بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیً مِّنْھُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْھُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o لَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْراً وَّقَالُوْآ اِھٰذا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۔ (سُورۂ نُور، آیت ۱۱، ۱۲) ان آیات کو اصطلاحاً ’’آیاتِ افک‘‘ کہا جاتا ہے… ’’افک‘‘ سے مراد وہ بڑا جھوٹ (تہمت) ہے جو بعض منافقین نے۔ العیاذباللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنے کی خاطر آپ کی زوجہ کے متعلق گھڑا تھا۔ اس کی داستان ہم اس سے قبل تفصیل سے نقل کر چکے ہیں۔
اب ہم یہ آیات پڑھیں گے اور ان سے جن نکات (یہ نکات تربیت اور معاشرتی حوالے سے بہت اہم ہیں یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی ہم ان سے دوچار ہیں) کا استفادہ ہوتا ہے ان کو بیان کریں گے۔
آیت کہتی ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃ مِّنْکُمْ ‘‘ آگاہ رہو کہ جن افراد نے تہمت گھڑی وہ تم میں سے ہی ہیں جن کا ایک منظم گروہ ہے۔ قرآن اس ذریعہ سے مسلمانوں کو بیدار کر رہا ہے کہ اس نکتہ کی جانب متوجہ رہو کہ تمہارے درمیان ایسے اشخاص اور گروہ موجود ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے مقاصد بہت خطرناک ہیں۔ یعنی قرآن یہ بات سمجھانا چاہتا ہے کہ جن اشخاص نے یہ تہمت گھڑی ہے انہوں نے غفلت، بے توجہی یا سہل انگاری کی بنا پر نہیں گھڑی بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے تہمت لگائی ہے۔ ان کا مقصد۔ نعوذ باللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آپ کا اعتبار جاتا رہے۔ البتہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ منظم گروہ تم میں سے ہی تھا۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا ’’شر‘‘ تھا جس کا نتیجہ ’’خیر‘‘ تھا۔ بلکہ درحقیقت یہ شر تھا ہی نہیں۔ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّالَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ‘‘۔ آپ خیال بھی نہ کریں کہ یہ برا واقعہ تھا۔ مسلمانوں کی شکست تھی، نہیں: بلکہ یہ واقعہ اپنی تمام تر تلخی کے باوجود ملتِ اسلامیہ کے فائدے میں تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے اس واقعہ کو ’’خیر‘‘ کیوں قرار دیا ہے، اسے ’’شر‘‘ کیوں نہیں قرار دیا، حالانکہ یہ داستان بہت ہی تلخ تھی؟ نبی اکرم کو العیاذ باللہ رسوا کرنے کے لئے ایک قصہ گھڑا گیا اور کئی دن (تقریباً چالیس دن) گزرنے کے بعد وحی نازل ہوئی اور تدریجاً حقائق سامنے آئے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس عرصہ میں پیغمبر اکرم اور آپ کے قرابت داروں پر کیا گزری! قرآن کریم دو وجوہات کی بناء پر اس واقعے کو خیر قرار دے رہا ہے۔
اول:۔ منافقین کا گروہ پہچانا گیا۔ ہر معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتا ہے کہ صفیں مشخص نہ ہوں، مومن اور منافق سب ایک ہی صف میں ہوں۔ جب تک حالات سازگار ہوں تب تک تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن جونہی معاشرے پر برا وقت آ پڑے تو پھر منافقین کی جانب سے اسے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جب معاشرے کو دھچکا لگتا ہے تو پھر اسرار ہویدا ہوتے ہیں اور امتحان کی گھڑی آتی ہے۔ مومنین ایمان والوں کی صف میں چلے جاتے ہیں اور منافقین کی منافقت کا نقاب الٹ جاتا ہے اور جس صف کے سزاوار ہوتے ہیں اس میں چلے جاتے ہیں۔ معاشرے کے حق میں یہ ایک بہت بڑی خیر (بھلائی) ہے۔
جن منافقین نے یہ داستان گھڑی تھی ان کے لئے قرآن کے الفاظ میں فقط ’’اثم‘‘ باقی رہ گیا ہے، ’’اثم‘‘ یعنی گناہ کا دھبہ۔ اس کے بعد زندگی بھر کے لئے ان کی ساکھ ختم ہو گئی۔
دوم یہ کہ قصہ گھڑنے والوں نے شعوری طور پر اس کو گھڑا تھا۔ لیکن عام مسلمان غیر شعوری طور پر ان کے آلہ کار بن گئے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت مومن ہی تھی۔ وہ مخلص اور ایماندار تھے۔ ان کی نیت بری نہیں تھی۔ وہ فقط نادانی اور بے توجہی کی بنا پر اس منظم گروہ کے نمائندے بن بیٹھے تھے۔ قرآن نے اس بات کی وضاحت بہت بہترین انداز میں کی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے اشخاص کا نادان ہونا اس معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر دشمن عیار ہو تو وہ ان اشخاص کو ان کے اپنے ہی خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ایک داستان اپنے پاس سے بنا لیتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اسے ایک شوشے کے طور پر ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے تاکہ وہ اشخاص ان کی گھڑی ہوئی بات کا ہر جگہ تذکرہ کریں۔ اس کا سبب نادانی ہے۔ معاشرے کے افراد کو اس حد تک نادان اور احمق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن کی گھڑی ہوئی باتوں کا تذکرہ ہر جگہ کرتے پھریں۔
اگر دشمن کوئی افواہ اڑاتا ہے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے شخص سے اس کا ذکر نہ کرو اور بات کو اسی جگہ دفن کر دو۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی افواہ کو ہوا ملے، وہ مشہور ہو جائے۔ لیکن تمہیں چاہئے کہ اس قلع قمع کر دو۔ کسی ایک آدمی سے بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ تمہاری اس خاموشی سے دشمن کی آرزو پر پانی پھر جائے گا۔
اس داستان کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی غلطی کا پتہ چل گیا۔ یعنی جو بات ایک منظم گروہ نے گھڑی تھی اسے انہوں نے سادہ لوحی سے سن لیا اور اس کے بعد جب آپس میں ملتے تو ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ میں نے ایسی بات سنی ہے۔ دوسرا کہتا میں نے بھی سنی ہے۔ کوئی کہتا کہ مجھے حقیقت کا تو علم نہیں ہے، حقیقت کا علم تو خدا کے پاس ہی ہے۔ البتہ یہ بات سنی تو میں نے بھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرہ اپنی سادہ لوحی اور نادانی کے باعث چند آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کا آلۂ کار بن کر رہ گیا۔
داستانِ افک مسلمانوں کی بیداری کا موجب بنی۔ سب مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ ایک جانب تو انہوں نے اس گروہ کو پہچان لیا اور دوسری طرف ان کو اپنے بارے میں آگاہی ہوئی (پھر ان کو افسوس ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگے) کہ ہم نے اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کیوں کیا، ہم ان کے آلہ کار کیوں بن گئے؟
میرا ایک بہت پرانا دوست ہے۔ اس کا گھر یہاں سے بہت دور ہے۔ میں یہاں اس کے محلے کا نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ اتنی دور سے یہاں آیا۔ جب تفسیر کا درس ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا تو اس نے مجھے اپنی کار پر سوار ہونے کے لئے کہا۔ راستے میں اس نے کہا: ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟ میں نے سنا تھا کہ الجواد مسجد میں اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ نہیں کہتے۔ تو میں نے سوچا کہ آج جا کر دیکھ آؤں کہ کیا واقعی نہیں کہتے۔‘‘ میں نے جواب دیا کہ خدا تمہارا بھلا کرے تم نے کم از کم اتنا تو کیا کہ دیکھنے کو آ گئے۔
اب مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ‘‘ نہیں کہا جاتا، دوسرا شخص بھی کہے گا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ‘‘ نہیں کہا جاتا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ سب لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم نے سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ‘‘ نہیں کہا جاتا! اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ جب بھی تم ایسی بات سنو تو اسے اپنی زبان پر نہ لاؤ۔ اگر تمہیں فکر ہے تو خود تحقیق کرو۔ جب تم میں تحقیق کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے تو پھر اس بات کا ہر جگہ تذکرہ کیوں کرتے ہو؟ تم کو اس کا تذکرہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے… اس دیہات کے آدھے لوگ یہودی تھے اور آدھے مسلمان۔ اس گاؤں سے چتل تک دو فرسخ کا فاصلہ تھا۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ چتل ہمارا ہے۔ اسے ہم نے بنایا ہے۔ یہ ہمارا مزار ہے۔ جبکہ مسلمان کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے کیونکہ اس کا مینار ہے۔ اس بات پر ان کے درمیان کئی لڑائیاں بھی ہوئیں جن میں بعض افراد زخمی ہوئے اور بعض مارے گئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار ہے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار نہیں ہے اور ان میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ دو فرسخ چل کر دیکھ آئیں کہ اس کا مینار ہے یا نہیں۔
) داستان افک کا) دوسرا فائدہ یہی تھا کہ اس نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور قرآن میں اس کو بیان کیا تاکہ ابد تک باقی رہے، لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اے مسلمانو! تم نادانی کی بناء پر دشمن کا آلہ کار نہ بنا کرو۔ دشمنوں کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا اپنی جہالت کی وجہ سے نہ کیا کرو۔ خدا جانتا ہے کہ یہودیوں اور ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے بہائیوں نے ایسی کتنی ہی داستانیں گھڑی ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ یہودیوں یا عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر لگائی جانے والی تہمت نے اس قدر شہرت پکڑی کہ بتدریج اس کا تذکرہ کتابوں میں ہونے لگا اور بعد کو اس تہمت کو اس قدر مسلم فرض کیا گیا کہ مسلمان بھی اس پر یقین کرنے لگے۔ مثلاً اسکندریہ کی کتاب سوزی کی داستان۔ سکندر نے مشرق میں آنے اور مصر، ایران اور ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس جگہ ایک شہر بنایا جس کا نام ’’اسکندریہ‘‘ رکھا گیا۔ بعض علماء وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک لائبریری بنائی۔ وہ لائبریری درحقیقت ایک مدرسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس میں بہت زیادہ کتابیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب مسلمانوں کی تاریخ بلکہ عیسائیت کی تاریخ نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو دو تین مرتبہ لوٹا اور نذر آتش کیا گیا۔ جب مشرقی روم کا بادشاہ عیسائیت کی جانب مائل ہوا تو چونکہ وہ فلسفہ کو عیسائیت کے خلاف سمجھتا تھا اس لئے اس نے اسکندریہ کے مرکز کو تباہ کر دیا۔ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ سات ہزار فلاسفہ نے ایران (انوشیروان کے دربار) میں آ کر پناہ لی۔ لائبریری نہ بچ سکی۔ دورِ حاضر میں ویل ڈیورنٹ جیسے مؤرخین نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو چند مرتبہ نقصان پہنچا۔ جب مسلمان اسکندریہ میں داخل ہوئے اس وقت اس لائبریری کا وجود ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب مسلم اور عیسائی مورخین نے مسلمانوں کی ایران، مصر اور دوسرے مقامات کی فتوحات کے واقعات کی جزئیات کو تحریر کیا ہے۔ خصوصاً فتح اسکندریہ کے واقعات کی جزئیات کو عیسائی مورخین نے بھی تحریر کیا ہے۔ بعد کو جب دوسری اور تیسری صدی میں تاریخِ یعقوبی، تاریخِ طبری اور فتوح البلدان جیسی عظیم کتابیں (ان کتابوں کا تعلق اسلام کی ابتدائی صدیوں سے ہے اور ان کا سلسلۂ اسناد بھی منظم و مرتب ہے) تحریر کی گئیں تو کسی ایک مورخ نے بھی تحریر نہیں کیا کہ اس وقت اسکندریہ میں کوئی لائبریری موجود تھی جسے مسلمانوں نے نذرِ آتش کر دیا ہو۔ ویل ڈیورنٹ رقمطراز ہے: ’’اس زمانے میں ایک پادری اسکندریہ میں سکونت پذیر تھا۔ اس نے فتحِ اسکندریہ کے واقعات کی تمام جزئیات تحریر کی ہیں۔ اس کی کتاب اب بھی ہماری دسترس میں ہے اس نے کسی کتاب سوزی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘
چھٹی صدی ہجری کے اواخر (یعنی چھ سو سال بعد) اور ساتویں صدی ہجری میں دو شخص، جو کہ مورخ بھی نہیں تھے، عیسائی تھی۔ انہوں نے عیسائیت کے دامن کو اس تہمت کے دھبہ سے پاک کرنے کے لئے کسی کتاب کا ریفرنس دیئے بغیر کہا: ’’عمرو بن عاص جب اسکندریہ میں داخل ہوا تو اس نے وہاں ایک بہت بڑی لائبریری دیکھی۔ اس نے خلیفہ کو خط لکھ بھیجا کہ ہم اس لائبریری کا کیا کریں؟
’’خلیفہ نے جواب دیا کہ ان کتابوں میں جو مطالب درج ہیں وہ یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن کافی ہے، یا قرآن کے خلاف ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے تمام کتابوں کو نذر آتش کر دو تو عمرو بن عاص نے تمام کتابوں کو جلا دیا۔ بعد کو آٹھوں و نویں صدی میں آہستہ آہستہ مسلمانوں نے خود بھی ان جعلی کتابوں سے اسی داستان کو نقل کیا۔ مسلمانوں نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی کہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ابتدائی صدیوں کے مورخین اس کو بیان کرتے ہیں۔‘‘
اس داستان کے غلط ہونے کی بہت سی ادلہ ہیں۔ اگر ان سب کو بیان کروں تو پھر ہم اصلی بحث سے دور ہو جائیں گے۔ میں نے ایک مرتبہ ’’کتاب سوزیِ اسکندریہ‘‘ کے موضوع پر تین تقریریں کر کے ثابت کیا تھا کہ یہ داستان سراسر جھوٹی ہے، شبلی نعمانی نے بھی اس موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔ محققین، علماء اور مورخین کو اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنوں اور ان کے گماشتوں نے جانتے ہوئے اور مسلمانوں نے نادانی کی بناء پر، اس واقعہ کو کتابوں میں نقل کیا ہے اور نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بی اے کی فلسفہ و منطق کی کتابوں میں جب قضیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے اسکندریہ لائبریری کے متعلق کہا تھا: ’’یہ کتابیں یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ یا قرآن کے خلاف ہیں، تو جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ پس ان کو جلا دو۔‘‘ کالجز کی کتابوں میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کا کام کتابوں کو نذرِ آتش کرنا تھا۔
شبلی نعمانی کا کہنا ہے: ’’انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا تسلط جما لیا تو انہوں نے وہاں ایسے مدارس قائم کئے جان کو وہ اپنے پروگرام کے مطابق چلاتے تھے۔ جب وہ منطق کی کتب میں قضیۂ حقیقیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے تو خاص طور پر اس بات کو مثال کے طور پر پیش کرتے تاکہ مسلمان اور ہندو بچوں کے اذہان میں یہ بات بٹھا سکیں کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو قدیم زمانہ سے ہی کتابوں کو نذر آتش کرتی رہی ہے۔‘‘ (یہ بات شبلی نعمانی نے کی ہے۔ میں نے جب بعد کو اپنے کالجز کی کتابوں میں اسی بات کو بعینہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ کام انگریزوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا ہے) ۔ بعد کو میں نے دیکھا کہ ایران کے کالجز کی کتب میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے اور ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کوئی مستند حوالہ بھی ہے یا نہیں، ہر جگہ اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ اور اب یہ بات اس حد تک مشہور ہو چکی ہے کہ اگر ہم کسی جگہ یہ کہیں کہ یہ واقعہ غلط ہے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ وہ تعجب آمیز لہجے میں کہتے ہیں: ’کیا کہا یہ واقعہ غلط ہے! ہمارے ذہن میں تو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ یہ واقعہ جھوٹ ہو ا۔‘‘ قرآن یہ جو کہہ رہا ہے کہ ’’لاَ تَحْسُبوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ لَّکُمْ ‘‘ تو حقیقت میں قرآن کہنا چاہتا ہے: ’’ اے مسلمانو! تم کو اس واقع سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ قرآن پڑھو۔ اس کی تفسیر کرو تاکہ اس سے نصیحت حاصل کرو اور دشمنوں کی اڑائی ہوئی افواہوں کی چرچا نہ کرتے پھرو۔‘‘
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیًٴ مِّنْھُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ۔‘‘ قرآن کہتا ہے کہ جن بدبختوں نے یہ داستان گھڑی تھی ان میں ہر ایک کے دامنِ کردار پر گناہ کا دھبہ لگ چکا ہے اور انہیں اس گناہ کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ گناہ کا سب سے زیادہ بوجھ ان میں سے ایک شخص کے کندھوں پر ہے۔ (یعنی عبداللہ ابن ابی، جسے عبداللہ ابی بن سلول بھی کہتے ہیں) ’’ وَالَّذِیْ تَوَلّیٰ کِبْرَہ مِنْھُمْ لَہ عَذَابُ عَظِیمُ ‘‘۔ ان اشخاص میں سے کسی جس نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے خدا نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ دنیاوی بدنامی یعنی جب تک اس دنیا میں زندہ رہے گا منافقین کے سرغنہ کے نام سے پہچانا جائے گا کے علاوہ آخرت میں خدا اس کو بڑے سخت عذاب سے دو چار کرے گا۔
لَوْلَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْراً ۔‘‘
اس بات کو قرآن ان الفاظ میں بھی ادا کر سکتا تھا کہ جب تم نے یہ داستان سنی تو اپنے بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟ اگر قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا تو یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ قرآن اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا: ’’تم نے اپنے مومن بہن بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟‘‘ بلکہ وہ ارشاد فرما رہا ہے: ’’تم نے اپنے بارے میں برا گمان کیوں کیا؟‘‘ یعنی اس بات کی طرف متوجہ رہو کہ تم ایک ہی پیکر ہو، مولانا جلال الدین رومی کے بقول ’’نفسِ واحدہ‘‘ ہو۔ ’’مؤمنان ہستند نفسِ واحدہ‘‘۔ تمام مسلمانوں اور مؤمنین کو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ سب ایک ہی پیکر کے اعضاء ہیں۔ اگر کسی مؤمن پر تہمت لگائی جا رہی ہو تو دوسرے مسلمان سمجھیں کہ وہ تہمت ان کی ذات پر لگائی جا رہی ہے۔ پس ایک نکتہ اس مقام پر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ تم نے اپنے مؤمن بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا، یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ یعنی مسلمانوں کے درمیان ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس کے کسی بھی دوسرے مسلمان بھائی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور دوسرے مسلمان بھائی کی آبرو اس کی اپنی آبرو ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ’’تم‘‘ نے کیوں اچھا گمان نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا۔؟
اولاً۔ یہاں عورت و مرد دونوں کا ایک جگہ ذکر کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ ان میں فرق نہیں ہے۔
ثانیاً: ایمان کو خصوصی طور پر ذکر کر رہا ہے۔ یعنی قرآن بتانا چاہتا ہے کہ وحدت اور اتحاد کا معیار ایمان ہے۔ مؤمنین اس لئے نفسِ واحدہ ہیں کیونکہ وہ مؤمن ہیں۔ یعنی اس مقام پر قرآن اتحاد کے معیار کو بھی بیان کر رہا ہے۔ درحقیقت قرآن کہنا چاہتا ہے:
’’اے ایمان لانے والے مردو اور ایمان لانے والی عورت! اگر تم پر اس قسم کی تہمت لگائی جاتی تو کیا تم اس تہمت کا چرچا کرنے پر تیار ہوتے؟ جس محفل میں بیٹھتے کیا اس میں بیان کرتے کہ مجھ پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ لوگ میرے متعلق ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ کیا کبھی تم اپنے متعلق ایسی باتیں کرتے؟ اگر تمہارے اپنے متعلق اس قسم کی باتیں ہوں تو تم فوراً سمجھ جاتے ہو کہ تم کو خاموشی سے کام لینا چاہئے اور لوگوں نے جو جھوٹی تہمت تم پر لگائی ہو تم کو اس کا چرچا نہیں کرنا چاہئے۔ تو اب اپنے مؤمن بہن بھائیوں پر لائی جانے والی تہمت سن کر تم اسی طرح خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لیتے جس طرح تم اپنے اوپر لگائی جانے والی تہمت سن کر اختیار کر لیتے ہو۔‘‘
لَوْ لَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمَؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِھمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ۔‘‘
جب تم ایمان والوں نے سنا تو مومنین نے اپنے متعلق اچھا گمان کیوں نہ کیا؟ انہوں نے یہ داستان سنتے ہی کیوں نہ کہا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے؟ نبی اکرم نے ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک خاموشی اختیا ر کی۔ غافل مسلمان بجائے اس کے کہ پہلے دن ہی کہہ دیتے ’’ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘ یہ واضح جھوٹ ہے، وہ مزے مزے لے لے کر اس داستان کو ایک دوسرے سے بیان کرتے۔ جس محفل میں بیٹھتے یہی کہتے: ’’ہم نے اس طرح سنا ہے‘‘۔ اور اپنی ہر محفل میں اس جعلی داستان ہی کو اپنی بحث و گفتگو کا موضوع قرار دیتے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہیں پہلے دن ہی کہنا چاہئے تھا ’’ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ اب اس کے بعد آگاہ رہو۔ ایسے جھوٹ جو تم میں سے بعض افراد گھڑ لیتے ہیں ان کو سنتے ہی کہو ’’ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘۔
لَوْلاَ جَآ ءُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃ شُھَدَآءَ فَاِذْ لَمْ یاْ تُوْا بِالشُّھَدَآءِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکَاذِبُوْنَ ۔ (سُورۂ نُور، آیت ۱۳(
تمہارے کام اصول و قوانین کے تحت ہیں۔ اسلام نے تم پر فرض عائد کیا ہے۔ شرعاً تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان پر لگائی جانے والی ایسی تہمت سنو جو شرعی طریقے سے ثابت نہ ہوئی ہو، تو فوراً کہو کہ یہ جھوٹ ہے۔ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے۔ اور اس جملہ (خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق یہ جھوٹ ہے۔
ذمہ داری بہت واضح ہے۔ اب کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص یا ادارے کے متعلق کوئی بات کرے تو ہم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خاموش رہیں؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ یہ کہیں کہ ’’ہمیں حقیقت کا علم نہیں ہے۔ خدا ہی جانتا ہے‘‘؟ مجھے کیا خبر، ممکن ہے یہ بات درست ہو، ممکن ہے غلط ہو‘‘؟ کیا ہماری ڈیوٹی یہ ہے کہ ہم اپنی محافل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کریں اور کہیں: ’’لوگ یوں کہتے ہیں۔‘‘ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے تب تک یہ کہیں کہ یہ واقعہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ جب شرعی طور پر ثابت ہو جائے اور ہمیں یقین ہو جائے، مثلاً چار عادل زنا کی گواہی دیں یا زنا کے علاوہ کسی دوسرے کام کی گواہی دو عادل دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا کہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ (یہ شرعی گواہی ہے) تو اس وقت ہماری ذمہ داری بدل جاتی ہے۔ جب تک شرعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک ہمیں اس واقعہ کے تذکرہ کا حق نہیں پہنچتا او نہ ہی یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ’’شاید یہ واقعہ صحیح ہو، شاید غلط ہو۔‘‘ بلکہ اس قسم کی داستان سن کر ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہاں جب شرعی ثبوت مل جائے تو اس وقت ہمارا فریضہ ہے کہ مقابلہ کریں۔ البتہ ہر موقع پر ہم پر کوئی فرض عائد ہوتا ہے۔ بعض برائیوں کا مقابلہ ہمیں کرنا چاہئے اور بعض مسائل مثلاً زنا کے بارے میں، حاکم ِ شرع کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اے ایمان والو تم اس داستان کا چرچا کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گئے ہو۔ لیکن خدا نے تمہارا یہ گناہ معاف کر دیا ہے۔ اب بیدار رہنا۔ آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرنا۔ ’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ۔‘‘ اگر دنیا و آخرت میں تم پر خدا کا فضل نہ ہوتا ’’لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابُ عَظِیْمُ ‘‘ تو تمہاری ان بے سروپا باتوں کی وجہ سے خدا کی جانب سے دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل ہوتا۔ یہ فقط خدا کا فضل ہی تھا جس نے تم کو اس عذاب سے بچا لیا۔ پس اب متوجہ رہو اور اب کے بعد ایسا کام نہ کرنا۔ کونسا گناہ اور افاضہ؟ ہم کس چیز میں غرق ہو چکے تھے اور کس چیز کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے؟ اِذُ تَلَقَّوْنَہ بِاَلْسِنَتِکُمْ‘‘ جب تم اس کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کرتے تھے وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّالَیْسَ لَکُمْ بِہ عِلْمُ ‘‘ تم ایسی بات کرتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا اور چونکہ تم اسے نہیں جانتے تھے وَتَحْسَبُوْنَہ ھَیِّنًا اس لئے اسے معمولی بات خیال کرتے تھے ، وَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمُ حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔ مسلمانوں کی آبرو کا مسئلہ ہے اور اس مقام پر خصوصاً پیغمبر کا مسئلہ ہے۔ وَلَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُ الَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا جب تم نے اس کو سنا تو کیوں نہ کہا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اس کے بارے میں کلام کریں۔ ہمیں اس کے تذکرہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ (بلکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ہم کو منفی بات کرنی چاہئے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو ہمیں کہنا چاہئے کہ یہ جھوٹ ہے۔ نہ صرف یہ کہ مثبت بات نہ کریں اور اس کو مشہور نہ کریں بلکہ ہمیں چاہئے کہ منفی بات کریں۔ یعنی دوسروں کے جواب میں کہیں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، جھوٹ ہے۔ اس مطلب کو خدا دوسرے جملے میں بیان فرما رہا ہے) تمہیں کہنا چاہئے تھا ’’مَایَکُوْنَ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَآ۔ ہمیں اس کے متعلق گفتگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بلکہ سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانُ عَظِیْمُ ‘‘ ہمارا فریضہ ہے کہ کہیں کہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ باندھا اور تہمت لگائی گئی ہے۔ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٓ اَبَدًا۔‘‘ خدا مسلمانوں کو موعظہ فرما رہا ہے کہ خبردار دوبارہ کبھی بھی اس قسم کی کوئی غلطی نہ کرنا۔ اب قیامت تک متوجہ رہنا اور کبھی بھی کسی گروہ کا آلۂ کار نہ بننا۔ دشمنوں نے تمہارے خلاف جو باتیں گھڑی ہیں ان کا چرچا نہ کرنا۔ وَیُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ الْاٰیَاتِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ حَکیْمُ ‘‘ اللہ تم سے اپنے احکام کو کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ اس نے حکمت کی اساس پر ہی یہ آیات تمہارے لئے نازل کی ہیں۔
کتبِ حدیث میں ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم اہلِ بدعت کو دیکھو تو ان کا مقابلہ کرو۔ بدعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دینِ خدا میں ایسی چیز شامل کر دے جو دین میں موجود نہ ہو، یعنی ایک من گھڑت بات کو دین سے منسوب کرنا۔ بدعت کی مخالفت کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ مثلاً صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ آپ جب بھی صلوات پڑھیں گے تو آپ کے اس عمل (صلوات) کو مستحب شمار کیا جائے گا۔ فرض کریں ایک خطیب تقریر کے دوران اپنی تھکن دور کرنے کے لئے سامعین سے صلوات پڑھنے کو کہتا ہے تو یہ ایک پسندیدہ اور اچھا کام ہے۔ لیکن اگر آپ خیال کریں کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھا کریں اور آپ اسلام کا حکم بجا لانے کی نیت سے صلوات پڑھیں گے تو یہ بدعت ہو گی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
ہم (ایرانیوں) میں ایک عادت پائی جاتی ہے جس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو صلوات پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صلوات جب بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ لیکن ایران میں اس کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ایران میں چونکہ آتش کی پرستش کی جاتی رہی ہے، آگ کا احترام کرنے کا رواج رہا ہے، اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری اس صلوات میں آتش کی تعظیم و تکریم کے وہ جذبات بھی شامل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ نماز کے ہنگام آپ کی توجہ خدا کی جانب ہونی چاہئے۔ اگر آپ کے روبرو کوئی شخص ہو تو آپ کی نماز مکروہ ہے کیونکہ اس سے آدم پرستی کی بو آتی ہے۔ تصویر کے بالمقابل نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے شکل پرستی کی بو آتی ہے۔ چراغ کے روبرو نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ اس لئے اب جب چراغ جلایا جائے تو صلوات نہ پڑھا کریں کیونکہ ا س سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں کو ’’بدعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
بہت سی چیزیں بدعت ہیں اور لوگوں، خصوصاً عورتوں کے مابین ان کا رواج ہے۔ مثلاً ابودرداء کی نیاز۔ منگل کے دن بی بی کی نیاز۔ حضرت عباس کا لنگر۔ اسلام میں ایسی چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام میں حضرت عباس کے لنگر کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کوئی نیک کام کریں مثلاً فقراء کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب نبی اکرم پر نثار کریں، امیرالمومنین پر نثار کریں، فاطمہ زہرا پر نثار کریں، امام حسن، امام حسین یا کسی بھی امام پر نثار کریں، یا حضرت عباس پر نثار کریں۔ اگر آپ اس ثواب کو اپنے رفتگان میں سے کسی پر نثار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں دسترخوان لگائیں بشرطیکہ زنانہ انداب و رسومات جو عورتوں نے خود سے گھڑ لئے ہیں (مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون کونسے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کو اسلامی آداب سمجھ کر بجا لائے تو یہ بدعت بن جاتے ہیں) ترک کر دیں۔ اگر اس میں کسی مسلمان کو کھانا کھلائیں، خصوصاً مسلمان محتاجوں کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب حضرت عباس کو ہدیہ کر دیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ان افعال کو آداب و رسومات کے ساتھ اس خیال سے انجام دیا جائے کہ یہ بھی اسلام کا حصہ ہیں تو یہ بدعت اور حرام ہوں گے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں علی ابن محمد بابویہ کی طرح امامِ زمانؓ کا خاص نائب ہوں تو اس کو ’’اہلِ بدعت‘‘ کہا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ ’اہلِ بدعت‘‘ کی مخالفت کرو۔ عالم پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بدعت سے نبرد آزما ہو۔ اسے خاموش رہنے کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں ’’وَباَھِتُوْ ھُمْ‘‘ یعنی ان کو مبہوت کر دو، ان کو رسوا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ مناظرہ کر کے ان کی دلیلوں کو باطل ثابت کرو۔ ’’فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ‘‘ جس طرح ابراہیم نے اپنے زمانہ کے کافر (فرعون) کو مبہوت کیا تھا۔ اسی طرح تم بھی ان کو مبہوت کرو۔ کم عمل رکھنے والے بعض افراد نے ’’باھتوھم‘‘ کا معنی کیا ہے کہ ’’ان پر تہمت لگاؤ اور ان سے جھوٹی بات منسوب کرو۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اہلِ بدعت خدا کے دشمن ہیں اس لئے ان پر تہمت لگانا جائز ہے۔ جس کے ساتھ بھی ان افراد کی ذاتی دشمنی ہو اس کو ملعون و اہلِ بدعت قرار دے دیتے ہیں، صغریٰ و کبریٰ تشکیل دینے کے بعد غلط باتوں کو منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ حضرات توجہ کریں کہ جو معاشرہ اپنے ذاتی اور شخصی دشمنوں کو اہلِ بدعت قرار دینے جیسے مرض میں مبتلاء ہو گیا ہو اور ’’بَاھِتُوْھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان پر تہمت لگاؤ‘‘ کرتا ہو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہو گا۔ اور اس وقت آپ دیکھیں گے کہ دھڑادھڑ جھوٹ گھڑے جا رہ یہیں۔ ایک مرتبہ ایک عالم (عالم سے بھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے) میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے کہ فلاں شخص (وہ ایسا شخص تھا جو پورے طور پر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہے) العیاذ باللّٰہ، اس بات کو بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، لیکن چونکہ موعظہ ہے اس لئے بیان کر رہا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بگڑ چکا ہے۔ تو اس عالم نے کسی سے سنا تھا وہ عالم خود بہت نیک اور پارسا ہے۔ اس نے کہا کہ فلاں شخص نے کہا ہے کہ کتنا ہی اچھا ہوا۔ نعوذ باللہ۔ کہ حضرت فاطمہؓ کا بیٹا محسن سقط ہو گیا کیونکہ اگر وہ بھی زندہ رہتا تو اسلام کے لئے کئی مصیبتیں کھڑی کرتا! میں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ مسلمان ہے میں اسے قریب سے جانتا ہوں۔ جب وہ اَئمہؓ کے مصائب سنتا ہے تو اس کے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
غور کیجئے کہ کس قدر ایک دوسرے پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں اور جس معاشرے کا کام ہی دروغ گوئی اور تہمت لگانا ہو خدا نے اس کو عذاب دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بعد کی آیت یہ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔ (سُورۂ نُور، آیت ۱۹)
source : http://rizvia.net