امام جعفر صادق نے فرمايا کہ ’’يَاسيدِّۃَ نِسَائِ العَالَمِينَ‘‘ ۔ ر اوي نے سوال کيا کہ ’’ھَِ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِھَا؟‘‘، کيا آپ کي جدہ امجد اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں ؟ امام نے جواب ديا کہ ’’ذَاکَ مَريَم‘‘، وہ جناب مريم تھيں جو اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں، ’’ھِيَ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ الاَوّلِينَ وَالاٰخِرِينَ فِي الدُّنيَا و الآخِرَۃ‘‘ ١ ، ’’وہ دنيا و آخرت ميں اولين و آخرين کي سرورزنان ہيں‘‘ اور ان کي يہ عظمت ان کے زمانے تک محدود نہيں ہے۔ اگر آپ تمام مخلوقات عالم ميں پوري تاريخ ميں خلق کيے گئے ان کھربوں انسانوں کے درميان اگر انگليوں پر شمار کي جانے والي بہترين شخصيات کو ڈھونڈھنا چاہيں تو ان ميں سے ايک يہي مطہرہ ومنورہ شخصيت ہے کہ جس کا نام اور ياد و ذکر ہميں عطا کيا گيا ہے۔ خداوند عالم نے اپنے فضل و احسان کے ذريعے ہميں يہ موقع ديا ہے کہ اپني زندگي کے کچھ حصوں کو اُن کي ياد ميں بسر کريں ، اُن کے بارے ميں باتيں کريں اور اُس عظيم ہستي سے متعلق باتوں کو سنيں۔ لوگوں کي اکثريت اُن سے غافل ہے جبکہ يہ ہم پر خداوند متعال کا بہت بڑا لطف و کرم ہے کہ ہم اُن سے متمسک ہيں۔
يعني وہ اتني عظيم المرتبت شخصيت کي مالک ہيں کہ بڑے بڑے مسلمان علما اور مفکرين يہ بحث کرتے تھے کہ کيا حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت بلند ہے يا امير المومنين علي ابن ابي طالب ٴ کا مقام زيادہ ہے؟ کيا يہ کوئي کم مقام و حيثيت ہے کہ مسلمان علما بيٹھيں اور ايک کہے کہ علي کا مرتبہ زيادہ بلند ہے اور ايک کہے زہرا علیھا السلام کي عظمت زيادہ ہے! يہ بہت بلند مقام ہے۔ لہٰذا اُس عظيم المرتبت ذات سے ہمارے تعلق اورمحبت نے ہمارے دوش پر ايک بہت سنگين ذمے داري عائد کي ہے۔ وہ ذمہ داري يہ ہے کہ ہم اُس عظيم ذات کي سيرت اورنقش قدم پر چليں،خواہ ان کا ذاتي و انفرادي کردار ہو يا اُن کي اجتماعي و سياسي زندگي۔ راستہ يہي ہے کہ جس نے آج خداوند عالم کے فضل وکرم سے لوگوں کيلئے انقلاب کي راہ ہموارکي ہے۔
يہ وہي حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي راہ ہے يعني خودسازي (تعمير ذات) اورجہان سازي (تعمير دنيا) کي راہ۔ خود سازي يعني اس جان و روح کي آبادي و تعمير کہ جس کيلئے جسم کا پيکر خاکي ديا گيا ہے۔فاطمہ زہر علیھا السلام ’’کَانَت تَقُومُ فِي مِحرَابِ عِبَادَتِھَا حَتٰي تَوَرَّمَت قَدَمَاھَا ‘‘ ۲ ۔ اس عظيم اور جوان دختر نے کہ جو اپني شہادت کے وقت صرف اٹھارہ سال کي تھي، اتني عبادت کي آپ کے پاوں ورم کرجاتے تھے! يہ عظيم المرتبت خاتون اتنے عظيم مقام و منزلت کے باوجود گھر کے کام بھي خود انجام ديتي تھيںاور شوہر کي خدمت بچوں کي ديکھ بھال اورتربيت بھي انہي کے ذمے تھي۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کے بچپن کا سخت ترين زمانہ
يہ عظيم خاتون ايک گھريلو عورت تھي، اس کا اپنا گھر تھا، شوہر، بچے سب کچھ اور يہ اپنے بچوں کي بہترين تربيت کرنے والي ماں بھي تھي۔ يہ بانوئے عصمت و طہارت ، زندگي کے سخت سے سخت مراحل ميں اپنے شوہر اور والد کيلئے دلجوئي اوردلگرمي کا سبب تھي۔ حضرت زہر علیھا السلام نے بعثت کے پانچويں سال دنيا ميں قدم رکھا کہ جب پيغمبر اکرم۰ کي دعوت حق اپنے عروج پر تھي۔يہ وہ زمانہ تھا کہ تمام سختيوں، مشکلات اور مصائب نے پيغمبر اکرم۰ اور ان کے گھرانے کو اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا۔
يہ واقعہ تو آپ نے سنا ہي ہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام کي ولادت کے وقت شہر کي خواتين حضرت خديجہ علیھا السلام کي مدد کيلئے نہيں آئي تھيں۔ يہ بہت بڑي بات ہے کہ جب پيغمبر اکرم۰ کفار سے مقابلہ کررہے تھے تو اس وقت کفار مکہ نے آپ کا ہر طرح سے بائيکاٹ کيا ہوا تھا اور ہر قسم کے رابطے اور تعلقات کو بالکل قطع کرديا تھا تاکہ اس کے ذريعے رسول خدا۰ پر دباو ڈالا جاسکے۔ يہ وہ مقام تھا کہ جہاں حضرت خديجہ علیھا السلام جيسي فداکاراور ايثار کرنے والي عورت نے استقامت دکھائي۔ آپ اپنے شوہر حضرت ختمي مرتبت۰ کي دلجوئي فرماتيں اوراس کے بعد گھر ميں اپنے بيٹي کي ديکھ بھال اور تربيت کرتيں۔ جب يہ دختر نيک اختر بڑي ہوئي اور پانچ چھ سال کي عمر کو پہنچي تو شعب ابي طالبٴ کا واقعہ پيش آيا۔ آپ نے اس کوہستاني وادي کي گرمي، بھوک، سختي، دباو اور غريب الوطني کي مشکلات کو اس وقت تحمل کيا کہ جب سب نے ساتھ چھوڑ ديا تھا۔ شعب ابي طالبٴ ميں آفتاب کي تمازت سے دھکنے والے دن، سرد راتيں اور اس علاقے کي شب و روز ميں ناقابل تحمل آب وہوا، ان دشوار حالات ميں بچے بھوکے پيٹوں اور تشنہ لبوں کے ساتھ ان افراد کے سامنے تڑپتے رہتے تھے۔ سختي اور مشکلات کے يہ تين سال کہ رسول اکرم۰ نے مکے سے باہر بيابان ميں اِسي طرح گزارے۔
فاطمہ زہرا علیھا السلام اپنے والد کي مونس و غمخوار
يہ بيٹي، ان سخت ترين حالات ميں اپنے والد کيلئے فرشتہ نجات تھي اور يہ زمانہ تھا کہ جب حضرت خديجہ علیھا السلام نے داعي اجل کو لبيک کہا اور يہي وقت تھا کہ جب آپ کے محسن اور چچا، حضرت ابو طالبٴ نے دنيا سے رخت سفر باندھا اور پيغمبر اکرم۰ کو يکتا و تنہا چھوڑديا۔ يہ وہ وقت تھا کہ جب يہ بيٹي اپنے باپ کي دلجوئي کرتي تھي، ان کي خدمت کرتي اورغم و مشکلات کي گرد وغبار کواُ ن کو چہرے سے صاف کرتي۔ اس بچي نے اپنے باپ کي اتني خدمت کي کہ پيغمبر ۰ نے اس سات ، آٹھ سالہ دختر کو کہا ’’اُمُّ اَبِيھَا‘‘ ،يعني ’’ماں‘‘ يعني يہ بچي اپنے والد کي ماں کي طرح ديکھ بھال کرتي تھي۔
ايسا باپ کہ عالم کي تمام مشکلات نے جسے اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا ليکن اس کے باوجود تمام بشريت کي ہدايت کي ذمہ داري اُس کے دوش پر تھي۔وہ ايسا پيغمبر تھا کہ اُس کا رب اُسے سختيوں،مشکلات ، غموں کے برداشت کرنے اور حق ميں مسلسل اور اَن تھک محنت و مشقت کي وجہ سے اس کي دلجوئي کرتا ہے۔ ’’طٰہٰ مَآ اَنزَلنَا عَلَيکَ القُراَنَ لِتَشقيٰ‘‘ ۳ اے رسول تم خود کو اتني سختي ميں کيوں ڈالتے ہو؟ اتنا رنج کيوں اٹھاتے ہو اور اپني پاک و پاکيزہ روح پر اتنا دباو کيوں ڈالتے ہو؟ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں خدا اپنے حبيب۰ کو تسلي ديتا ہے۔ ان سخت ترين حالات ميں حضرت ختمي مرتبت۰ کي روح پر دباو بہت زيادہ تھا اور دشوار ترين حالات ميں يہ چھوٹا فرشتہ ،معنوي وملکوتي روح کي حامل بيٹي اوردختر پيغمبر اکرم ۰ اس نور کي مانند ہے جو پيغمبر اکرم۰ اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کي تاريک شبوں ميں اپني پوري آب و تاب اور نورانيت کے ساتھ چمک رہا ہے۔ امير المومنين ٴکا وجود بھي بالکل ايسا ہي نوراني تھا ۔ روايت ميں ہے کہ ’’سُمِّيَت فَاطِمَۃُ زَھرَائ? ‘‘ ۴ ۔حضرت فاطمہ کو ’’زہرا‘‘ اس ليے کہا جاتا ہے آپ دن ميں تين بار حضرت علي ٴ کي نگاہوں کے سامنے جلوہ فرماتيں۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کي علمي فضيلت اور راہ خدا ميں آپ کا جہاد
