اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے طلب شفاعت

 

جو لوگ ہر زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وسیلہ قرار دینے اور آپ کے ذریعے شفاعت مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ امر آپ(ص) کی خلقت سے پہلے، آپ(ص) کی زندگی کے دوران اور آپ کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ کی مرضی سے واقع ہو چکا ہے بلکہ قیامت کے دن بھی واقع ہو گا۔ یہاں اس سلسلے میں بعض دلیلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ خلقت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قبل آپ (ص)سے توسل

حاکم نے مستدرک میں اور اسی طرح بعض دوسرے محدثین نے حضرت عمربن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آدمسے ترکِ اولیٰ ہوا تو انہوں نے کہا:یا رب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی

یعنی اے اللہ تجھے محمد کا واسطہ مجھے بخش دے۔

خدا نے پوچھا:اے آدم! تو نے محمد کو کیسے پہچانا جب کہ میں نے ابھی اسے خلق نہیں کیا۔ حضرت آدم  نے کہا: اے میرے رب جب تو نے مجھے اپنے ہاتھوں سے خلق کیا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا۔ تب میں نے عرش کے ستونوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا:لا الہ الا الله محمد رسول الله۔

پس میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ شامل نہیں کیا مگر اپنے محبوب ترین مخلوق کو۔

یہ سن کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:اے آدم تو نے سچ کہا ہے۔ بیشک وہ میرے نزدیک مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اب جب تو نے اس کے حق کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کیا ہے تو میں تجھے بخش دیتا ہوں۔ اگر محمد(ص) نہ ہوتا تو میں تجھے خلق ہی نہ کرتا۔

طبرانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس جملے کا اضافہ کیا ہے:

وہ تیری ذریت میں سب سے آخری نبی ہو گا“۔,۱ 

محدثین اور مفسرین نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ

وَ لَمَّا جَآئَھُمْ کِتٰابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْلا وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہز فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔

کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ جب مدینہ اور خیبر کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اپنے قرب و جوار میں موجود اوس و خزرج کے مشرکین اور دیگر لوگوں سے جنگ کرتے تھے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر دشمن پر فتح و نصرت کی دعا کرتے تھے کیونکہ وہ آسمانی کتاب” توراة “ میں آپ(ص) کا ذکر دیکھتے تھے۔ چنانچہ وہ دشمنوں کے خلاف دعا کرتے ہوئے کہتے تھے:

اللھم انا نستنصرک بحق النبی الامی الانصرتنا علیھم۔

اے خدا ہم نبی امی(ص) کا واسطہ دے کر دشمنوں کے مقابلے میں تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں۔

 یا یوں کہتے تھے:اللھم ربنا انصرنا علیھم باسم نبیک۔

اے اللہ اے ہمارے رب اپنے نبی(ص) کے نام کا واسطہ ہمیں ان پر فتح دے۔

اس دعا کے نتیجے میں ان کو نصرت حاصل ہوتی تھی لیکن جب ان کے پاس خدا کی کتاب یعنی قرآن مجید، ان کے ہاں موجود کتاب یعنی تورات و انجیل کی تصدیق کے ساتھ آئی اور وہ شخص جسے وہ جانتے تھے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آئے اور انہیں اس میں کوئی شبہ بھی نہ رہا تو انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر دیا کیونکہ آپ کا تعلق نبی اسرائیل سے نہ تھا۔,2

۲۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں آپ( ص) سے توسل

احمد بن حنبل، ترمذی،ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عثمانبن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص جو آنکھوں سے معذور تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا:

میرے لئے عافیت کی دعا کیجئے۔

فرمایا:اگر تم چاہتے ہو تو دعا کروں لیکن صبر کرو تو بہتر ہو گا۔

وہ بولا:اللہ سے دعا کیجئے آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اچھے طریقے سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھے:

اللھم انی اسئلک واتوجہ بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد انی توجہت بک الیٰ ربی فی حاجتی لیقضی لی اللھم شفعہ فیّ۔

خدایا میں تیرے نبی(ص) جو نبی رحمت ہیں کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں تیرا واسطہ دے کر اپنے

رب سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں تاکہ وہ پوری ہو۔ اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دے۔3

اس روایت کو بیہقی اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ(ص) سے توسل

طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر میں حضرت عثمانبن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کسی حاجت کے تحت حضرت عثمانبن عفان کے پاس آتا رہتا تھا لیکن حضرت عثمان اس کی طرف توجہ نہ دیتے تھے اور نہ ہی اس کی حاجت پوری کرتے تھے۔ چنانچہ اس شخص نے ابن حنیف سے اس امر کی شکایت کی تو جناب عثمانبن حنیف نے کہا:

وضو کی جگہ پر جا کر وضو کرو پھر مسجد میں داخل ہو کر صرف دو رکعت نماز ادا کرو اس کے بعد کہو:

اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبینا محمد نبی الرحمة یا محمد انی اتوجہ بک الیٰ ربی فتقضیٰ حاجتی۔

بعد ازاں اپنی حاجت بیان کیجئے۔

وہ شخص یہ سن کر چلا گیا اور ان کی ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ اس کے بعدحضرت عثمانبن عفان کے دروازے پر آیا تو ان کا دربان اسے ہاتھ سے پکڑ کر عثمان  کے پاس لے گیا۔ انہوں نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور کہا:

تیری حاجت کیا ہے؟

اس نے اپنی حاجت بیان کی اور عثمان نے وہ حاجت پوری کر دی اور کہا:

تیری حاجت مجھے بالکل یاد نہیں رہی اور ابھی یاد آگئی ہے۔

پھر کہا:

تیری جو بھی حاجت ہو وہ بیان کرو۔ 4

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےچچا حضرت عباسسے طلب شفاعت

صحیح بخاری میں مرقوم ہے کہ جب خشک سالی ہوتی تو عمر بن خطاب حضرت عباس بن عبد المطلب  کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔ وہ دعا یوں کیا کرتے تھے:

اے اللہ ہم تجھ سے ہمارے نبی (ص)کا واسطہ دے کرطلب باران کرتے تھے اور تو ہمیں بارش سے سیراب کرتا تھا۔اب ہم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباسکا واسطہ دے کر بارش طلب کرتے ہیں پس ہمیں سیراب کر دے۔

پس ان کے لئے بارش کا نزول ہوتا تھا۔۱  عباس  کے ذریعے طلب باران کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔

اس قدر احادیث کی موجودگی میں انبیاء علیہم السلام خاص کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ صفات جلیلہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا شدہ فضائل سے تمام انبیاء علیہم السلام پر آپ کو برتری حاصل ہے لہذا مسلمانوں میں اس بابت کسی قسم کا اختلاف باقی نہیں رہنا چاہیے۔

اب ہم یہاں خاتم الانبیاء حضور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں اختلاف کے بعض عوامل کا تذکرہ کرتے ہیں۔

انبیاء  و صالحینکی یاد میں محافل منعقد کرنا

الف ۔ مقام ابراہیم (ع)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی۔,5

کہ مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ۔

یہاں صحیح بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ ہدیہٴ قارئین کرتے ہیں:

جب ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے تو اسماعیل(ع) نے پتھر لانا شروع کیا اور حضرت ابراہیم(ع) پتھروں سے دیوار بنا رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب عمارت بلند ہو گئی تو وہ یہ پتھر لے آئے اور اسے زمین پر رکھا۔ پھر ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر دیوار بنانے لگے جبکہ اسماعیل  ان کو پتھر تھما رہے تھے۔

اس کے بعد روایت کا حصہ کچھ اس طرح ہے:

 

یہاں تک کہ عمارت بلند ہو گئی اور سن رسیدہ نبی حضرت ابراہیم(ع) پتھروں کو حرکت دینے سے عاجز آ گئے۔ پس وہ اس مقام (مقام ابراہیم(س) ) والے پتھر پر کھڑے ہو گئے اور اسماعیل(ع) نے پتھر تھمانا شروع کیا۔6

خدا نے واضح طور پر لوگوں کو اس بات کا حکم دیاہے کہ وہ بیت الحرام میں حضرت ابراہیم(س) کے قدموں کی جگہ کو متبرک سمجھیں اور اسے نماز کی جگہ قرار دیں تاکہ ابراہیم(س) کی یاد ہمیشہ زندہ و جاوداں رہے۔ اس میں شرک باللہ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔

ب۔ صفا اور مروہ

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا 7

صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کریں اس کے لئے ان دونوں کا چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں۔

بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے:

جب حضرت ابراہیم  نے حاجرہکو اسماعیل کے ساتھ مکہ میں چھوڑ دیا اور پانی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے وہ پیاسی ہو گئیں اور ان کا بیٹا بھی پیاس کی وجہ سے پیچ و تاب کھانے لگا تو وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہ دیکھ سکیں اس لئے کوہ صفا کی طرف تشریف لے گئیں اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر دیکھا کہ آیا کوئی نظر آتا ہے یا نہیں، لیکن انہیں کوئی نظر نہیں آیا۔ پس وہ کوہ سے نیچے تشریف لے آئیں۔ جب وادی میں پہنچیں تو ایک تھکے ماندے انسان کی طرح دوڑیں یہاں تک کہ وہ وادی کو عبور کر گئیں پھر مروہ (کی پہاڑی) پر چلی گئیں اور اس پر کھڑی ہو گئیں اور دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ لیکن انہیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ یوں وہ سات مرتبہ اس کے اوپر چڑھیں اور نیچے اتریں۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لوگوں کے ان دونوں (صفاو مروہ) کے پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی وجہ یہی ہے۔,8

  اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو حج کی رسومات میں داخل کیا تاکہ ان دونوں کے درمیان حاجرہکی دوڑ کی یاد تازہ اور زندہ رہے۔ جس وادی کے درمیان جناب حاجرہایک مجبور انسان کی طرح تیز تیز چلی تھیں اس وادی میں (حاجیوں کے لئے) تیز قدموں کے ساتھ چلنے کا استحباب دراصل جناب حاجرہکی دوڑ کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے ہے۔لہذا ان سب احکام کا شمار شعائر اللہ میں ہوتا ہے۔

ج ۔ رمی جمرات

احمد بن حنبل اور محدث طیالسی نے اپنی اپنی مسندوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

جبرائیل حضرت ابراہیمعلیہ السلام کو لے کر جمرہ عقبہ کے پاس گئے۔ وہاں ان کا شیطان سے سامنا ہوا۔ جناب ابراہیم نے شیطان کو سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر جمرہ وسطیٰ کے پاس تشریف لے آئے تو شیطان آڑے آیا۔ پس آپ نے شیطان پر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دوبارہ دھنس گیا۔ اس کے بعد آخری جمرہ کے پاس آئے تو شیطان پھر آڑے آیا۔ آپنے پھر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دھنس گیا۔,9

یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم(س) کی سے طرف شیطان کو کنکریاں مارنے کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اجتماعی محفل برپا کرنے کو حج کے مناسک میں داخل کیا ہے۔

د۔ قربانی

اللہ تعالیٰ اپنے نبی جناب ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے واقعہ کے بارے میں فرماتا ہے:

فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ o فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِیٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ O فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَ تَلَّہلِلْجَبِیْنِ O وَ نَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرٰہِیْمُ O قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا ج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ O اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓوٴُا الْمُبِیْنُ O وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ O 10

چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ ان

کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے دبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو، تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا: اسے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، پس جب دونوں نے (حکم خدا کو ) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں، یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔

یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمعلیہ السلام کے ہاتھوں جناب اسماعیلعلیہ السلام کی قربانی اور اللہ کی طرف سے اسماعیل  کے بدلے بہشتی دنبے کی ترسیل کی یاد زندہ رکھنے اور اس سلسلے میں عوامی اجتماع برپا کرنے کو مراسم حج کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حاجیوں کو سنت ابراہیمی پر چلتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں حضرت ابراہیم  کے کردار کی یاد مناتے ہوئے منیٰ میں قربانی دینے اور محفل بپا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔

مقام ابراہیم  میں ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کی برکت آپ کی قدم گاہ میں سرایت کر گئی۔ لہذا خدا نے بیت الحرام کے اندر اسے نماز کی جگہ قرار دینے کا حکم دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کو ان کی یاد زندہ رکھنے کا وسیلہ قرار دیاہے۔

حضرت آدم  سے برکت کا پھیلاؤ اور ان کی یاد میں عوامی اجتماع

ذیل میں ہم ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی برکتوں کا ذکر اپنے قارئین کے گوش گزار کرتے ہیں:

