سولہ سو تراسي ميں ويانا کے باہر ترکوں کي شکست يورپ کے لۓ ترکوں کے خطرے ميں کمي اور درحقيقت ترک حکومت کي جانب سے لاحق تشويشوں کے کم ہونے کا آغازتھي دوسري طرف سے اٹھارويں صدي ميں روشن خيالي اوراومانيزم کارواج شروع ہوچکاتھا - کانت کا زمانہ (سترہ سوچوبيس سے اٹھارہ سو چاليس ) عقليت پسندي يا عقل و خرد کا زمانہ کہا جاتا ہے اسي زمانے ميں تدريجا آزادي فکر بھي معرض وجود ميں آتي گئي اور کچھ لوگوں نے گرچہ پابنديوں اور سنسر کے سائے ميں اپنے دل ميں چھپي ہوئي باتوں کا اظہار کرنے کي کوشش کي -
اٹھارويں صدي ميں بھي اسلام و محمد (ص) کے خلاف حملے جاري رہے اس زمانے ميں فرق صرف اتناتھا کہ يورپيوں نے اپني ساري توجہ اسلام سے ہٹاکر صرف محمد (ص) کي ذات پر مرکوز کر دي تھي اسي کے ساتھ ساتھ اس زمانے ميں ماضي کے مطالب کي بھي تکرار ہوتي تھي تو کبھي جديد مطالب بھي سامنے آتے تھے -
فرانسيسي باشندے "آب دوورتو" نے سترہ سوچوبيس ميں "قرآن کے مولف کے بارے ميں " کے عنوان سے ايک رسالہ تحرير کيا اس رسالے ميں قرون وسطي کے الزامات کو ہي دوہرا يا گيا تھا جيسے محمد (ص) نے بزور شمشير اسلام کو پھيلايا ہے يا يہ کہ محمد بے راہ روي کے حامي تھے - ان کا کہنا تھا کہ محمد (ص) نے چھپ چھپاکر مقدس کتاب کے عھد عتيق اور عھد جديد کا مطالعہ کيا تھا اور ان سے اپنے نۓ دين کي بنياديں مستحکم کرنے ميں مددلي تھي -"آب دوورتو" نے قرون وسطي ہي کي طرح مالدار خاتوں سے شادي کو منفي رخ ديکر وحي کو مرگي کي بيماري سے تعبير کيا ہے-
اس فرانسيسي مولف کے برخلاف کونٹ دوبولنويليہ (Cont de Boulainvilliers) نے سترہ سو بياسي ميں"زندگي ماحومت" کے عنوان سے ايک کتاب لکھي جس ميں دين اسلام کو عيسائيت کے برخلاف فطري سادہ اور منطقي دين قرار ديا انہوں نے کليسا کے اس الزام کوکہ دين محمد (ص) عيسائي عقل کي اساس پر ايک غير معقول دين ہے رد کيا اور کہا کہ دين اسلام سے زيادہ منطقي معقول اور قابل قبول کوئي اور دين نہيں ہے انہوں نے يورپ کاقرون وسطي کا يہ الزام کہ محمد ايک غير مہذب شخص تھے مستردکيا انہوں نے مسلمانوں کے آداب ورسوم کا بھي دفاع کيا-انہوں نے لکھا ہےکہ ختنہ کرنا بدن کي سلامتي کے لۓ مفيد ہے اورسور کا گوشت گرم علاقوں ميں بيماريوں کا باعث بنتا ہے اور ہاتھ پير دھونا نيزغسل ووضو بھي گرم علاقوں ميں حفظان صحت کے لحاظ سے بہت مفيد ہے افسوس کہ بولنويليہ کي روش پائدار روش ميں تبديل نہ ہوسکي-
اس زمانے ميں يورپيوں نے اپني فکري سطح کے مطابق اسلام و محمد (ص) کے خلاف کتابيں لکھيں مثال کے طورپر"ابہ دوسنت پيئر"نے اسلام کے خلاف اپني کتاب ميں لکھا ہےکہ گرم علاقے کے باشندوں کي پروازتخيل اور سوچنے کي صلاحيت زيادہ ہوتي ہے لھذا اسلام بھي اسي طاقت تخيل کا نتيجہ ہے ان کي نظر ميں اسلام آخر کار تحجراور تعصب کا شکارہوکر رہے گا ان کا نظريہ تھا کہ يہ افکارسردعلاقوں کے باشندوں کو بھي متاثر کرسکتے ہيں البتہ اگر وہ ناداني کا مظاہرہ کريں -
