اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

کیا قبور کی تعمیر کرنا اور ان کو آباد کرنا شرک ہے

 

الحمد للہ رب العالمین ، الصلاة والسلام علی رسولہ الکریم و آلہ الطیبین الطاھرین اما بعد :یا ایھا الذ ین آمنوا اتقوا اللہ و ابتغوا الیہ الوسیلة۔(١)

(اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو )(٢)

لیکن سوال یہ ہیکہ خدا وند عالم کا قرب کس طرح حاصل کریں ؟

اس سلسلہ میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ''بیان القرآن میں اس طرح لکھتے ہیں        

''۔۔۔(اطاعت کے ذریعہ )خدا تعالی ٰ کا تقرب ڈھو نڈو(٣

وہابی علما ء کہتے ہیں کہ ''نیک اعمال کے ذریعہ یعنی نماز پڑھنا ، روزے رکھنا ،زکوٰة دینا ، حج کرنا وغیرہ ۔۔۔یہ سب تقرب الھی کا ذریعہ ہیں ''

لیکن وہابی علماء یہ بھول گئے کہ خدا وند عالم نے کچھ اور بھی نیک اعمال کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ خدا وند عالم کی نشانیوں کی تعظیم کرنا ۔

خدا وند عالم کی نشانیوں میں صفاء و مروہ ، ناقہ صالح ، وہ اونٹ جو منیٰ کے میدان میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ہے ( اس کی تعظیم یہ ہے کہ اس قربانی کے اونٹ سے کوئی کا م نہ لیا جائے اور وقت پر چارہ دیا جائے )اصحاب کہف کا شمار بھی اللہ کی نشانیوں میں ہوتا ہے (٤)

اور جو ان نشانیوں کا احترام نہ کرے اور ان کی تکذیب کرے اس کے لئے خدا وند عالم نے جہنم کو تیار کر رکھاہے (٥)

چنانچہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :یا ایھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (ص)     (ترجمہ :ایمان والو خبر دار اپنی آواز کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کرو (٦)

''یعنی ہمارے حبیب سے گفتگو کرتے وقت تعظیم کاخیال رکھنا بھی تقرب الھیٰ کاذریعہ ہے ''اگر کوئی اپنے کو رسول (ص) کے غلاموں میں ادنیٰ غلام ظاہر کرے تو اللہ اس شخص سے اتنا خوش ہوگا کہ اس کو فضیلتوں کا پیکر بنا کر علی  ابن ابی طالب بنا دیگا 

رسول اللہ ۖکی تعظیم کرنا بھی نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے ۔

تقرب الھی کے اسباب میںسے ایک سبب یہ ہیکہ ''مسلمانوں کو اعمال کے ساتھ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ بھی ڈھونڈنا چاہئے ''(٧)

اس لئے کہ اولیاء اور انبیاء ہی خدا تک پہونچنے کے دو ذریعے ہیں اور ان سے متمسک رہنا تقرب الھی کا ذریعہ ہے ۔

پھر صاحب تفسیر نور العرفان وسیلہ کے سلسلہ میں یوں لکھتے ہیں ''کوئی متقی مومن بغیر وسیلہ کے رب تک نہیں پہونچ سکتاہے ''(٨)

مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو خداکی بارگاہ میں وسیلہ ضرور قرار دینا چاہئے یہ امر مسلم ہیکہ اللہ نے پیغمبر اکرم ۖ  کو تمام انبیا ء پر فضیلت اور عظمت بخشی ہے اب سنت کا دم بھرنے والے ذرا سا غور و فکر کریں کہ جب خدا وند عالم نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی سے گفتگو کرتے وقت اتنی تاکید کی ہے تو پھر اگر خود رسول اسلام ۖ  کسی کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اپنی جگہ پر بٹھائیں تو اس کی عظمت کا کون اندازہ لگا سکتا ہے ۔

علماء اہلسنت نے اس شخصیت کا نام فاطمہ (س ) لکھا ہے اور اپنی مختلف کتابوں میں مندرجہ بالا حدیث کو نقل کیا ہے ۔

مگر افسوس !کہ رسول ۖکی آنکھ بند ہوتے ہی امتی ، رسول ۖ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ (س)کے دروازے پر آگ لے کر آگئے اور ظلم کی انتہا کردی یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی آپ کو آزار واذیت پہونچا نے کی ہر ممکن کوشش کی گئی چناچہ :

١٣٤٤ھ میں جب آل سعودنے مکہ ومدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جما یا تو مقدس مقامات ،جنت البقیع ، اصحاب اور خاندان رسالت کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا (٩)

رسول ۖکے زمانے نے اس طرح کروٹ بدلی کہ حضرت امیر المونین  علی  کے حق کو غصب کر لیا گیانبی ۖ کی بیٹی فاطمہ (س)کو مرثیہ پڑھنا پڑا ،بعد رسول ۖ امام حسن  کو زہر دیا گیا اور وہ حسین  جس کی وجہ سے رسول ۖ نے سجدہ کو طول دیا تھا رسول ۖجس کے گلہ کا بوسہ لیتے تھے ان ہی کا کلمہ پڑھنے والوں نے سجدے کی حالت میں امام حسین  کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر چڑھادیا ۔

اور اب ظالم (صدام )نے یہاں تک ظلم کیا کہ امام حسین  کے روضہ کی ہر طرح بے حرمتی کی ۔

یہ سب کیوں ہو ا؟

عام طورپر یہ دیکھا گیا ہیکہ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو مرنے کے بعد وہ دشمنی بھی ختم ہو جاتی ہے ،لیکن اہلبیت  کے دشمن ، آج تک سر گرم عمل ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت  کا وہ عظیم کردار ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ کئے ہوے ہے اور اس کے آثار آج تک ظالم اور استعمار سے دشمنی کی شکل میں موجود ہیں لہٰذا پوری دنیا کے ظلم اور استعمار ہر ممکن طریقہ سے اہل بیت  اور عوام کے درمیان پائے جانے والے رابطوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا تے ہیں۔

انہیں میں سے ایک ہتھکنڈہ اہل بیت  کی قبروں کا نام ونشان مٹادینا ہے ،تاکہ ان میں اور عوام میںپائے جانے والے روحانی رابطے منقطع ہو جائیں

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمنان اہل بیت  نے ہمیشہ اہل بیت کو صفحہ ہستی سے ہی ختم کرنا چاہا اور آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں ۔

اب چاہے قبور کو منہدم کرنا پڑے یا دین احمدۖمیں تحریف کرکے شرک اور بدعت کے فتوے صادرکرنا پڑیں ۔

جیسے دشمن اہل بیت ،ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن القیم نے اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبور پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ہے وہ اپنی کتاب ''زاد المعادفی ھدیٰ خیر العباد ''میں لکھتا ہے کہ :

قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے  ۔

سورہ حجرات آیت ٢ کے تحت وہابی علماء نے رسول ۖ کی تعظیم کا خیال نہیں رکھا یعنی رسولۖ کی زیارت کو شرک اور بدعت ثابت کیا ہے (جبکہ زیارت رسولۖ کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جایا کرتے تھے ) اور رسول کا اس طرح دل دکھا یا کہ آل رسول ۖکے مزار جو جنت البقیع میں تھے ان کو بے سایہ کر دیا اور یہ امر مسلم ہے کہ رسول کا دل دکھانا عذاب الھی کا ذریعہ ہے ۔

انہدام جنت البقیع کے لئے علماء وہابی نے کچھ ضعیف روایا ت کا سہارا لیا ہے اس پر استاد محترم آیة اللہ جعفر سبحانی نے چند احادیث بیان کر کے روشنی ڈالی ہے جن میں سے ایک یہ ہے:عن جابر قال :نھی ۖ  عن تجصیص القبور ۔(ترجمہ :پیغمبر اسلام ۖنے قبور کی گچ کاری سے منع کیا ہے )۔

یہ حدیث مختلف اسناد ، مختلف صورتوں سے کتاب صحیح مسلم ،باب الجنائز ج ٣ ص ٦٢ پر نقل ہوئیں ہیں بحاولہ آئین وہابیت ۔

اور اسی طرح یہ حدیث مختلف صوتوں سے صحاح اور سنن میں نقل کی گئی ہیں ۔

استاد محترم یہاں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جابر کی اس حدیث میں متعدد نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا اس سے استدلال ناممکن ہے کیوں کہ اولا حدیث کی تمام اسناد میں ابن جریح اور ابو زبیر کا نام کبھی تنہااو ر کبھی باہم ذ کر ہو ہے اگر چہ ان میں سے بعض دوسرے راوی بھی ضعیف و مجہول ہیں لیکن پھر بھی ان دو افراد کی حقیقت کا پتہ چل جانے کے بعد باقی راویوں کے متعلق بحث و گفتگو کی ضرورت نہ ہو گی ۔