 بعض روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم  کی توبہ نویں(۹) ذی الحجہ کو عرفات میں قبول کی تھی۔ پھر غروب کے وقت جبرائیل ان کو مشعر الحرام لے گئے۔ دسویں کی رات وہیں خدا کے حضور دعا کرتے اور قبول توبہ پر شکر ادا کرتے ہوئے گزار دی۔ وہاں سے صبح کے وقت منیٰ گئے۔ اور وہاں دسویں کے دن گناہو ں سے نجات اور قبول توبہ کی علامت کے طور پر اپنا سر تراشا۔ پس خدا نے اس دن کو آدماور ان کی اولاد کے لئے عید قرار دیا۔ آدمکی اولاد کے لئے آدمکے سارے اقدامات کو تا ابد مناسک حج میں داخل کیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے عرفات میں نویں کے دن عصرکے وقت ان کی توبہ قبول کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو اولاد آدممشعر الحرام میں خدا کو یاد کرتی ہے۔ دسویں کے دن منیٰ میں سرمنڈاتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیلاور جناب حاجرہ کے افعال کو بھی مناسک حج کا حصہ بنایا۔ یوں لوگوں کے لئے مراسم حج کی تکمیل ہوئی۔ بنابریں حج کے سارے اعمال خدا کے مذکورہ نیک بندوں سے منسوب اوقات اور مقامات سے حصول تبرک کا نام ہے اور یہ سارے مناسک طلوع قیامت تک ان کی یاد میں منائی جانے والی تقریبات ہیں۔

مکان میں مکین کی نحوست کی تاثیر

ذیل میں ہم مکین کی طرف سے مکان میں نحوست کی سرایت کو ثابت کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں:

 محدثین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک والے سال لوگوں کے ساتھ قوم ثمود کے گھروں کے پاس پتھریلی زمین میں اترے۔ لوگوں نے ان کنوؤں سے پانی لیا جن سے ثمود پانی لیتے تھے۔ انہوں نے اس سے آٹا گوندھا اور گوشت کی دیگیں چڑھائیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر انہوں نے دیگوں کو انڈیل دیا اور گوندھا ہوا آٹا اپنے اونٹوں کو کھلا دیا۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان لوگوں کے ساتھ وہاں سے چل پڑے، یہاں تک کہ اس کنوئیں پر پہنچے جس سے (حضرت صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ آپ(ص) نے صحابہ کرام کو اس قوم کے پاس جانے سے منع کیا جس پر عذاب نازل ہوا تھا۔ فرمایا:مجھے خوف ہے کہ کہیں تمہارے اوپر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جو ان پر ہوا تھا۔ پس ان کے ہاں نہ جاؤ۔,11

حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

ان لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا مگر یہ کہ تم روتے ہوئے داخل ہو جاؤ اس بات کے خوف سے کہ کہیں تم بھی ان کی طرح عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ اس کے بعد آپ (ص) نے لوگوں کو ڈرا کر وہاں سے روانہ کیا یہاں تک کہ وہاں سے دور ہو گئے۔

دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

پھر آپ(ص) نے اپنا سر کپڑے سے ڈھانپا اور جلدی چل پڑے یہاں تک کہ وادی سے گزر گئے۔

مسند احمد کی ایک روایت میں یہ ہے:

آپ نے سواری کے اوپر اپنی چادر سے منہ ڈھانپ لیا۔12

جگہ کی نحوست اور برکت کی علت

ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ قوم ثمود کے علاقے اور ان کے کنوؤں میں نحوست کہاں سے آکر سرایت کر گئی ؟ اس کا جواب صرف یہی ہے کہ قوم ثمود کی نحوست ان کی بستی اور کنوؤں میں سرایت کر گئی تھی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد تک یہ نحوست باقی رہی اور پتہ نہیں کب تک باقی رہے گی۔

نیز ناقہ ٴ صالح علیہ السلام والے کنوئیں کو فضلیت کہاں سے حاصل ہوئی؟ اس کی وجہ سوائے اس کے کیاہو سکتی ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اس سے پانی پیتی تھی اور اس کی فضلیت اس میں سرایت کر گئی۔ پھر یہ اثر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد تک باقی رہا اور پتہ نہیں کب تک باقی رہے گا۔ ناقہٴ صالح اور اس کے کنوئیں کا مقام، خدائے متعال کے نزدیک اسماعیل  ، اور ان کے کنوئیں زمزم سے زیادہ بلند نہیں ہے۔ بنابریں خداوند عالم نے اسماعیل  کی برکت سے زمزم کو بھی تا ابد با برکت بنا دیا ہے۔