"ژان آنتوان گوئر" نے سترہ سوسينتاليس ميں ايک کتاب لکھي جس ميں انہوں نے محمد (ص) کو جاہ طلب فرد کے طورپرپيش کيا ہےکہ جس نے دين کي تحريف کرکے اسے اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کاذريعہ بنايا-وہ کہتے ہيں کہ جب بھي محمدميدان فصاحت ہارنے لگتے تھے طاقت کا استعال کرتے تھے -ژان آنتوان گوئر کرامول سے محمد (ص) کا موازنہ کرکے ان دونوں ميں مکرو رفريب اور منافقت کو وجہ اشتراک قرارديتا ہے -اس کي نظر ميں ان دونوں کي بيويوں نےان کےحوصلےبڑھانے ميں اہم کردارادا کيا ہے -وہ اپني کتاب کي فصل دوم ميں لکھتا ہےکہ اسلام کي نظرميں عورتيں روح سے بے بہرہ ہيں لھذا جنت ميں نہيں جاسکتيں - وہ محمد کے شديد جنسي رجحان پرمبني قرون وسطي کے الزامات کي تکرار کرتاہے اسي الزام سے "ديد رو"بھي متاثر دکھائي ديتا ہے اور کہتا ہےکہ محمد عورتوں کوسب سے زيادہ دوست رکھنے والے اور عقل وخرد کے دشمن تھے وہ عيسائيت پر بھي اعتقاد نہيں رکھتاتھا اور شک و عدم اعتقاد کو فلسفي نظريوں کے حصول کي اساس سمجھتا تھا بنابريں يہ نتيجہ حاصل ہوتاہے کہ "ديدرو"کي طرح سوچنے والے اصل دين ومذھب کے مخالف تھے اور فرانس ميں جہان اب بھي پادريوں کو اقتدار حاصل تھا بغير کسي طرح کي رکاوٹ کے اسلام پر حملے کيا کرتے تھے جبکہ ان کا اصل مقصد دين کي نفي کرناتھا- ديدرو اور ولاديمر کي نگراني ميں اٹھارويں صدي عيسوي کے نصف دوم ميں شايع ہونے والے دائراۃ المعارف ميں محومت کے بارے ميں ايک مقالہ شامل ہے جسميں محمد(ص) کي تعريف کے ساتھ تنقيص بھي ديکھنے کو ملتي ہے اس مقالے ميں محمد (ص) کو طاقتور اورجري بتايا گيا ہے ليکن تعدد زوجات ،جنسي رجحانات ،مکرو فريب کي سياست اور نبوت کے جھوٹے دعوے جيسے قرون وسطي کے الزامات کو بھي دہرايا گيا ہے يہ مقالہ ايک طرح سے "پيئر ميل "کي کتاب "تاريخي –تنقيدي فرھنگ "کے زير اثر لکھا گيا ہے پيئر ميل محمد(ص) کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ انہيں ہوشيار عورتوں کا تعاون حاصل نہيں تھا اور نہ وہ عورتوں کو اپنے کاموں ميں شريک کرتے تھے وہ کہتے ہيں کہ محمد (ص) نے اس وجہ سے ايران پرحملہ نہيں کياکہ ايران کي عورتيں خوبصورت تھيں اور انہيں خوف تھاکہ وہ اپنے نفس پر قابونہيں رکھ پائيں گے -
اس زمانےميں فرانس بلکہ يورپ کا مشہور ترين مصنف "والٹر"ہے وہ ہرشکل ميں تحجر اورتعصب اور مذھب کا مخالف تھااس کا مشہور ترين تحريري کارنامہ جسے خود وہ بھي اپنا بہترين ڈرامہ کہتاہے "محومت يا تحجر ہے (Mahomet ou le Fanatisme)
يہ ڈرامہ سترہ سو اڑتيس ميں لکھا گيا اور تين سال بعد اسٹيج کيا گيا پوپ بنڈيکٹ چھاردھم نے بھي اس ڈرامے پر نظرخاص کي اور عثماني سفير کے باضابط اعتراض کے بعد اس پر ايک بار پابندي بھي لگائي گئي -يہ خيالي ڈرامہ يورپ ميں محمد(ص) کے تعلق سے موجود قديمي ذہنيت کي اساس پر لکھا گيا ہے اس ميں محمد (ص) کو خون آشام جنگجو ،اقتدار کابھوکا ،غارتگر فاتح اورسازشي ذھن کا مالک بتايا گيا ہے جو اپني جاہ پسندي کي خاطر اپنے دوستوں کوبھي راستے سے ہٹاديتاہے- اس ڈرامے ميں ابوسفيان ،عمر، زيد بن حارثہ اور ديگر شخصيتوں کے کردارپيش کۓ گۓ ہيں اور محمد (ص) کو ايسے شخص کے روپ ميں پيش کيا