مسجد قرطبہ
اندلس (Spain) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے ۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کئے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس دوران سینکڑوں عمارات مثلاً حمام ، محلات ، مساجد، مقابر ، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔
اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں ۔
عرب فاتحین کا یہ قائدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے ۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انہوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی، اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور عیسائی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔
اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
اقبال کی شہرہ آفاق نظم مسجد قرطبہ میں انہوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھو لینے والی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے ۔ اقبال وہ پہلا شحض ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
مسجد کے صحن کا منظر
یوں تو سر زمین اندلس پر مسلمانوں کے عہد زریں میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال ، تزئین و آرائش ، نسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ ایسی چیز تھی جودیکھنے کی چیز تھی اور بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788) کو سب سے پہلے اس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سد باب کا بھی مناسب بندوبست کر دیا۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے ۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔
یہ عظیم مسجد وادی الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir)میں دریا پر بنائے گئے قدیم ترین پل(اس پل کو رومی Claudius Marcellus نے تعمیر کروایا تھا) کے قریب اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے سینٹ ونسنٹ (St. Vincent of Saragossa) کی یاد میں تعمیر کردہ ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا (الرازی)۔ السمح بن مالک الخولانی کے عہد میں جب قرطبہ دارالسلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لئے عیسائیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ مسلمانوں کی تمام تر رواداری کے باوجود اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ لیکن جب عبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ کر دئے ۔
مسجد کی بیرونی چار دیواری اتنی بلند و بالا اور مضبوط تھی کہ وہ شہر کی فصیل نظر آتی تھی ۔ اس فصیل نما چاردیواری کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اس کے باہر کی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پہل پشتیبان (Buttressess) بنائے گئے تھے جن پرکنگرے بنے ہوئے تھے۔
مسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے جن کی ترتیب کچھ اس وضع پر ہے کہ ان کے تقاطع سے دونوں طرف کثرت سے متوازی راستے بن گئے ہیں ۔ ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں (Horseshoe Arches) قائم ہیں۔ یہ نعلی محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کا وجہ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بن چکی ہیں ۔ جامع قرطبہ کے ان ستونوں پر دوہری محرابیں بنی ہوئی ہیں ۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انہیں چھت سے ملا دیا گیا ہے ۔ ان محرابوں پر کہیں کہیں قبےّ بنائے گئے تھے جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں ۔ چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند تھی ۔ جس کی وجہ سے مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے ۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں (Panells) سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا ۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا جھاڑ معلق تھا جس میں بیک وقت ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی ۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔
عبد الرحمن الداخل کے بعد امیر ہشام اول (788-796)مسند امارت پر متمکن ہوا ۔ اس نے بھی اس مسجد کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رکھا ۔ اس نے تو اپنے دور حکومت کے سات سالوں میں تمام مال غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اس عظیم الشان مسجد کا وہ عظیم مینار جو چہار پہلو تھا اسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس یکتائے زمانہ مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں ۔ ہر امیر نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سینکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا تب جا کر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عمارتوں کو حاصل ہے ۔
ذیل میں اس مسجد کے بعض اہم حصوں پر الگ الگ روشنی ڈالی گئی ہے ۔
محراب و منبر
مسجد میں محراب و منبر کو ایک ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے ۔ کیونکہ جہاں باہر سے دیکھنے والوں کے لئے مسجد کا مینار اور گنبد مرکز نگاہ بن جاتے ہیں وہاں مسجد کے اندر محراب و منبر ہی وہ دو مقام ہیں جو ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ مسجد قرطبہ کی محراب (Niche) جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی تھی وہ دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکیلا تھا ۔ صناعوں نے اسے ہفت پہلو کمرہ بنا دیا تھا جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل کی جو محراب (Arch) بنائی گئی ہے اسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے ۔ ہر جانب ایک ستون نیلگوں اور ایک سرخ ہے ۔ اس محراب پر قوس ہی کی شکل میں پچی کاری (Inlay work)کے ذریعے خوبصورت رنگین نقش ونگار(Arabsque) بنائے گئے ہیں جس کے گرداگرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ محراب کی چھت ایک بہت بڑے صدف سے آراستہ ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ پچی کاری سے مزین تین بڑے بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیانی دروازے میں مسجد کی محراب واقع ہے ۔ محراب کے قریب قبلہ کی دیوار نے تین عظیم قبوں (Vaults or Cupolas) کو تھام رکھا ہے ۔ جن میں سے درمیانی قبے کے اندر پچی کاری کا خوبصورت کام کیا گیا ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ جو دروازہ ”ساباط“پر بنایا گیا ہے اس کی ایک جانب وہ منبر تھا جو خوشبو دار اور قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ ٹکڑوں کو جوڑنے کے لئے سونے اور چاندی کے کیل لگائے گئے تھے ۔ لکڑی کے ہر ٹکڑے پر سات درہم نقرئی خرچ آئے تھے (ابن بشکوال : نفخ الطیب) ۔ جو لکڑی استعمال کی گئی تھی اس میں صندل ، بقم ، حدنگ، آبنوس، اور شوحط شامل ہیں ۔ یہ منبر آٹھ فنکاروں نے سات برس کی طویل مدت میں مکمل کیا تھا ۔ منبر میں زیادہ آب و تاب پیدا کرنے کے لئے اسے جواہرات سے مرصع کیا گیاتھا۔ انقلابات زمانہ کی دستبرد سے اگر مسجد کا کوئی حصہ صحیح حالت میں بچ سکا ہے تو وہ یہی محراب ہے جس کی چمک اور تابانی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
ستون
امیر عبد الرحمن الداخل اور امیر ہشام اول کے عہد میں جو ستون مسجد قرطبہ میں استعمال کئے گئے وہ یا تو قرطاجنہ(Cartagena) سے لائے گئے تھے یا اربونہ(Arbonne) اور اشبیلیہ (Seville)سے ۔ لیکن یہ ستون تعداد میں اس قدر زیادہ نہ تھے کہ آئندہ کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتے ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر (912-961)نے اندلسی سنگ مرمر سے مختلف رنگوں کے ستون ترشوائے ۔ سنگ مر مر کے یہ ستون سفید ، نیلگوں، سرخ، سیاہ، سبز، گلابی اور رنگ برنگ کی چتیوں والے تھے۔ سنگ سماق، سنگ رخام ، اور زبر جد سے بنائے گئے ان ستونوں پر سونے کی مینا کاری اور جواہرات کی پچی کاری کی گئی تھی ۔ مجموعی طور پر ان ستونوں کی تعداد 1400سے زائد تھی۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ ستون کھجور کے تنے اور ان پر بنے چھوٹے بڑے محاریب کھجور کی شاخیں معلوم ہوتی ہیں۔ جس ترتیب اور وضع سے انہیں نسب کیا گیا تھا اس کی بناءپر کسی بھی زاویہ سے انہیں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کسی دل فریب نخلستان میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہزار ہا کھجور کے درخت صف بستہ کھڑے ہیں ۔ چھت کو سہارا دینے والے ستونوں پر قائم محرابوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی بڑی آرائشی محرابیں بھی بنائی گئی تھیں جو ایک دوسرے کو قطع کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ زیادہ تر بند محرابیں (Blind Arches) ہیں جن کے درمیانی حصوں کو گچ کاری (Stucco work)، پچی کاری (Inlay work)اور ٹائلوں کے کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔
دروازے
مسجد میں توسیع کے نتیجہ میں اس کے دروازوں کی تعداد نو سے بڑھ کر اکیس تک پہنچ گئی تھی ۔ نو دروازے مشرق کی جانب اور نو مغرب کی جانب تھے۔ ان میں ہر طرف کے آٹھ دروازے مردوں کے لئے اور ایک ایک دروازہ عورتوں کے لئے مخصوص تھا۔ شمال کی جانب تین دروازے تھے ان تمام دروازوں کے کواڑوں پر صیقل شدہ پیتل کی پتریاں چڑھائی گئی تھیںجو سورج کی روشنی میں خوب چمکتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنوب کی طرف سونے کے کواڑوں والا ایک بڑا دروازہ بھی تھا جو قصر خلافت سے ملانے والی ”ساباط“ نامی مسقف گزرگاہ پر بنا ہوا تھا۔ اسی راستے سے گزر کر امراءاندلس مقصورہ میں داخل ہوتے تھے ۔ ساباط کے دروازے کی محراب پر گنجان پچی کاری کا کام کیا گیا ہے حتی کہ کوفی رسم الخط میں تحریر عبارتیں تک پچی کاری سے لکھی گئی ہیں۔
پانی اور روشنی کا انتظام
مسجد میں فانوسوں اور موم بتیوں کی روشنی کے سبب رات کو بھی دن کا گمان گزرتا تھا ۔ اگرچہ اس میں جلنے والے چراغوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں مگر پھر بھی وہ ساڑھے سات ہزار سے کسی طرح کم نہ تھے ۔ سال بھر میں ساڑھے تین من موم کے علاوہ تین سو من تیل جلایا جاتا تھا۔
شروع میں وضو کرنے کے لئے پانی مسجد کے باہر کے ایک کنویں سے میضاة (وضو خانہ) میں پکھالوں کے ذریعہ لا کر بھرا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں الحکم نے چار میضاة بنوائے جن میں سے دو بڑے اور دو چھوٹے تھے ۔ ان میں پانی بھرنے کے لئے ایک پختہ نہر جبل قرطبہ کو کاٹ کر مسجد تک لائی گئی تھی ۔ اس کا پانی نہایت عمدہ اور شیریں تھااور ہر وقت رواں رہتا تھا ۔ مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ پانی تین زمین دوز نالیوں کے ذریعہ مسجد سے باہر نکل جاتا تھا۔
مینار
مسجد قرطبہ میں مینار کا اضافہ سب سے پہلے ہشام اول نے کیا تھا ۔ یہ مینار چہار پہلو تھا اور اس کے اوپر جانے کے لئے صرف ایک زینہ تھا۔ اس کی بلندی بھی عمارت کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔ 888ءمیں ایک زلزلہ سے اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر جب سریر آرائے خلافت ہوا تو اس نے پرانے مینار کی جگہ دوسرا مینار بنوایا جو پہلے مینار کی بہ نسبت کہیں زیادہ رفیع الشان تھا ۔ اس مینار کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلندی بہتر ہاتھ تھی ۔ زمین سے چون ہاتھ کی بلندی پر ایک چھجہ تھا ۔ جس پر ستون قائم کرکے ان پر ایک برج بنا دیا گیا تھا جہاں مؤذن اذان دیتا تھا ۔ پہلے مینار کے برعکس اس میں اوپر جانے کے لئے دو زینے بنا دئے گئے تھے ۔ برج کے اوپر کلس تھا جو سیب کی شکل کے تین گولوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے بیچ کا گولہ چاندی کا اور دوسرے دونوں سونے کے تھے ۔ ان سیبوں کے اوپر چھ پنکھڑیوں والا سوسن کا پھول تھا جس پر نہایت خوبصورت سونے کا انار بنا دیا گیاتھا۔
مقصورہ
الحکم نے جو مقصورہ تیار کرایا تھا اس کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کا قول ابن سعید کے حوالے سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ دیوار قبلہ سے متصل دالان کے گیارہ دروں میں سے بیچ کے پانچ دروں کو گھیر کر یہ مقصورہ بنایا گیا تھا۔ مقصورہ سے کچھ دور لکڑی کی دیوار بنا دی گئی تھی جس پر نہایت ہی عمدہ کام کیا گیا تھا۔ اس مقصورہ کا فرش مسجد کے باقی فرش سے کسی قدر اونچا رکھا گیا تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لئے تین دروازے تھے۔ ایک دروازہ قبلہ کی دیوار میں جبکہ ایک مشرق و مغرب کے سمت میں تھا۔ مقصورہ کا فرش چاندی کا اور تمام دیواروں پر جڑاؤ کا کام بلّور کے ٹکڑوں اور قیمتی رنگین نگینوں سے کیا گیا تھا۔ ان بلّور کے ٹکڑوں اور نگینوں پر بھی سونے کی مینا کاری تھی۔ مقصورہ میں ایک ستون کی جگہ چار ستون کھڑے کر کے ان پر متعدد الجہت محاریب (Polygon Arches) والے تاج قائم کئے گئے تھے۔ ان ستونوں پر اوپر سے نیچے تک فیروزے جڑ کر کے سونے کے پھول بوٹے بنائے گئے تھے۔hfkjfchj ;
یہ مستطیل مسجد لمبائی میں 180میٹر اور چوڑائی میں 135میٹر ہے ۔ اس رقبہ میں مسجد کا قبلہ کی سمت دالانوں والا حصہ ، صحن مسجد اور تین طرف کے دالانوں کے علاوہ اس مینار کو بھی شامل کیا گیا ہے جو مسجد کے مینار کی جگہ بنایا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ :
"رنگ ہو یا خشت وسنگ ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود!"