ابن حجر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں ابن جریح کے متعلق علماء رجال سے یہ جملہ نقل کرتے ہیں یحیی ٰ بن سعید کہتے ہیں اگر ابن جریح کتاب سے حدیث نقل نہ کرتے تو ہر گز اس کی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔

مالک کہتے ہیں حدیث کی جمع آوری میں ابن جریح کی مثال اس شخص کے مانند ہے جو اندھیری رات میں لکڑیاں جمع کر رہا ہو (لازمی طور پر سانپ بچھو کے ڈسنے کا خطرہ ہے )

احمد بن حنبل کے بیٹے احمد سے اور وہ ایوب سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اسے ''ابو زبیر '' کو ضعیف گردانتے تھے ۔شعبہ سے منقول ہیکہ وہ تو نماز بھی اچھی طرح نہیں جانتا تھا ، شعبہ سے ایک دفعہ پوچھا گیاکہ ابو زبیرسے حدیث نقل کرنا کیوں چھوڑ دی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ بد کردار ہے تو اس سے حدیث نقل کرنا ترک کر دیا (١١)

اب صاحبان عقل و علم خود فیصلہ کریں کہ سرور انبیاء ۖ  کو ناراض کر کے اور ضعیف روایات کا سہارا لے کر حرمت قبور اہل بیت  پر شرک و بدعت کے فتوے صادر کرنا اور مزار اہل بیت کو منہدم کرنا کیا یہی تقر ب پروردگار کا وسیلہ ہے ؟

جنت البقیع کو منہدم کرنے والے ذیل کی حدیث کی روشنی میںاپنے کردار کو دیکھیں کہ کہیں وہ تو اسکے مصداق نہیں ہیں

صحیح بخاری سے منقول ہیکہ ''نبی اکرم ۖ نے فرمایا :مدینہ حرم ہے فلاں مقام سے فلاں مقام تک ، اس حد میں نہ کوئی درخت کاٹا جائے نہ کوئی جنایت کی جائے اور جس نے جنایت کی اس پر اللہ تعالی ٰ ، تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے (١٢)

اور اس حدیث کی وضاحت مولانا عبدالشکور صاحب اس طرح کرتے ہیں ''۔۔۔اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی نئی بات (ظلم و معصیت )کی جائے ''(١٣)

آداب زیارت میں مدینہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے صاحب ''در مختار ''تاریخ مدینہ کے حوالے سے بقیع اور بقیع میں مدفون افراد کی فضیلت کے سلسلے میں اس طرح لکھتے ہیں :حضرت محمد ۖ کی زیارت کے بعد اس قبرستان کی زیارت مستحب ہے جس کو بقیع الغر قد کہتے ہیں حدیث سے ثابت ہوتا ہیکہ اس مقبرہ سے ستر ہزار بصورت قمر لیلة القدر اٹھینگے اور جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے ۔

اب ذرا غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے اور جنت البقیع میں آل رسول ۖ کے مزار ہیں تو کیا ان کو منہدم کرنا تقرب الھی کا ذریعہ ہے ؟اگر ایسا نہیں ہے تو کیا قبرستان جنت البقیع کو منہدم کرنا ظلم و معصیت نہیں ؟یقینا یہ ظلم و معصیت ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں بقیع کو منہدم کرنے والوں کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ ہم اس فعل کے ذریعے خدا کے حبیب کا دل دکھا رہے ہیں او ر دل دکھانے والوں کے لئے خدا وند عالم قرآن مجید میں اس طرح فرما رہا ہے :

ان الذین یو ٔ ذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والآخرة و اعد لھم عذابا مھینا    (یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول ۖ کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے (١٤)

در مختار کی عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ قمر لیلةالبدر وہ افراد ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہونگے تو ان میں کچھ افراد ایسے بھی ہونگے جو جنتیوں کے سردار ہونگے اھل جنت کے سرداروں کی نشان دہی صاحب ترمذی نے اس طرح کی کہ    ''الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة (١٥)

جب جنتیوں کے چہرے قمر لیلةالبدر ہونگے تو ان سرداروں کے چہروں کی نورانیت کا کون اندازہ لگا سکتا ہے ۔

