اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

امام حسن عسکری کا آغاز امامت

 

حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعدحضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی امامت کا آغازہوا آپ کے تمام معتقدین نے آپ کومبارک باددی اورآپ سے ہرقسم کااستفادہ شروع کردیا آپ کی خدمت میں آمدورفت اورسوالات وجوابات کاسلسلہ جاری ہوگیا

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی جناب نرجس خاتون سے کردی جوقیصرروم کی پوتی اورشمعون وصی عیسی کی نسل سے تھیں (جلاء العیون ص ۲۹۸) ۔

اس کے بعدآپ ۳/ رجب ۲۵۴ ہجری کودرجہ شہادت پرفائزہوئے ۔

آپ کی شہادت کے بعدحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا آغازہوا آپ کے تمام معتقدین نے آپ کومبارک باددی اورآپ سے ہرقسم کااستفادہ شروع کردیا آپ کی خدمت میں آمدورفت اورسوالات وجوابات کاسلسلہ جاری ہوگیا آپ نے جوابات میں ایسے حیرت انگیزمعلومات کا انکشاف فرمایاکہ لوگ دنگ رہ گئے آپ نے علم غیب اورعلم بالموت تک کاثبوت پیش فرمایا اوراس کی بھی وضاحت کی کہ فلاں شخص کواتنے دنوں میں موت آجائے گی۔

علامہ ملاجامی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے والدسمیت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی راہ میں بیٹھ کریہ سوال کرناچاہاکہ باپ کوپانچ سو درہم اوربیٹے کو تین سوردرہم اگرامام دیدیں توتوسارے کام ہوجائیں، یہاں تک امام علیہ السلام اس راستے پرآپہنچے ،اتفاقا یہ دونوں امام کوپہچانتے نہ تھے امام خودان کے قریب گئے اوران سے کہاکہ تمہیں آٹھ سودرہم کی ضرورت ہے آؤتمہیں دیدوں دونوں ہمراہ ہولیے اوررقم معہودحاصل کرلی اسی طرح ایک اورشخص قیدخانہ میں تھا اس نے قیدکی پریشانی کی شکایت امام علیہ السلام کولکھ کربھیجی اورتنگ دستی کا ذکرشرم کی وجہ سے نہ کیا آپ نے تحریرفرمایاکہ تم آج ہی قید سے رہاہوجاؤگے اورتم نے جوشرم سے تنگدستی کاتذکرہ نہیں کیا اس کے متعلق معلوم کروکہ میں اپنے مقام پرپہنچتے ہی سودیناربھیج دوں گا 

چنانچہ ایساہی ہوا اسی طرح ایک شخص نے آپ سے اپنی تندستی کاکی شکایت کی آپ نے زمین کریدکرایک اشرفی کی تھیلی نکالی اوراس کے حوالہ کردی اس میں سودینارتھے ۔

اسی طرح ایک شخص نے آپ کوتحریرکیاکہ مشکوة کے معنی کیاہیں؟ نیزیہ کہ میری بیوی حاملہ ہے اس سے جوفرزندپیداہوگا اس کانام رکھ دیجیے آپ نے جواب میں تحریرفرمایاکہ مشکوة سے مراد قلب محمدمصطفی صلعم ہے اورآخرمیں لکھ دیا ”اعظم اللہ اجرک واخلف علیک“ خداتمہیں جزائے خیردے اورنعم البدل عطاکرے چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس کے یہاں مردہ بیٹاپیداہوا ۔

اس کے بعداس کی بیوی حاملہ ہوئی ، فرزندنرینہ متولدہوا، ملاحظہ ہو(شواہدالنبوت ص ۲۱۱) ۔