 جمعة المبارک کے دن کی برکت

خدا کے نیک بندوں کو خدا کی طرف سے عطا شدہ برکت کا کسی خاص وقت میں سرایت کر جانے کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ مثال کے طور پرروز جمعہ کی برکت۔

صحیح مسلم میں مروی ہے:

بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم  کو جمعہ کے دن خلق کیا اور اسے جمعہ کے دن ہی جنت میں داخل کیا۔ ,13

یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے نیک بندوں پر نازل ہونے والی برکتوں کی بدولت ہیں۔ خداوند متعال جمعہ کی برکت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رکھے۔

ماہ رمضان المبارک کی برکت

ماہ رمضان کے بابرکت ہونے کی بھی یہی وجہ ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔,14

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والے ہیں۔

نیز فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَةُ الْقَدْرِلاخَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ,15

ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

بنا بریں لیلہ القدر (جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر قرآن نازل ہوا)کی برکت پورے ماہ رمضان میں سرایت کر گئی ۔ اس رات کے بعد سے یہ مہینہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے با برکت بن گیا ہے۔

اب جب ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ خدا کے برگزیدہ بندوں کی یاد منانے کے لئے لوگوں کا جمع ہونا ایک پسندیدہ امر ہے تو یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی یاد منانے کے لئے جمع ہونے کا مقصد ہمارے نزدیک کچھ یو ں ہے کہ (بطور مثال) فخر موجودات سرور کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت اور آپ(ص)کی سیرت پاک شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے بیان کیا جائے۔ اللہ کی راہ میں لوگوں کو کھانا کھلایا جائے اور اس کا ثواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا جائے اور ان بدعتوں سے اجتناب کیا جائے جو بعض صوفیوں کی اختراع ہیں۔

آئندہ سطور میں ہم قبروں پر عمارتیں بنانے اور ان کو عبادت کی جگہ قرار دینے کے مسئلے کی طرف ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔

حوالہ جات

۱ مستدرک امام حاکم ج۲ صفحہ ۶۱۵، مجمع الزوائد ج۸ صفحہ۲۵۳، نور الدین ہیشمی نے اسے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے

2 دلائل النبوة للبیہقی صفحہ ۳۴۳، ۳۴۵، تفسیر ابن جریر طبری زیر آیة نمبر ۸۹ از سورة بقرة ج۱صفحہ ۳۳۳، مستدرک امام حاکم ج۴ صفحہ ۲۶۳۔

3    مسند امام احمد ج۴ صفحہ ۱۳۸،، سنن ترمذی کتاب الدعوات صفحہ ۸۰،۸۱، سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی صلاة الحاجة حدیث نمبر ۱۳۸۵ صفحہ ۴۴۱، تحقیق النصرة صفحہ ۱۱۴ طبع مصر

4  تحقیق النصرة صفحہ ۱۱۴، ۱۱۵ طبع مصر نقل از طبرانی

5 سورة البقرة آیت ۱۲۵

6 صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب یزفون النسلان فی المشی ج۲ صفحہ ۱۵۸،۱۵۹

7 البقرة :۱۵۸

8 صحیح بخاری باب یزفون النسلان فی المشی ج۲ صفحہ ۱۵۸، معجم البلدان مادة زمزم 

9  مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۳۰۶ طبع مصر، مسند طیالسی حدیث نمبر ۲۶۹۷ طبع حیدر آباد دکن، معجم البلدان مادہ الکعبةطبع بیروت

10 سورة صافات ۔ آیت۱۰۱ تا ۱۰۷

11 صحیح مسلم باب لاتدخلوا مساکن الذین ظلموا انفسھم حدیث نمبر ۴۰، مسند امام احمد ج۲ صفحہ ۱۱۷، صحیح بخاری باب نزول النبی

12 مسند الامام احمد ج۲ صفحہ۶۶  

13 صحیح مسلم فضل الجمعة حدیث نمبر ۱۷، ۱۸

14 سورة بقرہ آیت ۱۸۵                  

15 سورة القدر آیت ۱ تا ۳

 

 

 


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment