ہوا تیر امام علیہ السلام کے بدن میں پیوست ہوا تو امام حسین علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ پھر وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تیر کو اپنے بدن سے نکالتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی داڑھی اور سرخون سے رنگین ہوگئے۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: "میں خدا اور اُس کے پیغمبر کے ساتھ اسی حالت میں ملاقات کروں گا"۔ پھر بیہوش ہوکرزمین پرگر گئے۔پھر جب ذرا طبیعت سنبھلی تو اٹھنا چاہتے تھے لیکن نہ اٹھ سکے۔ اتنے میں قبیلہ کندہ کے ایک ملعون شخص نے امام علیہ السلام کے سرِ اقدس پر کسی چیز سے وار کیاجس سے آپ کا عمامہ زمین پر گر گیا۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں بدعا کی:

"تو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ کھا سکے اور نہ پی سکے ۔ اللہ تعالیٰ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے"۔

ابو مخنف کہتے ہیں کہ جب قبیلہ کندہ کا یہ ملعون سید الشہداء علیہ السلام کا عمامہ اٹھا کر گھر لے گیا تو اس کی بیوی نے کہا:"وائے ہو تجھ پر! امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے ان کا عمامہ لے آیا ہے۔ خدا کی قسم! اس کے بعد میں تیرے ساتھ زندگی نہیں گزاروں گی"۔

اُس ملعون نے اپنی بیوی کو مارنے کے ارادے سے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کسی میخ نما چیز سے ہاتھ ٹکرا کر کٹ گیا اور وہ ہمیشہ کیلئے فقیر اور محتاج ہوگیا۔(ینابیع المودة:۳۴۸)

اپنے قاتلوں میں سے کسی کی مذمت میں

ابی عینیہ سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں میں سے دو آدمیوں کو دیکھا، یہاں تک کہ ان دو آدمیوں میں سے ایک مسلسل پانی کے پیچھے ہے۔ تمام پانی پینے کے باوجود بھی سیر نہیں ہوتا تھا کیونکہ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کو دیکھا تھا جو اپنامنہ پانی کے نزدیک کرکے اس سے پینا چاہتے ہیں۔ اس ظالم نے امام علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا ۔ امام علیہ السلام نے اس کے بارے میں یوں فرمایا:

"اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت میں سیراب نہ فرمائے"۔

وہ آدمی پیاس بجھانے کیلئے دریائے فرات میں کود گیا۔ اتنا پانی پیا کہ اسی تشنگی کی حالت میں موت واقع ہوگئی۔(پانی پی پی کر مر گیا)۔(کفایة الطالب:۴۳۵)

زرعہٴ دارمی کی مذمت میں

روایت ہے کہ بنی ابان بن دارم کا زرعہ نامی شخص بھی سید الشہداء علیہ السلام کے قاتلوں میں سے تھا۔ اس نے تیر چلایا جو ابی عبداللہ کے منہ کے نیچے پیوست ہوگیا۔ پھر امام علیہ السلام نے جاری خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا۔ اس ملعون کو پتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام پینے کیلئے پانی مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا اُس نے اسی وقت تیر پھینک کر امام حسین علیہ السلام اور پانی کے درمیان فاصلہ ڈال دیا۔امام علیہ السلام نے فرمایا:

"بارِالٰہا! اس کو پیاسا رکھ۔ بارِ الٰہا! اس کو پیاسا رکھ"۔

کہتے ہیں کہ کسی عینی شاہد نے نقل کیا ہے کہ مرتے وقت وہ پیٹ کی گرمی اور پشت میں ٹھنڈک کی وجہ سے چیخیں مار رہا تھا۔ اس کی پشت کی طرف آگ اور اس کے سامنے برف اور ٹھنڈک قرار دی گئی تھی۔ پھر بھی کہہ رہا تھا کہ مجھے پانی پلاؤ، مجھے پیاس نے ہلاک کر دیا ہے۔(کفایة الطالب:۴۳۴،ذخائر العقبی:۱۴۴)

عبداللہ بن حصین ازدی کی مذمت میں

روایت ہے کہ عبداللہ بن حصین ازدی نے عاشور کے دن بآوازِ بلند کہا تھا:"اے حسین ! دیکھتے نہیں ہو کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی آسمان سے باتیں کر رہا ہے لیکن خدا کی قسم! آپ مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکیں گے"۔

امام علیہ السلام نے یوں جواب میں فرمایا:"پروردگار! اس کو پیاسا ہی موت آئے اور ہرگز اس کے گناہوں سے درگزر نہ فرما"۔

اس کے بارے میں بھی معروف ہے کہ پانی پیتے پیتے اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا، یہاں تکہ کہ سیر ہوتے ہوتے ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔(روضۃ الواعظین:۱۸۲)

محمد بن اشعث کی مذمت میں

روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ اے حسین ! تھوڑی دیر بعد آتش جہنم میں اترنے کی مبارکباد ہو، خوشخبری ہو۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :"میں خود کو پروردگارِ رحیم، شفاعت کرنے والے اور اطاعت کئے جانے والے کی بشارت دیتا ہوں۔ تو کون ہے؟"اُس شخص نے کہا کہ میں محمد بن اشعث ہوں۔

پھر امام حسین علیہ السلام نے یوں فرمایا:" اے پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے تو اس کو جہنم کی آگ میں ڈال۔ آج اس کو اپنے دوستوں کیلئے نشانِ عبرت قرار دے"۔

کچھ ہی دیربعد اس کے ہاتھوں سے گھوڑے کی لگام چھوٹی تو وہ زمین پر گر گیا۔(مثیر الاحزان:۶۴)

ابن ابی جویریہ مزنی کی مذمت میں

روایت ہے کہ عاشور کے دن سید الشہداء علیہ السلام نے خیامِ حسینی کے اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ لہٰذا لشکر کے اطراف میں خندق نما گڑھا کھودا گیا۔ پھر حکمِ امام کے تحت اسے لکڑیوں سے بھر دیا گیا۔ پھر آپ کی فرمائش کے مطابق آگ لگا دی گئی تاکہ امام حسین علیہ السلام قومِ اشقیاء سے ایک جانب سے جنگ کریں۔

روایت ہے کہ محمد بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی بنام ابن ابی جویریہ مزنی آگے بڑھا اور جیسے شعلے اگلتی آگ پر نظر پڑی تو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! آگ کی بشارت دیتا ہوں۔ دنیا میں آگ کی طرف کس قدر جلدی کی ہے!"

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:"بارِ الٰہا! دنیا میں ہی اس کو عذابِ جہنم کا مزہ چکھا"۔اسی وقت اس کا گھوڑا کودا اور اس کو اسی آگ میں پھینک دیا جس سے وہ جل گیا۔(امالی:۱۳۴)

ابن جوزہ تمیمی کے بارے میں

روایت ہے کہ جب آگ پورے گڑھے میں پھیل گئی تو ابن جوزہ نے امام علیہ السلام کو یوں مخاطب کیا:"اے حسین ! آخرت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کی بشارت ہو"۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:"پروردگار! اگر تیرا یہ بندہ کافر ہے تو اسے آگ میں ڈال"۔

ایک اور روایت میں یوں ذکر ہے:"خداوندا! اس کو آتش جہنم میں ڈال اور مرنے سے پہلے دنیا میں ہی اس کو آگ میں جلا"۔

تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے سے آگ میں گرا اور جل گیا۔(بحار۴۵:۱۳)

تمیم بن حصین فزاری کی مذمت میں

روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر سے ایک آدمی جسے تمیم بن فزاری کہاجاتا تھا، آگے آیا اور کہنے لگا:"اے حسین اور اصحابِ حسین ! کیا فرات کے پانی کی طرف نہیں دیکھتے گویا مچھلیوں کے پیٹوں سے بھی نظر آرہا ہے ۔ خدا کی قسم! مرتے دم تک اس سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے"۔امام نے فرمایا:"یہ اور اس کا باپ جہنمی ہیں۔

بارِ الٰہا! آج ہی اس کو شدتِ پیاس سے موت دے"۔

اسی وقت شدتِ پیاس سے گھوڑے پر نہ سنبھل سکا اور زمین پر گر گیا۔(امالی:۱۳۴)

محمد بن اشعث کی مذمت میں

روایت ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرما رہے تھے:اے اللہ! ہم تیرے نبی کے اہلِ بیت اور ان کی اولاد اور قرابت دار (رشتہ دار) ہیں۔ ہم پر ظلم کرنے والوں اور ہمارا حق غصب کرنے والوں سے ہمارا انتقام لے۔ بے شک تو سننے والا سب سے قریب ہے"۔

محمد بن اشعث بولا: "آپ کے اور حضرت محمد کے درمیان کیا رشتہ داری ہے؟"امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:"پروردگار!آج ہی اس کی ذلت و خواری مجھے دکھا"۔

ایک اور روایت میں آیا ہے:"پروردگار!آج محمد بن اشعث کو اس طرح ذلیل و رسوا کر کہ کبھی عزت دار نہ بن سکے"۔

محمد بن اشعث رفع حاجت کیلئے گیا کہ ایک بچھو نے آلہ تناسل پر ڈس لیا۔ وہ اس قدر چیخا اور اپنے ہی فضلہ پر لوٹنے لگا۔(بحار۴۵:۳۰۲)

جبیرہ کلبی کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب امام علیہ السلام نے خندق تیار کروالی اور اُسے آگ سے بھر دیا تو ایک ملعون جس کا نام جبیرہ کلبی تھا، نے امام سے کہا:"اے حسین ! روزِ قیامت کی آگ سے قبل دنیا ہی کی آگ میں مبتلا ہوگئے ہیں"۔

امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آگ سے میرا مذاق اڑاتا ہے حالانکہ میرے والد آتش جہنم کے تقسیم کنندہ ہیں اور میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے۔

 

امام علیہ السلام نے فرمایا:"بارِ الٰہا: اسے آتش جہنم سے قبل دنیا کی آگ میں فنا فرما"۔

ابھی امام کی دعاختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے اس آگ کے درمیان پٹخ دیا اور جل کر خاکستر ہوگیا۔ امام نے تکبیر بلند کی اور ایک منادی نے آسمان سے آواز دی کہ فرزند ِ پیغمبر آپ کی دعا بارگاہِ احدیت میں فوراً قبول ہوتی ہے۔ (ینابیع المودة:۴۱۰)

مالک بن جوزہ کی مذمت میں

روایت ہے کہ عمر بن سعد کے لشکر میں سے ایک شخص جس کا نام مالک بن جوزہ تھا،اس حال میں کہ گھوڑے پر سوار تھا، امام کے لشکر کی طرف آیا اور خندق کے کنارے کھڑے ہوکر کہنے لگا:"اے حسین ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ آتش جہنم سے قبل ہی آتش دنیا میں جلائے جائیں گے"۔

امام نے فرمایا:"اے دشمنِ خدا! میں اپنے پروردگار ،مہربان اور اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی جانب جارہا ہوں جو سب کیلئے شفاعت کرنے والے ہیں"۔ اور فرمایا:"بارِ الٰہا:اسے آگ میں داخل فرما اور آتش جہنم سے قبل اسے آگ میں جلا"۔

راوی کہتا ہے کہ اچانک اس کے گھوڑے نے حرکت کی اور اسے آگ میں گرادیا جس میں وہ جل کر خاکستر ہوگیا۔

راوی کہتا ہے کہ امام نے اپنے چہرے کو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھا اور فرمایا کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوگئی۔

راوی کہتا ہے کہ اسی حالت میں امام نے آواز بلند کی اور فرمایا:"بارِالٰہا! میں تیرے نبی کی اہلِ بیتؑ ، ذریت اور قرابت دار ہوں۔ جو ہم پر ظلم روا رکھے اور ہمارا حق غصب کرے، بے شک تو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے"۔ (فتوح۵:۱۰۸)

ابی سفیان کی مذمت میں

روایت ہے کہ جب عثمان کی بیعت ہوچکی تو ابوسفیان نے امام حسین علیہ السلام کاہاتھ پکڑا اور کہا:اے میرے بھائی کے بیٹے! میرے ساتھ قبرستان جنت البقیع تک چلو۔ وہ چلے، یہاں تک کہ جب وہ جنت البقیع کے درمیان پہنچے تو سید الشہداء علیہ السلام کے سامنے جرأت کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا:"اے اہل قبور! جس چیز کے متعلق(خلافت) ہم سے جنگ کرتے تھے، آج وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے جبکہ تم بوسیدہ ہوچکے ہو"۔

یہاں پر سید الشہداء علیہ السلام نے فرمایا: "خداوندتیرے بالوں کو سفید اور تباہ کرے اور تیرے چہرے کو قبیح کرے"۔

پھر سید الشہداء علیہ السلام نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اس سے علیحدہ ہوگئے۔(احتجاج طبرسی۱:۲۷۵)

پانچواں باب

مصائب سے نجات اور حاجت روائی کیلئے آپ کی دعائیں

دشواریوں سے چھٹکارے کیلئے

غم و اندوہ کو دور کرنے کیلئے

نماز بجا لانے کے بعد اپنی حاجات کیلئے دعا

نمازِ حاجت میں آپ کی دعا

مصائب اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے آپ کی دعا

اے سختی اور مشکل میں کام آنے والے ، اے مشکل وقت میں فریاد رسی کرنے والے! اپنی ہمیشہ بیدار نگاہوں سے میری حفاظت فرما اور مجھے حملوں سے محفوظ اپنی پناہ گاہ میں پناہ دے۔

ایک اور روایت میں یوں ہے:

اے سختی کے وقت میرے کام آنے والے اور سختی کے وقت فریاد رسی کرنے والے! اپنی ہمیشہ بیدار نگاہوں سے میری حفاظت فرما اور مجھے حملوں سے محفوظ اپنی پناہ گاہ عطا فرما۔ مجھ پر اپنی قدرتِ کاملہ سے رحمت برسا۔ میں کیسے ہلاک ہو سکتا ہوں جبکہ میری اُمیدیں تجھ سے وابستہ ہیں۔

پروردگار! تو سب سے بڑا ہے۔ عزت دار اور قدرت والا ہے۔ لہٰذا جس جس سے مجھے خوف ہے، ڈر ہے، اُنہیں نابود فرما اور مجھے اُن کے شر سے محفوظ فرما۔ تحقیق تو ہرچیز پر قادر ہے۔(بحار۴۷:۱۷۵،اعلام الوری:۲۷۸)

غموں اور پریشانیوں سے نجات کیلئے آپ کی دعا

اے پروردگار! میں سوال کرتا ہوں کہ اپنی آیات اور عرشِ بریں کے مکینوں کے صدقے، اپنی زمینوں اور آسمانوں کے مکینوں کے صدقے، اپنے نبیوں اور رسولوں کے صدقے میری دعا قبول فرما۔ ایک مشکل کام میرے دامن گیر ہے، لہٰذا تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد و آلِ محمد پر درود بھیج اور مجھے اس مشکل سے نجات عطا فرما اور میری مشکل کو آسانی میں بدل دے۔(کمال الدین۱:۲۶۵)

نماز کے بعد اپنی حاجات کیلئے آپ کی دعا

پروردگار!تو نے حضرت آدم اور حضرت حوا کی دعا کو مستجاب کیا جب انہوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے خود پر ظلم کیا، لہٰذا اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور اپنی رحمت سے نہ نوازا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔پھر حضرت نوح نے تجھے پکارا اور تو نے دعا کو قبول فرمایا۔ لہٰذا حضرت نوح اور ان کے اہلِ بیت کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔پھر آتش نمرود کو ابراہیم خلیل اللہ پر خاموش کیا اور اس کو متوازی قرار دیا۔

تو وہ ہستی ہے جس نے حضرت ایوب کی دعا کو قبول کیاجب انہوں نے ندا دی۔ اے میرے پروردگار! میں مشکل میں گھر چکا ہوں جبکہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔پھر تو نے اُن کی مشکل حل فرمائی، اُن کے اہلِ بیت اور اُن کی طرح کے لوگ انہیں عطا کئے، اپنی رحمت اور صاحبانِ دل لوگوں کی خاطر۔

جب حضرت یونس نے تاریکیوں سے تجھے پکارا تو تو نے اُن کی دعا قبول فرمائی۔

۱۔ سید بن طاؤس کہتے ہیں: نمازِ امام حسین علیہ السلام چار رکعت ہے۔ہر رکعت میں پچاس بار سورئہ حمد اور پچاس بار سورئہ توحیدپڑھی جائے۔ رکوع میں دس بار سورئہ حمد اور دس بار سورئہ توحید کی تلاوت کی جائے۔رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہر سجدہ میں اور دونوں سجدوں کے درمیان دس بار سورئہ حمد اور دس بار سورئہ توحید پڑھی جاتی ہے۔

بے شک تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے جبکہ میں ظلم کرنے والا ہوں، پس تو نے ان کوغم و اندوہ سے نجادت دی۔

تو ایسی باعظمت ذات والا ہے جس نے حضرات موسیٰ و ہارون کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: میں نے آپ دونوں کی دعا کو مستجاب کیا ہے جبکہ فرعون اور آلِ فرعون کو غرق کیا ہے۔حضرت داؤد کے گناہ سے درگزر کرتے ہوئے ان کی توبہ قبول فرمائی، اپنی رحمت اور اور دوسروں کیلئے (تذکر) یاد آوری کیلئے۔حضرت اسماعیل پر بہت بڑی قربانی دی جبکہ وہ تسلیم ہوکر موت کیلئے جبین جھکا چکے تھے۔ تو نے ان کو آسانی، نجات اور سلامتی سے پکارا یا مشرف کیا۔

تو وہ ہستی ہے جس سے حضرت ذکریا نے بہت آہستہ سے یوں ندا دی:"پروردگار! میری ہڈیاں کمزور اور بال سفید ہوگئے ہیں"۔ تو نے فرمایا:"میں بھی تیری دعا کے سامنے شقی پروردگار نہیں ہوں"، اور پھر تو نے فرمایا: وہ مجھے اپنے ذوق و شوق سے پکارتے تھے اور میرے لئے خاضع اور خاشع تھے۔

تو وہ ذات ہے جس نے موٴمنین اور عملِ صالح بجالانے والوں کی دعائیں مستجاب کیں اور اپنے فضل و رحمت میں مزید اضافہ فرمایا۔

اے اللہ! تمام پکارنے والوں اور تیری طرف رغبت رکھنے والوں میں سب سے پست تر قرار نہ دے۔ جس طرح اُن کی دعائیں مستجاب فرمائی ہیں، میری دعا بھی قبول فرما۔ اُن کے صدقہ میں اپنی پاکیزگی سے مجھے پاکیزہ فرما اور اچھے انداز میں میری نماز اور دعا قبول فرما۔میری باقی زندگی اور موت کو بہترین قرار دے۔ مجھے خلف ِ صالح قرار دے۔

میری دعا سے میری حفاظت فرما اور میری اولاد کو صالح بنا۔ تجھے اپنی رحمت کا واسطہ! جس طرح اپنے اولیاء اور اطاعت گزاروں کی اولادوں کی حفاظت فرمائی ہے، ان کی بھی حفاظت فرما۔

اے وہ ذات جو ہرچیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے او راپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی دعا قبول کرنے والے، ہر سائل کے قریب! تجھ سے ہی سوال کرتا ہوں۔ اے وہ ذات جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! تو زندہ اور ہمیشہ رہنے والا یکتا اور بے نیاز ہے۔ تو وہ ذات ہے جو نہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹا اور کوئی بھی اس کے ساتھ برابری کا سزاوار نہیں ہے۔پروردگار! تجھے اپنے ان اسماء کا واسطہ جن کے ذریعے سے آسمانوں کو بلند کیا ہے اور زمین کا فرش پھیلایا ہے، پہاڑوں کو کھڑا کیا ہے، پانی کو جاری کیا ہے، بادلوں اور شمس و قمر، ستارے، رات اور دن کو مسخر کیا ہے اور تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔

 

اے اللہ! تیرے اس جمال اور عظمت کے طفیل سے سوال کرتا ہوں جس سے آسمان و زمین روشن ہیں، جس سے تاریکیاں بھی جگمگا اٹھی ہیں۔

 

محمد وآلِ محمدپر درود بھیج اور اُن کو اپنے خزانوں اور وسیع و عریض اور ہمیشہ رہنے والے فضل سے نواز۔

پروردگار! میرے دل میں حکمت کے ایسے چشمے جاری فرما کہ جن سے میں اور وہ بندے جن سے تو راضی ہے، مستفید ہوسکیں۔ آخری زمانے میں متقین میں سے میرے لئے امام قرار دے، جس طرح حضرت ابراہیم کو امام بنایا۔

بے شک تیرے ہی توفیق سے صالح لوگ کامیاب ہوتے ہیں، عبادت گزار عبادت کرتے ہیں، اصلاح کی جستجو کرنے والے، احسان کرنے والے اور اچھے لوگ اصلاح پاتے ہیں۔جو تیری بارگاہ میں عبادت کرنے والے ، تجھ سے ڈرنے والے، تیری ہدایت کے سبب تیری جہنم سے نجات پانے والے ہیں، تیری مخلوقات میں سے ڈرنے والے ہی ڈرتے ہیں اور اہلِ باطل خسارہ پانے والے ہیں۔ ظالم ہلاک ہونے والے اور غفلت سے کام لینے والے غافل ہی رہیں گے۔

پروردگار ! میرے نفس کو متقی قرار دے کیونکہ تو اس کا مولا اور سرپرست ہے۔ تو بہترین انداز میں تزکیہ کرنے والا ہے۔ پروردگار! ان کیلئے راہِ ہدایت کو روشن فرما اور تقویٰ کا انہیں الہام فرما۔مرتے وقت اپنی رحمت کی بشارت سے نواز۔جنت کے بہترین طبقہ میں جگہ نصیب فرما۔ زندگی اور موت کو بہترین قرار دے ۔ دنیا اور آخرت اور محل استقرار اور پناہ گاہ کو باعزت بنا۔بے شک تو سرپرست اور مولا ہے۔(جمال الاسبوع:۱۷۶،بحار۹۱:۱۸۴)

نمازِ حاجت میں آنحضرت کی دعا

سید الشہداء علیہ السلام سے ہی روایت ہے کہ چار رکعت نماز بجا لائیں جس میں قنوت اور بقیہ ارکان کو بہترین انداز میں انجام دیں۔ پہلی رکعت میں ایک بار سورئہ الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ اس آیہ کی تلاوت کریں :"خدا میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے"۔

دوسری رکعت میں ایک بار الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ یہ آیہ تلاوت کریں:"جو خدا چاہے وہی انجام پاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی قوت نہیں ہے ۔ اور تو خیال کرتا ہے کہ میں مال و اولاد کے اعتبار سے تجھ سے کم ہوں"۔

پھر تیسری رکعت میں ایک مرتبہ الحمد پڑھیں جبکہ سات مرتبہ پڑھیں:"تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاکیزہ ہے ۔ بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں"۔

چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ الحمد پڑھیں اور سات مرتبہ یہ آیہ پڑھیں:"میں اپنے امور کو اسی کے حوالے کرتا ہوں کیونکہ وہ اپنے بندوں سے آگاہ ہے"۔

پھر اپنی حاجات بیان کرتے تھے۔

چھٹا باب

خطرات اور بیماریوں سے نجات کیلئے آپ کی دعائیں

دشمن سے مخفی رہنے کیلئے

خطرات کو دور کرنے کیلئے

جن و انس کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے

دانتوں کے درد سے نجات کیلئے

پاؤں کے درد سے نجات کیلئے

پاؤں کے درد سے نجات کیلئے

دشمن سے مخفی رہنے کیلئے آپ کی دعا

اے وہ ذات جس کی تعریف ہی کفایت کرنا ہے، جس کی شان ہی کفیل ہونا ہے اور جس کی توجہ رعایت کرنا ہے۔ اے وہ ذات جو ہمارا مقصد اور ہماری غرض و غایت ہے۔ اے پلیدیوں اور نقصانات کے دور کرنے والے! مجھ سے تمام جہانوں کے دکھ درد(جن و انس) دور فرما۔البتہ نورانی وجوداتِ عالیہ ، سریانی اسماء ، یونانی قلموں اور عبرانی کلمات کے طفیل سے اور جو کچھ الواح میں بیان ہوچکا ہے۔

پروردگار!مجھے ہر نکالے گئے شیطان اور بغل میں چھپے ہوئے دشمن سے، کینہ رکھنے والے دشمن سے،مخالف، ضدی اور ہر حسد کرنے والے سے اپنی حفاظت میں رکھ۔ اپنے گروہ سے، اپنی امان اور پناہ میں رکھ۔

میں تیری بارگاہ سے شفا کا طلبگار ہوں۔اپنے کاموں کی انجام دہی کا تجھ سے ہی مطالبہ کرتا ہوں۔ تجھ ہی پر توکل کرتا ہوں۔ اُسی سے مدد کا خواستگار ہوں۔ ہر ظالم کے ظلم کے مقابلہ میں، ہر ستمگر کے ستم کے مقابلہ میں، ہر تجاوز کرنے والے کے تجاوز کے مقابلہ میں ، ہر اذیت دینے والے کی اذیت کے مقابلہ میں، تجھ ہی سے شکایت کرتا ہوں۔ پس اللہ بہترین حفاظت کرنے والا اور بہترین رحم کرنے والا ہے۔(مکارم الاخلاق۲:۱۲۲)

دفعِ خطرات کیلئے آپ کی دعا

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے زندہ، اے ہمیشہ رہنے والے، اے زندئہ جاوید، اے ہمیشہ پائندہ باد، اے غموں کی تاریکیوں کو دور کرنے والے، اے دکھوں سے نجات دینے والے، اے رسولوں کے بھیجنے والے، اے سچے وعدوں والے!

بارِ الٰہا! اگر تو مجھ سے راضی ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے تو میرے اور میری راہ پر چلنے والوں ، میرے بھائیوں، میرے شیعوں کے گناہوں سے درگزر فرما۔میری صلب میں آنے والوں کو پاکیزہ فرما۔ اے بہترین رحم کرنے والے! تجھے اپنی رحمت کا واسطہ، ہمارے آقا حضرت محمد اور اُن کی آل پر درود بھیج۔(مہج الدعوات:۱۱،بحار۹۴:۲۶۵)

جن و انس کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے آپ کی دعا

امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ جب بھی میں یہ کلمات زبان پر جاری کرتا ہوں تو تمام جن و انس سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہوں:اللہ کے نام سے، اُس کی مدد سے، خدا کی طرف سے، اُس کی راہ میں، پیغمبر اسلام کے طریقہ پر، بارِ الٰہا! اپنی قوت، طاقت اور قدرت سے مجھے ہر دھوکہ دینے والے ،ہر فاجر کے مکروفریب سے محفوظ فرما کیونکہ نیکو کاروں کو دوست اور اچھے لوگو ں کو پسند کرتا ہوں۔ پیغمبر حضرت محمد اور اُن کی آل پر درود بھیج۔(بحار۹۵:۲۲۰)

دانتوں میں درد کی دعا

لکڑی یا لوہے کے ٹکڑے کو دانتوں پر رکھ کر سات مرتبہ یہ دعا پڑھیں:"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔نہایت تعجب ہے کہ ایک کیڑا جو منہ میں ہے، ہڈی کھاتا ہے، خون پیتا ہے۔ میں اس دعا کو پڑھتا ہوں۔ اللہ شفا دینے والا اور کفایت کرنے والا ہے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

جب تم نے ایک شخص کو قتل کرکے چھپایا۔ اللہ آشکار کرنے والا ہے جسے تم چھپاتے ہو۔ ہم نے کہا اس گائے کا ایک حصہ اس مردہ کو مارو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم غور کرو۔(مکارم الاخلاق۲:۲۷۲)

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے

امام سجاد علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک شخص نے امام حسین علیہ السلام سے پاؤں میں درد کی شکایت کی اور کہا کہ میرے پاؤں میں شدید درد محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے نماز ادا کرنے سے بھی قاصر ہوں۔ امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ دعا کیوں نہیں پڑھتے؟کہا کیا پڑھوں؟

آپ نے ارشاد فرمایا کہ جہاں درد محسوس ہوتا ہے، وہاں ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھو:"اللہ کے نام سے اور اُس کی مدد سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام"۔

پھر یہ پڑھو:"اور اُنہوں نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن تمام زمین اُس کے قبضہ میں ہوگی اور آسمان اُس کے دائیں جانب لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ ذات پاک اور بلند تر ہے اُس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں"۔(بحار۹۵:۵۸)

پاؤں کا درد دور کرنے کیلئے

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص بنی اُمیہ سے جو ہمارے شیعوں میں سے تھا،نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا:’فرزند ِ رسول! پاؤں کے درد کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا‘۔آپ نے فرمایا: میری دعا کو کیوں نہیں پڑھتے؟ عرض کیا کہ فرزند ِ رسول! میں کیا پڑھوں؟ فرمایا پڑھو:

"ہم نے آپ کو فتح مبین بخشا تاکہ گذشتہ و آئندہ خطاؤں کو بخشا جائے اور اپنی نعمت کو آپ پر کامل کرے اور سیدھی راہ کی ہدایت کرے اور اللہ آپ کو غالب نصرت عطا کرے۔ ابتداء وہی ہے جس نے موٴمنوں کے دلوں میں سکون نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ زمین و آسمان کے لشکر خد اکیلئے ہیں اور خدا داناو حکمت والا ہے۔

تاکہ موٴمن اور موٴمنات بہشت میں، جس کے اندر نہریں جاری ہیں، داخل کئے جائیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے گناہوں کو بخشا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے اور منافقوں اور مشرکوں کوجو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانہیں، ان کی بدگمانی ثابت ہوچکی ہے۔ اللہ نے ان پر غضب کیا اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے دوزخ تیار کی ہے اور وہ بدترین جگہ ہے۔ اللہ کیلئے زمین و آسمان کی فوج ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے"۔(طب الآئمہ :۳۳)

ساتواں باب

ایامِ مبارک میں آنحضرت کی دعائیں

عرفہ کے روز آپ کی دعا

تمام تعریفیں اُس ذات کے ساتھ خاص ہیں جس کے فرمان سے کوئی حکم عدولی کرنے والا نہیں۔ اُس کی عطا اور بخشش کو روکنے والا نہیں اور اُس کی مخلوق کی طرح کوئی صانع نہیں۔ وہ وسیع پیمانے پر سخاوت کرنے والا ہے۔ اُس نے مختلف اجناس کو پیدا کیا۔

پھر اپنی مخلوقات کے نظام کو حکمت سے محکم کیا۔ مختلف گروہ اس سے مخفی نہیں ہیں جبکہ امانتیں اُس کے پاس ضائع نہیں ہوتیں۔وہ بھوکوں کی مدد کرنے والا، ہر کام کرنے والے کو اُس کی محنت کا صلہ ضرور دیتا ہے۔ ہر آہ و زاری کرنے والے پر رحم ضرور کرتا ہے۔ تمام خوبیوں اور اچھائیوں کا نازل کرنے والا وہی ہے۔ اُسی نے قرآن مجید کو چمکنے والے نور کے ساتھ اتارا ہے

وہی دعاؤں کا سننے والا، درجات کو بلند کرنے والا، مصیبتوں اور سختیوں کو ٹالنے والا ہے۔ وہی جابروں اور ستم کاروں کو تباہ کرنے والا اور خاموش کرنے والا ہے۔وہی آہ و زاری کرنے والے کے آنسوؤں پر رحم کرنے والا ہے۔ ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنے والا ہے۔ اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ کوئی شے اس کے ہم پلہ نہیں۔ اُس جیسا کوئی بھی نہیں۔ وہ سننے والا، دیکھنے والا، مہربان، خبر رکھنے والااور ہر شے پر قادر ہے۔

اے پروردگار! میں بڑے اشتیاق سے تیری بارگاہ میں آیا ہوں اور تیری ربوبیت کی گواہی اس انداز میں دیتا ہوں کہ تو ہی میرا رب ہے اور میری بازگشت تیری طرف ہی ہے۔ ذکر ہونے سے پہلے مجھے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، مجھے مٹی سے پیدا کیا ہے۔پھر مجھے اپنے آباء و اجداد کے صلب میں قرار دیا، حالانکہ میں زمانہ کی نیرنگیوں اور گردشِ ایام کی سختیوں سے محفوظ تھا۔ یہاں تک کہ گزشتہ ایام کے ساتھ ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآیا۔

پھر مجھے اپنی محبت اور مہربانی اور احسان کرتے ہوئے ایسے ایسے لوگوں کی طرف نہیں دھکیلا جنہوں نے تیرے عہد کو توڑا اور تیرے رسولوں کو جھٹلایا۔خدایا!میں تیرا مشتاق اور تیرا اپنے پروردگار ہونے کا اقرار کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں اور تیری طرف میری بازگشت ہے۔ میرے وجود سے پہلے تو نے اپنی نعمتوں کا آغاز کیا اور مجھے خاک سے پیدا کیا۔پھر مجھے صلب ِ پدر میں ساکن کردیا اور زمانے کی سختیوں اور سال و ماہ کی گردشوں سے امن میں رکھا۔

پھر مجھے بہنے والے پانی سے پیدا کیا۔ مجھے گوشت، پوست اور خون کی سہ گانہ تاریکیوں کے درمیان قرار دیا۔ میری خلقت پر نہ مجھے گواہ بنایا اور نہ ہی میری خلقت کرنے میں مجھ سے مدد چاہی ہے۔پھر مجھے صحیح و سالم دنیا میں بھیجا اور ابتدائے پیدائش میں جب میں بچہ تھاتو میری حفاظت فرمائی ۔ پھر مجھے انتہائی مرغوب دودھ سے غذا فراہم کی۔

مجھ سے عشق کرنے والوں کے دلوں کو میری طرف موڑ دیااور انتہائی مہربان اور شفیق ماؤں کو میری کفالت کی ذمہ داری سونپی۔مجھے جنات کے شر سے محفوظ رکھا۔ مجھے کمی بیشی سے بچائے رکھا۔ پس اے رحم کرنے والے، بخشنے والے! تو ہی بڑا ہے۔

پھر جیسے ہی گفتگو کرنے کے قابل ہوا، مجھے اپنی وسیع و عریض نعمتوں سے نوازا۔ پھر مجھے سال بہ سال بڑا کیا، یہاں تک کہ میری فطرتِ سلیم کامل ہوگئی۔ میری سرشت نقطہ اعتدال پر آگئی۔پھر مجھے اپنی معرفت الہام کرکے اپنی حجت کو واجب کیا اور مجھے اپنی فطرت کی عجیب و غریب رعنائیوں سے حیرت زدہ کردیا۔

پھرزمین و آسمان میں اپنی عجیب و غریب مخلوقات سے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے اپنے ذکر، شکر، عبادت اور اپنی اطاعت کے واجب ہونے سے آگاہ کیا۔پھر مجھے ماجاء بہ النبی کی تعلیم دی، اپنی مرضات کے حصول میں آسانی قرار دی۔ان تمام مراحل میں اپنی مدد اور مہربانی سے مجھ پر احسان کئے۔

پھر جب مجھے بہترین سرشت سے پیدا کیا تو مجھے یکے بعد دیگرے نعمتیں دینے سے گریز نہیں کیااور مجھے مختلف طریقوں سے رزق و ضروریاتِ زندگی سے نوازا۔پھر ہمیشہ اور اپنے عظیم الشان احسان سے تمام نعمتوں کو کامل اور مصیبتوں کو مجھ سے دور رکھا ہے۔

اے اللہ! میری جہالت اور تیری بارگاہ میں جسارت بھی تجھے اپنے قریب کرنے والی راہوں کی ہدایت کرنے سے نہیں روک سکی۔ اگر تجھے پکاروں تو میری پکار کو قبول کرتا ہے اور اگر تجھ سے سوال کروں تو تو عطا کرتا ہے، اگر تیری اطاعت کروں تو مجھے شکر گزاروں سے قرار دیتا ہے۔ اگر تیرا شکر بجا لاؤں تو نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ تیری نعمتوں کی تکمیل اور مجھ پر تیرے احسانات کی وجہ سے ہے۔

اے وجود میں لانے والے،لوٹانے والے، تعریف والے، عظمت و جلالت والے، تیری ذات پاک ہے۔ تیرے نام مقدس ہیں اور تیری نعمتیں عظیم الشان ہیں۔ اے پروردگار! میں تیری کس کس نعمت کو شمار کروں اور ذکر کروں یا میں تیری کس عطا کا شکر بجا لانے کی جسارت کرسکتا ہوں۔اے پروردگار! جو مجھ سے سختی اور بد حالی کو دور کیا ہے، یہ اس خوشحالی سے کہیں بہتر ہے جو مجھے عطا کی ہے۔

اے پروردگار! میں گواہی دیتا ہوں اپنے ایمان کی گہرائیوں سے اور یقین محکم سے، خالص توحید پرستی پر اور چھپے ہوئے ضمیر کے ساتھ، اپنی آنکھوں کے نور کے جاری ہونے کی جگہوں سے اور اپنی جبین پر پڑی سلوٹوں کے اسرار کے ساتھ۔

اپنے تنفس کے جاری، اپنی ناک کے نرم غضروف، اپنے کان کے پردوں میں سوراخ اور جو کچھ میرے دو لبوں کے ساتھ ملا ہوا اور لگا ہوا ہے، اپنی زبان کی گردش اور اپنے منہ کے کھلنے اور بند ہونے کی جگہوں اور اپنی داڑھوں کے اُگنے کی جگہوں، اپنی گردن کے اطناب ، اپنے کھانے اور پینے کی نگلنے کی جگہوں ، اپنے مغز کی مضبوط کھال ، اپنی شہ رگ کی تمام رطوبتیں ، اپنے سینہ کے تمام مشمولات، اپنے دل کی زندگی کے تمام وترات، اپنے جگر کے تمام منافذ و متعلقات اور جسے میری پسلیوں نے گھیرا ہوا ہے اور اپنے جوڑوں کے بند، اپنی انگلیوں کے پوروں، اپنی گرفت کے تمام امور اور میرا خون، میرے بال اور میری کھال، میرے عصب اور میرے قصب، میری ہڈیاں اور میرا گودہ، میری شریانیں اور اپنے تمام اعضاء اور وہ سب کچھ جو میں نے ایامِ شیر خوارگی میں حاصل کیا ہے، جو کچھ مجھ سے زمین اٹھاتی ہے، میری نیند اور بیداری، سکون اور حرکت ، اپنے رکوع کی حرکات اور سجود پر تجھے گواہ بناتا ہوں۔اگر میں لیل و نہار کی گردش کے دوام تک لمبی عمر پاؤں اور تیرے شکر کی کوشش کروں کہ صرف تیری ایک نعمت کا شکر ادا کرسکوں تو میں تیرے احسان و منت کے بغیر نہ کرسکوں گا۔ اس کے سبب سے نعمت ہائے جدیدہ کا شکر اور تیری ثناء کا حق ادا ہوحتیٰ کہ ہمیشہ تیری تعریف کرتا رہوں، تب بھی تیرا شکر بغیر تیرے احسان و انعام کے ناممکن ہے۔

اگر میرے سمیت تمام شمار کرنے والے تیری گذشتہ اور آئندہ نعمتوں کو عدد اور زمانہ کے اعتبار سے شمار کرنا چاہیں بھی تو ہرگز شمار نہیں کرسکتے۔ یہ کام ہماری پہنچ سے بہت دور ہے کیونکہ تو نے اپنی کتابِ ناطق میں سچی خبر دیتے ہوئے وضاحت کردی ہے کہ:"اگر میری نعمتوں کو شمار کرنا بھی چاہوتو شمار نہیں کر سکتے"۔

اے پروردگار! تیری کتاب اور تیرا کلام حرف بہ حرف درست ہیں۔ تیرے انبیاء اور رسولوں نے جو کچھ ان پر وحی کیا اور جس دین کو ان کیلئے معین کیا ہے، اس کو انہوں نے بطورِ احسن پہنچایا ہے۔ علاوہ ازیں میں انتہائی سنجیدگی، کوشش اور تمام تر طاقت کو بروئے کار لاکر گواہی دیتا ہوں اور یقین محکم سے کہہ رہا ہوں۔

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے اپنے لئے بیٹا قرار نہیں دیا تاکہ وہ اس سے وارث ٹھہرے۔ بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں تاکہ وہ مخلوق میں اس کی ضد پر اتر آئے۔ رُسوا کرنے میں اُس کا کوئی سرپرست نہیں ہے جو مخلوقات کے نظام کوچلانے میں اس کی مدد کرے۔وہ پاک و پاکیزہ ہے۔اگر دو خدا ہوتے تو جہان فساد کی لپیٹ میں آکر تباہ و برباد ہوجاتا۔ پس اللہ پاک ہے۔ وہ واحد ہے، یکتا، ہے، تنہا ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی بھی اُس کے برابر نہیں۔

تمام تعریفیں اللہ سبحانہ کے ساتھ خاص ہیں۔ ایسی تعریف جو اس کے مقرب ملائکہ اور انبیاء مرسلین کی تعریف کی برابری کرے۔ اللہ تعالیٰ کے درودوسلام ہوں برگزیدہ حضرت محمد خاتم الانبیاء پر اور اُن کی پاک و پاکیزہ اولاد پر۔

یہاں پر امام علیہ السلام نے لہجہ بدلا۔ دعا میں بہت زیادہ رقت پیدا ہوگئی اور خود امام علیہ السلام کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ فرمانے لگے:"اے پروردگار! مجھے خود سے ڈرنے والا قرار دے۔ گویا میں تجھے دیکھ رہا ہوں اور مجھے تقویٰ اختیار کرنے کی سعادت سے بہرہ مند فرما۔ اپنی نافرمانیوں اور گناہوں کے بدلہ میں مجھے بد بخت قرار نہ دے۔ اپنی قضاء و قدر میں میرے لئے اچھائی قرار دے، یہاں تک کہ جلدی آنے والی چیز میں تاخیر اور تاخیر سے آنے والی چیز میں جلدی میرے لئے دلچسپی کا باعث نہ ہو۔

اے پروردگار! مجھے بے نیازی کی دولت سے مالامال فرما۔ دل کو یقین محکم عطا فرما۔ عمل بجالانے میں اخلاص مرحمت فرما۔ آنکھوں میں نور کی شمعیں روشن فرما۔دین میں بصیرت عطا فرما۔ اپنے اعضاء و جوارح سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔میری سماعت اور بصارت کو میرے لئے بہترین وارث قرار دے۔ مجھ پر ظلم کرنے والے کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ اس سے انتقام لینے اور میری ضرورت کو اس ظالم سے چھیننے کی توفیق عطا فرمااور اس عمل میں میری آنکھوں کو منور فرما۔

اے پروردگار! میری مشکلات کو برطرف اور میرے عیوب پر پردہ ڈال ۔ میری خطاؤں سے درگزر فرما۔ مجھے شیطان سے محفوظ فرما اور ہر قسم کی ذمہ داریوں سے مجھے دور فرما۔

دنیا اور آخرت میں مجھے بلند درجہ عطا فرما۔

اے پالنے والے! حمد تیرے ہی ساتھ خاص ہے کیونکہ تو نے مجھے پیدا کیا، پھر میرے لئے سماعت و بصارت کو قرار دیا۔ اسی لئے حمد تیرے ساتھ خاص ہے کہ مجھ پر رحمت کرتے ہوئے مجھے صحیح و سالم پیدا کیا۔جبکہ تو میری خلقت سے بے نیاز ہے۔

اے اللہ! تونے مجھے بے عیب پیدا کیا اور میری فطرت کو متوازی قرار دیا۔ مجھے ایجاد کیا اور میری صورت کو حسین بنایا۔ اے پروردگار! مجھ پر نیکی کرتے ہوئے سلامتی اور عافیت عطا فرمائی۔ پروردگارا! جو کچھ میرے سپرد کیا، اس کی حفاظت کرنے کی توفیق بھی مرحمت فرمائی۔بارِ الٰہا! تو نے مجھے نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایت بھی فرمائی ہے۔اے پروردگار! مجھے منتخب کیا اور مجھے ہر اچھائی سے بھی نوازا۔اے پروردگار!مجھے خوراک فراہم کی اور مجھے سیراب کیا۔ اے رب! مجھے دوسروں سے بے نیاز کیا اور مجھے عزت کے سرمایہ سے بھی نوازا۔اے رب! میری مدد بھی فرمائی اور مجھے عزیز و گرامی قدر بھی بنایا۔

اے پروردگار! مجھے لباسِ کرامت پہنایا اور اپنی ایجادات میں میرے لئے کافی حد تک آسانیاں قرار دیں۔محمد و آلِ محمدپر درود بھیج اور زمانے کی مشکلات اور حوادثِ لیل و نہار میں میری مدد فرما۔ دنیا کی ہولناکیوں اور آخرت کی سختیوں اور مشکلات سے مجھے نجات عطا فرما۔زمین میں ظالموں کے شر سے میری مدد فرما۔

یا بارِ الٰہا! جس سے میں خوفزدہ ہوں ، تو میری سرپرستی فرما۔ جس سے میں ڈرتا ہوں، میری حفاظت فرما۔ میری جان و دین کو اپنی پناہ میں رکھ۔ دورانِ سفرمیری حفاظت فرما۔میرے خاندان، میرے مال اور میری اولاد میں سے مجھے بہترین جانشین عطا فرما۔ مجھے عطا کئے گئے رزق میں برکت نازل فرما۔ مجھے اپنی بارگاہ میں ذلیل جبکہ لوگوں کی نگاہوں میں عزت دار بنا۔مجھے جن و انس کے شر سے سلامتی عطا فرما۔ مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے ذلیل و رسوا نہ فرما۔ میرے بُرے باطن کی وجہ سے مجھے رسوا نہ فرما۔ اعمال کے ذریعے میری آزمائش نہ فرما۔اپنی نعمتوں کو مجھ سے سلب نہ فرما اور مجھے اپنے غیر کی سرپرستی میں نہ دے۔

اے اللہ! مجھے اپنے قرابت داروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ کہ وہ مجھ سے قطع رحمی کریں۔ نہ ہی اجنبیوں کے حوالے کرنا، نہ ہی کمزوروں کے حوالے فرمانا،حالانکہ تو میرا سرپرست ہے اور میرے امور کی باگ ڈور تیرے پاس ہے۔میں تیری بارگاہ میں شکایت کرتا ہوں اپنی مسافرت کی اور گھر سے دور ہونے کی۔

جن لوگوں کے حوالہ میرے امور کی باگ ڈور دی ہے، مجھے کم قیمت سمجھنے کی، اے رب! مجھ پر اپنا غضب نازل نہ فرما۔ البتہ تیرے غضب کے علاوہ مجھے کسی سے خوف نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کہ تیری عافیت کی وسعتیں میرے شامل حال ہیں۔میں تیرے اس نور کے طفیل سوال کرتا ہوں جس کے ذریعے سے زمین اور آسمان روشن ہیں، تاریکیاں چھٹی ہوئی ہیں اور اوّلین و آخرین کے امور کی اصلاح بھی اسی سے ہے۔ مجھے اپنی حالت ِغضب میں موت نہ دینا اور مجھ پر اپنا غضب نازل نہ فرمانا۔

اس لئے کہ تیرے اختیار میں ہے کہ غضب کرنے سے پہلے راضی ہوجائے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔اے مکہ مکرمہ، مشعرالحرام، بیت عتیق اور اس خانہٴ کعبہ کے مالک جس میں تو نے برکت قرار دی ہے اور اس کو لوگوں کیلئے پُرامن جگہ قرار دیا ہے۔

اے وہ ذات جو اپنے حلم کی وجہ سے بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کرتی ہے، اے وہ ذات جس نے اپنے فضل سے نعمتوں کے وسیع سلسلے پھیلارکھے ہیں، اے وہ ذات جو اپنے کرم سے اجرِجزیل عطا فرماتی ہے، اے میری مشکل گھڑی میں پناہ گاہ! روزِ آخرت میں میرا زادِ راہ تو ہی ہے۔ اے میری تنہائیوں میں میرے مونس و مددگار، اے میرے ولی اور سرپرست، اے میرے اور میرے آباء و اجداد حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرات اسحاق و یعقوب کے پروردگار، اے جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل کے رب، اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی برگزیدہ آل کے رب، اے تورات، انجیل، زبور اور قرآنِ عظیم کے نازل کرنے والے، اے کھٰیٰعص، طٓہ و یٰسین اور قرآنِ حکیم کے نازل کرنے والے۔

اے وہ ذات جب زندگی کی دشوار گزار راہیں مجھے عاجز کردیں اور زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ مجھ پر تنگ ہوجائے تو اس وقت تو میری پناہ گاہ ہے۔اگر تیری رحمت میرے شامل حال نہ ہوتی تو میں کب کا ہلاک ہوچکا ہوتا اور دشمنوں کے مقابلہ میں تو ہی مدد کرنے والا ہے۔ اگر تو میری مدد نہ فرماتا تو میں کب کا مغلوب ہوچکا ہوتا۔

اے وہ ذات جس نے خود کو بلندی اور رفعت سے مخصوص کر رکھا ہے اور اولیاء کو اپنی عزت سے بزرگوار ٹھہرنے میں گرامی قدر بنایا۔ اے وہ جس کے سامنے بادشاہوں کے گلوں میں ذلت و رسوائی کا طوق ڈالا گیا ہے اور وہ اس کی سطوت کے سامنے لرزہ بر اندام ہیں، اے وہ ذات جو آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھیدوں ، اس غیب سے جسے روزگارِ زمانہ لاتا ہے، سب سے آگاہ ہے۔ اے وہ ذات جسے خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اے وہ جس نے زمین کو پانی پر جمایا اور آسمان کے ذریعے سے ہوا کو پابند کیا۔اے وہ ذات جو باعزت ناموں والا ہے، اے ختم نہ ہونے والے احسان کے مالک، اے وہ ذات جس نے لق و دق صحرا میں حضرت یوسف کی نجات کیلئے قافلہ کو روانہ کیا اور ان کو کنویں سے نجات دی، اُن کو غلامی کے بعد بادشاہی عطا کی۔ اے وہ ذات جس نے حضرت یوسف اور حضرت یعقوب کو اس حال میں پلٹایا کہ غم یوسف میں ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور وہ نابینا ہوگئے۔

اے حضرت ایوب سے مصیبتوں کو دور کرنے والے، اے ذبیح اسماعیل سے ابراہیم کے ہاتھ کو روکنے والے، اس بڑھاپے اور عمر کے ختم ہوجانے کے بعد، اے وہ ذات جس نے حضرت ذکریا کی دعا مستجاب کرتے ہوئے حضرت یحییٰ سے نوازا اور ان کو تنہا نہیں چھوڑا۔اے حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکالنے والے ، اے وہ ذات جس نے دریا کو دو لخت کرکے بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اُس کے لشکر کو غرق کیا۔

اے وہ ذات جس نے ہواؤں کو بارانِ رحمت کی بشارت دینے والی بنایا، اے وہ ذات جس نے مخلوق میں سے نافرمانی کرنے والوں پر عتاب کرنے میں جلدی نہیں کی، اے وہ ذات جس نے طویل انکار کے بعد جادوگروں کو نجات دی، حالانکہ وہ تیری نعمتوں سے فیضیاب ہورہے تھے اور تیرا رزق کھا رہے تھے جبکہ عبادت تیرے غیر کی کرتے تھے ۔وہ اس کی مخالفت کرتے تھے ،اس کی ضد میں آتے تھے اور اُس کے رسولوں کو جھٹلاتے تھے۔

اے اللہ! اے وہ پہلے جس کیلئے ابتداء نہیں اور ہمیشہ رہنے والے تیرے لئے انتہا نہیں۔ اے زندہ اور اے ہمیشہ رہنے والے، اے مُردوں کو زندہ کرنے والے، اے وہ ذات جو ہر نفس کو اپنے کئے کی ضرور سزا دے گا، اے وہ ہستی جس نے شکر کی کمی کے باوجود مجھے محروم نہیں کیا، میری بڑی خطاؤں پر بھی مجھے رسوا نہیں کیا۔ مجھے نافرمانی کرتے دیکھنے کے باوجود مجھے ذلیل و رسوا نہیں کیا۔اے وہ ذات جس نے بچپن میں میری حفاظت فرمائی۔

اے وہ ذات جو بڑھاپے میں رزق عطا فرماتا ہے، اے وہ ذات جس کی عطاؤں کو میں شمار نہیں کرسکتا اور جس کی نعمتیں بغیر عوض کے ہیں۔ اے وہ ذات جو مجھ سے اچھائی اور احسان سے پیش آیا جبکہ میں تجھ سے برائی ،گناہ اور نافرمانی سے پیش آتا ہوں۔ اے وہ ذات جس نے شکر گزاری کی شناخت سے پہلے مجھے ایمان کی ہدایت فرمائی۔

اے وہ ذات جسے حالت ِ بیماری میں پکارا تو مجھے شفا بخشی۔ عریان تھا تو مجھے لباس پہنایا۔ بھوکا تھا تو مجھے کھانا کھلایا۔ پیاسا تھا تو مجھے سیراب کیا۔ ذلیل و رسوا تھا تو محترم اور گرامی قدر بنایا۔جاہل تھا تو زیورِ علم سے آراستہ کیا۔ اکیلا تھا تو افرادی قوت سے نوازا۔ گھر سے دور تھا تو مجھے وطن کی طرف لوٹایا۔ دست نگر تھا تو مجھے دوسروں سے بے نیاز فرمایا۔ اُس سے مدد کا طلبگار ہوا تو میری مدد فرمائی۔ دوسروں سے بے نیاز کیا، پھر مجھ سے نعمتوں کو سلب نہیں کیا اور ان تمام نعمتوں کے متعلق سوال نہیں کیا لیکن خود سے ہی مجھے عطا کیا۔

پس حمد تیرے ساتھ ہی خاص ہے۔ اے میری خطاؤں سے درگزر کرنے والے، پریشانیوں کو دور کرنے والے، میری پکار کو قبول کیا اور میرے عیوب کو چھپایا، میرے گناہوں کو معاف کیا، میری حاجت کو پورا کیا، میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میری مدد فرمائی۔اے میرے مولا!اگر تیری نعمتوں کو، تیرے احسانات کو اور تیری گرانقدر عطاؤں کو شمار بھی کرنا چاہوں تو انہیں شمار نہیں کرسکتا۔

اے میرے اللہ!تو ہی نے تو مجھے انعامات سے نوازا، تو نے ہی مجھ پر احسانات کئے، تو نے ہی مجھ سے اچھائی کی، تو نے ہی مجھے فضیلت بخشی،تو نے ہی مجھ پر احسان کیا، تو نے ہی کامل کیا، تو نے ہی مجھے رزق دیا، تو نے ہی مجھے اپنی عطاؤں سے نوازا، تو نے مجھے دوسروں سے بے نیاز کیا، تو ہی میری کفایت کیلئے کافی ہے۔

تو نے میری پردہ پوشی کی، تو نے مجھے معاف فرمایا، تو نے ہی مجھ سے درگزر کیا۔ تو نے ہی مجھے ٹھہرایا، تو نے ہی مجھے عزت بخشی اور تو نے ہی میری اعانت فرمائی۔

تو نے ہی پشت پناہی کی، تو نے ہی تائید کی، تو نے ہی مدد فرمائی، تو نے ہی شفا بخشی، تو نے ہی ہمت و سلامتی عطا کی، تو نے ہی عزت سے سرفراز کیا۔اے میرے پروردگار! تو متبرک اور بلند تر ہے، ہمیشہ کیلئے تعریف تیرے ہی لئے سزاوار ہے، مسلسل شکر تیرے ذات سے ہی مخصوص ہے۔

اے میرے معبود!پھر میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتاہوں۔ پس مجھے معاف فرما۔ میں نے ہی خطا کی۔ وہ میں ہی ہوں جس نے غفلت برتی۔ جہالت سے کام لینے والا میں ہی ہوں۔ میں ہی گناہ پر کمر بستہ ہوا۔ مجھ سے ہی بھول ہوئی۔ میں نے ہی تیرے غیر پر اعتماد کیا۔ میں ہی شعوری طور پر گناہ بجالایا۔ وعدہ دینے والا میں ہی ہوں۔ وعدہ خلافی کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور وعدہ توڑنے والا بھی میں ہوں۔

اے میرے معبود! میں اپنے پاس موجودتیری نعمتوں کے متعلق اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی فہرست لے کر تیری بارگاہ میں آیا ہوں، پس تو مجھے معاف فرما۔ اے وہ ذات جسے اپنے بندوں کے گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، البتہ وہ لوگوں کی اطاعت سے بے نیاز ہے اور بندوں میں سے جو بھی اعمالِ صالح بجا لائے، اُسے اپنی اعانت اور رحمت سے کامیاب فرماتا ہے۔پس حمد تیرے ہی ساتھ خاص ہے۔

اے معبود! تو نے مجھے حکم فرمایا، میں نے تیری نافرمانی کی اور تو نے مجھے نہی کی، میں مرتکب ہوا۔ پس میں ایسے ہوگیا ہوں کہ نہ بے گناہ ہوں کہ عذر خواہی کروں اور نہ ہی اس طرح طاقت و قدرت میں ہوں کہ تجھ سے مدد چاہوں۔

پس اے میرے مولا! میں کس شے یا چیز کو لے کر تیرا سامنا کروں؟ کیا اپنے کانوں پر بھروسہ کرتے ہوئے تیرا سامنا کروں یا اپنی بصارت کے ساتھ، یا اپنی زبان کے ساتھ، یا اپنے بازوؤں کے ساتھ؟ کیا میرے پاس موجود سب کچھ تیرا نہیں ہے؟اے میرے مولا! میں نے ان سب سے تیری نافرمانی کی ہے۔ پس تیری حجت اور راستہ میرے لئے واضح ہے۔

اے وہ ذات جس نے مجھے آباء و اجداد اور ماؤں کی ڈانٹ اور قبیلہ اور بھائیو ں کی سرزنش سے اور بادشاہوں کے عتاب سے محفوظ رکھا۔ اے میرے مولا! جس طرح تو مجھے جانتا ہے، اگر وہ مجھ سے مطلع ہوجاتے تو ہرگز مجھے فرصت نہ دیتے اور مجھے دور کردیتے۔ مجھ سے رابطہ قطع کرلیتے۔

اے مولا و آقا! اسی لئے میں تیری بارگاہ میں ذلیل و رسوا اور کم مائع حاضر ہوں۔ نہ بے گناہ ہوں کہ توبہ کروں اور نہ طاقت ور ہوں کہ مدد کا طلبگار بنوں اور نہ ہی حجت و دلیل رکھتا ہوں کہ اس سے استدلال کروں۔ یہ کہنے کی حالت میں بھی نہیں ہوں کہ گناہگار نہیں ہوں۔ بد عملی انجام نہیں دی ۔اے میرے مولا! اگر میں انکار بھی کروں تو یہ انکار مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور یہ انکار کیسے ممکن ہے حالانکہ میرے تمام اعضاء و جوارح میرے اعمال پر گواہ ہیں۔

بلاشبہ مجھے یقین کامل ہے کہ تو مجھ سے بڑے بڑے امور کے متعلق ضرور پوچھے گا، جبکہ تو ایسا عادل حاکم ہے جو ستم روا نہیں رکھتا ۔ تیری عدالت مجھے ہلاک کرنے والی نہیں ہے۔ اس کے باوجود تیرے عدل سے بھاگتا ہوں۔ اے میرے مولا! اگر تو مجھے عذاب بھی دے تو وہ یقینا اتمامِ حجت کے بعد میرے گناہوں کی وجہ سے ہے ۔ لیکن اگر مجھے معاف کردے تو یہ تیرے حلم، سخاوت اور کرامت کی وجہ سے ہے۔

تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ تیری ذات پاک ہے۔ البتہ میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تو پاک ہے۔ میں مغفرت کا طلب گار ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تو پاک و پاکیزہ ہے۔ تحقیق میں موحدین میں سے ہوں۔تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے۔ میں ڈرائے جانے والوں میں سے ہوں۔

تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے۔ بے شک میں تیری بارگاہ سے اُمید رکھنے والوں میں سے ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے۔ میں رغبت رکھنے والوں میں سے ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیری ذات پاک ہے۔ میں تیری بارگاہ سے سوال کرنے والوں میں سے ہوں۔تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے۔ میں تیری تسبیح اور تہلیل کرنے والا ہوں۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک و پاکیزہ ہے۔ میں تکبیر کہنے والا ہوں۔تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو میرا اور میرے آباء و اجدادِ اوّلین کا بھی رب ہے۔

اے پروردگار! یہ میری ثنا ہے تیری بزرگوار بارگاہ میں اور میرا اخلاص تیری وحدانیت کا ذکر کرتے ہوئے میں اقرار کرتا ہوں ، تیری نعمتوں کو گنتے ہوئے، اگرچہ میں اقرار کرتا ہوں کہ ان نعمتوں کو زیادہ، وسیع، پے در پے، ظاہر اور دائمی ہونے کی وجہ سے میں شمار نہیں کرسکتا۔ زندگی کے آغاز سے جب تو نے مجھے پیدا کیا، خلق کیا ہے، مجھے فقر سے بے نیاز اور بدحالی کو برطرف، وسائلِ زندگی کی فراوانی اور مصیبتوں کو دور، مشکلات میں آسانی اور بدن کو صحت اور دین میں سلامتی کو مرحمت فرما۔اگر تمام دنیا والے اوّلین و آخرین میری مدد کریں، تب بھی تیری نعمتوں کو شمار کرنے سے میں بھی اور وہ بھی قاصر ہیں۔

اے میرے عظیم، کریم اور رحیم رب! تیری ذات پاکیزہ اور عظیم الشان ہے۔ تیری نعمتوں کو گنا نہیں جاسکتا، تیری مدحت کی انتہا تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ تیری نعمتوں کا بدلہ نہیں دیاجاسکتا۔ محمد وآلِ محمدپر درود بھیج۔ ہم پر اپنی نعمتوں کو کامل اور اپنی اطاعت کرنے میں سعادت مند فرما۔ تیری ذات پاک ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔

اے اللہ! تو مضطر اور مجبور لوگوں کی پکار کو قبول کرتا ہے جب وہ تجھے پکاریں ۔ مشکل گھڑی میں راہِ نجات اور مصیبت زدہ کی فریاد رسی، بیمار کو شفا، محتاج کو غنی، شکستہ دل کو تقویت، چھوٹوں پر رحم کرنے والا اور بڑوں کا مددگار ہے۔ جو کسی قسم کا سہارا نہیں رکھتے، تو اُن کی پناہ گاہ ہے۔تجھ سے بڑھ کر کوئی قوت والا نہیں۔

تو عظیم الشان اور بڑا ہے۔اے اسیروں کو رہائی دینے والے، اے چھوٹے بچوں کو رزق دینے والے، اے ڈرے ہوئے اور پناہ کے طلبگار کو محفوظ کرنے والے، اے وہ ذات جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ ہی وزیر، محمد وآلِ محمدپر درود بھیج۔ اس گھڑی میں افضل ترین وہ چیز جو اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو دی ہے، مجھے بھی عطا فرما۔ جیسے بخشی گئی نعمت اور بار بار عطاکرنا، آزمائش جسے دوسری طرف پلٹا دیتا ہے ، مصیبت کی گھڑی سے راہِ نجات پیدا فرماتا ہے اور پکار کو سنتا ہے۔

نیکی کو قبول کرتا ہے اور بُرے کاموں کو معاف کردیتا ہے۔ بے شک تو مہربان اور جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔

اے پروردگار! تو سب سے قریب ہے جسے پکارا گیا ہے۔ تو جلدی سے قبول کرتا ہے۔ تو عظیم الشان ہے۔ تو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر عطا کرتا ہے۔ تو سوال کئے جانے پر سب سے بہتر سنتا ہے۔اے دنیا و آخرت میں مہربان اور دونوں جہانوں کے بخشنے والے! تیری طرح کسی سے سوال نہیں کئے گئے۔ جس طرح تیری بارگاہ سے اُمیدیں وابستہ کی گئیں، کسی اور سے نہیں کی گئیں۔ تجھے پکارا تو تو نے قبول فرمایا۔ تیری بارگاہ سے سوال کیا، پس تو نے عطا کردیا۔ میں تیری طرف راغب ہوا، پس تو نے مجھ پر رحم فرمایا۔ تجھ پر بھروسہ کیا، تو نے نجات بخشی۔ جب میں تیری بارگاہ میں پناہ گزین ہوا تو تو نے سرپرستی کی۔

پروردگار! اپنے بندے اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی طیب و طاہر اولاد پر درود وسلام بھیج اور اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے کامل فرما۔اپنی عطاؤں کو مبارک قرار دے۔ ہمیں اپنے شکر گزاروں میں سے قرار دے۔ اپنی نعمتوں کو یاد کرنے والوں سے قرار دے۔ اے جہانوں کے پروردگار! قبول فرما۔

اے پروردگار، اے وہ ذات جو مالک ٹھہرا، پس قدرت مند ہوا اور قدرت مند ٹھہرا۔پس غالب ہوا۔ نافرمانی کی گئی، پس تو نے پردہ پوشی کی۔ تجھ سے مغفرت طلب کی گئی ، پس تو نے معاف فرمایا۔اے رغبت کرنے والوں کی آخری پناہ گاہ اور اُمیدواروں کی آخری اور انتہائی منزل، اے وہ ذات جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئےہوئے ہے اور تیری رحمت اور حلم کی وسعتیں ہر آنے والے کو گھیرے ہوئے ہیں۔

اے اللہ! میں اس گھڑی میں تیری طرف متوجہ ہواہوں جس کو تو نے شرف بخشا اور عظمت دی۔ اپنے نبی اور رسول اور تیری مخلوق میں سے بہترین وجود، اپنی وحی کے امین جو بشارت دینے والے ، ڈرانے والے اور روشن چراغ ہیں۔ حضرت محمد کے ذریعے سے، و ہ ذات جس کے وجود سے مسلمین پر انعام کیا اور اُن کو عالمین کیلئے رحمت قرار دیا ہے۔

اے پروردگار! محمد وآلِ محمد پر ایسے درود بھیج جس طرح حضرت محمد اس کے اہل ہیں۔ اے عظیم الشان محمد اور ان کی برگزیدہ اور تمام پاک و پاکیزہ اولاد پر درود بھیج۔اپنے دامن عفو سے ہمیں سرفراز فرما۔تو ہی وہ ذات ہے جس کی بارگاہِ رحمت میں مخلوق کی انواع و اقسام کی آہ و بکا بلند ہے۔ہمیں بھی اس گھڑی میں ہر خیر وسعادت سے ، جسے اپنے بندوں میں تقسیم کرتے وقت، اپنے مکمل حصہ سے سرفراز فرما۔ اس طرح اپنے اس نور سے جس سے بندوں کو ہدایت کرتا ہے، اپنی وسیع و عریض رحمت سے، عافیت اور سلامتی کے لباس سے مزین فرما۔ نازل شدہ برکت سے ، وسیع و عریض رزق سے اے بہترین رحمت کرنے والے۔

اے پروردگار! اس گھڑی میں مجھے نجات پانے والوں، فلاح پانے والوں اور فائدہ اٹھانے والوں میں سے قرار دے۔ ہمیں مایوس لوگوں سے قرار نہ دے۔ ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہ فرما۔ تیری بارگاہِ فضل و کرم سے لگی اُمیدوں کو خالی نہ لوٹا۔ ہمیں مایوس نہ پلٹا اور نہ ہی اپنے دروازے سے واپس جانے والے لوگوں میں سے قرار دے۔

اے اللہ!اپنی رحمت سے محروم لوگوں میں سے قرار نہ دے اور اپنے فضل و کرم سے، اپنی عطاؤں سے ہماری اُمیدوں کو مایوس نہ فرما۔ اے سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے، اے سب سے زیادہ عزت والے، ہم بڑے اطمینان سے تیری بارگاہ میں آئے ہیں، تیرے بیت اللہ الحرام میں آئے ہیں، پس مناسک ِ حج بجا لانے میں ہماری مدد فرما۔ہمارے حج کو کامل فرما۔ ہم سے درگزر فرما۔ہمیں عافیت و سلامتی سے نواز۔ہم ذلت و رسوائی کے اعتراف کے ساتھ تیری بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں۔

اے پروردگار!اس گھڑی میں جو کچھ تیری بارگاہ سے مانگا ہے، عطا فرما۔ تجھ سے مکمل سرپرستی کا طلبگار ہوں، میری کفالت فرما، اس لئے کہ تیرے علاوہ میرا کوئی سرپرست نہیں۔ تیرے علاوہ میرا کوئی رب نہیں ہے۔ تیرا حکم ہمارے اوپر نافذ ہے۔ تیرا علم ہمیں چہار سو گھیرے ہوئے ہے۔ہمارے بارے میں تیرے فیصلے عدل کے معیار پر ہیں۔ہمارے لئے اچھائی کو مقدر فرما اور ہمیں نیک لوگوں سے قرار دے۔

اے پروردگار! اپنی جودو بخشش سے، اپنے عظیم الشان اجر، عالی شان کرامت اور ہمیشہ رہنے والی آسائشوں کو ہمارے لئے معین فرما۔ہمارے تمام گناہوں سے درگزر فرما۔ ہمیں ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت سے بچا۔ اپنی مہربانیوں اور رحمتوں کو ہم سے نہ پلٹا ، اے بہترین رحم کرنے والے۔

اے پروردگار! اس وقت ہمیں ایسے لوگوں میں سے قرار دے کہ جو کچھ انہوں نے مانگا، سو تو نے عطا کردیا۔ تیرا شکر بجالائے تو تو نے اپنی عطاؤں میں اضافہ فرمایا۔ تیری بارگاہ میں تائب ہوکر آئے ، پس تو نے توبہ قبول فرمائی۔ تیرے حضور میں اپنے گناہوں سے نادم ہوئے تو تو نے انہیں معاف فرمادیا۔

اے صاحب ِجلال و کرم!اے پروردگار! ہمیں توفیقات مرحمت فرما اور ہماری تائید فرما۔ ہمیں محفوظ فرما۔ ہماری آہ و زاری کو قبول فرما۔ اے بہترین وہ جس سے سوال کیا گیا ہے اور اے بہترین رحم کرنے والے! جب تجھ سے رحم طلب کیا جائے،اے وہ ذات جس سے آنکھ جھپکنے کی حرکت اورآنکھوں کے اشارے اور جو کچھ نہاں خانوں میں مستقر ہے ، نہ وہ جو دلوں میں چھپا رکھا ہے، مخفی نہیں ہے۔تیرا علم ان تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہے۔ تیرے حلم کی وسعتیں ان کے شامل حال ہیں۔ تیری ذات پاک اور بلند مرتبہ ہے۔ ان سب سے جو ظالمین کرتے ہیں، بہت زیادہ بلند، تمام زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے، سب تیری تسبیح و تقدیس میں مصروف ہیں۔

پس حمد، عزت اور بلندی تیرے ہی ساتھ خاص ہے۔ اے صاحب ِجلالت و اکرام اور فضل و احسان، بڑی بڑی نعمتوں والے، تو سخاوت کرنے والا کریم ہے، تو مہربان اور رحیم ہے۔میرے رزق میں اضافہ فرما ، میرے بدن اور دین میں عافیت او سلامتی عطا فرما۔ میرے خوف کو امن و سلامتی میں بدل دے۔جہنم کی آگ سے مجھے آزادی عطا فرما۔ اے اللہ!مجھے تدریجی موت سے محفوظ فرما اور مجھے کسی قسم کے دھوکے میں نہ رکھ اور جن و انس میں سے فاسقوں کے شر سے مجھے دور رکھ۔

پھر سید الشہداء علیہ السلام نے آواز بلند کی، اس حال میں کہ پورا چہرہ آسمان کی طرف ہے اور آنکھوں سے دو مشکوں سے نکلنے والے پانی کی طرح آنسو جاری تھے۔

اے سب سے زیادہ سننے والے، سب سے بہتر دیکھنے والے، اے سب سے جلدی میں حسا ب کرنے والے، اے بہترین رحم کرنے والے، محمد وآلِ محمدپر درود بھیج۔ اے پروردگار!میں درخواست گزار ہوں کہ فلاں حاجت پوری ہو۔ اگر وہ حاجت پوری ہوجائے ، پھر اگر باقی چیزوں سے محروم بھی کردے تو پروا نہیں۔ اگر اس مطلوبہ چیز کو روک لے تو باقی تیری عطا ئیں مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔اے پروردگار! میں سوال کرتا ہوں کہ جہنم کی آگ سے نجات عطا فرما۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو وحدہ لاشریک ہے۔ بادشاہی تیری ذات کیلئے سزاوار ہے۔حمد بھی تیرے ہی ساتھ خاص ہے۔ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اے رب، اے رب۔

روایت ہے کہ حضرت دعا کے بعد بار بار یارب یارب کہہ رہے تھے ۔ جو لوگ امام حسین کے اطراف و اکناف میں اپنی اپنی دعاؤں میں مصروف تھے، اپنی دعاؤں کو بھول کر سید الشہداء علیہ السلام کے ساتھ دعا میں مصروف ہوگئے اور آمین کہنے لگے۔لوگ امام علیہ السلام کی دعا پر ہی اکتفا کر رہے تھے۔ اتنے میں سید الشہداء علیہ السلام کے رونے کے ساتھ لوگوں کے رونے کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ چونکہ سورج غروب ہورہا تھا، لہٰذا لوگ سید الشہداء علیہ السلام کی سرپرستی میں منیٰ سے کوچ کرگئے۔

دعا کا کچھ حصہ یوں نقل ہوا ہے:

اے پروردگار! میں ثروت مند ہونے کے باوجود فقیر ہوں۔ پس میں کیونکر فقیری میں محتاج نہ ہوں۔اے پروردگار!میں علم کی دولت کے باوجود جاہل ہوں، پس میں کیونکر جہالت میں جاہل نہ رہوں۔ اے پروردگار! تیری تدبیروں میں اختلاف اور مقدرات کا جلدی انجام پانا تیرے عارف بندوں کو روکے ہوئے ہے کہ وہ تیرے علاوہ کسی اور کی بخشش پر اُمید رکھیں یا مشکلات میں تیرے لطف سے نااُمید ہوں۔

اے پروردگار! میں ملائمت کا سزاوار ہوں جبکہ تیری بارگاہ سے کرم و بزرگواری کی توقع ہے۔ اے پروردگار! میرے ضعیف اور ناتوان وجود سے پہلے ہی خود کو لطف و مہربانی سے متصف فرمایا ہے، اب میرے ضعیف وجود کے بعد مجھے ان دونوں چیزوں سے محروم رکھے گا۔

اے پروردگار! اگر کوئی نیکی مجھ سے انجام پائے تو یہ فقط تیرے فضل و کرم اور تیرے احسانات کی وجہ سے ہے ۔ اگر مجھ سے بُرا کام سرزد ہو تو وہ تیری عدالت کی وجہ سے ہے۔ تو میرے لئے حجت ہے۔اے اللہ! تو مجھے کیسے بغیرکسی سرپرست کے چھوڑے گا جبکہ تو خود میری سرپرستی کا ذمہ دار ہے۔ میں کیونکر ظلم برداشت کروں جبکہ تو میرا ناصر و مددگار ہے۔میں کیونکر نااُمید اور مایوس بنوں جبکہ تو میرے لئے بہت زیادہ مہربان ہے۔

اب میں تیری بارگاہ میں اپنی فقیری کی وجہ سے متوسل ہوں اور کیسے متوسل نہ ہوں جبکہ تجھ تک رسائی ممکن نہیں ہے یا میں اپنے بُرے حالات کی شکایت کیسے کروں جبکہ تو میرے حالات سے واقف ہے یا میں کس طرح حالِ دل بیان کروں جبکہ تیرے لئے سب کچھ واضح ہے، یا یہ کیونکر ممکن ہے کہ تو میری اُمیدوں کو مایوسیوں میں بدل دے جبکہ میری اُمیدیں تیری بارگاہ میں پہنچا دی گئی ہیں ، یا تو میرے حالات کو کیسے درست نہیں کر سکتا جبکہ میں کھڑا ہی تیری وجہ سے ہوں۔

بارِ الٰہا! میری کثرتِ جہالت کے باوجود تو کس طرح مجھ پر مہربان ہے ۔ میرے پست اور گھٹیا کردار کے باوجود تو مجھ پر کس قدر رحم کرتا ہے۔ اے پروردگار!تو میرے کس قدر قریب ہے جبکہ میں تجھ سے دور ہوں۔ تو مجھ پر کس قدر مہربان ہے اور وہ کون ہے جس نے مجھے تجھ سے چھپا رکھا ہے(اور تیرے دیدار سے محروم ہوں)۔ اے میرے معبود! آثار کے اختلافات اور حالات کے ردوبدل سے جان گیا ہوں کہ میرے بارے میں تو چاہتا ہے کہ تو اپنی ہرچیز کے ذریعے سے پہچان کروائے تاکہ میں تیرے حوالہ سے کسی چیز میں جاہل نہ رہوں۔ اے میرے معبود! جب بھی مجھے اپنی کم مائیگیوں نے خاموش کیا ، تیرے کرم نے مجھے زبان بخشی اور جب بھی مجھے اپنی ذاتی اوصاف نے مایوس کیا، تیرے احسانات نے مجھے اُمیدوار کیا۔

اے میرے معبود! تیرا حکم، نافذ العمل ، غالب ارادہ، کسی بولنے والے کیلئے بولنے کی اور کسی صاحب ِ حال کے حالات بیان کرنے کی گنجائش ہی کہاں چھوڑتے ہیں۔

اے پروردگار! کتنی بار اپنی اطاعت کی بنیاد کھڑی کی اور حالات میں یقین محکم پیدا کیا لیکن تیرے نظامِ عدل نے میرے اعتماد کو منہدم کردیا ہے بلکہ تیرے فضل و مہربانی نے مجھے ان سے دور کردیا۔ اے اللہ! تو مجھے اچھی طرح جانتا ہے، اگرچہ میں اطاعت گزاری میں تسلسل نہیں پیداکرسکا لیکن میرے دل میں تیری محبت ہمیشہ موجزن رہی ہے۔ اے میرے اللہ! میں کیسے ارادہ نہ کروں حالانکہ تو غالب ہے ۔ میں کیسے عزم اور ارادہ نہ کروں حالانکہ تو حکم کرنے والا ہے۔

اے معبود! آثار میں فکر کرنا تیرے دیدار سے دوری کا سبب ہے، پس مجھے اپنی خدمت پر مامور فرما جو مجھے تیرے قریب کردے۔ وہ شے مجھے تیرے قریب کیونکر کرے گی جو اپنے وجود کیلئے تیری محتاج ہے۔ کیا تیرے غیر کیلئے ایسا وجود و ظہور ہے جو تیرے لئے نہیں ہے کہ وہ تیرے وجود کیلئے ظاہر کرنے والا ہو۔ تو کب غائب تھا کہ تیرے وجود کیلئے کسی رہنما کے محتاج ہوں۔ تو دور کب تھا کہ آثار کے وسیلہ سے تجھ تک پہنچیں۔ اندھی ہو وہ آنکھ جو تجھے اپنے لئے رقیب نہ دیکھے۔ اس بندہ کا معاملہ نقصان میں رہا جس میں تیری محبت کا حصہ نہ ہو۔

اے معبود! تو نے آثار کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمایا، پس مجھے جامہ نور اور بصیرت ہدایت کی طرف رہنمائی فرما کہ اس کے ذریعہ تیری طرف رجوع کروں جس طرح میں اس میں داخل ہوا ہوں کہ اس کی طرف دیکھنے سے راز محفوظ رہے اور میری ہمت اس پر اعتماد کرنے سے برتر ہو۔

اے معبود! میری پستی تیرے سامنے ہے اور میرے حال سے تو واقف ہے۔ تجھ سے تیری ذات تک رسائی کا طالب ہوں۔ تجھ سے ہی رہنمائی چاہتاہوں، پس ہدایت دے اپنی مشعل سے اپنی ذات کی طرف، اپنی بارگاہ سے مجھے اپنا سچا بندہ قرار دے۔

بارِ الٰہا! مجھے اپنے علم کے خزانے سے علم عطا فرما۔ اپنے پردے سے مجھے چھپا لے۔

بارِ الٰہا! مجھے اپنے حقیقی مقربین میں شمار فرما۔ اے معبود! مجھے اہلِ جذب کی راہ پر گامزن فرما۔ اے معبود! مجھے اپنے اختیار کے ساتھ، غیر کے اختیار سے، اپنی تدبیر کے ساتھ غیرکی تدبیر سے بے نیاز فرما اور اضطرار سے قرار عطا فرما۔

بارِ الٰہا! مجھے نفس کی ذلت سے باہر نکال۔ میری موت سے پہلے مجھے شرک اور شک سے پاک رکھ۔ مدد کا طالب ہوں ، نصرت فرما۔ تجھ پر بھروسہ ہے، مجھے تنہا نہ چھوڑ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں، محروم نہ فرما۔ تیرے فضل کا طالب ہوں، نا اُمید نہ فرما۔ تجھ سے نسبت دیتا ہوں، دور نہ فرما۔تیرے در پر بیٹھا ہوں، نا اُمید نہ فرما۔ تیری رضا مقدس ہے،اسے کسی علت کی ضرورت نہیں تو اس کیلئے میری جانب کیسے علت ہوگی؟

اے میرے معبود! تیری ذات بے نیاز ہے، یہاں تک کہ منافع خور تیری طرف بڑھتے ہیں۔ تو مجھے کیسے سودوزیاں سے بے نیاز نہیں کرے گا۔

بارِ الٰہا! قضا و قدر نے مجھے خواہشمند بنا ڈالا ہے۔ شہوت کی طرف رغبت نے مجھے قید کردیا ہے۔ پس میری مد دفرما اور مجھے بابصیرت بنا اور اپنے کرم سے مجھے بے نیاز کردے تاکہ میں تلاش اور طلب سے بے نیاز ہوجاؤں۔تیری ذات وہ ہے جس نے اپنے اولیاء کے قلوب کو نور سے منور کیا کہ تجھے پہچان لیا اور توحید کا اقرار کیا۔ تو وہ ہے جس نے اغیار کو اپنے دوستوں کے دلوں سے خارج کیا کہ انہوں نے تیرے سوا کسی سے محبت نہیں کی اور غیر کی پناہ میں نہ گئے۔تو ان کا مونس ہے۔ جب دنیا والے وحشت زدہ ہوں، تو ان کا ہادی ہے، جب ان پرنشانیاں عیاں ہوئیں۔

جس نے تجھے کھویا، اُسے کیا ملا؟ جس نے تجھے پایا، اُس نے کیا کھویا؟نقصان اٹھایا جو تیرے غیر پر راضی ہوا اور یقینا خسارے میں رہا،جو تیرا باغی ہوا۔تیرے غیر کی اُمید کیسے کی جائے جبکہ تو نے اپنا احسان نہیں روکا اور تیرے غیر سے کیسے طلب کریں جبکہ تو نے اپنی بخشش کی عادت نہیں بدلی۔

اے وہ ذات جس نے اپنے عاشقوں کو محبت کی حلاوت کا ذوق عطا کیا، پس وہ تعلق کے ساتھ اُس کی بارگاہ میں رہے ۔ اے وہ ذات جس نے اپنے اولیاء کو ہیبت کی پوشاک زیب تن کی اور وہ اس کے سامنے گناہوں کی بخشش کے طلبگار ہوئے۔ یاد کرنے والوں سے قبل تو یاد کرنے والا ہے۔تو احسان کے ساتھ آغاز کرتا ہے۔ عبادت گزاروں کی توجہ سے پیشتر تو اپنی عطا کے ساتھ سخاوت کرنے والا ہے۔ طلب کرنے والوں کی التجاسے پہلے تو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔پھر کیوں قرض خواہ ہم سنے مانگ سکتا ہے۔

اے میرے معبود!مجھے بلا اپنی رحمت سے تاکہ میں تیری بارگاہ میں آؤں اور مجھے اپنی محبت کے جذبے کے ساتھ اپنی طرف کھینچ تاکہ اپنے دل کو تیرے حضور میں پیش کروں۔اے میرے معبود! میری اُمید تجھ سے منقطع نہیں ہونی چاہئے کہ میں تیری نافرمانی کروں جس سے میرا خوف مجھ سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ میں تیری اطاعت کروں۔ دنیاوالوں نے مجھے تیری طرف دھکیلا ہے۔ مجھے میرے علم نے تیرے کرم کے نزدیک کیا ہے۔بارِ الٰہا! میں کیونکر نااُمید ہوجاؤں جبکہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میں کیسے شک میں مبتلا ہوجاؤں جبکہ تجھ پر میرا بھروسہ ہے۔اے معبود! کیسے عزت کا دعویٰ کروں جبکہ خاک و ذلت کو میری فطرت میں رکھا ہے اور عزت کا دعویٰ کیوں نہ کروں جبکہ مجھے تجھ سے نسبت ہے۔

بارِ الٰہا! فقر کا احساس کیوں نہ کروں جبکہ تو نے فقیروں میں میرا مسکن بنایا ہے یا احساسِ فقر کیوں کروں جبکہ تو نے اپنے کرم سے مجھے غنی کردیا ہے۔

تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تو نے ہر چیز کے سامنے اپنی ذات کو آشکار کردیا ہے تو کوئی شے تجھ سے جاہل کیوں رہے؟

تیری ذات وہ ہے جس نے ہر چیز کے ذریعہ اپنی معرفت کروائی ہے۔ پس میں نے ہر چیز میں تجھے عیاں دیکھا۔ تو ہر چیز کیلئے ظاہر ہے۔

اے وہ ذات جو اپنی مہربانی سے پائیدار ہوا۔اس کے نتیجہ میں عرش اپنی ذات میں پنہاں ہوا اور آثار کو بذریعہ آثار مٹا دیا۔منتشر اور غیر محور اشیاء کو افلاک و انوار کے ذریعہ محور بخشا۔اے وہ ذات جس نے عرش کے نورانی پردوں کو ایسا پیچیدہ بنایا جس کے دیکھنے سے آنکھیں عاجز ہیں۔

اے وہ ذات جو کمال ہے حسن و نورانیت کی ۔ تجلی نے اس کی عظمت سب پرسایہ فگن کی ہے۔ تو کیسے چھپتا جبکہ تو ظاہر ہے۔کیسے کہا جا سکتا ہے کہ تو غائب ہے جبکہ تو حاضرہے اور نظر رکھے ہوئے ہے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ سب تعریفیں فقط تیری ذات کیلئے سزاوار ہیں۔(بحار۹۸:۲۱۶)

 

 

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment