خداوند تبارک تعالیٰ نے معصومین ، انبیاء ، ائمہ اطہار اور بعض غیر معصوم شخصیات کو انسان کے لئے بعنوان اسوۂ مقرر کیا ہے اوریہ حیثیت دیگر عناوین اور مناصب مثلاًامامت اور رسالت سے الگ ایک حیثیت ہے جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایاہے۔
الہٰی اسو ے
الٰہی اسوے امت کے لئے ایک دروازہ ہے تاکہ امت اس باب کے ذریعے اس شخصیت سے متصل ہو جسے خدا نے اسوۂ مقرر کیا ہے۔
قرآن مجید میں دو شخصیات کو صراحت سے اسوہ ٔکہا گیا ہے، پیغمبر اکرم ۖ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ـ لیکن روایات میں تقریباً تمام معصومین کے لئے یہ تعبیر موجود ہے اور اسی طرح خاندان اہل بیت میں سے غیر معصومین شخصیات کے لئے بھی یہ تعبیریں موجود ہیں از جملہ حضرت زینب مسلماً پوری بشریت اور انسانیت کے لئے ایک الہٰی اسوۂ ہیں نہ کہ فقط خواتین کے لئے، اگر ہم یہ کہیںکہ حضرت زینب فقط خواتین کے لئے اسوۂ ہیں تو یہ آپ کی شخصیت کے سلسلے میں بہت کوتاہ اور محدود نظر ہے۔
حضرت زینب تمام بشریت اور انسانیت کے لئے ایک جامع اسوہ ٔ ہیں جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ حضرت زینب کو خداوند تبارک تعالیٰ کی جانب سے جو توفیقات، علوم، فضائل اور کمالات نصیب ہوئے ہیں کسی انسان کو بہت کم اس طرح کی توفیقات نصیب ہوئی ہیں آپ کو جو کچھ عطا کیا اس کا امتحان بھی ہوا ہے یہ فقط ادّعا نہیں بلکہ حقیقتاً حضرت زینب ممتحنہ یعنی آزمائش شدہ اور امتحان دی ہوئی بی بی ہیں۔ اس بی بی نے امتحان دے کر اپنے کمالات کو ثابت کیا ہے۔ آزمائشوں اور بلاؤں سے گزری ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ـ ایک قرآنی اسوۂ ہیں لیکن اسوۂ ممتحن، خدا نے ابراہیم ـ کو آزمائشوں میں رکھا
'' وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…'' (بقرہ١٢٤)
اسی طرح حضرت زینب ایک ممتحنہ اسوۂ ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سیدہ زہرا کے القابات میں سے ایک لقب ممتحنہ ہے یعنی انہوںنے امتحان دیا ہوا اور آزمائشوں سے گزری ہوئی ہیںجیسا کہ ہم بعض چیزوں پر اعتماد کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ مجرب اور امتحان شدہ چیز ہے اسی طرح حضرت زینب نے اپنے کمالات و فضائل کا باقاعدہ طور پر امتحان دیا ہے اور اس امتحان میں اعلیٰ درجہ سے قبول ہوئی ہیں ۔ یہ بہت مہم ہے کہ امتحان دیا تو خداکے نزدیک اس میں اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں
''… ِإِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ '' (مائدہ٢٧)
خدا فقط متقین سے قبول کرتاہے۔ امتحان کی توفیق لے لینا اتنا مہم نہیں ہے لیکن اس توفیق کے بعد امتحان دے کر قبول ہوجانا واقعاً مہم ہے ۔ حضرت زینب یعنی عصمت صغریٰ اپنی والدہ ٔ مکرمہ یعنی عصمت کبریٰ کی مانند ممتحنہ ہیں اور دونوں ماں بیٹی امتحان دے کر اس میں قبول ہوئی ہیں۔
ضروری ہے کہ یہ اسوے متعارف ہوں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں کم ہیں، اس لئے کہ معصومین اور اولیاء اللہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سارے عوامل کی وجہ سے مسکوت اور فراموش شدہ رہا ہے۔ اس اسوائیت کے پہلو کو احیاء اور زندہ کرنا ہے۔
الحمد للہ، دین اور خصوصاً حضرات معصومین و اولیاء اللہ سے متعلق بہت سارے پہلو زندہ ہیں لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جو فراموش شدہ ہیں۔ ابھی انسان بیدار نہیں ہو ا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف بھی ملتفت ہو مثلاً امیر المؤمنین ـ کی شخصیت سے متعلق بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی فراموش شدہ ہیں جن کی طرف ابھی توجہ بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں سمجھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کوسمجھنے کے لئے جو ضروری شعور چاہیے وہ ابھی بیدار نہیں ہے۔
بقول شاعر :
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
یعنی واقعاً زمانہ منتظر ہے کہ انسانیت بیدار ہوجائے تاکہ ان اسوئوں کو پہچانے ، امام حسین ـ کو پہچانے، حضرت زینب کو پہچانے، کربلا اور کربلا کے اسوئوں کو پہچانیں ، اس کے علاوہ اور باقی تمام اسوات کہ پہنچانیں۔
یہ شناخت اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ فراموشی انسانیت کے ضرر میں ہے ، نہ کہ ان شخصیتوں کے ضرر میں ہے۔ ان کی اسوائیت کا پہلو اگر اسی طرح مسکوت و فراموش شدہ رہا تو نسلو ںکی نسلیں خسارے میں گزرتی جائیں گی۔ نسلیں اپنی عمریں گزار کر قبرستان کا رخ کرتی جائیں گی اور نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ اس نسل کی بات ہے جس کے پاس ذخیرہ موجود ہے ورنہ بعض ایسی قومیں اور نسلیں ہیں جن کے پاس دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً آپ یونان میں جاکر دیکھیں تو وہاں اسطوروں اور افسانوی شخصیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ کسی قوم ، مذہب اور ثقافت کے لئے بہت بڑا قحط ہے کہ اس کے پاس اسوۂ موجود نہ ہو ، اسوۂ کے بجائے اس کے پاس اسطورہ ہو تاکہ اسوؤں کی خلا کو اسطوروں سے پُر کرے یا مثلاً ہندوستان کی ہندؤ تہذیب میں اسوے نہیں ہیں ، اسطورے ہیں اور وہ اسطورے ایسے ہیں جن کا انسان سے کوئی ربط نہیں ہے ، وہ فقط تقدیس اور تخیل میں رکھنے کے لئے ہیں ورنہ ان سے انسان کا کوئی عملی تعلق نہیں، وہ انسان کے لئے راہنما نہیں ہیں اور انسان انہیں اسوۂ کے بجائے اپنے تخیّل میں ایک مافوق بشر و مافوق طبیعت مخلوق فرض کرکے اپنی زندگی کی بعض خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہاں پر انسان کی پیروی کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس طرح کی تہذیبوں کے اسطورے اس لئے نہیں ہیں کہ بشر ان کے نقش قدم پر چلے بلکہ بشر کے ساتھ ان کی سرے سے کوئی سنخیت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہیں کہ بشر ان کے نام پر قربانیاں دیتا رہے، ان سے ڈرتا اور خوف کھاتا رہے، ان کی تقدیس و ثناء کرتا رہے، نہ کہ ان سے کچھ سیکھے۔یہ اسطورے ان کے لئے معلم نہیں ہیں ، ان سے وہ کچھ سیکھتے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کچھ بتا سکتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ان کا بنایا ہوا کوئی ایسانظام ہے جسے بشر اپنا سکے بلکہ وہ خود نظام سے باہر ہیں۔ ان پر کسی طرح کا کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، وہ مافوق قانون ہیں۔ یہ کسی بھی قوم و مکتب کے لئے ایک بڑا قحط ہے۔
اس حوالے سے اسلام اور خصوصاً اسلام کی امامی تفسیر یعنی تشیّع بہت غنی ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے ۔ تشیّع میں اسوۂ کے لحاظ سے اس قدر فراوان سرمایہ ہے کہ اگر ہم اس کی طرف متوجہ ہوجائیں کہ ہمارے پاس کیا عظیم سرمایہ ہے تو شاید سنبھال بھی نہ سکیں، پھر اس کے بعد کی منزل ہے کہ ہم اس سرمایہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسے متعارف کرائیں۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں ہمارے پاس کیا موجود ہے اور یہ ہمار اقصور ہے کہ ہم نہ اسے سمجھ سکے ہیں اور نہ دوسروں کو بتا سکے ہیں۔ لوگوں نے اسطورے کو زیادہ بہتر طریقے سے متعارف کرایاہے اور ہم اسوے نہیں متعارف کر اسکے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے افسانے زیادہ پھیلائے ہیں اور ہم حقائق نہیں پھیلا سکے، یہ عجائب روزگار میں سے ہے کہ لوگوں نے دنیا میں تخیّل زیادہ ترویج کیا ہے اور ہم تعقل کونہیں رائج کرسکے بلکہ ممکن ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی اسی کا شکار ہوجائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ جس ثقافت میں اسطورے زیادہ ہیں وہ بہتر ہے اور اسطورہ سازی کی طرف تمایل پیدا کرلیں، لہٰذا ہم اپنے اسوؤں کو بھی بعض اوقات اسطورہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسوۂ غیر از اسطورہ ہے ۔ جس کے پاس اسوۂ موجود ہو اس کو اسطورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسطورہ ان لوگوںکو چاہیے جن کے پاس اسوۂ نہ ہو۔ وہ اسوۂ کی خالی جگہ کو اسطورہ سے پُر کرتے ہیں جس طرح مثلاً اگر ایک جوان نے شادی نہ کی ہو تو وہ خیالی ازدواج کرتا ہے، اس کی خیالی ملکہ ہوتی ہے لیکن جس کے پاس بیوی بچے ہوں اس کو خیالی ملکہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کے پاس مکان ہو اس کو خیالی بلڈنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ خیالی بلڈنگیں وہ بناتا ہے جس کے پاس حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ انسان تخیّل کو ہمیشہ حقیقت کی جگہ بھرنے کے لئے لاتا ہے۔ اسطورہ یعنی'' تخیّلی شخصیات ''جو انسان کی خیال پردازی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اسطورہ بت کی طرح ہے جو انسان کی ایک خود ساختہ چیز ہے۔ اسطورہ پوری طرح مخلوق انسان ہے جیسے انسان اپنی بعض حسّوں کی تسکین کے لئے تشکیل دیتا ہے جبکہ اسوۂ انسان کی مخلوق نہیں ہے بلکہ انسان تابع اسوۂ ہے اس کے برعکس اسطورہ خود انسان کا تابع ہے کیونکہ آپ اسے جس طرح بنائیں گے وہ اسی طرح بنے گا لیکن اسوۂ ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہم اس طرح بنیں گے جس طرح اسوہ ٔ ہوگا پس جن کے پاس اسوہ ٔ ہو ان کواسطورہ بنانے کی ضرورت نہیںہے۔لیکن ہم افسانوی تہذیبوں ، مثلاً یونانی، ہندی اور قدیم ایرانی تہذیبوں سے زیادہ سروکار رکھنے اور ان سے زیادہ متأثر ہونے کی بنا پر انہیں کے اسطوروں سے متأثرہوئے ہیں اور اپنے حقائق کو چھوڑ دیا بلکہ اکثر اپنے حقائق کو اسطورہ کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
ہم بجائے اس کہ اپنے مکتب کا سرمایہ استخراج کرتے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے آج خودان اسوؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ آج عالم تشیّع ، عالم اسلام اور عالم بشریت ان اسوؤں کا محتاج ہے۔
اس وقت دنیاکا سب سے بڑا بحران اور المیہ کیا ہے؟دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد بحرانوں کا ذکر ہوتا ہے، کہیں سیاسی بحران ہے، کہیں اقتصادی بحران ہے،کہیں جنگ کا بحران ہے، کہیں پانی کابحران ہے لیکن یہ اصلی بحران نہیںہیں اس وقت اصلی بحران یہ ہے کہ انسانیت مسخ ہورہی ہے اور اس کے پاس کرامت و شرافت کاکائی نمونہ نہیں رہا، ایسی ضد انسانی اور ضد بشری تہذیبیں پھیلی ہیں جنہوں نے روح انسانیت کو ختم کردیا۔ آج دنیا سب سے زیادہ اس بات کی محتاج ہے کہ اس کے سامنے اسوے متعارف کرائے جائیں، لہٰذا آج وقت ہے کہ دوسروںکے سامنے اپنا سرمایہ پیش کریںاور آج مکتب کا جتنا زیادہ استقبال ہوگا اتنا کسی دور میں بھی ممکن نہیں تھا۔
بعض بزرگان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت انسان کے اندر ہردور سے زیادہ آمادگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس وقت خلاء سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسانوں کو سب سے زیادہ خلاء کا احساس ہوتا ہے۔ آج معنوی سرمائے کے فقدان کا احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے لیکن اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ہندو، بدھسٹ اور مسیحی پہنچ جاتا ہے یا اس کو بھرنے کے لئے موسیقاراور اس طرح دوسرے لوگ پہنچ جاتے ہیں، اس کو پُر کرنے کے لئے گمراہ فرقے وجود میں آرہے ہیں تاکہ اس معنوی خلاء کو پُر کریں، جعلی تصوف اور جعلی فرقے پیدا ہورہے ہیں جو انسان کی اس تشنگی سے سوء استفادہ کررہے ہیں اور اس کے سامنے ایک کاذب معنویت رکھ رہے ہیں، درحالیکہ تشیّع حقیقی معنویت کے سرمائے پُر ہے لیکن ضرورت ہے کہ اس سرمائے کو نکال کر دنیا کے سامنے اس زبان میں پیش کریںجو دنیا کو سمجھ میں آتی ہے ، ایسی زبان میںنہ پیش کریں جس سے لوگ نابلد ہوںِ خصوصاً ان اسوؤں کو پیش کریںجو خاص بحرانوں میںنکھرکر سامنے آتے ہیں جیسے حضرت زینب کا اسوۂ۔
آج تقریباً وہی المیہ دوبارہ تکرار ہورہاہے جو سن ٦١ ہجری میں کوفہ میں نظر آیا تھا۔آج پوراجہان ایک کوفہ کا سماں بناہوا ہے، اس میںکوفی کی تمام صفات موجود ہیں فقط ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے۔ اس بازار کوفہ میں فقط ایک خطبہ زینبی کی کمی ہے۔ باقی ساری چیزیں شبیہ کوفہ ہیں۔ بعض اہل فکر شعراء نے اس کمی کومحسوس کیا ہے کہ آج زمانہ کس چیز کا محتاج ہے؟
یہ زمانہ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الّا اللہ
قافلہ حجاز میں اک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
یہ احساس خلاء ہے اور یہاں پرکسی کو ہو نا چا ہیے کہ آج کر بلا و نجف اور عراق کے اسیروں کے قا فلے میں ایک اسوئہ زینبی کی کمی ہے جس کی وجہ سے تمام ذلت و رسوائی کا سماں پیدا ہو ا ہے کیونکہ وہاں ایک اسوئہ عزت موجود نہیں ہے۔
اسوئہ کی انسان پر تأثیر ہو تی ہے خواہ وہ اسوہ خود بن کر آئے یا دوسرے بنا کر پیش کر یں اور اگر آپ حقیقی اسوہ ٔکو لو گوں کے سا منے پیش نہیں کر یں گے تو دوسرے اسوہ بنا کر پیش کر یں گے ۔
اگرآج جہان اسلام کو عملی اسوئہ نہ ملا تو مغربی میڈیا اور اربابان سیاست خود عالم اسلام سے ایک اسوہ بنا کر دنیا کے سا منے پیش کر ے گی اور کہے گی کہ یہ آپ کے لئے منا سب اسوہ ہے جیسا کہ وہ اس کام میں مشغول بھی ہیں ۔
اگر ہم نے دینی اقدار اور دینی بنیا دوں پر ایک درست تعلیمی نظام تشکیل نہیں دیا تو تو خود آ کر ہما رے لئے یہ کام انجام دیں گے۔ آج تین اسلامی ممالک(سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان)میںامریکہ کا بنا ہوا اسلامی نصاب اجراہو چکاہے۔ ان تین ملکوں میں آج امر یکی ما ہر ین کی را ئے سے بنا ہوانصاب اسکو لوں ، کا لجوں حتی دینی مدرسوں میں چل رہا ہے دینی مدرسوں کادینی نصاب ا نہوں نے مشخص کیا ہے۔
اس طرح اگر مسلمانوں میں سیا سی بیداری نہیں آئی اور سیا سی مسا ئل کے لئے اگر خود مسلمانوں نے سیاسی رہنمااور سیاسی تنظیمیں نہیں بنا ئیں تو وہ خود بنا کر لا ئیں گے ، وہ خود صدر و وزیراعظم بنا کر مسلمانوں کے سا منے پیش کریں گے بلکہ ان پر تحمیل کر یں گے ۔ سیا سی جما عتیں ، سیاسی حزب اور سیاسی لیڈر بنا کر قوموں کے سا منے پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی جما عت ، یہ آپ کے لیڈر اور یہ آپ کے سیاست دان ہیں۔
جوچیز مسلمان خود نہیں بنا سکتے وہ اسے بنا کر دیں گے ۔ اگر مسلمان خود پارلیمنٹ تشکیل نہیں دے سکتے تو وہ آکر بنا کردیں گے اور بنا ر ہے ہیں اس طرح اگر مسلمان دین کی بنیادوں پر ایک تہذیب نہیں بنا سکتے تو وہ اپنے نقطہ نظرسے تہذیب بنا کر مسلمانوں کو پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی تہذیب ہے اور اس کو اپنا ئیں ، جس طرح اقتصادی دنیا میں ایسا ہی ہوا ہے ۔ ہم جو چیزیںنہیں بنا پا ئے وہ بنا کر پیک کر کے ہما رے با زاروں میں بھیج دیتے ہیں اور ہم ان سے خر ید لیتے ہیں ۔ اقتصادی دنیا میں یہ بات کسی حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن سیا سی ،معنوی، مذہبی اور تعلیمی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ جس طرح انہوں نے کا رخا نے لگا ئے ہیں اور ہما ری اقتصادی ضرورتوں کے مطابق ہر چیزکی بستہ بندی کر کے ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے تہذیب ،نظریات اور تعلیمی نظام بھی ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے ۔ اس وقت تمام اسلا می ممالک میں پسندیدہ ترین تعلیمی نظام ان کا بنا یا ہوا ہے۔ما نٹیسوری تعلیمی نظام برطا نوی اور امریکی طرز کا تعلیمی نظام ہے۔ یہ ان کے اسکولوں کی کا پی ہے متدین ترین لوگ بھی چا ہتے ہیں کہ ان کے بچے انہیں اسکولوں میں پڑھیں حتیٰ وہ علماء جو اپنے بچے کی تعلیم کا خرچ خمس و زکات اور بیت المال سے حاصل کر تے ہیں اسی سے ان بڑے بڑے اسکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں تا کہ ان کے بچے اس ما ڈل کے نظام میں جا کر پڑ ھیں۔
انہوں نے تعلیمی ماڈل طرز زندگی اور کلچر و ثقافت لا کر دیا تا کہ تم اس طرح زندگی بسر کرو ،اس طرح سے سو چواور اس طرح سے پڑھو۔انہوں نے ہمیں ہر چیز لا کر دی اورہم صرف ایک با زار مصرف اور منڈی میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔
ایک زمانے میں ایک شخصیت اسوۂ بن کر سامنے آجاتی ہے اور دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ نمونہ بننے کے لیے ایک شخصیت کو بہت طولانی راہ طے کرنی پڑتی ہے لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخصیت وہ طولانی راہ طے کرکے ایک منزل تک پہنچ جاتی ہے پھر آہستہ آہستہ تمام افراد لا شعوری طور پر اس جیسا انداز اپنانا شروع کر دیتے ہیں، لباس اس کے جیسا پہنتے ہیں، بات اس کے جیسی کرتے ہیں، محاورے اور جملے وہی استعمال کرتے ہیں جو اس کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اس متأخر زمانے میں ایسا ہوا کہ امام خمینی کی شخصیت اسوۂ مسلمین کے عنوان سے ابھر ی اور انہوں نے دیکھا ایک مدت تک اس اسوۂ کی تأثیر ہے یعنی اگر اس سطح کی شخصیت عالمی شہرت کے ساتھ متعارف ہوجائے تو لوگ اس کے افکار لینا شروع کردیتے ہیں، اس کی تصویریں لگانا شروع کردیتے ہیں، ہر جگہ اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس کی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا دشمنان دین اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کام اب خود شروع کردیا ہے یعنی وہ کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں اور دنیا کے لئے ایک خود ساختہ اسوۂ پیش کریں اور چونکہ طبقات مختلف ہیں لہٰذا ایک اسوۂ سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا یعنی ایک دینی اسوۂ دیندار اور بے دین سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ ہر شعبے اور ہر صنف کے لئے ایک خاص اسوۂ بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور یہ اسوۂ جس طرح سے ہو لوگ خود بخود اسی طرح سے ہوجائیں۔ لوگ اسی طرح سوچنا شروع کردیں اور اپنے آپ کو اسی قالب میں ڈھالنا شروع کردیں۔
لہذاآج ضرورت اس کی ہے کہ ہم خدا کی طرف سے بنائے ہوئے دینی اور اسلامی اسوات کو پیش کریں۔ یہ سرمایہ اسی دن کے لئے تھا۔ آج ان کاذب اسوؤں کے مقابلے میں صادق اسوؤں کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ آج اگر اقدار کی بنیادوں پر الہٰی اسوے پیش نہ ہوئے تو اقدار سے یہی اسوئے لوگوں کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے بلکہ پیش بھی کئے جا رہے ہیںاور ظاہر ہے کہ جب ایک اسوۂ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوجائے گا اور لوگ عملی طور پر اس کی پیروی کرناشروع کردیں گے پھر اس کو لوگوں سے لینا بہت مشکل ہے، کسی سے اسوۂ چھیننا بہت مشکل کام ہے، مثلاً بچوں اور جوانوں کو دیکھیں کہ وہ اگر بال کٹوانے میں کسی سے متأثر ہیں اور ایک مرتبہ اس جیسا بال بنانا شروع کردیا اور ہیراسٹائل (Hairstyle) میں اس کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب اس بچے کو روکنا بہت مشکل ہے۔ اگر لباس پہننے میں بچے نے کسی کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب یہ اسوۂ اس سے چھیننا بہت مشکل ہے۔ پس اس سے پہلے کہ کاذب ، جعلی، مصنوعی اور اقدار سے تہی بلکہ ضد اقدار اور خلاف اقدار اسوے متعارف کراکے ان کو پوری بشریت کی گمراہی کے لئے استعمال کیا جائے حق یہ بنتا ہے کہ ہم اپنا سرمایہ پیش کریں اور یہاں اگر یہ سرمایہ پیش نہیںہو اتو پوری انسانیت خسارے میں ہے۔ اگر ہم آج اس سرمائے کو نہیںپیش کر سکے تو پھر کب پیش کریں گے؟
آج دنیا کو حضرت زینب جیسا اسوۂ درکار ہے۔آج پورے عالم اور زمانے میں کوفے کا سماں ہے۔ اگر کوفیوں کے ان خصائل اور صفات کو دیکھیں جو حضرت زینب نے بیان کیے ہیں تو پورا جہان ایک کوفہ نظر آتاہے، آج اس عالمی کوفے میں ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے، آج انسان کو حضرت زینب کی حقیقی شخصیت کی ضرورت ہے، نہ وہ شخصیت جو لوگوں نے خود بنالی ہے۔ انسان حضرت زینب کی واقعی شخصیت کی جستجو کرے کہ وہ بی بی کیا ہیں؟ کربلا سے کوفہ و شام یا اس سے پہلے اور اس کے بعد حضرت زینب نے کس چیز کو محسوس کیا جس کی بنیاد پر یہ عظیم اقدام کیا۔
اسؤوں کا طرز عمل لوگوں کے لئے دلیل بن جاتا ہے ۔ یہ تأثیر اسوۂ کے لحا ظ سے ایک اصلی نکتہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اجتماعی و عمومی عمل جس کو ایک پورا معاشرہ انجام دیتا ہے وہ کیسے انجام پاتا ہے؟یہاں فردی عمل کی بحث نہیں ہے بلکہ پورے سماج اور معاشرے کو کسی عمل پر اکسانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے اور اس کی بنیاد کیا ہے؟ مثلاً ایک اجتماع کو ساکت اور خاموش رکھنا ہے تو اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ فرض کریں اس وقت جہان اسلام کو ساکت رکھنا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ جس طرح اس وقت انہوں نے لوگوں کو ساکت کردیاہے۔ اس سکوت کے لئے انہوں نے کیا کیا ہے کہ پورے جہان ِاسلام کو ساکت کردیا؟ اتنے منچلے، جوشیلے، جذباتی اور چپ نہ ہونے والے مسلمان ناگہاں کس طرح خاموش ہوگئے ہیں؟ ان کے ساتھ کیا کیاگیا ہے؟یہ ایک بہت بڑا معمہ ہے جسے کوئی حل کرے کہ انہوں نے کس طرح سب کوساکت کر دیا ہے۔کچھ تو پہلے سے ہی ساکت چلے آرہے ہیں اور انہوں نے استصحاب سکوت جاری کر رکھا ہے لیکن کچھ تو بول رہے تھے آج وہ بھی چپ ہوگئے ۔یہ زبانوں پرکیسے تالے پڑ گئے ہیں اور اب کسی طرح اس اجتماعی سکوت کو توڑا جائے اور اجتماع کو کس طرح بولنے اور اقدام کرنے پر اکسایا جائے؟یہ سوچنے کا مقام ہے۔
اہل فکر و اہل دانش کا کام ہے کہ وہ سوچیں ، جو اپنے آپ کو معمار اجتماع اور معمار امت سمجھتے ہیں ۔ وہ پر راہ حل تلاش کریں ۔ یہ کام ان رہبروں کا نہیں جنہوں نے عملی و اجرائی کام سبنھال رکھا ہے بلکہ اہل فکر نے انہیں فکر بناکر دینی ہے جیسا کہ سکوت اسی طرح طاری کیا گیا ہے۔ آج جنہوں نے دنیا اور عالم اسلام پر سکوت نافذکیا ہے انہوں نے اس کی فکرنہیں کی بلکہ فکر کسی اور نے کی ہے نافذ انہوں نے کی ہے۔ ہم نے سارا کام ان افراد پر چھوڑ دیاہے جن کاکام نفاذ ہے کہ وہی فکر بھی کریں اور وہی نافذ بھی کریں یہ ان کا کام نہیں بلکہ یہ حوزوں کا کام ہے۔
فرض کریں کہ ایک اسلامی حکومت موجود ہے جیسا کہ ایران میں اور اس ملک میں اسلام نافذ کرنا ہے تو اسلام کے بارے میں سوچنا ، اسلام کی فکر بنانا اور اسلام کا نظام بنانا حوزہ کاکام ہے۔ حوزہ سوچ کر دے گا تو حکومت نافذ کرے گی۔ حکومت کا کام سوچنا نہیں ہے بلکہ نافذ کرنا ہے جیسا کہ یہ جو سکوت کا سماں چھایا ہوا ہے اس کو کسی
نے نافذکیا ہے لیکن خود انہوں نے سوچا نہیںہے بلکہ کسی اور نے سوچ کر اِنہیں دیا ہے کہ تمہیں اس طرح اقدام کرنا ہے۔ یہ شعبہ ہمارے یہاں بالکل خالی ہے، سوچ کا شعبہ خالی ہے اور نفاذ کے لئے سب تیار ہے۔
حکومت اسلامی میں ابھی بھی دیکھیں تو کتنی مشکلات موجود ہیں مثلاً انقلاب آئے ہوئے٣٠ سال گزر گئے ہیںلیکن ابھی تک یہاں پر اسلامی بینک کاری شروع نہیں ہوئی، ایسا کیوں ہے؟ کیا نافذ کرنے والے نہیں ہیں نافذ کرنے والے تو فراوان ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اسلامی بینک کاری پر فکر کرنے والے نہیں ہیں۔ انہوںنے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا ۔ اس وقت ایسانہیںہے کہ اسلامی بینک کاری کا بلا سودی نظام موجود ہے اور اسے نافذ نہیں کررہے ہیں بلکہ سرے سے نظام ہی موجود نہیں ہے۔ بعض بزرگان کے بقول امام خمینی نے بلاسود بینک کاری کا نظا م مرتب کرنے لئے جو کمیٹی تشکیل دی تھی انہوں نے کچھ ہفتے تک میٹنگ و سیمینار کر کے ایک مسودہ تیار کیا اور امام کے پاس لے گئے۔ ان بزرگوار کے بقول جب اس مسودے کو امام کی خدمت میں پیش کیا گیا تو امام نے اسے اٹھا کر پھینک دیا اور کہا کہ یہ کیا لائے ہو؟ نام بدلنے سے کوئی نظام اسلامی ہوجاتا ہے؟میں نے نام بدلنے کو کہا تھا یا یہ کہا تھا کہ اس پر بیٹھ کر سوچو، کام کرو، فکر کرو اور دینی اصولوں کے مطابق نظام وضع کرو۔
اب ہم اگر سکوت توڑنا چا ہتے ہیں تو اس کے لئے بھی یہی طریقہ کا ر ہے ، سکوت توڑ نے کے لئے ہم کیا کر یں ؟یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ز ینب کا اسوۂ چا ہیے ۔ اسوہ زینبی سکوت شکن اسوہ ہے اور وہ بھی کون سا سکوت؟ ذلیلانہ و ذلت آمیز سکوت ۔ سکوت کی بہت سا ری اقسام ہیں جن میں ذلت آمیز سکوت کو توڑنا اسوئہ زینبی ہے۔
ہم کو چا ہیے کہ پہلے د یکھیں یہ سکوت نا فذ کیسے ہو تا ہے اور سکوت توڑا کیسے جا تا ہے۔ آج کی اہم ترین اور زندہ ترین بحث یہ ہے کہ سکوت کیسے توڑا جا ئے ، سکوت تو ڑ نے کی انجینئرنگ اور تھیوری کیا ہے؟ سکوت توڑ نے کے فوا ئدہ کیا ہیں ؟ پہلے اس ضرورت کا احساس کر یں ورنہ ابھی دما ء ثلاثہ کی ابحاث اتنی د قیق ہیں کہ فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان موضوعات پر بھی غور کر یں۔ یہ اتنی دقیق ابحاث ہیں کہ مقامات اعلیٰ سے لے کر ایک طا لب علم تک سب ان میں مشغول ہیں اور مو شگا فیاں کر ر ہے ہیں ، ظاہر ہے کہ ان کے پاس فرصت نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان بحثوں میں الجھائیں لہٰذا پہلی منزل یہ ہے کہ ضرورت کا احساس دلا یا جا ئے کہ آج کی زندہ بحث یہ ہے ۔ الحمدﷲہما رے پا س ہر میدان میں یہ سر ما یہ مو جود ہے۔ ہم توہی نہیں ہیں کیونکہ ہما ری معدن غنی ہے اور اس میں فراوان ثر وت مو جود ہے لیکن ہمیں اس معدن سے کچھ نکا لنے کا طریقہ نہیں آ تا ۔ ہما ری معدنیات فطری سرما ئے سے پُر ہیں ،ایک ایسا علم اورٹیکنک چا ہیے کہ اس سر ما ئے کو نکال کر د نیا کے سامنے پیش کر سکیں ۔ ہما را سر ما یہ یہی اسوے ہیں ۔ جن میں حضرت زینب ایک سکوت شکن ہیں ۔ یہ ایک واقعیت ہے کہ حضرت ز ینب سکوت شکن ہیں ۔
سکوت کی فراوان اقسام ہیںمثلاً سکوت اجباری، سکوت اختیاری، سکوت مصلحت آمیز، سکوت مفاد پر ستی اور ان اقسام میں ایک بد ترین سکوت ذلیلانہ سکوت ہے جس سکوت کے ہمراہ ذلت ہو۔یہ د یکھیں کہ سکوت آیا کہاں سے ہے ؟ یہ گھٹا کہاں سے آ ئی ؟ یہ با دل کہاں سے بنے اور کس طرح بر سے کہ آج سب کے سب سا کت ہیں ۔ ان لو گوں کو واقعاً داد دینی چا ہیے جنہوں نے اسے سو چا ہے پھر سوچ کر منصوبہ بنا یا اور منصوبہ بنا کر اتنا دقیق نا فذ کیا ہے کہ فرد فرد مسلمان کی زبان پر تا لے ڈال د یئے ہیں ۔ ان پر آ فرین ہو !یہ و ہی آفرین ہے جو امیر المومنین ـ نے سپا ہ معاو یہ کو دی تھی۔
امیر ا لمومنینـنے ان کے بہت فضائل پڑ ھے ۔آپ نے فر مایا کہ وہ کاملا ًمطیع با طل ہیں اور ان پر آ فرین ہو کہ وہ با طل پر اتنے راسخ ہیں ۔ یہ آ فرین رسوخ کے لئے ہے نہ بطلان کے لئے۔ ان پر آ فرین ہو کہ وہ اپنے امام نار کے اتنے مطیع ہیں ۔ آفرین ہو اس و حدت پر جس نے ا نھیں با طل کے سا تھ اس طرح باندھ ر کھا ہے کہ وہ اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ یہاں واقعاً ان مغزوں کے لئے زبان سے آفرین نکلتی ہے جنہوں نے یہ منصوبہ سو چا ہے کہ فرد فرد مسلم کی زبان پر تا لا ڈال دیا گیا ہے ۔مسلم عالمِ، مسلم دیندار، مسلم سیا ست دان ، مسلم عوام ، مسلم خطیب و ذاکر ، مسلم دانشور، مسلم طلاب علم، مسلم امراء اور مسلم ا حزاب سب کی زبان پر تا لے پڑ جا ئیں ۔ کتنا ما ہرانہ نظام سوچ کر نافذ کیا ہے؟!
یہاں صرف یہ نکتہ مورد تو جہ ہے کہ یہ ذلیلانہ سکوت کیسے طاری ہوتا ہے اور تا ر یخ بھر میں ایسا ر ہا ہے جس کا ا ہم تر ین نمونہ امیر ا لمومنین ـ کے زمانے کا ہے ۔ سکوت مطلق و ہاں سے شروع ہوا اور امیر المومنین ـ !نے سکوت توڑنے کے لئے کیا جتن کئے ہیں امیر المومنین ـ کی بیٹی نے کوفہ میں ا سی راہ کو جا ری ر کھا ۔ کر بلا میں سید ا لشہدا ء ـکے قیام کا ایک مقصد امت کا سکوت توڑنا تھا ۔ یہ قیام در حقیقت سکوت شکنی کا قیام تھا ۔ اقتدار تک پہنچنا تو بہت دور تھا ۔ اس امتِ سا کت کے ہو تے ہو ئے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ اقتدار یزید سے سیدالشہداء ـتک آجا ئے لیکن سکوت تو ڑا جا سکتا تھا ۔
اب دیکھیں کہ امیر المومنین ـ کے زمانے میں کیسے سکوت برقرار ہوا ،سید الشہداء ـکے زمانے میں ایسا کس طرح ہوااور کو فہ میں یہ حالات کیسے پیدا ہو ئے۔
اجتماع کی ایک انجینئرنگ ہے اور اس کا ایک مکمل نظام (SYSTEM) ہے۔ا جتماع کی بھی ایک حیثیت ہے ۔اجتماعی رد عمل کا ایک طریقہ ہے کہ اجتماعی عمل ہمیشہ اجتماعی فکرکی بنیاد پر ہو تا ہے جیسے ہم را ئے عا مہ کہتے ہیں ۔ رائے عا مہ یعنی ا جتما عی سوچ،اگرچہ ممکن ہے اس میں انفرادی تفکر بھی موجود ہو اور بعض افراد کچھ اور سوچ ر ہے ہوں لیکن اہم یہ ہے کہ اس و قت اجتماع اور سماج کیا سوچ ر ہا ہے ، کیو نکہ اگر کوئی سماج یا امت سے ایک عمل انجام د لانا چا ہتا ہے مثلاً سکوت کرانا چا ہتا ہے یا زبان کھولنی ہے تو اس کے لیے یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اجتما عی عمل اجتما عی فکر کا نتیجہ ہو تا ہے ۔ پہلے اجتما عی فکر بنتی ہے، پھر اس کے نتیجے میں رائے عا مہ بنتی ہے اور را ے عا مہ کے نتیجے میں اجتما عی عمل و جود میں آ تا ہے۔
حکمت و اسٹراٹیجی ہرعمل کی اساس ہے۔ اس وقت تمام حکو متوں نے strategic studies کے شعبے بنائے ہو ئے ہیں ، حتیٰ علمی مرا کز اور یونیورسٹیوں میں strategic studies کے شعبے بنے ہو ئے ہیں ۔ strategis studies یعنی اسا سی مسا ئل کے مطا لعات کے ادارے جہاں اسا سی اور بنیادی مسا ئل پر تحقیق ہو تی ہے۔ بعض جگہ سیا سی strategic مسا ئل ہیں ، بعض جگہ فو جی strategic مسائل ہیں ۔ بعض جگہ اقتصادی strategicمسائل ہیں اور بعض جگہ ارتبا طی strategicمسائل ہیں لیکن حوزے میں کو ئی شعبہ مو جود نہیں ہے ، یعنی حوزہ جو دین کا فکر ساز مکتب ہے اور جہاں پر دینی تفکر بنتا ،پلتا ، بڑھتا اور پھیلتا ہے وہاں کو ئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو اسا سی مسا ئل کا مطا لعہ کر ے۔ سب ایک خط پر چلتے جا ر ہے ہیں ۔ دانشگا ہوں (universities)اور کا لجوں میں ہر عنوان سے ایک شعبہ بنا ہوا ہے، ہر شعبہ کا ایک ڈین(dean)مقرر ہے لیکن ان سب facultiesکے ساتھ سا تھ ایک strategic شعبہ بھی بنا تے ہیں ۔یہ شعبہ ان مسا ئل پر بحث کر تا ہے جو ان تمام faculties کے لئے ضروری ہیں مثلاً آج علم طبیعات(physics) کے شعبے میں کیا تحقیق(research) ہو نی چا ہیے یہ کام strategicشعبے کا ہے کہ وہ مطالعہ اور بنیادی مسا ئل پر بحث (discussion) کر کے ، تمام مسائل ، مشکلات، اور رجحانات کو دیکھ کران کو بتا ئے کہ اس مو ضوع پر مطا لعہ کرو۔ آج کل اس کی ضرورت ہے حتیٰ تجا رت میں ملک کو یہ مشورہ دینا کہ اس وقت کیا خریدنا اور کیا بیچنا ہے، اس وقت عا لمی منڈی کیا ہے اور کس سے خریدنا ہے ۔ یہ سب انہیں بنیادی مطالعا تی مر اکز پر مو قوف ہو تا ہے یا سیا ست کے میدان میں عا لمی سیا ست کدھر جا رہی ہے، سیا ست میں ہمیں کون سا مو قف اختیار کر نا ہے ،بند دروازوں کے پیچھے کیا سا زشیں ہو ر ہی ہیں ، سیا سی ہوائیں کدھر چل ر ہی ہیں ، یہ سب مطا لعات وہاں ہو تے ہیں اور اس کے بعد وہ ملک کی سیاسی پا لیسی بن جاتے ہیں۔سیاسی پا لیسی بغیر اسٹراٹیجی مطالعات کے ممکن نہیں ہے۔پالیسی یعنی حکمت عملی اور حکمت عملی کے لئے ہمیں جو بنیاد چا ہیے وہ حکمت نظری یعنی سوچ اور فکر ہے ۔جب تک سوچ ، فکر اور دانش اپنا کام نہیں کر ے گئی ، جب تک مسا ئل کو تجزیہ و تحلیل نہیں کیا جا ئے گا اس وقت تک اس کے بطن سے حکمت عملی نہیں پیدا ہو گی ۔ پس پہلے حکمت نظری یعنیstrategyطے ہو اس کے بعد ایک عمل انجام پا ئے ۔
سکوت طا ری کر نے کے لئے دشمنوںنے یہ مر حلے طے کیے ہیں۔ پہلے سکوت کی strategyسمجھی ہے کہ سکوت کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے ، انسان کی وہ رگ کون سی ہے کہ جس کو پکڑیں تو وہ چپ ہو جا تا ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اس کی کمزور اور دکھتی ہو ئی رگ معلوم ہے، اسے پکڑوں گا تو چپ ہو جا ئے گا جیسے بعض لوگوں کی کوئی کمزوری دوسروں کے پا س ہو تی ہے اور اگر وہ کسی مجلس میں کچھ بو لنا چا ہتے ہیں تو یہ آنکھ ا ٹھا کر دیکھتا ہے تووہ فوراً خامو ش ہو جا تا ہے ۔ یہ روزمرّہ ہو تا رہتا ہے مثلاًفرض کر یں کسی نے چوری کی اور چوری کر تے و قت ایک شخص نے اسے د یکھ لیا اور اب وہ اپنی شخصیت بنا کر آیا با ت کر نے کے لیے اور جیسے ہی اس نے زبان کھو لی شاہدنے آنکھ اٹھا کر معنی خیزنظروں سے دیکھا اور وہ چپ ہو گیا ،کسی نے خدا نخواستہ کو ئی اخلا قی غلطی کی ، دوسرے نے اسے دیکھ لیا اور اس کی کمزوری پکڑلی ۔اب یہ مجلس میں آ یا تو خا موش ہے ، آپ اس سے سوال کر یں کہ آپ کیوں نہیں بولے؟ آپ تو کچھ کہنے کے لئے آ ئے تھے تو وہ بہا نہ بناتا ہے کہ مثلا ً میر ابا ت کر نا منا سب نہیں تھا ، جبکہ یہاں سکوت کسی اورو جہ سے ہے ۔ جب تک ہم اس سکوت اور لبوں پرپڑے ہوئے تالوں کی (strategy) نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ یہ کون سا سکوت ہے اور کیوں پیدا ہوا ۔ اسی طرح جب تک ہم اس سکوت کوتوڑنے کی (strategy) نہیں بنالیں گے اس وقت تک یہ سکوت ٹوٹ بھی نہیں سکتا۔ ہم بیٹھے بیٹھے یہ کہیں کہ ایک تقریر کریں گے اور سارا سکوت ٹوٹ جائے گا تو یہ ناممکن ہے۔
گزشتہ صدی کے اوائل میں اٹلی کے معروف سیاسی فیلسوف میکاولی کے سیاسی نظریات کا منبع معاویہ کا طرز عمل ہے۔ اس کی (The Prince) نام کی ایک معروف کتاب ہے، جس میں اس نے اپنے گمان میں نئی سیاست کے اصول لکھے ہیں۔ آج پوری دنیا میں سیاسی اسٹراٹیجی اور سیاست کے اصول اسی کتاب سے لئے گئے ہیں خصوصاً آج کی ڈیموکریسی اور لیبرل ڈیمو کریسی جس کا امریکہ مدعی ہے اس کے بنیادی اصول وہی ہیں جو میکاولی نے بیان کئے ہیں۔
اس کے نزدیک ایک کامیاب سیاست دان کے اندر دو جانوروں کی صفت کا ہونا ضروری ہے اور سیاست میں دین، اخلاق و اقدار کوئی چیز نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ کمزور ترین سیاست دان وہ ہے جو سیاست میں اقدار (values)کا خیا ل رکھے ۔ میکاولی کے نزدیک امیر المؤمنین ـ کمزور ترین سیاست دان ہیں کیونکہ آپ کو اقدار اور خصوصاً عدالت کا بہت خیال تھا۔ اس نے کہا کہ سیاست میں یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ سیاسی انسان کو کسی چیز کا پابند نہیں ہوناچاہیے۔ اسکا نہ کوئی دین و مذہب ہونا چاہیے نہ کوئی اصول و بنیاد، نہ کوئی اخلاق واقدار اور نہ ہی وہ کسی وعدے کا پابند ہو لہٰذا اس نے سیاستمدار کو دو حیوانی حالتوں سے تشبیہ دی ہے کہ کامیاب ترین سیاستمدار وہ ہے جس میں یہ دو خصائل ہوں، ایک لومڑی کی خصلت اور ایک بھیڑیئے کی۔
سیاستمدار لومڑی کی طرح مکار اور بھیڑ یئے کی طرح خونخوار ہو۔ اس وقت آپ اگر امریکی پالیسی دیکھیں تو نظر آئے گا کہ اس کی وزارت خارجہ مکار ہے اور پینٹاگون خونخوار ہے۔ آج پوری دنیا میں یہی نظام ہے۔ ہر حکومت میں یہ دو اصل یعنی مکاری اور خونخواری موجود ہیں۔ ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں چاکلیٹ ہے۔عراق، افغانستان، پاکستان اور پوری دنیا میں میکاولی کے اصول کی بنیاد پر اقدام کئے جارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ میکاولی کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی اور وہ کس طرح اس نکتے تک پہنچاکہ اگر انسان اقدار کا پابند ہوجائے تو یہ سیاست میں ناکامی ہے۔ دور حاضر میں کوئی سیاست دان اقدار کا پابند نہیں ہے، البتہ نہ وہ دینی سیاست جس کو امام خمینی نے متعارف کرایا۔ یہ اس سیاست کی بات ہے جو دین سے جدا ہو کیونکہ دین اور سیاست میں جدائی کی تھیوری اسی نے پیش کی ہے اور آج دیندار اور غیر دیندار سب اس کے حامی ہیں کہ دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے اس تھیوری کو پیش کرنے والا میکاولی ہے پھر اس کا پروپیگنڈہ کیا گیا، جس کو ہم سب نے قبول کر لیااوراس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔
استاد مرحوم محمد تقی جعفری کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ میکاولی نے کہیں سے معاویہ کو بہت دقیق پڑھا ہے چونکہ اس نے جو بھی نظریہ پیش کیا ہے وہ سب کچھ معاویہ پہلے انجام دے چکا تھا۔ آج کی جدید سیاست میں میکاولی نے جتنے علمی اصول وضع کئے ہیں ان سب پر معاویہ اپنے زمانے میں عمل کرچکا ہے۔ معاویہ میں دونوں چیزیں تھیں سخت خونخوار اور سخت مکار۔ اگر وہ میکاولی نے معاویہ کے طرز عمل کو (The Prince) نامی کتاب میں (Theorise) کرکے اپنے نام کرلیا۔
معاویہ نے جو ایک کامیاب ترین کام کیا وہ امت مسلمہ پر سکوت طاری کرنا تھا۔ اس نے جذباتی ترین مسلمانوں کو ناگہاں ساکت کردیا اور اس کا م میں اس نے کئی حربوں سے استفادہ کیا جن کی فہرست ذرا طولانی ہے۔ اگر اجمالاً اس کوبیان کیا جائے تو اس نے تین چیزوں سے استفادہ کیا؛ زن، زر ا ور تزویر۔ اما م حسن ـ کی سپاہ کو اس نے عورتوں کی پیش کش کی، درھم و دینار کی تھیلیاں تقسیم کیں اور جھوٹی حدیثوں کے ذریعے شخصیت سازی کی۔ اپنی حکومت میں اس نے حدیث کی فیکٹری لگائی اور اس فیکٹری میں مصنوعی اور کاذب شخصیتیں بنائیں، اس نے صرف لوگوں کے سکوت کے لئے جعلی حدیثیں، جعلی دین اور جعلی نظریات بنوائے۔
اسٹراٹیجک مطالعات کا پہلا شعبہ معاویہ کے یہاں قائم ہوا کہ علی ـ کے ہمکاروں اور پیروکاروں کو کسی طرح ساکت کردیں اور ان کے لبوں پر تالے ڈال دیں۔ اس کے لئے اس نے باقاعدہ شعبہ بنایا اور اس کام پر وہ تنخواہیں دیتا تھا کہ تمہارے ذہن میں اس کام کے لئے جو آئیڈیا آتا ہے اس کو بعنوان حدیث رسول اللہ ۖ پیش کرو۔ اس عمل کے نتیجے میں فراوان شخصیتیں جعل کی گئیں۔
محقق بزرگوار علامہ عسکری نے اس موضوع پر ، ''صدر و پنجاہ صحابہ ساختگی'' یعنی ایک سو پچاس جعلی صحابہ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ یہ مصنوعی صحابی سرے سے تھے ہی نہیں اور ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔ اس نام کے لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے لیکن ان کے نام سے روایات موجود ہیں ، یہ معاویہ کا کام تھا۔
اس نے امیر المؤمنین ـسے دور کرنے کے لئے امیر المؤمنین ـ کے متوازی شخصیتیں بنائیں اور یہ رول اس زمانے کے میڈیا نے ادا کیا۔ معاو یہ نے منبر کو با قاعدہ میڈیا کے طور پر استعمال کیا اور جمعہ کا خطبہ امیر المومنین ـ پر لعن و طعن کے ذر یعہ شروع ہو تا تھا ۔ مجالس ، محافل اور تقریروں کی شکل میں اسلامی پرو گرام ہوتے تھے مجرے اور رقص وسرود یہ خاص حکومتی لوگوں کے درمیان ہوتے تھے عوام الناس میں اکثر دینی پروگرام ہوتے تھے مثلاً نمازجمعہ، نماز عید یا حج کے موسم میں تقریریں اور اس طرح کی منا سبتوں سے پرو گرام ہو تے تھے جن کا آغاز امیر المومنین ـپر لعن طعن سے ہو تا تھا ۔ اس لعن طعن کا ہدف اسوہ ٔ شکنی اور لوگوں سے اسوۂ چھیننا تھا ۔ وہ صرف اسوۂ لے نہیں ر ہے تھے بلکہ اس کی جگہ پر اسوہ ٔبنا بھی ر ہے تھے اور اس طرح کے خود سا ختہ اسوے منبر پر بیٹھ کر رسول ا ﷲ ۖ کی حدیث سنا تے تھے کہ رسول اﷲ ۖنے فلاں شخص کے با رے میں فر مایا کہ وہ اس طرح ہو گا جسے سن کر لو گوں کو حیرت ہو تی تھی مثلاً رسول اﷲ ۖ نے کہا کہ میر ی ر حلت کے اتنے سال بعد د مشق میں ایک آ دمی پیدا ہوگا جس کی داڑھی ایسی ہو گی، جس کا عما مہ اس طرح ہو گا و غیر ہ وغیرہ اور لو گ اسی دن سے اس کی قدم بو سی شروع کر د یتے ۔ اس نے یہ کام کیا اور اتفاقاً تا ر یخی شواہد اس پر موجود ہیں ۔
اسی طرح وہ پیسے دے کر جو جعلی شخصیتیں بنواتا تھا ان سے کام لیتا تھا ۔ چونکہ امام علی ـامت کو جہاد پر اکسا تے تھے لہٰذا وہ ان شخصیتوں سے اس طرح کے مضامین بنوا تا اور بیا نات جا ری کر اتا تھا لوگوں پر سکوت طاری ہو جا ئے ۔ امیر المومنین ـ کی فوج پر بھی سکوت طا ری ہو گیا ؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ دشمن اسٹراٹیجک مطا لعہ کے نتیجے میں جو پا لیسی اپناتا تھا اس کے نتیجے میں سکوت طا ری ہو تا تھا مثلاً وہ حد یثیں سنا تے تھے رسول اﷲ ۖ نے فر مایا ،جب اس طرح کے حالات ہوں گے اس وقت جو بولے گا وہ میرے دین سے با ہر ہو جا ئے گا ، جو امت میں تفر قہ ڈالے گا میرے دین سے باہر ہو جا ئے گا، جو شام کی طرف چڑ ھا ئی کر نے وا لی فوج میں ہو گا وہ میرے دین سے با ہر ہو جا ئے گا اس طرح کی فروان حدیثیں نشر ہو ئیں اور یہ کام اس وقت کے میڈیا نے کیا ۔ یہاں تک کہ امام حسن ـکے زمانے تک اس نے تمام حر بے اپنا ئے اور با لا خر امام حسن ـ کے اعلیٰ ترین سپہ سا لار کو خرید لیا جس کے نتیجہ میں صلح ہو ئی ۔ یہ صلح نہیں تھی بلکہ ایک سکوت تحمیلی تھا جس کے نتیجے میںامام حسن ـکو بھی سا کت ہو نا پڑا ۔ اس نے اس سپہ سا لار کے سا منے زن و زر کی پیش کش کی ، دوسری طرف اس کے آدمی مختلف قبیلوں میں جا تے تھے اور وہاں حدیثیں سنا تے ،درھم و دینار کی تھیلیاں تقسیم کر تے ، سرداروں کے لئے عورتیں متعا رف کر اتے اور ان کو صرف یہ پیش کش کر تے تھے کہ یا ہمارا سا تھ دو یا سا کت و لا تعلق ہو جا ئو ۔ یہ اس کا طریقہ کار تھا اور آج بھی انہیں حر بوں سے سکوت حاکم ہوا ہے ۔
موجودہ زمانے میں افغانستان پر حملے سے پہلے ایسا سکوت نہیں تھا ۔ اس سے قبل لو گوں میں ایک عجیب جنون ِجہاد تھا لیکن اندھا دھنداس بمبا ری کے بعد پوری دنیا میں ایک نا گہاں سکوت طا ری ہو گیا پھر عراق کے معا ملے میں آ کر وہ سکوت اتنا گہرا ہو گیا کہ اب اگر ان کے پا س جا کر تو پیں بھی چلا ئیں تو یہ ا ٹھنے اور بو لنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، پھر عراق میں تذلیل و تحقیر کا اس سے زیا دہ و حشیا نہ انداز اپنا یا گیا ۔
سکوت ایک اجتماعی عمل ہے اور اس اجتماعی عمل کے لئے پہلے اجتماعی سوچ بنائی گئی، اس سوچ کے بنا نے میں و حشت ، بربریت ، خونخوا ری اور درندگی سے مددلی گئی، اس طرح ذہنوں کی سوچ کا د ھا را بدل دیا گیا ۔
دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ سکوت کے لیے رای عا مہ بنا ئی ۔ یہ کام پہلے اقدام کے سا تھ سا تھ میڈیا کے ذر یعے کیا گیا ۔ ایک کام بموں ، میزائیلوں جہا زوں اور با رود نے کیا اور دوسرا کام میڈیا نے کیا ہے اور دونوں کام ہمزمان انجام د یئے گئے ۔ میڈیا نے و ہی کام کیا جو عہد معا و یہ کے قد یم میڈ یا نے کیا تھا ۔ اس زما نے کے میڈ یا کا ہدف امام علی ـکی شخصیت کشی، اسوہ شکنی اور را ئے عا مہ کے سا منے مصنوعی و جعلی متبادل شخصیتیں بنا کر پیش کر نا تھا تا کہ را ئے عا مہ کی سوچ پر اثرانداز ہو سکیں ۔ جن لو گوں کے لئے انھیں کچھ کر وانا ہو تا ہے اس کے لئے یہ پہلے ما حول بنا تے ہیں جیسے نو رہ کُشتی ہو تی ہے ۔ یہ ایک عا میا نہ اصلا ح ہے نو رہ کشتی میں نتیجہ پہلے سے طے ہو تا ہے کہ کون جیتے گا اور کون ہا رے گا ۔ لڑ نے وا لے ایسے ہی ایک دو ہا تھ کر تے ہیں پھر جس کو ہا ر نا ہو تاہے وہ لیٹ جا تا ہے اورجس کو جیتنا ہو تاہے وہ اوپر بیٹھ جا تا ہے چو نکہ پہلے سے طے ہو تا ہے لہٰذا دو نوں کو ذرا بھی مشکل پیش نہیں آ تی لیکن اس کے لئے پہلے ما حول بنا تے ہیں اور انہیں بتا تے ہیں کہ تمہیں یہ یہ کر نا ہے ۔ اگر کسی معمولی آ دمی سے کہیں کہ تم سب سے بڑ ے پہلوان ہو اور تمہیں اپنے زور با زو سے اپنی پہلوا نی ثا بت کر نی ہے چونکہ اس کے با زو میں زور نہیں ہے لہٰذا وہ اپنی پہلوا نی ثابت نہیں کر سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام ہم کر یں گے اور اس کے لئے ما حول بنا کر اسے اجا گر کر یں کہ اس نے یہ کیا ہے۔
ان میں ایک نمونہ اسا مہ بن لا دن کا ہے ، اسامہ کو انہوں نے ایک ہیروبنا یا اور وہ دنیا بھر میں ہیرو بنا لیکن ایک ہیرو جو اپنے زورِ با زوسے نہیںبنا بلکہ ان کی strategic studies کے نتیجے میں بنا ہے ۔ اسے ایک حکمت عملی کے تحت ہیرو بنایا گیا ہے لہٰذااس کے لئے انہوں نے ما حول بنا یا ہے ، جس طرح فلم میں ڈائریکٹر ہیرو بنا تا ہے، اسے کیمرہ، فلم نا مہ، سنار یواور ڈائر کٹ کی ڈائریکشن ہیرو بنا تی ہے۔ پرڈیوسر (producer) جا کر ہیرو چنتا ہے، اس کے قدو قامت کو دیکھتا ہے ورنہ اس ہیرو کو اگرا خروٹ دیں تو اسے نہیں توڑ سکتا لیکن اگرفلم میں د یکھیں تو وہ پہا ڑ اپنی جگہ سے اکھاڑ کر پھینک د یتا ہے اور سب کچھ تہس نہس کر دیتا ہے ۔
دشمنوںنے مختلف ما حول کے لئے مختلف شخصیتیں بنا ئی ہیں ۔ اسامہ ان کا مصنوعی اور فلمی ہیرو ہے جو سنار یو میں ہیر و بنا ہے وہ کچھ کر کے ہیرو نہیں بنا ۔ اس نے آج تک کچھ نہیں کیا ہے ؟ نائن الیون (١١/٩)اس نے نہیں بلکہ خود امریکیوںنے کیا ہے۔ وہ صرف سنا ریو کا حصہ تھا کہ جب اس بلڈنگ کو گرائیں گے اور گرا کر اپنے بنا ئے ہو ئے ہیرو کے نام کر دیں گے ، کیو نکہ اسے د نیا میں ہیرو بنا نا ہے ۔
اسامہ کو انہوں نے جہاد و مقاو مت کا اسوہ ٔبنا یا ہے جو کا ملاً ان کا اپنا اور میڈیاکا بنا یا ہوا اسوہ ٔہے اور اب دیکھیں کہ وہی میڈیا ، و ہی مرا کز ، وہی set-up ،وہی اسٹرا ٹیجی ادارہ اوروہی سا ری چیزیں مل کر ایک اور اسوہ ٔبنا رہی ہیں کیو نکہ اب وہ دو قدم آ گے گئے ہیں ۔ اسا مہ ایک زمانے کے لئے اسوہ ٔاور ہیرو تھا ،ایک زمانے میں اسے پو ری دنیا میں نما یا ں کیا کہ اسامہ دہشت گرد ہے اور مسلمانوں کی زبان پر اسامہ مجا ہد ہے۔ جبکہ وہ اگر و ا قعا ً اخرو ٹ تو ڑ لے تو اسے گو لڈ میڈ ل دینا چا ہیے ۔
نائن الیون(١١/٩)میں وہ ٹریڈ سنٹر تباہ کر د یتا ہے جہازاغوا کر لیتا ہے اور وہ بھی ایسے ملک کے جہاز جس کا سیکورٹی نظام ایسا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ و ہاںتک تخیل بھی نہیں جا سکتا ، بشر کی تو جدا بات ہے ۔ اس میں یہ اپنے پائلٹ بھیجتا ہے اور ہر چیز کو تہس نہس کر دیتا ۔
فلم کا وہ حصہ تمام ہو گیا ، اسامہ اسوۂ بن گیا ۔ انہیں را ئے عا مہ بنا نی تھی اور را ئے عا مہ بنا نے کے لئے ایک اسوہ ٔاورنمونہ چا ہیے تھا جس کے ذر یعے انہوں نے را ئے عا مہ بنا ئی لہٰذا جب تک اسامہ ہیرو تھا اس وقت گلی گلی لشکر اور کلا شنکوف ،دیواروں ، سڑکوں اور بسوں پر نعرے لکھے ہو ئے ، اخبار، میڈیا، مجلّے،محفلیں ،مجلسیں، قوالیوں ، گا نوں میں پر جگہ مجاہد مجا ہد کا فِقرہ تھا اور ناگہاں وہ مر حلہ طے ہو جا تا ہے، رائے عا مہ ہموار ہو جا تی ہے پھر را ئے عا مہ اپنا عکس العمل د کھا تی ہے ، رائے عا مہ جذبا ت میں آ کر شور مچا تی ہے اور اس جذبات وافراتفری کے عا لم میں ان کو اپنا اگلا قدم اٹھا نا ہے۔ ان جذبات اور افراتفری سے فا ئدہ اٹھا کر انہیں اپنی بربر یت اور خونخواری کا جواز نکا لنا ہے ۔ جو از نکال لیا اور اس کے بعداس بربر یت پر لو گوں کو سا کت ر کھنا ہے ۔
انہیں دو طرح کا اسوہ ٔچا ہیے تھا ، ایک جو ہمیں بربریت کا مو قع دے اور ایک جو ہما ری بر بریت پر لو گو ں کو خا موش ر کھے ۔ اب اسامہ کی ضرورت نہیں ہے وہ ختم ہو چکا ، یہ اسوہ ٔسڑ گیا ہے ، جس طر ح کھیل کے دوران جو بچے دا ئرے سے با ہر چلے جا تے ہیں وہ سڑجا تے ہیں ۔ یہ سڑا ہوا اسوہ ٔدوبا رہ نہیں آ سکتا ۔ اسامہ سرے سے اسوہ ٔسکوت نہیں ہے ۔ اس کو انہوں نے میڈیا ،ایجنسیوں اور اسٹراٹیجک مطا لعات کی مدد سے ایک چیز کا اسوہ ٔبنا یا تھا اور اب وہی تمام مر ا کز اسوئہ سکوت بنانے میں لگے ہیں کیونکہ اب اسوئہ سکوت کی ضرورت ہے ۔ یہاں پر انہیں اسوہ ٔسکوت چا ہیے ۔
اس مطلب پر بہت غور کر نے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے دو اسوے بنا ئے ہیں اور دو نوں میں وہی طر یقے اور حر بے اپنا ئے ہیں ۔ایک اسوۂ کے ذر یعے انہیں بربر یت کا مو قع ملا اور ایک اسوہ کے ذریعے وہ لبوں پر تا لا ڈالنا چا ہتے ہیں ۔
ان کی فلمی دنیا کو دیکھیں تو وا ضح ہو جا ئے گا کہ پنٹا گون نے کا ملا ًہا لی وڈ(Hollywood) کے طرز پر عمل کیا ہے ۔جس طرح انھوں نے ٹریڈ سنٹر پر جہازٹکرا ئے تھے اسے دیکھ کر خود امر یکی یہ کہتے تھے کہ ہم یہ سمجھ ر ہے تھے کہ کسی فلم کی فلم بندی ہو رہی ہے کیونکہ ہا لی ووڈ کی تخیلی فلمیں اسی طر ح بنتی ہیں وہ سمجھے کہ کو ئی فلم د یکھ ر ہے ہیں کیونکہ انہوں نے بالکل فلموں جیسا عمل کیا تھا ۔
نائن الیون ( ١١/٩) وا قعاً ایک فلم تھی کیو نکہ اس و قت آ ٹھ ہزار در جہ حرارت میں سب کچھ پگھل گیا ،تا بنا ،شیشہ ،پتھر پگھل گیا ،مگر پا سپو رٹ محفوظ ر ہا اور ان کو مل بھی گیا پھر اسی جہاز میںایک کا غذجس پر عر بی میں سا رے دہشت گردوںکے نام عربی میں لکھے ہو ئے تھے وہ بھی بچ گیا ۔یہ واقعاً ایک فوق العادہ فلم تھی،پھر نائن الیون( ١١/٩) کے بعد اور اب بر بر یت شروع کر د یتے ہیں ۔ یہ اسامہ کی آ خری خد مت تھی اور انہیں اسامہ نہیں چا ہیے ۔ اب ان کی بربر یت شروع ہو ئی ہے لہٰذااب وہ نیا ہیروبنا نا شروع کر یں گے جو اس بربریت پر خا مو شی و سکوت کا اسوہ ٔبن سکے اور جو اس بربریت پر سکوت کا سا یہ ڈال دے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس عا لمی کو فہ میں حضرت زینب اور اسوئہ زیبنی کی ضرورت ہے۔ جو اس ذلت کے سکوت کو توڑے
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
قافلہ حجاز میں اک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار بھی گیسوئے دجلہ و فرات
اور آج اس عا لمی با زار کو فہ میں ایک زینب (س) بھی نہیں ہے جو آ کر اس سکوت مطلق میں خطبہ دے آج ایک ایسا لہجہ چا ہیے جو آ کر آ ج کے عا لمی کوفہ کو خطاب کرے؛
'' یااھل الکوفہ! ''
اے کوفیو! تم کیا کر رہے ہو؟
''یا اھل الختل والغدر والخذل!''
اے نیر نگ بازو، اے دھوکہ بازو، اے ہزار چہرہ لو گو!
'' الافلا رقات العبرة ولاھدات الزفرة''
نہ تمہارے آنسورکیں اور نہ تمہارا رو نا بند ہوا ؛
''انمامثلکم کمثل التی نقضت غزلھا من بعد قوة انکاثا '' تمہاری مثال اس عورت کی ہے جو دن بھر بُنتی ہے اور رات کو اُدھیڑ دیتی ہے؛
'' تتخذون ایمانکم دخلاً بینکم''
تم نے اپنی قسموں کو فقط اپنے منحوس چہروں کو چھپا نے کا واسطہ بنا رکھا ہے؛
'' ھل فیکم الا الصلف والعجب والشنف و الکذب ''
تم میں فقط فسا دی ،چا پلو س اور جھوٹے و دروغگورہ گئے ہیں ،
تم لو نڈیوں کی طرح فقط چا پلوس ہو؛
'' غمز الا عداء ''
تم چغلخور دشمنوں کی طرح ہو؛
'' او کمر عی علی دمنة' '
تم غلاظت کے ڈھیر پر ا ُگے ہو پھول و پودے کی طرح ہو؛
'' اوکفضتہ علی ملحودة ''
ظاہراً آج مسلمانوں کی بڑی امت ہے، بڑے بڑ ے ملک میں بڑا بڑا نظام ہے لیکن حضرت زنیب فر ما تی ہیں تم واقعاً کیا ہو؟تم در اصل تا بوت کے اوپر لپٹی ہو ئی چا ندی کی طرح ہوا جنابِ زنیب نے اس طرح انھیں جھنجھوڑا اور ان کا سکوت تو ڑا ہے ۔
'' الابئس ما قدمت لکم انفسکم ان سخط ا ﷲعلیکم و فی العذاب انتم خالدون ''
تم نے عذاب خدا کا سامان فراہم کر لیا ہے۔ یہ خطبے کا ابتدا ئی حصہ ہے جو قارئین کی خد مت میں پیش کیا گیا ۔
اس ذلیلانہ سکوت کو توڑ نے کے لئے اسوہ ٔزینبی اور کردار زینبی چا ہیے ۔ یہاں پرآ کر سا رے بہانے ختم ہو جا تے ہیں اور تمام تحلیل و تجزیئے حضرت زینب کی با ر گاہ میں آ کر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ۔ مصلحتیں اور مجبور یاں حضرت زینب کو سجدہ کر تی ہے۔
حالات تھوڑے سخت ہوں تو لو گ مجبور یوں کا بہانہ کر تے ہیں ۔ جیسا کہ کہاجا تا ہے کہ ہما ری مجبوریاں ہیں ،کیا مجبوریاں ہیں۔کیسی مجبوریاںکیا؟ کسی کے بھا ئی کا سر نوک نیزہ پراس کے سا منے لٹکا ہوا ہے؟کیاکسی کے بیٹوں کے سر نوک نیزہ پر نظر آ ر ہے ہیں؟ کیا کسی کے ہا تھ رسیوں میں بند ھے ہوئے ہیں اور ضرب تازیانہ سے سیاہ ہو چکے ہیں ؟ کو ئی ایسا ہے جو کر بلا سے کو فہ تک او نٹ کی ننگی پشت پر سوار ہو کر آ یا ہو؟ کو ئی ایسا ہے جو اپنے عزیزوں کے لا شے کر بلا چھوڑ کر آ یا ہو؟ کیاہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کون سا اسوہ ٔکہاں چا ہیے؟ یہاں مصلحت و مجبوری کی با تیں کی جا ئیں یا اسوۂ زینبی کی ضرورت ہے؟اگر سکوت تو ڑنا ہے تو یہاں بھی اسٹراٹیجی اور حکمت عملی کی ضر ورت ہے۔ یہاں بھی را ئے عا مہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے اوررا ئے عا مہ اس وقت ہموار ہو گی جب انسان بو لے گا ۔دشمن نے اسوے بنا کر را ئے عا مہ ہموار کی اور آ ج اجتما عی عکس العمل سکوت کی شکل میں ظاہر ہواہے۔ اگر ہم چا ہتے ہیں کہ سکوت توڑیں اور سکوت شکن کے عنوان سے اجتما عی عمل ظاہر ہو اور لوگ بو لیں تو اس کے لئے ہمیں را ئے عا مہ پر اثر اندازہونا پڑے گا لیکن را ی عا مہ کو یہ استعماری اسوے اور پیروکاری متا ٔثر نہیں کر یں گے۔ اس کو خدائی اسوے متا ثر کر یں گے ۔رائے عا مہ کو حضرت زینب کا اسوہ ٔمتا ٔثر کر ے گا ۔لہٰذا آ ج کی ضرورت ہے کہ لو گوں کے سا منے بیان کر یں کہ حضرت زینب نے کیا کیا۔
حضرت زینب نے کو فہ کے سکوت کو کسی طرح توڑا کہ ایک سال کے اندر چا ر ہزارکا لشکر اسی کو فہ سے نکلا ۔ وہ خاموش تما شا ئی ، مہر بہ لب ، مصلحت پر ست ، مجبوری کا بہانہ کر نے وا لے ، صلح پسند اور امنیت پسند جو معا و یہ کے بنا ئے ہو ئے اسؤوں ،درھم و دینار کی تھیلیوں اور عورتوں سے متا ٔثر ہو کر گھروں میں خاموش بیٹھے ہو ئے تھے ،علی کی بیٹی نے ان کا سکوت توڑدیا ۔ حضرت زینب ایک الہٰی اسوۂٰہیں جو اس طرح را ئے عامہ پر مؤ ثر ہو ئیں اور اس طرح رائے عا مہ کو ہموار کر کے انہی تما شا ئی عوام سے اجتما عی عمل انجام دلوایا ۔ یہ ایک اسوہ ٔہے جسے سمجھنے کی ضرورت تھی لیکن ہم نے سمجھنے کے بجا ئے اس اسوۂ کو کسی اور اسوۂ میں تبدیل کر دیا ۔ آ ج جس زینب کو مجالس میں پیش کیا جا تا ہے وہ ایک ایسی درماندہ اور مصیبت زدہ خا تون ہے جو کبھی لو گوں سے پانی ما نگ ر ہی ہے اور کبھی چا در ما نگ ر ہی ہے جبکہ حضرت زینب وہ خا تون ہیں جو عزت کی پر چم دار اور ذلت کو بر داشت نہ کر نے وا لی خاتون ہیں ۔ حضرت زینب نے ذلت کے سکوت کو توڑا ہے پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں حضرت زینب اس طرح کی خا تون تھیں ۔
آج ضروری ہے کہ یہ اسوے پیش کئے جا ئیں کیو نکہ یہ آج کے اسوے ہیں۔آج کا اہم ترین مطالبہ یہی ہے کہ ہم وہ اسوۂ پیش کریں جو رائے عامہ کو متا ٔثرکر سکتا ہے تا کہ عوام کا عکس العمل سا منے آئے ورنہ یہ سکوت اتنا گہرا ہے کہ کسی دوسری چیز سے نہیںٹوٹ سکتا ۔
انشاء اﷲ وہ دن آ ئے کہ ہم اسوۂ زینبی پر عمل پیرا ہوں اور یہ عا لمی کو فہ توابین کا لشکر تشکیل دے اور اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم ان توابین کی طرح یزیدیت و قت سے انتقام لے اور ان جعلی و مصنوعی اسوں سے نجا ت پاکر کم از کم اپنی شہا دت تک پہنچ سکیں انشا ء اﷲ۔
نجات ِ امت کا تنہارا ستہ یہ ہے کہ ان اسوں کو اپنایا جا ئے ۔ اہل بیت اور کر بلا وا لوں کے اسوے ہما ری نجات کے ضا من ہیں ۔
source : http://www.alhassanain.com