اردو
Thursday 2nd of May 2024
0
نفر 0

حضرت آدم عليہ السلام

 

خدا كى خواہش يہ تھى كہ روئے زمين پر ايك ايسا موجود خلق فرمائے جواس كا نمائندہ ہو ،اس كے صفات، صفات خداوندى كا پرتوہوں اور اس كا مرتبہ ومقام فرشتوںسے بالا ترہو، خدا كى خواہش اور ارادہ يہ تھا كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں ،تمام قوتيں ،سب خزانے ،تمام كانيں اور سارے وسائل بھى اس كے سپرد كردئےے جا ئيں، ضرورى ہے كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں عقل وشعور ،ادر اك كے و افرحصے اور خصوصى استعداد كاحامل ہو جس كى بناء پر موجودات ارضى كى رہبرى اور پيشوائي كا منصب سنبھال سكے _

يہى وجہ ہے كہ قرآن كہتا ہے :''ياد كريںاس وقت كو جب آپ كے پروردگار نے فرشتوںسے كہا كہ ميں روئے زمين پر جانشين مقرركرنے والا ہوں ''_(1)

بہر حال خدا چاہتا تھا كہ ايسے وجود كو پيدا كرے جو عالم وجود كا گلدستہ ہواور خلافت الہى كے مقام كى اہليت ركھتا ہو اور زمين پراللہ كا نمائندہ ہو مربوط آيات كى تفسير ميں ايك حديث جوامام صادق عليہ السلام سے مروى ہے وہ بھى اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ فرشتے مقام آدم پہچاننے كے بعد سمجھ گئے كہ ادم اور ان كى اولا دزيادہ حقدار ہيں كہ وہ زمين ميں خلفاء الہى ہوں اور مخلوق پر اس كى حجت ہوں _

(1) سورہ بقرہ آيت30

 


source : http://www.maaref-foundation.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فاطمہ زہرۖا عالم کے لئے نمونہ عمل
ولایت علی ع قرآن کریم میں
مغرب اور اسلامی بیداری
جشن ولادت باقر العلوم (ع) / اقوام حکیمانہ باقر ...
قرآن میں صلوات سے مربوط آیت میں صرف رسول پر درود ...
قرآن کی حفاظت
نہج البلاغہ کی شرحیں
مجالس عزاء اور سیرت سازی
بعثت سے غدیر تک
امام حسین (ع) اور شہدائے کربلا علیہم السلام کے ...

 
user comment