اگر عورت مرد کي پشت پناہ ہو اورزندگي کے مختلف ميدان ہائے عمل ميں اُس کے شانہ بشانہ ،قدم بقدم اوراس کي ہمت و حوصلے کو بڑھانے والي ہو تو مرد کي قوت وطاقت کئي برابر ہوجاتي ہے۔ يہ حکيمہ، عالمہ اور محدثہ خاتون، يہ خاتون کہ جو عالم ہائے غيب سے متصل تھي، يہ خاتون کہ فرشتے جس سے ہمکلامي کا شرف حاصل کرتے تھے ۵ اور يہ عظيم المرتبت ہستي کہ جس کا قلب ،علي ٴ و پيغمبر ۰ کے قلوب کي مانند ملک وملکوت کے عالموں کي نورانيت سے منور تھا،اپني تمام تر استعداد وصلاحيت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے تمام تر اعليٰ درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگي ميں جب تک زندہ رہي (اپنے شوہر، صحابي رسول ۰، اپنے امام وقت اور) امير المومنين ٴ کے پيچھے ايک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کي مانند کھڑي رہي۔
آپ نے اپنے امام وقت اور اس کي ولايت کے دفاع کيلئے کسي بھي قسم کي قرباني سے دريغ نہيں کيا اور حضرت علي ٴکي حمايت ميں ايک بہت ہي فصيح و بليغ خطبہ ديا۔ علامہ مجلسي رضوان اللہ عليہ فرماتے ہيں کہ فصاحت و بلاغت کے علما اور دانشوروں نے اس خطبے کي فصاحت و بلاغت ،اعلي اوربے مثال کلمات،جملوں کي ترتيب،معاني اور اُس کے ظاہر و باطن کي خوبصورتي سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا ہے! يہ نکتہ بہت ہي عجيب ہے۔علامہ مجلسي نے آئمہ عليہم السلام سے اتني کثير تعداد ميں روايات کو نقل کيا اور ہمارے ليے گرانبہا ذخيرہ چھوڑا ہے ليکن جب اس خطبے کے مقابل اپنے آپ کو پاتے ہيں تو اُن کا وجود فرط جذبات و احساسات اورخطبے کي عظمت سے لرز اٹھتا ہے! يہ بہت ہي عجيب خطبہ ہے اور اسے نہج البلاغہ کے خوبصورت اور فصيح وبليغ ترين خطبوں کا ہم وزن شمار کيا جاتا ہے۔
ايسا خطبہ جو شديد ترين غم و اندوہ کے عالم ميں ، مسجد النبي۰ ميں سينکڑوں مردوں اور مسلمانوں کے سامنے ديا جاتا ہے۔ يہ خطبہ بغير کسي تياري اورتفکر کے في البديع اس عظيم خاتون کي زبان پر جاري ہوتا ہے۔ اس کا وہ بيانِ رسا،اس کي حکمتيں، عالم غيب سے اُس کا رابطہ ،وہ عظيم ترين مطالب، وہ معرفت الٰہي و شريعت کے گوہر ہائے بے مثل و نظير ، و ہ عمق و گہرائي ، وہ عظمت الٰہي کو بيان کرنے والے کلام کي رفعت وبلندي اور سب سے بڑھ کر وہ نوراني قلب کہ جس سے حکمت و معرفت کہ يہ چشمے جاري ہوئے ،وہ نوراني بيان کہ جس نے سب کو مبہوت کرديا اور وہ نوراني اور مبارک زبان کہ جس کے ذريعے اُس خاتون نے اپنے کلمات کو خدا کي راہ ميں بيان کيا ۔ اس تمام عظمت و فضيلت کے بارے ميں ہمارے سرمائے کي کيا حيثيت ہے کہ اگر ہم اُسے مکمل طور پر خدا کي راہ ميں خرچ کرديں! ہمارے سرمائے کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ کيا ہمارا سرمايہ اُس عظيم سرمائے کہ جسے حضرت زہر علیھا السلام ، اُن کے شوہر ، اُن کے والد ماجد اور ان کي اولاد نے خد اکي راہ ميں خرچ کيا، قابل مقايسہ ہے؟!
ہمارا يہ مختصر علم، ہماري يہ ناقابل قوت بيان و زبان ،قليل سرمايہ ، مختصر پيمانے پر ہمارا اثر ونفوذ ، ہماري محدود صلاحيتيں اور نچلي سطح کي مختصر سي معرفت اُس عظيم اور بے مثل و نظير ذخيرے کے مقابلے ميں کہ جسے خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے ملکوتي و نوراني وجود ميں قرار ديا تھا، کس اہميت کا حامل ہے؟! ہمارے پاس ہے ہي کيا جو راہ خدا ميں بخل سے کام ليں؟ آج علي ٴ، فاطمہ عليہما السلام اور آئمہ کي راہ وہي امام خميني۲ کي راہ ہے۔ اگر کسي نے اس (راہ اور اس راہ دکھانے والي شخصيت) کونہ جانا اور نہ سمجھا ہو تو اسے اپني بصيرت کے حصول کيلئے از سر نو جدوجہد کي ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے، اسي راہ ميں خرچ کرنا چاہيے اور يہي وہ چيز ہے کہ جو اہل بيت ٴ سے ہمارے تعلق اور لگاو کو حقيقت کا رنگ بخشتي ہے۶۔
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
ہم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے بارے ميں حقيقتاً بہت کم گفتگو کي ہے اور حقيقت تو يہ ہے کہ ہميں نہيں علم کہ ہم کيا کہيں اور کيا سوچيں؟ اس انسيّہ حورائ، روح مجرد اورخلاصہ نبوت ولايت کے بابرکت وجود کے ابعاد اور جہات ہمارے سامنے اتنے زيادہ وسيع، لامتناہي اور ناقابل درک ہيں کہ ہم جب اس شخصيت پر نگاہ ڈالتے ہيں تو وادي حيرت ميں ڈوب جاتے ہيں۔ آپ اس امر سے بخوبي واقف ہيں کہ زمانہ اُ ن من جملہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جو انسان کو شخصيت کہ صحيح طور پر پہنچانے اور درک کرنے کي راہ ميں مانع ہوتے ہيں۔
عالم بشريت کے اکثر و بيشتر ستارے اپني حيات ميں اپنے ہم عصر افراد کے ذريعے ناقابل شناخت رہے اور انہيں پہنچانا نہيں گيا۔ انبيا واوليا ميں سے بہت کم افراد ايسے تھے جو اپنے قريبي ترين مخصوص و مختصر افرادکے ذريعے پہچانے گئے۔ ليکن حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام کي شخصيت ايسي ہے کہ جس کي نہ صرف اپنے زمانے ميں اپنے والد ،شوہر ، اولاد اور خاص شيعوں کے ذريعے سے بلکہ اُن افراد کے ذريعے سے بھي کہ جو حضرات زہرا علیھا السلام سے شايد اتنے قريب بھي نہيں تھے، مدح و ثنا کي گئي ہے۔
اہل سنت کي کتابوں ميں حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت
اگر آپ اہل سنت محدثين کي حضرت زہرا علیھا السلام کے بارے ميں لکھي ہوئي کتابوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں کہ پيغمبر اسلام ۰ کي زبان حضرت صديقہ طاہرہ علیھا السلام کي مدح و ستائش ميں بہت سي روايات نقل کي گئي ہيں يا حضرت زہرا علیھا السلام سے آنحضرت۰ کے کردار و سلوک کو بيان کيا گيا ہے يا ازواج نبي يا ديگر شخصيات کي زباني تعريف کي گئي ہے۔
حضرت عائشہ سے يہ معروف حديث نقل کي گئي ہے ’’واللّٰہِ مارَاَيتُ فِي سمتہ و ھديۃ اَشبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ مِن فَاطِمَۃَ‘‘ ۔ميںنے پيغمبر اکرم کي شکل و شمائل ،ظاہري قيافے،درخشندگي اور حرکات و رفتار کے لحاظ سے کسي ايک کو بھي فاطمہ سے زيادہ شباہت رکھنے والا نہيں پايا‘‘ ۔ وَکَانَ اِذَا دَخَلَت عَلٰي رَسُولِ اللّٰہِ قَامَ اِلَيھَا‘‘۔ جب فاطمہ زہرا علیھا السلام رسول اللہ۰ کے پاس تشريف لائيں تو آپ۰ اُن کے احترام ميں کھڑے ہوجاتے اور مشتاقانہ انداز ميں ان کي طرف بڑھ کر اُن کااستقبال کرتے۔ يہ ہے ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ کي تعبير کا معني۔ ايسا نہيں تھا کہ جب حضرت زہرا علیھا السلام تشريف لاتيں تو آپ۰ صرف کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے، نہيں ! ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ يعني کھڑے ہوکر اُن کي طرف قدم بڑھاتے۔بعض مقامات پر اسي راوي نے اس روايت کو اس طرح نقل کيا ہے کہ ’’وَ کَانَ يُقَبِّلُھَا ويُجلِسُھَا مَجلِسَہُ ‘‘۔’’وہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کو پيار کرتے، چومتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اپني جگہ پر بٹھاتے‘‘۔ يہ ہے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کا مقام ومنزلت ۔ اس باعظمت شخصيت کے بارے ميں ايک عام انسان کي کيا مجال کہ وہ لب گشائي کرے!
سيرت حضرت زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت
ميرے محترم دوستو! حضرت فاطمہ علیھا السلام کي عظمت و فضيلت اُن کي سيرت ميں واضح و آشکار ہے ۔ايک اہم مسئلہ يہ ہے کہ ہم حضرت زہرا علیھا السلام کے بارے ميں کيا شناخت و آشنائي رکھتے ہيں۔ اہل بيت ٴ کے محبوں نے پوري تاريخ ميںحتي الامکان يہي کوشش کي ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت حاصل کريں۔ ايسا نہيں ہے کہ کوئي يہ خيال کرے کہ يہ عظيم شخصيت صرف ہمارے زمانے ميں ہي ہر دلعزيز ہے ۔ آج الحمدللہ اسلامي حکومت کا زمانہ ہے اور حکومت قرآن ، حکومت علوي اور حکومت اہل بيت ٴ کا دوردورہ ہے ۔جو کچھ دل ميں موجزن ہے وہ زبانوں پر بھي جاري ہوتا ہے اور ہميشہ سے ايسا ہي ہوتا رہا ہے۔
دنيائے اسلام کي قديمي ترين جامعہ (يونيورسٹي) جس کا تعلق تيسري اور چوتھي صدي ہجري سے ہے، حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر ہے۔ اسي معروف جامعۃ الازھر کا نام حضرت زہر علیھا السلام کے نام سے اخذ کيا گيا ہے۔ اُن ايام ميں حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر يونيورسٹي بناتے تھے۔ مصر ميں حکومت کرنے والے فاطمي خلفائ سب شيعہ تھے ۔ بنا برايں ، صديوں سے شيعوں کي يہي کوشش رہي ہے کہ اس عظيم ہستي کي کماحقہ معرفت حاصل کريں۔
عظمت خدا کا ايک نمونہ!
ايک اور مسئلہ يہ ہے کہ ہم تمام ستاروں سے اپني راہ تلاش کريں۔ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ۷ ۔عاقل انسان کا يہي عمل ہوتا ہے۔ستارہ جو آسمان پر چمک رہا ہے اُس سے استفادہ کرنا چاہيے۔ ستاروں کي بھي اپني ايک عجيب اورعظيم دنيا ہے۔ کيا يہ ستارے يہي ہيں کہ جو ہم اور آپ ديکھ رہے ہيں؟ کہتے ہيں کہ آسمان پر چمکنے والے ان چھوٹے سے ستاروں ميں سے بعض ستارے کہکشاں کہ جس ميں خود اربوں ستارے موجود ہيں، سے بڑے ہيں! قدرت الٰہي کي نہ کوئي حد ہے اور نہ کوئي اندازہ۔ عاقل انسان کہ جسے خداوند عالم نے قوتِ بصارت دي ہے، کو چاہيے کہ اپني زندگي کيلئے ان تمام ستاروں کے وجود سے فائدہ حاصل کرے۔ قر آن کہتا ہے کہ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ۔ يہ ستاروں کے ذريعے سے راستہ کو پاتے ہيں۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام سے درس خدا ليجئے!
ميرے عزيز دوستو! عالم خلقت کا يہ درخشاں ستارہ ايسا نہيں ہے جو ہميں نظر آرہا ہے، اس کي حقيقت اور مقام و منزلت اس ظاہري اور نظر آنے والے وجود سے بہت بلند و برتر ہے۔ ہم حضرت زہر علیھا السلام سے صرف ايک نور و روشني ديکھ رہے ہيں ليکن حقيقت اس سے بہت آگے اور بلند ہے۔ ميں اور آپ ان بزرگوار ہستي سے کيا استفادہ کرسکتے ہيں؟ روايت ميں ہے کہ ’’تُظھِرُ الآَھلَ السَّمآئِ ‘‘ عالم ملکوت کے رہنے والوں کي آنکھيں حضرت زہرا علیھا السلام کے نور سے خيرہ ہوجاتي ہيں،تو ميں اور آپ کيا حقيقت رکھتے ہيں!يہاں ايک بنيادي سوال يہ ہے کہ ہم اس عظيم ہستي کے وجود سے کيا فائدہ اٹھا سکتے ہيں؟ چاہيے کہ اس روشن و درخشاں ستارے سے خدا اوراس کي بندگي کي راہ کو ڈھونڈيں کيونکہ يہي سيدھا راستہ ہے اور فاطمہ زہرا علیھا السلام نے اس راہ کو پايا اور فاطمۃ الزہرائ بن گئيں۔ خداوند عالم نے اُن کے وجود کو اعلي و ارفع قرار ديا ،اس ليے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ عالم مادہ اور عالم ناسوت کے امتحان ميں اچھي طرح کامياب ہوں گي۔
حضرت زہرا علیھا السلام کے صبر اور غوروفکر کي عظمت!
اِمتَحَنَکِ اللّٰہُ الَّذِي خَلَقَکِ قَبلَ اَن يَخلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امتَحَنَکِ صَابِرَۃً ‘‘۸ ۔خدا نے آپ کي تخليق سے قبل امتحان ليا اور ان تمام حالات ميں آپ کو صابر پايا)۔ اگر خداوند عالم نے (خلقت سے قبل) اُن کے (نوراني) وجود پر اپنا خاص لطف کيا ہے تواُس کي ايک وجہ يہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام (دنيوي) امتحانات ميں کس طرح کامياب ہوںگي۔ ورنہ بہت سے افراد کي شروعات تو بہت اچھي تھيں ليکن کيا وہ سب امتحانات ميں کامياب ہوگئے؟ ہميں اپني نجات کيلئے حضرت زہرا علیھا السلام کي زندگي کے اس حصے کي اشد ضرورت ہے۔ يہ حديث شيعہ راويوں سے نقل کي ہے کہ پيغمبر اکرم نے حضرت فاطمہ عليہا السلام سے فرمايا ’’يا فاطِمَۃُ بِنتَ محمّدٍ اِنّي لَا اَغنيٰ عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَيئًا‘‘۔اے ميري پياري لخت جگر، اے ميري فاطمہ ميں خدا کيلئے تم کو کسي چيز سے بے نياز نہيں کرسکتا ہوں ۔ يعني تم اپنے غوروفکر کے ذريعے سے بارگاہ الٰہي ميں آگے بڑھو اور ايسا ہي تھا۔ وہ اپني فکر و معرفت کے ذريعے اِس مقام تک پہنچيں۔
حوالے
١ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ٢٦
۲ بحارالانوار ۔ جلد ٤٣ صفحہ ٧٦
۳ سورہ طہ/ ١۔٢
۴ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١٦
۵ حضرت استاد مولاناسيد آغا جعفر نقوي مرحوم اپنے استاد آيت اللہ شيخ محمد شريعت اصفہاني (آقائے شريعت) سے نقل فرماتے تھے کہ حديث کسا کي راوي حضرت زہرا ہيں اور يہ آپ کي عظمت وفضيلت ہے کہ آپ حضرت جبرئيل اور خدا کے درميان ہونے والي گفتگو کو خود سن کر نقل فرما رہي ہيں! (مترجم)
۶ ١٥ دسمبر ١٩٩٢ ميں نوحہ خوان حضرات سے خطاب
۷ سورہ نحل / ١٦
۸مناقب، جلد ٣، صفحہ
source : http://shiastudies.net