مگر افسوس ! اس کے بعد بھی مسلمانوں نے ان کی اہمیت کو نہ سمجھا

یہ امر مسلم ہے کہ اہل بیت  کی نا راضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے لھٰذا اہلبیت  کی ناراضگی کے اسباب میں اہل بیت  کو آزار پہونچانا اور مرنے کے بعد انکی قبروں کی بے حرمتی کرنا اور صفحہ ہستی سے ہی محو کرنے کی کوشش کرنا شامل ہے ۔

اب جس کسی نے اہل بیت  کو ناراض کیا تو وہ عذاب الھی کا مستحق ہو گیا لھٰذا اہلبیت  کی خوشی سے نبی اکرم ۖاور اللہ خوش ہوگا ا س سلسلہ میں صحیح بخاری نے حضرت ابو بکر کے حوالہ سے منقول ہے کہ : نبی( ۖکی خوشنودی )اور آپ ۖ کے اہل بیت  کے ساتھ (محبت و خدمت کے ذریعے )تلاش کرو (١٦)

جنت البقیع کو منہدم کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ضعیف روایات کا سہارا لے کر جنت البقیع کو منہدم کر دینا ،اور ان کی نشانیوں کو مٹا دینا ، یہی اہل عقل کے نزدیک انصاف ہے ؟

کیا اس الم ناک واقعہ سے اللہ اور اس کا رسول ۖخوش ہو سکتے ہیں ؟کیاپیغمبر اکرم ۖاپنی اولاد کے مزاروں کی اس طرح ظالموں کے ہاتھوں بے حرمتی دیکھ کر اپنے ان سرکش اور باغی امتیوں سے راضی ہو سکتےہیں ؟

ہر صاحب عقل یہی کہتا ہوا نظر آئیگا کہ جو رسول ۖ مدینہ کے درختوں کے کاٹنے پر راضی نہیںہے تو وہ رسولۖ اپنی اولاد  کے مزار وں کی بے حرمتی کس طرح برداشت کر سکتا ہے

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول ۖ اکرم کو معلوم تھا کہ تیرہ سو سال بعد کچھ زبردست نام نہاد علماء وجود میں لائے جائیںگے جو مجھ کو قبر میں بھی سکون سے نہ رہنے دینگے اور مختلف صورتوں سے مجھ کو تکلیفیں پہونچائیگے اورمیری آل  کی قبروں کی بے حرمتی کرینگے ۔

اسکی دلیل یہ  ہیکہ مرحوم صاحب خطبات محمدی ''اور ان کی طرح مختلف علماء نے اپنی کتاب میںکعب بن مالک سے مروی خطبہ نقل کیا ہے اس خطبہ کی درمیانی سطر میں کچھ اپنی طرف سے اس طرح لکھا ہے ''۔۔۔تم سے پہلے امتیوں نے اپنے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا ڈالیں (یعنی ان کی قبروں پر اور انکی قبروں کے پاس وہ کام کرنے لگے جو مسجدوںمیںخداکے سامنے کرنا چاہے مثلا سجدہ ، رکوع ، ہاتھ باندھ کر با ادب کھڑے ہونادعائیں کرنا وغیرہ ) خبردار تمھیں اس سے روکتا ہوں ''(١٧)

اگر صاحب خطبات محمدی اپنے بزرگ عالم جناب حاظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ''فتح الباری کا مطالعہ فرماتے تو شاید مولانا موصوف سے یہ غلطی نہ ہوتی حافظ حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ:جو لوگ قبروں پر تصویریں بناتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان تصاویرسے مانوس ہوں اور انھیں دیکھ کر ان کے اعمال صالح یاد کریں اور ان کی طرح عباد ت میں کوشش کریں (١٨)

صاحب خطبات محمد ی نے انبیا ء کے مزار کے سامنے با ادب کھڑ ے ہونے اور دعائیں کرنے کی مخالفت کی ہے

مولانا موصوف کا مزاج رکھنے والوں کو معلو م ہونا چاہئے کہ جو قومیں اپنے بزرگوں کا احترام نہیں کرتیں وہ بہت جلد عذاب الھی کا شکا ر ہو جاتی ہیں اور دعا نہ کرنے والے کو خدا وند عالم نے متکبرین میں گردانا ہے ۔

مولانا موصوف نے با ادب کھڑے ہو نے کی مخالفت کی ہے لیکن مولانا موصوف نے بزرگ عالم

جناب ملا علی قاری زیارت کرنے اور آرام سے بیٹھنے کی اجازت دیتے ہیںاور اس طرح لکھتے ہیں ۔

''جب قبر پر خیمہ کسی فائدہ کی بنا پر لگایا جائے مثلا قاری خیمہ کے نیچے بیٹھ کر قرآن مجید پڑھے تو پھر اس کی حدیث میں ممانعت نہیں ہے مشہور علماء اور مشایخ نے سلف صالحین کی قبروں پر عمارت بنانے کو جائز قرار دیا ہے تاکہ لوگ ان کی زیارت کریں اور آرام سے بیٹھیں (١٩)صاحب خطبات محمد ی کے بزرگ عالم علامہ بدرالدین عینی حنفی صاحب ، میت کے احترام کے بارے میں کچھ ا س طرح لکھتے ہیں : اگر میت پر خیمہ نصب کرنے کی کوئی صحیح غرض ہو تو جائز ہے جیسے زندہ لوگوں پر دھوپ سے سایہ کرنے کی غرض سے خیمہ نصب کرنا 

جنت البقیع منہدم کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ ہماری مقدس شخصیتوں کے بارے میں کیا لکھا ہے ۔

مثلا علامہ عبد الوہاب شعرافی لکھتے ہیں کہ :

میرے شیخ علی اور بھائی افضل الدین عام لوگوں کی قبروں پر گنبد بنانے ، تابوت رکھنے اور چا دریں چڑھانے کو مکروہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ قبروں پر گنبد اور چادریں صرف انبیاء اور اکابر اولیاء کی شان کے لائق ہیں ۔

علماء وہابی اور صاحب خطبات محمدی کا مزاج رکھنے والے سورہ حجرات کے تحت اور شیخ عبدالغنی نایلسی کی تحریر کو پڑ ھکر سیکھیں کہ تعظیم کس طرح ہوتی ہے ۔

اس موضوع پر کشف النور میں شیخ عبد الغنی تابلسی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو بدعت حسنہ شارع کے مقصود کے موافق ہو وہ سنت کہلاتی ہے لہٰذا علماء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا اور ان کی قبروں پر چادریں اور عمامے چڑھانا جائز کام ہے جبکہ اس سے یہ مقصود ہو کہ عوام کی نگاہوں میں ان کی تعظیم پیدا کی جائے تاکہ وہ صاحب قبر کو معمولی نہ سمجھیں اسی طرح ان کی قبروں کے پاس قندیلیں اور شمع کو روشن کرنا بھی باب تعظیم میں سے ہے کیونکہ اس میں نیک مقصد ہے اور تیل او رشمعوں کی نذر اللہ کے لئے ہوتی ہے جو ان کی قبروں پر ان کی تعظیم اور ان سے محبت کے اظہار کے لئے جلائی جاتی ہیں یہ بھی ایک جائز کام ہے اس سے منع نہیں کرنا چاہئے (٢٢)

علماء اہلسنت کے مندرجہ بالا اقوال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انبیا ء او ر اولیا ء خدا کے مزاروں کو آباد کرنا شرک اور بدعت نہیں ہے ۔

اہل بیت  افضل الانبیاء ہیںتو ضعیف روایا ت کا سہار الے کر اہل بیت  کے مزاروں کو منہدم کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے ۔

لہٰذا جنت البقیع منہدم کرنے والوں کو کم از کم اپنے بزرگ علماء کے اقوال کے تحت غور و فکر کرنا چاہئے اور اللہ کے حبیب حضرت محمد مصطفی کی تکلیف کا باعث نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ :والذین یو ٔذ ون رسول اللہ لھم عذاب الیم (٢٣)

ہر مسلمان کو چاہئے کہ درد ناک عذاب سے بچنے کے لئے نیک اعمال انجام دے اور اہل بیت  کو وسیلہ قراردے اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کرے ۔۔۔

اھدنا الصراط المستقیم  (ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما تا رہ )(٢٤)

یہ امر مسلم ہیکہ سیدھا راستہ وہی ہے جس پر چلنے سے اللہ اور اس کا رسول ۖ خوش ہو ۔

پرور دگار ہم سب کو اسی راستہ کی ہدایت فرما جس سے تو اور تیرا رسول ۖ خوش ہو

 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حدیث میں آیا ہے کہ دو افراد کے درمیان صلح کرانا، ...
کیا ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ...
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا قرضہ ادا کرنے کے لیے جمع کئے گئے پیسے پر خمس ...
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
زکوٰۃ کن چیزوں پر واجب ہوتی ہے ؟
عرش و کرسی کیا ھے؟
صراط مستقیم کیا ہے ؟
خداوند متعال نے سب انسانوں کو مسلمان کیوں نھیں ...

 
user comment