علامہ ارلی لکھتے ہیں کہ حسن ابن ظریف نامی ایک شخص نے حضرت سے لکھ کردریافت کیاکہ قائم آل محمدپوشیدہ ہونے کے بعدکب ظہورکریں گے آپ نے تحریرفرمایا جب خداکی مصلحت ہوگی اس کے بعدلکھا کہ تم تپ ربع کاسوال کرنابھول گئے جسے تم مجھ سے پوچھناچاہتے تھے ، تودیکھوایساکروکہ جواس میں مبتلاہواس کے گلے میں ایة ”یانارکونی برداولاما علی ابراہیم“ لکھ کرلٹکادوشفایاب ہوجائے گاعلی بن زیدابن حسین کاکہناہے کہ میں ایک گھوڑاپرسوارہوکرحضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاکہ اس گھوڑے کی عمرصرف ایک رات باقی رہ گئی ہے چنانچہ وہ صبح ہونے سے پہلے مرگیا اسماعیل بن محمدکاکہناہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا، اورمیں نے ان سے قسم کھاکرکہاکہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے آپ نے مسکراکر فرمایا کہ قسم مت کھاؤ تمہارے گھردوسودینار مدفون ہیں یہ سن کروہ حیران رہ گیا پھرحضرت نے غلام کوحکم دیاکہ انہیں سواشرفیاں دیدو عبدی روایت کرتاہے کہ میں اپنے فرزندکو بصرہ میں بیمار چھوڑکرسامرہ گیااوروہاں حضرت کوتحریرکیاکہ میرے فرزندکے لیے دعائے شفاء فرمائیں آپ نے جواب میں تحریرفرمایاکہ ”خدااس پررحمت نازل فرمائے“ جس دن یہ خط اسے ملااسی دن اس کافرزندانتقال کرچکاتھا محمدبن افرغ کہتاہے کہ میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضہ کے ذریعہ سے سوال کیاکہ ”آئمہ کوبھی احتلام ہوتاہے“ جب خط روانہ کرچکاتو خیال ہواکہ احتلام تووسوسہ شیطانی سے ہواکرتاہے اورامام تک شیطان پہنچ نہیں سکتا بہرحال جواب آیاکہ امام نوم اوربیداری دونوں حالتوں میں وسوسہ شیطانی سے دورہوتے ہیں جیساکہ تمہارے دل میں بھی خیال پیداہواہے پھراحتلام کیونکرہوسکتاہے جعفربن محمدکاکہناہے کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضرتھا، دل میں خیال آیا کہ میری عورت جوحاملہ ہے اگراس سے فرزندنرینہ پیداہوتوبہت اچھاہوآپ نے فرمایاکہ اے جعفرلڑکانہیں لڑکی ہوگی چنانچہ ایساہی ہوا(کشف الغمہ ص ۱۲۸) ۔

اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کادورہ

جعفربن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعدحضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضرہوا ،اوران سے عرض کی کہ مولا! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگارہیں آپ نے فرمایاکہ تم آج سے ایک سونوے دن کے بعدواپس جرجان پہنچوگے اورجس دن تم پہچوگے اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا تم انہیں باخبرکردینا، چنانچہ ایساہی ہوا میں وطن پہنچ کرلوگوں کوآگاہ کرچکاتھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی آپ نے سب سے ملاقات کی اورسب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھرلوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کومطمئن کردیا اسی سلسلہ میں نصربن جابرنے اپنے فرزندکوپیش کیا، جونابیناتھا حضرت نے اس کے چہرہ پردست مبارک پھیرکراسے بینائی عطاکی پھرآپ اسی روزواپس تشریف لے گئے (کشف الغمہ ص ۱۲۸) ۔

ایک شخص نے آپ کوایک خط بلاروشنائی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کاجواب مرحمت فرمایااورساتھ ہی لکھنے والے کا اوراس کے باپ کانام بھی تحریرفرمادیا یہ کرامت دیکھ کروہ شخص حیران ہوگیااوراسلام لایا اورآپ کی امامت کامعتقدبن گیا(دمعہ ساکبہ ص ۱۷۲) ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا پتھر پرمہر لگانا

ثقة الاسلام علامہ کلینی اورامام اہلسنت علامہ جامی رقمطرازہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت سایمنی آیا اوراس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھرکاٹکڑا پیش کرکے خواہش کی کہ آپ اس پراپنی امامت کی تصدیق میں مہرکردیں حضرت نے مہرنکالی اوراس پرلگادی آپ کااسم گرامی اس طرح کندہ ہوگیاجس طرح موم پرلگانے سے کندہ ہوتاہے ایک سوال کے جواب میں کہاگیاکہ آنے والامجمع ابن صلت بن عقبہ بن سمعان ابن غانم ابن ام غانم تھا یہ وہی سنگ پارہ لایاتھا جس پراس کے خاندان کی ایک عورت ام غانم نے تمام آئمہ طاہرین سے مہرلگوارکھی تھی اس کاطریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کادعوی کرتاتھا تووہ اس کولے کراس کے پاس چلی جاتی تھی اگراس مدعی نے پتھرپرمہرلگادی تواس نے سمجھ لیاکہ یہ امام زمانہ ہیں اوراگروہ اس عمل سے عاجزرہاتووہ اسے نظراندازکردیتی تھی چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پرکئی اماموں کی مہرلگوائی تھی ، اس لیے اس کالقب (صاحبةالحصاة) ہوگیاتھا ۔