گيا ہے جو اقتدار حاصل کرنے کي کوششوں ميں ضمير کي آواز کو ہرگزنہيں سنتا اور اپنے اھداف تک پہنچنے کے لۓ محارم سے زنا کو بھي جائز سمجھتا ہے -اس ڈرامے کا دوسرا حصہ پہلے حصے سے زيادہ گھناونا تھا کيونکہ اس ميں قرون وسطي کي ذھنيت کے مطابق بھر پور طرح سے محمد(ص) کي شخصيت پر حملے کۓ گۓ تھے - ژوپير يعني ابوسفيان سے محومت کي گفتگو تفصيلي اور حيرت انگيز ہے اس گفتگو ميں محومت يہ بتاتے ہيں کہ وہ ايک جاہ طلب انسان ہيں اور عرب قبائل کو متحد کرنے کا عظيم منصوبہ رکھتے ہيں اور موقع ملنے پر ايران و روم پر قبضہ کرنے کا اراردہ رکھتے ہيں وہ کہتے ہيں آو اس دنيا کے کھنڈرات پر جزيرۃ العرب کو آباد کريں ميں ايک ہزار سال بعد آيا ہوں تاکہ ان بدوي قوانين کو بدل دوں-
يہ امکان پايا جاتا ہے کہ والٹر نے اس ڈرامے کے پيراۓ ميں محمد (ص) کي شخصيت کو غلط طرح سے استعمال کرتے ہوۓ ايک ٹراجڈي پيش کرنے کي کوشش کي ہے اور وہ اس طرح فرانسيسي دربارکا کرپشن اور بدعنوانياں برملا کرنا چاہتے ہيں-والٹر کا ھدف جوبھي رہاہو بنيادي نکتہ يہ ہے کہ اٹھارويں صدي عيسوي ميں جوکہ علمي تحريک اور بيداري کي صدي تھي والٹر نے بڑي بے رحمي سے يورپيوں کے سامنے محمد (ص) کي شخصيت بري طرح مسخ کرکے پيش کي ہے- يہاں پر اس بات کا ذکر بے جانہ ہوگا کہ مصر کے معروف ڈرامہ نگار توفيق الحکيم نے والٹر کے جواب ميں انيس سو چھتيس ميں محمد (ص) کي شخصيت کے بارےميں ايک ڈرامہ لکھا يہ ڈرامہ سيرۃ ابن اسحاق کي اساس پر لکھا گيا اس لحاظ سے اس کي علمي وقعت قابل توجہ ہے البتہ يہ ڈرامہ کبھي اسٹيج نہيں کيا جاسکا (رجوع کريں آن ماري شيمل ص 402 )
والٹر نے سترہ سوچھپن ميں اپنے مقالے "آداب و رسوم ملل "ميں محمد (ص) کے گہرے اثرات کي بناپر ان کي تعريف کي ہے ليکن انہيں جھوٹا پيغمبر بھي قراررديا ہے- والٹرنے "دوبولنويليہ کے نظريات کي مخالفت کرتے ہوۓ کہا ہے کہ يہ کيسے ہوسکتا ہےکہ ايک شخص نبوت کا دعويدار ہو اور سياست دان بھي ہواس سے پتہ چلتاہے کہ والٹر کس قدر عيسائي تعليمات سے متاثر ہيں - ياد رہے دوبولنويليہ ان نادر يورپي مصنفين ميں سے ہيں جنہوں نے محمد (ص) کي حمايت کي ہے اور ان کي زندگي کے حالات لکھنے ميں حقيقت پسندي کا مظاہرہ کيا ہے -
سترھويں صدي کے اواخر ميں "ھمفري پريدو" نے "مکاري کي حقيقي ماھيت اور محومت کي زندگي بھرپور مکاري کے "عنوان سے ايک رسالہ لکھا جس ميں وہ محومت کے جھوٹے دعوي نبوت کي خصوصيات اجاگر کرنے کي کوشش کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ نبوت کا جھوٹا دعوي کرنے والا نفساني خواہشات کو ہواديتاہے اس کي باتيں جھوٹي ہوتي ہيں وہ مکروفريب سے اپني باتيں پھيلاتاہے ----و غيرہ - اس رسالے نے اٹھارويں صدي ميں يورپيوں پرگہرے اثرات مرتب کۓ تھے وہ لکھتا ہے کہ "کس چيزنے محومت کو اس طرح کي مکاري پر مجبورکيا صرف جاہ طلبي اور شہوت " -
"جوزف پٹس " نے سترہ سو اکتيس ميں سرزميں حجاز کے اپنے سفرنامے ميں وہي تعصب آميزنظريات کي تکرارکي ہے اور محمد (ص) کو مکار اور عياش فرد قرار ديا ہے -
source : http://www.tebyan.net