اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

امامت و سلطنت کا بنيادي فرق

امامت و سلطنت کا بنيادي فرق

امامت يعني وہ نظام کہ جو خدا کي عطا کي ہوئي عزت کو لوگوں کيلئے لے کر آتا ہے،  لوگوں کو علم و معرفت عطا کرتا ہے،  اُن کے درميان پيا ر محبت کو رائج کرتا ہے اور دشمنوں کے مقابلے ميں اسلام اور مسلمانوں کي عظمت و بزرگي کي حفاظت جيسا عظيم فريضہ اُس کے فرائض ميں شامل ہے ليکن بادشاہت اور ظالم حکومتيں بالکل اِس کے برعکس عمل کرتي ہيں-

آج دنيا کے بہت سے ممالک ميں بادشاہي نظام رائج نہيں ہے ليکن وہ لو گ درحقيقت بادشاہ ہي ہيںاور مطلق العنانيت اُن کے ملک پر حاکم ہے-اِن کا نام سلطان ، بادشاہ سلامت، جاں پناہ ، ظلِّ الٰہي اور ظلِّ سبحاني نہيں ہے اور ظاہري جمہوريت بھي اُن کے ملک ميں موجود ہے ليکن اُن کے دماغ ميں وہي قديم سلطنت و بادشاہت اور اُس کي فر عونيت کا قوي ہيکل دِيو سوارہے يعني لوگوں سے ظالمانہ اور متکبرانہ رويہ رکھنا اور اپنے سے بالاتر طاقتوں کے سامنے ذلت ورسوائي سے جھکنا! نوبت تو يہاں تک آپہنچي ہے کہ ايک بہت ہي بڑے اور طاقتور ملک (امريکا)  کے اعلي سياسي عہديدار اپنے اپنے مقام و منصب کے لحاظ سے صہيونيوں،  بين الاقوامي مافيا،  بين الاقوامي خفيہ نيٹ ورک اور بڑي بڑي کمپنيوں کے مالکان کے ہاتھوں اسير و غلام ہيں! يہ لوگ مجبور ہيں کہ اُن کي خواہشات کے مطابق باتيں کريں اور اپنا موقف اختيار کريں تاکہ وہ کہيں اِن سے ناراض نہ ہو جائيں،  اِسے کہتے ہيں سلطنت و با دشاہت! جب کسي بھي کام کے ايک پہلو ميں بھي ذلت و رُسورائي موجود ہوگي تو وہ ذلت و رُسوائي اُس کے بدن اور ڈھانچے ميں بھي سرائيت کرجائے گي اور امام حسين (ع) نے عالم اسلام ميں پنپنے والي اِسي ذلت و رُسوائي کے خلاف قيام کيا-

بندگي خداکے ساتھ ساتھ عزت و سرفرازي

امام حسين (ع) کے رفتار و عمل ميں ابتداء ہي سے يعني مدينہ سے آپ کي حرکت سے شہادت تک معنويت،  عزت وسربلندي اور اُس کے ساتھ ساتھ خداوند عالم کے سامنے عبوديت و بندگي اور تسليم محض کوواضح طور پر محسوس کيا جاسکتا ہے جبکہ واقعہ کربلا اورامام کي پوري زندگي ميں يہي بات قابل مشاہدہ ہے-