علامہ جامی لکھتے ہیں کہ جب مجمع بن صلت نے مہرلگوائی تواس سے پوچھاگیاکہ تم حضرت امام حسن عسکری کوپہلے سے پہچانتے تھے اس نے کہانہیں، واقعہ یہ ہواکہ میں ان کاانتظارکرہی رہاتھا کہ کہ آپ تشریف لائے میں لیکن پہچانتانہ تھا اس لیے خاموش ہوگیا اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آکرکہاکہ یہی حسن بن علی ہیں ۔

راوی ابوہاشم کہتاہے کہ جب وہ جوان آپ کے دربارمیں آیاتومیرے دل میں یہ آیاکہ کاش مجھے معلوم ہوتاکہ یہ کون ہے، دل میں اس کاخیال آناتھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایاکہ مہرلگوانے کے لیے وہ سنگ پارہ لایاہے ، جس پرمیرے باپ داداکی مہریں لگی ہوئی ہیں چنانچہ اس نے پیش کیا اورآپ نے مہرلگادی وہ شخص آیة ”ذریة بعضہامن بعض“ پڑھتاہواچلاگیا (اصول کافی ،دمعہ ساکبہ ص ۱۶۴ ،شواہدالنبوت ص ۲۱۱ ،طبع لکھنو ۱۹۰۵ ء اعلام الوری ۲۱۴) ۔

حضرت امام حسن عسکری کاعراق کے ایک عظیم فلسفی کوشکست دینا

مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوارہواکہ قرآن مجیدمیں تناقض ثابت کرے اوریہ بتادے کہ قرآن مجیدکی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتاہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھناشروع کی اوراس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اورکہیں آناجانا سب ترک کردیا حضرت امام حسن عسکر ی علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کاارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسااعتراض کردیاجائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سے اورمجبورااپنے ارادہ سے بازآئے ۔

اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کاایک شاگرد حاضرہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسانہیں ہے جواسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے بازرکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کاشاگردہوں، بھلااس کے سامنے لب کشائی کرسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ اچھایہ توکرسکتے ہو کہ جومیں کہوں وہ اس تک پہنچادو، اس نے کہاکرسکتاہوں، حضرت نے فرمایاکہ پہلے توتم اس سے موانست پیداکرو، اوراس پراعتبارجماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اورتمہاری بات توجہ سے سننے لگے تواس سے کہناکہ مجھے ایک شبہ پیداہوگیاہے آپ اس کودورفرمادیں، جب وہ کہے کہ بیان کروتوکہناکہ ”ان اتاک ہذالمتکلم بہذاالقرآن ہل یجوزمرادہ بماتکلم منہ عن المعانی التی قدظننتہا انک ذہبتھا الیہا“

اگراس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے توکیاہوسکتاہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کاہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی ومطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا توچونکہ ذہین آدمی ہے فوراکہے گا کہ بے شک ایساہوسکتاہے جب وہ یہ کہے توتم اس سے کہناکہ پھرکتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیافائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کراس پراعتراض کررہے ہو ،ہوسکتاہے کہ وہ خدائی مقصودکے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اوربرباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہوسکتاہے کہ تمہارا سمجھاہوا مطلب صحیح اورمقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طورپرنہیں توتناقض کہاں رہا؟ ۔

الغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اوراس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھراعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیرکے لیے محو تفکرہوگیا اورکہنے لگا کہ بے شک اس قسم کااحتمال باعتبار لغت اوربلحاظ فکروتدبرممکن ہے پھراپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہواکربولا! میں تمہیں قسم دیتاہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایاہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوارہے اسحاق نے کہاہرگزنہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیزنہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اوراس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایاتھا اورمیں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پرآپ سے سوال کیاہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہاہے ایسے اعتراضات اورایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمدہوسکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنا رواحرق جمیع ماکان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اورکتاب تناقض القرآن کاسارامسودہ نذرآتش کردیا (مناقب ابن شہرآشوب مازندرانی جلد ۵ ص ۱۲۷ ،بحارالانوار جلد ۱۲ ص ۱۷۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۸۳) ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اورخصوصیات مذہب

