اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

کربلا کے بعد (قسط نمبر 2)

ان خطبات کے بعد اسیران اہل بیت کا لٹا ہوا قافلہ دربارِ ابن زیاد کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر ابن زیاد نے تمام لوگوں کو حاضری کا اذن عام دے رکھا تھا۔ اس لئے دربار، درباریوں اور تماش بینوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے شہداء کے سر دربار میں پہنچائے گئے اور اس کے بعد اسیران کرب و بلا کو دربار میں پیش کیا گیا۔

دربار میں ان اسیران خانوادہ نبوت و رسالت کے ساتھ جو اندوہناک سلوک روا رکھا گیا، تواریخ و مقاتل کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔یہاں طوالت اور موضوع کے پیش نظر ان کے بیان سے قاصر ہیں۔لہٰذا قارئین سے معذرت کے ساتھ ہم آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

اسارائے اہل بیت کی دمشق میں آمد

صبر و استقلال اور عزم و ہمت کی تاریخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ لشکر یزیدی کے بے حد و انتہا ظلم و جور کو آزمائش خداوندی تسلیم کرتے ہوئے یہ کاروان حسینی،جو کہ اب کرب و بلا کی شیر دل خاتون کی قیادت میں آکر کاروان زینبی کی شکل اختیارکرچکا تھا ، شہر شام میں داخل ہوا۔کرب و بلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک اس قافلہ پر کیا کیا مصائب و آلام ڈھائے گئے ؟ اس کارواں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟ ظلم و بربریت کے پہاڑکس قدر توڑے گئے ؟ تشدد و حیوانیت کی کیا کیا مثالیں قائم کی گئیں ؟ اور اس بے یار و مددگار اور مظلوم و مقہور قافلہ کے افراد نے کس کمال پامردی اور حوصلہ کے ساتھ ان کا سامنا کیا ؟یہ تمام واقعات و حالات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔کربلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک کے راستہ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مزارات شہداء ، جن کی وجہ سے وہاں شہر آباد ہو چکے ہیں ، ان سوالات کے واضح جواب لئے ہوئے ہیں اور ارباب سیر و مقاتل نے نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے۔

مختصراًشام کے لوگوں نے اسلامی دستور اور تعلیمات کو خالد بن ولید، معاویہ، زیاد اور ان جیسے افراد کی رفتار و کردار کے آئینے میں دیکھا تھا۔ انہیں سیرت پیغمبر اور مہاجرین و انصار کے طرز عمل کا کچھ پتہ نہ تھا۔ ۶۱ ہجری میں شام میں چند افراد تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے اوپرتھیں۔ان کی ترجیح یہی تھی کہ وہ ایک کونے میں بیٹھ جائیں اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھیں بند کر لیں۔ شام کے لوگ یہ بات سننے پر آمادہ نہ تھے کہ حضرت محمد کے رشتہ دار اور قریبی بنی امیہ کے علاوہ کوئی اور بھی ہیں۔

اکثر مقتل کی کتب میں یہ لکھا ہے کہ اسیروں کے شہر دمشق میں داخل ہونے کے موقع پر لوگوں نے شہر کو سجایا ہوا تھا۔ یزید نے اپنے دربار میں یہ اشعار پڑھے :

کاش !آج میرے جنگ بدر میں مارے جانے والے بزرگ موجود ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کس طرح محمد کی آل سے ان کا انتقام لیا ہے۔

کیونکہ اس دن یزید کی مجلس میں اس کے اردگرد ایسے افراد بیٹھے تھے کہ جنہوں نے اسلام اور پیغمبر کو اقتدار و حکومت تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا ہوا تھا نہ کہ قربتِ خدا کا ذریعہ۔

آپ ملاحظہ فرمائیں کہ دونوں محفلیں ایک طرح کی ہیں اور باتیں بھی ایک جیسی ہیں۔کوفے میں ابن زیاد بھی خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا کہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اور عراقیوں کے ہاتھوں سے ان کی قوت چھین لی ہے۔ شام میں یزید افتخار کر رہا ہے کہ جنگ بدر میں اس کے مقتول بزرگوں کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ اگر یہ معاملہ یہیں پر ختم ہو جاتا ہو تو کامیاب تھا، لیکن جناب زینب نے اسے اس کی کامیابی کا پھل کھانے نہ دیا۔وہ جسے اپنے لئے شیریں سمجھ رہا تھا جنابِ زینب عالیہ نے اس کا مزہ حد سے زیادہ کڑوا کر دیا اور اس کے لئے تلخ بنا دیا۔جناب زینب نے پابرہنہ اور بے مقنعہ و چادر اپنی مختصر گفتگو میں اہل مجلس کو سمجھا دیا کہ ان پر حکومت کرنے والا کون ہے اور کس کے نام پر حکومت کر رہا ہے۔ اور رسیوں میں جکڑے اس کے سامنے کھڑے قیدی کون ہیں۔

جب کبھی غیرتِ انساں کا سوال آتا ہے۔

بنت ِ زہرا تیرے پردے کا خیال آتا ہے

جناب زینبِ کبریٰ کا خطبہ دربارِ یزید میں

زینب ہجومِ عام سے کرنے لگی خطاب

باطل کا کھل رہا ہے بھرم، شام آگئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پراور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت  پر۔اما بعد ! بالاخر برا ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا۔اے یزید!کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور کیا آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور رسوا ہوئے ہیں۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے اور ناک بھوں چڑھاتا ہوا مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اور زمامداری کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔

اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے ۔

کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو انہیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے۔ بلکہ ہم نے اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں۔اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔

اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں رکھا ہوا ہے۔ جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔اور ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔

آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔

آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔

اس شخص سے بھلائی کی توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہو جس کی بزرگ خاتون(یزید کی دادی)نے پاکیزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک دیا۔(۱)

اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کا گوشت پوست شہیدوں کے خون سے بنا ہو۔

وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر

سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․

۱# یزید کی دادی ہند کو تاریخ میں آکلة الاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہیں جگر چبا کر کھانے والی۔ کیونکہ جنگ احد میں جب حضرت حمزہشہید ہو گئے تو یہ ظالم عورت ہاتھ میں خنجر لے کر حضرت حمزہکی لاش پر آئی اور ان کا سینہ چاک کر کے ان کا جگر نکالا اور چبانے کے لئے منہ میں رکھا مگر وہ پتھر کی طرح سخت ہو گیا اور وہ اسے نہ چبا سکی۔ لیکن اس کے بعد ہند جگر خوار کے نام سے مشہور ہو گئی۔

کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ میرے اسلاف اگر موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔

اے یزید تو کیوں نہ خوش ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے۔اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں۔

تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے۔ جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔

آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔

تو عنقریب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ مل جائے گا۔ اور اُس واقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی۔اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے میں باز رہتا۔

اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی !

اے ہمارے کردگارِ حق تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔

اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔

اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔

اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے۔اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو دربدر کیوں پھرایا۔نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا آلِ رسول کاتجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر مٹ چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی میں سے روزی پا رہے ہیں۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں توُ ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس کلام کرنا بھی شریفوں توہین ہے۔ میری اس جرأت سخن پر توُ مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقلال اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقلال پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنواؤں اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑئیے ان پاکباز شہیدوں کے مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہاہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہوگا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔

تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔

تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو سکتا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔

تیری حیات اقتدار میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔تیرے پاس اس دن کے لئے حیرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور ہمارے آخر (امام حسین علیہ السلام) کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے ، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے۔


source : http://mahdicentre.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دوسری شب قدر کے اعمال
السلام علیک یا فاطمہ الزھرا
شیعہ اثنا عشری عقائد کا مختصر تعارف
اولاد کي تربيت ميں محبت کا کردار
لعان
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
الہی اور قرآنی نظام کا طلوع سحر
حکمت الٰہی
يہ بادِ صبا کون چلاتا ہے
پانچویں مجلس امام زمانہ

 
user comment