مسلمانوں کا مطالبہ
دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے عیسائی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کیلئے دیگر مذاہب سے بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔
بنیا باشی مسجد (بلغاروی: Баня баши джамия یعنی بنیا باشی جامعہ، ترکی: Banya Başı Camii) بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں واقع ایک مسجد ہے۔ یہ یورپ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے جو 1576ء میں اس وقت تعمیر کی گئی جب صوفیہ عثمانی سلطنت کے زیر نگیں تھا۔ یہ مسجد عثمانی دور کے معروف معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ اس مسجد کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی گرم چشموں کے اوپر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد اپنے وسیع گنبد اور بلند میناروں کے باعث بھی مشہور ہے۔ بنیا باشی صوفیہ کی واحد مسلم عبادت گاہ ہے جس کی مسجد کی حیثیت ابھی تک قائم ہے۔ یہ بلغاریہ پر 5 صدیوں تک جاری رہنے والے عثمانی دور کی ایک عظیم یادگار ہے۔ یہ شہر میں مقیم ہزاروں مسلم باشندوں کے زیر استعمال ہے۔
غازی خسرو بیگ مسجد
غازی خسرو بیگ مسجد جسے مختصراً بیگ مسجد بھی کہا جاتا ہے بوسنیا و ہرزیگووینا کے دارالحکومت سرائیوو کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے ملک کا اہم ترین اسلامی مرکز اور عثمانی طرز تعمیر کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔
یہ مسجد 1531ء میں عثمانی ولایتِ بوسنیا کے گورنر غازی خسرو بیگ کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ اس مسجد کو عثمانیوں کے مشہور معمار سنان پاشا نے تعمیر کیا جنہوں نے بیگ مسجد کی تعمیر کے بعد سلطان سلیم اول کے حکم پر ادرنہ میں شاندار جامع سلیمیہ تعمیر کی۔
محاصرۂ سرائیوو کے دوران دیگر کئی مقامات کے علاوہ مسجد کو بھی سرب جارح افواج کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچا۔ 1996ء میں اس مسجد کی تعمیر نو کا کام کیا گیا۔ یہ مسجد آج بھی شہر کی عبادت گاہوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔
خسرو بیگ نے 1531ء سے 1534ء کے درمیان حلب، شام میں بھی ایسی ہی ایک مسجد تعمیر کرائی جو خسرویہ مسجد کہلاتی ہے۔
مسجد ادھم بے
ادھم بے البانیا کے دارالحکومت تیرانا کے مرکز میں واقع ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 1789ء میں ملا بے نے کیا اور اس کی تکمیل سلیمان پاشا کے پوتے حاجی ادھم بے کے ہاتھوں 1823ء میں ہوئی۔ البانیہ میں اشتراکی دور میں یہ مسجد بند کر دی گئی اور طویل بندش کے بعد 18 جنوری 1991ء کو اسے کھول دیا گیا۔ مسجد کے دوبارہ کھولے جانے پر اشتراکی حکام کی شدید مخالفت کے باوجود دس ہزار افراد پرچم ہاتھوں میں لیے مسجد پہنچے اور یہ واقعہ البانیہ میں اشتراکیت کے زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس مسجد میں کی خاص بات اس میں کیا گیا مصوری کا کام ہے جس میں نباتات، آبشاروں اور پلوں وغیرہ کی تصاویر بنائی گئی ہیں جو اسلامی فن تعمیر میں کہیں نہیں دیکھا گیا۔ مسجد سیاحت کے لیے تو ہر وقت کھلی رہتی ہے تاہم اس کے اندر نماز ادا نہیں کی جاتی۔
source : http://www.tebyan.net