ولی، ولایت، ولا، مولا، اولیٰ وغیرہ سب کے سب مادہ ”ولی“ ۔ و،ل،ی سے مشتق ھیں۔ یہ مادہ قرآن کریم میں کثرت سے استعمال ھوا ھے، ۱۲۴/ مرتبہ اسم کی صورت میں اور ۱۱۲/ مرتبہ فعل کی صورت میں۔
جیسا کہ راغب نے مفردات القرآن میں اور ا بن فارس نے مقاییس اللغة میں ذکر کیا ھے، اس لفظ کے حقیقی معنی یہ ھیں: دو اشیاء کے درمیان ایسی نزدیکی وقربت کہ کوئی فاصلہ باقی نہ رھے۔ (۱) یعنی اگر دو اشیاء اس طرح ایک دوسرے سے قریب ھوجائیں کہ ان کے درمیان کوئی شیٴ باقی نہ رھے تو مادہٴ ولی استعمال ھوتا ھے: ”ولیَ زید عمراً“ یعنی زید،عمر کے قریب ھے۔
اس لفظ کا استعمال دوستی، یاری، ذمہ داری، تسلط وغلبہ کے معنی میں اسی وجہ سے ھوتا ھے کیونکہ ان تمام موارد میں ایک طرح کی نزدیکی ، اتصال وقربت پائی جاتی ھے۔ لھٰذا کسی مخصوص معنی کے تعین کے لئے کلام میں موجود قرینے کا لحاظ ضروری ھے۔
مذکورہ نکات کے بعد آیہٴ ولایت کا حاصل یہ ھے: ”مسلمانوں سے بے انتھا نزدیکی وقربت رکھنے والے خدا، رسول اور علی ھیں۔“
واضح ھے کہ یہ نزدیکی وقربت، معنوی ھے نہ کہ مادی وظاھری اور اس قربت معنوی کا لازمہ ایسے تمام امور میں ولی کی نیابت ھے جن امور میں نیابت کی جا سکتی ھے۔
لھٰذا ،شخص ولی ان تمام امور پر حاکمیت رکھ سکتا ھے جن کو مسلمان اپنی ذات سے مربوط ھونے کی وجہ سے انجام دیتا ھے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ امور قابل نیابت ھوں۔ یھی وجہ ھے کہ ولایت کو تسلط، حاکمیت اور اختیار کے معنی میں استعمال کیا جاتا ھے۔
دوسری طرف ھم جانتے ھیں کہ خداوند عالم دنیا وآخرت میں اپنے بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ھے اور ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ ولایت مومنین، تدبیر امور دین اور ان کی ھدایت کے ذریعے مومنین کو کمال وسعادت کی طرف گامزن کرتا ھے۔ رسول اکرم، خدا کے اذن اور اس کی طرف سے مومنین اور خدا کے بندوں کے ولی ھیں۔ نتیجةً اس آیت میں بیان شدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت بھی اس لفظ کے اسی مذکورہ معنی میں ھے جس کا لازمہ لوگوں کے امور میں تصرف اور ان کی جان ،مال، عزت اور دین پر اولویت ھے۔
اکثر علمائے اھل سنت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس آیت کے شان نزول پرمتفق ھیں حتی تفسیر الکشاف میں زمخشری اس سوال کے جواب میں کہ جب مراد ایک فرد ھے تو کیوں لفظ ”الذین“ جو کہ جمع کا صیغہ ھے، استعمال ھوا ھے،کھتے ھیں:
”اس لئے تاکہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ دئے جانے والے اس عمل کی طرف راغب ھوں نیز اس لئے تاکہ یہ بتایا جائے کہ مومنین کو ایسا ھونا چاھئے۔ “
(2) فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ھیں:
” یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے اور علماء بھی اس پرمتفق ھیں کہ حالت رکوع میں (حضرت علی) کے علاوہ کسی اور نے زکوة نھیں دی ھے۔“
(3) در المنثور میں سیوطی نے متعدد روایات کا تذکر کیا ھے جو ثابت کرتی ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام سے ھی مربوط ھے۔
سب سے اھم بات یہ ھے کہ اھل سنت اس آیت کی توجیہ وتاویل میں یہ کہتے ھیں کہ اس آیت میں ”ولی“ سے مراد دوست ھے نہ کہ سرپرست یا حاکم ومختار لیکن ۔بیان شدہ نکات کے پیش نظر۔ مذکورہ معنی ادات حصر کے دائرے میں نھیں آتے کیونکہ اس صورت میں خدا، رسول اور علی کی دوستی کے علاوہ کسی اور سے دوستی کی نفی ھوتی ھے۔
source : http://www.shia14masoom.com