جس دن آپ کي خدمت ميںہزاروں خطوط لائے گئے کہ ہم آپ کے شيعہ اور چاہنے والے ہيں اور کوفہ و عراق ميں آپ کي آمد کا انتظار کر رہے ہيں تو آپ کسي بھي قسم کے غرور و تکبر ميں مبتلا نہيں ہوئے- ايک مقام پر آپ نے تقرير کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’خُطَّ المَوْتِ عَلٰے وُلدِآدَمَ مَحَطَّ القَلَادَۃِ عَلٰے جِيدِ الفَتَاۃِ‘‘ 1 ِ ’’موت فرزند آدم کيلئے اِس طرح لکھ دي گئي ہے جس طرح ايک گلوبند ايک جوان لڑکي گلے پر نشان چھوڑ جاتا ہے‘‘- سيد الشہدا نے يہاں موت کا ذکر کيا ہے ،  يہ نہيں کہا کہ ايسا کريں ويسا کريں گے يا امام حسين (ع) نے يہاں دشمنوں کو خوف و ہراس ميں مبتلا کيا ہو اور دوستوں اور چاہنے والوں کو سبز باغ دکھائے ہوں کہ ميں تم کو شہر کوفہ کے منصب ابھي سے تقسيم کيے ديتا ہوں؛ايسا ہر گز نہيں ہے! بلکہ سيد الشہدا يہاں ايک سچے اور خالص مسلمان کي حيثيت سے معرفت،  عبوديت و بندگي اور تواضع کي بنيا دوں پر قائم اپني تحريک کا اعلان فرمارہے ہيں- يہي وجہ ہے کہ سب لوگ نے اپني نگاہيں اِسي عظيم شخصيت کي طرف اٹھائي ہوئي ہيں اوراُس سے اظہار عقيدت و مودّت کرتے ہيں- جس دن کربلا ميں تيس ہزار پست و ذليل افراد کے ہاتھوں سو سے بھي کم افراد کا محاصرہ کيا گيا اورلوگ آپ اور آپ کے اہل بيت و اصحاب کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے اور اہل حرم اور خواتين کو قيدي بنانے کيلئے پر تولنے لگے تو اُس خدائي انسان،  خداکے سچے بندے اور اسلام کے سچے عاشق ميں خوف اضطراب کا دور دور تک کو ئي نام و نشان نہيں تھا-

وہ راوي کہ جس نے روز عاشورا کے واقعات کو نقل کيا ہے اورجو کتابوں کے ذريعہ سينہ بہ سينہ منتقل ہوتے رہے ہيں،  کہتا ہے کہ ’’فَوَاللّٰہِ ما رَاَيتُ مَکثُورًا‘‘؛’’قسم خدا کي کہ روز عاشورا کے مصائب ،  سختيوں اور ظلم و ستم کے باوجود ميں نے اُنہيں تھوڑا سا بھي ٹوٹا ہوا نہيں پايا‘‘- ’’مَکثُورا ‘‘يعني جس پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑيں،  جس کا بچہ مرجائے، جس کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا جائے، جس کے مال و دولت کو لوٹ ليا جائے اور مصيبتوں اور سختيوں کے طو فان کي اُٹتھي ہوئي موجيں جسے چاروں طرف سے گھير ليں- راوي کہتا ہے کہ ميں نے چاروں طرف سے بلاوں ميں گھرے ہوئے حسين ابن علي کي طرح کسي کو بھي مضبوط چٹان کي مانند نہيں ديکھا،  ’’اربط جاشا‘‘- مختلف جنگوں ،  بڑے بڑے محاذ جنگ اور اجتماعي اور سياسي ميدانوں ميں ہم کو مختلف قسم کے افراد نظر آتے ہيں کہ جو غم و اندوہ کے دريا ميں غرق ہوتے ہيں- راوي کہتا ہے کہ اُس مصيبت اور کڑے وقت حسين ابن علي کي مانندميں نے کسي کو نہيں ديکھا جو شاداب چہرے،  مصمم ارادوں کا مالک، عزم آ ہني رکھنے والا اور خداوند عالم کي ذات پر کامل توکل کرنے والا ہو! يہ ہے خداوند عالم کي عطا کي ہوئي عزت! يہ ہيں وہ انمٹ نقوش ہيں جو واقعہ کربلا نے تاريخ پر چھوڑے ہيں- انسان کو ايسي حکومت و معاشرے کے حصول کيلئے جدوجہد کرنا چاہيے يعني ايسا معاشرہ کہ جس ميں جہالت و پستي،  انسانوں کي غلامي اور طبقاتي نظام اور نسل و نژاد کے زخم و نا سُور موجودنہ ہوں-سب کو ايسے معاشرے کے حصول کيلئے مل کر اجتماعي جد و جہد کرني چاہيے تاکہ وہ وجود ميں آئے اور آئے گا اور يہ کام ممکن ہے-


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام محمد باقر علیہ السلام کا عہد
گناہوں سے آلودہ معاشر ہ
فطرت کی راہ
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
حضرت رقیہ بنت الحسین(ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے
قرآن مجید ایک عالمی کتاب ہے
خلفا کے کارستانیاں
روایات اسلامی میں ”صلہ رحم“ کی اہمیت
دس سالہ بچہ کے اسلام پر گفتگو
قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم

 
user comment