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کاارشادہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کاشمارہوگا جواصول وفروع اوردیگرلوزم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پرعامل ہوں گے ۔:

۱ ۔ شب وروزمیں ۵۱/ رکعت نمازپڑھنا ۔

۲ ۔سجدگاہ کربلاپرسجدہ کرنا ۔

۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا ۔

۴ ۔اذان واقامت کے جملے دودومرتبہ کہنا ۔

۵ ۔ اذان واقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا ۔

۶ ۔ نمازمیں بسم اللہ زورسے پڑھنا ۔

۷ ۔ ہردوسری رکعت میں قنوت پڑھنا ۔

۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نمازعصراورتاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا ۔

۹ ۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا ۔

۱۰ ۔ نمازمیت میں پانچ تکبرکہنا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲) ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پندسودمند

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پندونصائح حکم اورمواعظ میں سے مشتی نمونہ ازخرواری یہ ہیں:

۱ ۔ دوبہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان رکھے اورلوگوں کوفائدے پہنچائے ۔

۲ ۔ اچھوں کودوست رکھنے میں ثواب ہے ۔

۳ ۔ تواضع اورفروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اورمجلس میں معمولی جگہ بیٹھے ۔

۴ ۔بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے ۔

۵ ۔پڑوسیوں کی نیکی کوچھپانا، اوربرائیوں کواچھالناہرشخص کے لیے کمرتوڑدینے والی مصیبت اوربے چارگی ہے ۔

۶ ۔ یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز،روزے کواداکرتارہے، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خداکے بارے میں سوچ وبچارکرے ۔

۷ ۔ وہ شخص بدترین ہے جودومونہااوردوزباناہو، جب دوست سامنے آئے تواپنی زبان سے خوش کردے اورجب وہ چلاجائے تو اسے کھاجانے کی تدبیرسوچے ،جب اسے کچھ ملے تویہ حسدکرے اورجب اس پرکوئی مصیبت آئے توقریب نہ پھٹکے ۔

۸ ۔ غصہ ہربرائی کی کنجی ہے ۔

۹ ۔ حسدکرنے اورکینہ رکھنے والے کوکبھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا ۔

۱۰ ۔ پرہیزگاروہ ہے کہ جوشب کے وقت توقف وتدبرسے کام لے اورہرامرمیں محتاط رہے ۔

۱۱ ۔ بہترین عبادت گزاروہ ہے جوفرائض اداکرتارہے ۔

۱۲ ۔بہترین متقی اورزاہدوہ ہے جوگناہ مطلقا چھوڑدے ۔

۱۳ ۔ جودنیامیں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا ۔

۱۴ ۔ موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے اچھابوگے تواچھاکاٹوگے، برا بوگے توندامت ہوگی۔

۱۵ ۔ حرص اورلالچ سے کوئی فائدہ نہیں جوملناہے وہی ملے گا ۔

۱۶ ۔ ایک مومن دوسرے مون کے لیے برکت ہے ۔

۱۷ ۔ بیوقوف کادل اس کے منہ میں ہوتاہے اورعقلمندکامنہ اس کے دل میں ہوتاہے ۔ ۱۸ ۔ دنیاکی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوادینا ۔

۱۹ ۔ طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرناغیرممدوح ہے ۔

۲۰ ۔ کوئی کتناہی بڑاآدمی کیوں نہ ہو جب وہ حق کوچھوڑدے گاذلیل ترہوجائے گا ۔

۲۱ ۔ معمولی آدمی کے ساتھ اگرحق ہوتووہی بڑاہے ۔

۲۲ ۔ جاہل کی دوستی مصیبت ہے ۔

۲۳ ۔ غمگین کے سامنے ہنسنا بے ادبی اوربدعملی ہے ۔

۲۴ ۔ وہ چیزموت سے بدترہے جوتمہیں موت سے بہترنظرآئے ۔

۲۵ ۔ وہ چیززندگی سے بہترہے جس کی وجہ سے تم زندگی کوبراسمجھو۔

۲۶ ۔ جاہل کی دوستی اوراس کے ساتھ گزاراکرنا معجزہ کے مانندہے ۔

۲۷ ۔ کسی کی پڑی ہوئی عادت کوچھڑانااعجازکی حیثیت رکھتاہے ۔

۲۸ ۔ تواضع ایسی نعمت ہے جس پرحسدنہیں کیاجاسکتا ۔

۲۹ ۔ اس اندازسے کسی کی تعظیم نہ کروجسے وہ براسمجھے ۔

۳۰ ۔ اپنے بھائی کی پوشیدہ نصیحت کرنی اس کی زینت کاسبب ہوتا ۔

۳۱ ۔ کسی کی علانیہ نصیحت کرنابرائی کاپیش خیمہ ہے ۔

۳۲ ۔ ہربلااورمصیبت کے پس منظرمیں رحمت اورنعمت ہوتی ہے ۔

۳۳ ۔ میں اپنے و الوں کووصیت کرتاہوں کہ اللہ سے ڈریں دین کے بارے میں پرہیزگاری کوشعاربنالیں خداکے متعلق پوری سعی کریں اوراس کے احکام کی پیروی میں کمی نہ کریں، سچ بولیں، امانتیں چاہے مون کی ہوں یاکافرکی ،اداکریں، اوراپنے سجدوں کوطول دیں اورسوالات کے شیریں جواب دیں تلاوت قرآن مجیدکیاکریں موت اورخداکے ذکرسے کبھی غافل نہ ہوں۔

۳۴ ۔ جوشخص دنیاسے دل کااندھااٹھے گا، آخرت میں بھی اندھارہے گا،دل کااندھاہونا ہماری مودت سے غافل رہناہے قرآن مجیدمیں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کہیں گے ”رب لماحشرتنی اعمی وکنت بصیرا“ میرے پالنے والے ہم تودنیامیں بیناتھے ہمیں یہاں اندھاکیوں اٹھایاہے جواب ملے گا ہم نے جونشانیاں بھیجی تھیں تم نے انھیں نظراندازکیاتھا ۔ ”لوگو! اللہ کی نعمت اللہ کی نشانیاں ہم آل محمدہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوشنبہ کے شرونحوست سے بچنے کے لیے ارشادفرمایاہے کہ نمازصبح کی رکعت اولی میں سوہ ”ہل اتی“ پڑھنا چاہئے،نیزیہ فرمایاہے کہ نہارمنہ خربوزہ نہیں کھاناچاہئے کیونکہ اس سے فالج کااندیشہ ہے (بحارالانوارجلد ۱۴) ۔

معتمدعباسی کی خلافت اورامام حسن عسکری علیہ السلام کی گرفتاری

۲۵۶ ہجری میں معتدعباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پرمتمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرزعمل کواختیارکرنا اورجدی کردارکوپیش کرناشروع کردیا اوردل سے اس کی سعی شروع کردی کہ آل محمدکے وجودسے زمین خالی ہوجائے، یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کاشکارہوگیاتھا لیکن پھربھی اپنے وظیفے اوراپنے مشن سے غافل نہیں رہا” اس نے حکم دیاکہ عہدحاضرمیں خاندان رسالت کی یادگار،امام حسن عسکری کوقیدکردیاجائے اورانہیں قیدمیں کسی قسم کاسکون نہ دیاجائے حکم حاکم مرگ مفاجات آخرامام علیہ السلام بلاجرم وخطاآزادوفضاسے قیدخانہ میں پہنچادئیے گئے اورآپ پرعلی بن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیاگیا جوآل محمداورال ابی طالب کاسخت ترین دشمن تھا اوراس سے کہہ دیاگیاکہ جوجی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والانہیں ہے ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پرطرح طرح کی سختیاں شروع کردیں اس نے نہ خداکاخوف کیانہ پیغمبرکی اولادہونے کا لحاظ کیا ۔

لیکن اللہ رے آپ کا زہدوتقوی کہ دوچارہی یوم میں دشمن کادل موم ہوگیا اوروہ حضرت کے پیروں پرپڑگیا، آپ کی عبادت گذاری اورتقوی وطہارت دیکھ کر وہ اتنامتاثرہواکہ حضرت کی طرف نظراٹھاکردیکھ نہ سکتاتھا، آپ کی عظمت وجلالت کی وجہ سے سرجھکاکرآتااورچلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیاکہ دشمن بصیرت آگیں بن کرآپ کامعترف اورماننے والاہوگیا(اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔

ابوہاشم داؤدبن قاسم کابیان ہے کہ میں اورمیرے ہمراہ حسن بن محمد القتفی ومحمدبن ابراہیم عمری اوردیگربہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزابھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہواکہ ہمارے امام زمانہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لارہے ہیں ہم نے ان کااستقبال کیاوہ تشریف لاکرقیدخانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اوربیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگریہ شخص نہ ہوتاتو میں تمہیں یہ بتادیتاکہ اندرونی معاملہ کیاہے اورتم کب رہاہوگے لوگوں نے یہ سن کراس اندھے سے کہا کہ تم ذراہمارے پاس سے چندمنٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا اس کے چلے جانے کے بعدآپ نے فرمایاکہ یہ نابیناقیدی نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے حکومت کاجاسوس ہے اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجودہیں جواس کی جاسوسی کاثبوت دیتے ہیں یہ سن کرلوگوں نے اس کی تلاشی لی اورواقعہ بالکل صحیح نکلاابوہاشم کہتے ہیں کہ ہم قیدکے ایام گذاررہے تھے کہ ایک دن غلام کھانالایا حضرت نے شام کا لیے کھانانہ لوں گا چنانچہ ایساہی ہواکہ آپ عصرکے وقت قیدخانہ سے برآمدہوگئے ۔ (اعلام الوری ص ۲۱۴) ۔

اسلام پرامام حسن عسکری کااحسان عظیم واقعہ قحط

امام علیہ السلام قیدخانہ ہی میں تھے کہ سامرہ میں جوتین سال سے قحط پڑاہواتھا اس نے شدت اختیارکرلی اورلوگون کاحال یہ ہوگیاکہ مرنے کے قریب پہنچ گئے بھوک اورپیاس کی شدت نے زندگی سے عاجزکردیا یہ حال دیکھ خلیفہ معتمدعباسی نے لوگوں کوحکم دیا کہ تین دن تک باہرنکل کر نمازاستسقاء پڑھیں چنانچہ سب نے ایساہی کیا ،مگرپانی نہ برسا، چوتھے روزبغدادکے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اوران میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپناہاتھ بلندکیا، اس کاہاتھ بلندہوناتھا کہ بادل چھاگئے اورپانی برسناشروع ہوگیا اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اوربدستوراس دن بھی باران رحمت کانزول ہوا، یہ دیکھ کرسب کونہایت تعجب ہوا حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیداہوگیا، بلکہ ان میں سے اسی وقت مرتدہوگئے، یہ واقعہ خلیفہ پربہت شاق گذرا ۔

اس نے امام حسن عسکری کوطلب کرکے کہا کہ ائے ابومحمداپنے جدکے کلمہ گویوں کی خبرلو، اوران کوہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایاکہ اچھاراہبوں کوحکم دیاجائے کہ کل پھروہ میدان میں آکردعائے باران کریں ،انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کردوں گا، پھرجب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تواس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا، ناگہاں آسمان پرابرنمودارہوئے اورمینہ برسنے لگا یہ دیکھ کرامام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کاہاتھ پکڑکر جوچیزراہب کے ہاتھ میں ملے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اوراس سے لے کرحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے راہب سے فرمایاکہ اب توہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکراس نے ہاتھ اٹھایاتوبجائے بارش ہونے کے مطلع صاف ہوگیا اوردھوپ نکل آئی، لوگ کمال تعجب ہوئے ۔

خلیفہ معتمدنے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ ائے ابومحمدیہ کیاچیزہے؟ آپ نے فرمایاکہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعامیں کامیاب ہوتارہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کایہ اثرہے کہ جب وہ زیرآسمان کھولی جائے گی، توباران رحمت ضرورنازل ہوگایہ سن کرلوگوں نے اس ہڈی کاامتحان کیاتواس کی وہی تاثیردیکھی جوحضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی، اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہوگئے جوپہلے پیداہوگئے تھے پھرامام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کولے کراپنی قیام گاہ پرتشریف لائے(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،کشف الغمہ ص ۱۲۹) ۔/

پھرآپ نے اس ہڈی کوکپڑے میں لپیٹ کردفن کردیا (اخبارالدول ص ۱۱۷) ۔

شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب وعجائب میں اس واقعہ کوصوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھاہے بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعدآپ نے نمازاداکی اوردعافرمائی خداوندعالم نے اتنی بارش کی کہ جل تھل ہوگیا اورقحط جاتارہا ۔

یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قیدسے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایاتھا جومنظورہوگیاتھا، اوروہ لوگ بھی راہب کی ہوااکھاڑنے کلے ہمراہ تھے (نورالابصار ص ۱۵۱) ۔

ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اورابرآیاتوآپ نے فرمایاکہ فلاں ملک کے لیے ہے اوروہ وہیں چلاگیا، اسی طرح کئی بارہوا پھر وہاں برسا ۔

امام حسن عسکری اورعبیداللہ وزیرمعتمدعباسی

اسی زمانہ میں ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام متوکل کے وزیرفتح ابن خاقان کے بیٹے عبیداللہ ابن خاقان جوکہ معتمدکاوزیرتھا ملنے کے لیے تشریف لے گیے اس نے آپ کی بے انتہا تعظیم کی اورآپ سے اس طرح محوگفتگورہاکہ معتمدکابھائی موفق دربارمیں آیا تواس نے کوئی پرواہ نہ کی یہ حضرت کی جلالت اورخداکی دی ہوئی عزت کانتیجہ تھا ۔

ہم اس واقعہ کوعبیداللہ کے بیٹے احمدخاقان کی زبانی بیان کرتے ہیں کتب معتبرہ میں ہے کہ جس زمانہ میں احمدخاقان قم کاوالی تھا اس کے دربارمیں ایک دن علویوں کاتذکرہ چھڑگیا، وہ اگرچہ دشمن آل محمدہونے میں مثالی حیثیت رکھتاتھا لیکن یہ کہنے پرمجبورہوگیا کہ میری نظرمیں امام حسن عسکری سے بہترکوئی نہیں ہے ان کی جووقعت ان کے ماننے والوں اوراراکین دولت کی نظرمیں تھی وہ ان کے عہدمیں کسی کوبھی نصیب نہیں ہوئی ،سنو! ایک مرتبہ میں اپنے والدعبیداللہ ابن خاقان کے پاس کھڑاتھاکہ ناگاہ دربان نے اطلاع دی کہ امام حسن عسکری تشریف لائے ہوئے ہیں وہ اجازت داخل چاہتے ہیں یہ سن کرمیرے والدنے پکارکرکہاکہ حضرت ابن الرضاکوآنے دو، والدنے چونکہ کنیت کے ساتھ نام لیاتھا اس لیے مجھے سخت تعجب ہوا، کیونکہ اس طرح خلیفہ یاولیعہدکے علاوہ کسی کانام نہیں لیاجاتاتھا اس کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جوسبزرنگ ، خوش قامت، خوب صورت، نازک اندام جوان تھے، داخل ہوگئے جن کے چہرے سے رعب وجلال ہویداتھا میرے والدکی نظرجونہی ان کے اوپرپڑی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اورانھیں سینے سے لگاکر ان کے چہرہ اورسینے کابوسہ دیااوراپنے مصلے پرانہیں بٹھایا اورکمال ادب سے ان کی طرف مخاطب رہے، اورتھوڑی تھوڑی دیرکے بعدکہتے تھے میری جان آپ پرقربان ائے فرزندرسول۔

اسی اثناء میں دربان نے آکراطلاع دی کہ خلیفہ کابھائی موفق آیاہے میرے والدنے کوئی توجہ نہ دی ،حالانکہ اس کاعموما یہ اندازرہتاتھا کہ جب تک واپس نہ چلاجائے دربارکے لوگ دورویہ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ موفق کے غلامان خاص کواس نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا، انہیں دیکھنے کے بعد میرے والدنے کہایاابن رسول اللہ اگراجازت ہوتو موفق سے کچھ باتیں کرلوں حضرت نے وہاں سے اٹھ کرروانہ ہوجانے کاارادہ کیا میرے والدنے انہیں سینے سے لگایا اوردربانوں کوحکم دیا کہ انہیںدومکمل صفوں کے درمیان سے لے جاؤ کہ موفق کی نظرآپ پرنہ پڑے چنانچہ اسی اندازسے واپس تشریف لے گئے ۔

آپ کے جانے کے بعدمیں نے خادموں اورغلاموں سے کہاکہ وائے ہوتم نے کنیت کے ساتھ کس کانام لے کراسے میرے والدکے سامنے پیش کیا تھا جس کی اس نے اس درجہ تعظیم کی جس کی مجھے توقع نہ تھی ان لوگوں نے پھرکہا کہ یہ شخص سادات علویہ میں سے تھا اس کانام حسن بن علی اورکنیت ابن الرضا ہے، یہ سن کرمیرے غم وغصہ کی کوئی انتہانہ رہی اورمیں دن بھراسی غصہ میں بھنتارہا کہ علوی سادات کی میرے والدنے اتنی عزت وتوقیرکیوں کی یہاں تک کہ رات آگئی۔

میرے والدنمازمیں مشغول تھے جب وہ فریضہ عشاء سے فارغ ہوئے تومیں ان کی خدمت میں حاضرہوا انہوں نے پوچھااے احمد اس وقت آنے کاسبب کیاہے ، میں نے عرض کی کہ اجازت دیجیے تو میں کچھ پوچھوں، انہوں نے فرمایاجوجی چاہے پوچھو میں نے کہایہ شخص کون تھا ؟ جوصبح آپ کے پاس آیاتھا جس کی آپ نے زبردست تعظیم کی اورہربات میں اپنے کو اوراپنے ماں باپ کو اس پرسے فداکرتے تھے انہوں نے فرمایاکہ ائے فرزندیہ رافضیوں کے امام ہیں ان کانام حسن بن علی اوران کی مشہورکنیت ابن الرضا ہے یہ فرماکر وہ تھوڑی دیرچپ رہے پھر بولے اے فرزندیہ وہ کامل انسان ہے کہ اگرعباسیوں سے سلطنت چلی جائے تواس وقت دنیا میں اس سے زیادہ اس حکومت کامستحق کوئی نہیں ہے یہ شخص عفت زہد،کثرت عبادت، حسن اخلاق، صلاح، تقوی وغیرہ میں تمام بنی ہاشم سے افضل واعلی ہے اورائے فرزند اگرتوان کے باپ کودیکھتاتوحیران رہ جاتا وہ اتنے صاحب کرم اورفاضل تھے کہ ان کی مثال بھی نہیں تھی یہ سب باتیں سن کر میں خاموش توہوگیا لیکن والدسے حددرجہ ناخوش رہنے لگا اورساتھ ہی ساتھ ابن الرضا کے حالات کاتفحص کرنااپناشیوہ بنالیا ۔

اس سلسلہ میں میں نے بنی ہاشم ،امراء لشکر،منشیان دفترقضاة اورفقہاء اورعوام الناس سے حضرت کاحالات کااستفسارکیا سب کے نزدیک حضرت ابن الرضا کوجلیل القدراورعظیم پایا اورسب نے بالاتفاق یہی بیان کیا کہ اس مرتبہ اوران خوبیوں کاکوئی شخص کسی خاندان میں نہیں ہے جب میں نے ہرایک دوست اوردشمن کو حضرت کے بیان اخلاق اوراظہارمکارم اخلاق میں متفق پایاتومیں بھی ان کادل سے ماننے والاہوگیا اوراب ان کی قدرومنزلت میرے نزدیک بے انتہاہے یہ سن کرتمام اہل دربارخاموش ہوگئے البتہ ایک شخص بول اٹھا کہ ائے احمدتمہاری نظرمیں ان کے برادرجعفرکی کیاحثیت ہے احمدنے کہاکہ ان کے مقابلہ میں اس کاکیاذکرکرتے ہو وہ توعلانیہ فسق وفجورکاارتکاب کرتاتھا، دائم الخمرتھا خفیف العقل تھا، انواع ملاہی ومناہی کامرتکب ہوتاتھا ۔

ابن الرضاکے بعد جب خلیفہ معتمدسے اس نے ان کی جانشینی کاسوال کیا تواس نے اس کے کردارکی وجہ سے اسے دربارسے نکلوادیاتھا (مناقب ابن آشوب جلد ۵ ص ۱۲۴ ، ارشادمفید ص ۵۰۵) 

بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ گفتگوامام حسن عسکری کی شہادت کے ۱۸/ سال بعد ماہ شعبان ۲۷۸ ہجری کی ہے (دمعہ ساکبہ ص ۱۹۲ جلد ۳ طبع نجف اشرف)۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت

امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندکی گزارنے کے دوران میں ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵/ یوم کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون وبکاکی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔

نیزآپ کایہ فرمانابھی معقول ہے کہ ۲۶۰ ہجری میں میرے ماننے والوں کے درمیان انقلاب عظیم آئے گا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۷) ۔

الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نمازصبح خلعت حیات ظاہری اتارکر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔

علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی (مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نورالابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment