قارئین کرام! امام مہدی علیہ السلام کی غیبت لازم اور ضروری ھے، لیکن چونکہ ہمارے ہادیوں کے تمام اقدامات اور کارنامے لوگوں کے ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کے لئے ھوتے تھے، لہٰذا اس چیز کا خوف تھا کہ اس آخری حجت الٰھی کی غیبت کی وجہ سے مسلمانوں کی دینداری پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچیں گے، لہٰذا غیبت کا زمانہ بہت ھی حساب و کتاب اور دقیق منصوبہ بندی کے تحت آغاز ھوا جو آج تک جاری ھے۔
امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے سالہا سال پہلے آپ کی غیبت اور اس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو جاری و ساری تھی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب کی محفلوں میں نقل ھوتی تھی۔ اسی طرح امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام لوگوں سے ایک نئے انداز اور خاص حالات میں رابطہ ھوتا تھا، اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا تھا کہ بہت سی مادّی اور معنوی ضرورتوں میں امام معصوم علیہ السلام کی ملاقات پر مجبور نھیں ھیں، بلکہ ائمہ علیہم السلام کی طرف سے معین وکلاء اور قابل اعتماد حضرات کے ذریعہ اپنے فرائض پر عمل کیا جاسکتا ھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت اور حضرت حجت بن الحسن علیہ السلام کی غیبت (صغریٰ) کے آغاز سے امام اور امت کے درمیان رابطہ بالکل ختم نھیں ھوا تھا، بلکہ مومنین اپنے مولا و آقا اور امام کے خاص نائب کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے، اور یھی زمانہ تھا کہ جس میں شیعوں کو دینی علماء سے وسیع پیمانہ پر رابطہ کی عادت ھوئی کہ امام علیہ السلام کی غیبت میں بھی اپنے دینی فرائض کی پہچان کا راستہ بند نھیں ھوا ھے۔ اس موقع پر مناسب تھا کہ حضرت بقیة اللہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کا آغاز ھو ، اور امام علیہ السلام اور شیعوں کے درمیان گزشتہ زمانہ میں رائج عام رابطہ کے سلسلہ بند ھوجائے۔
قارئین کرام! ہم یہاں غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی خصوصیات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ھیں۔
غیبت صغریٰ
۲۶۰ھ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے فوراً بعد ہمارے بارھویں امام کی امامت کا آغاز ھوا، اور اسی وقت سے آپ کی ”غیبت صغریٰ“ کا بھی آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ ۳۲۰ھ (تقریباً ۷۰ سال) تک جاری رہا۔
غیبت صغریٰ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مومنین امام مہدی علیہ السلام کے خاص نائبین کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان کے ذریعہ امام مہدی علیہ السلام کے پیغامات حاصل کرتے تھے اور اپنے سوالات آپ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔( ) اور کبھی امام مہدی علیہ السلام کے نائبین کے ذریعہ آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ھوجاتا تھا۔
امام مہدی علیہ السلام کے نواب اربعہ جو عظیم الشان شیعہ عالم دین تھے اور خود امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ منتخب ھوتے تھے جن کے اسمائے گرامی ان کی نیابت کی ترتیب سے اس طرح ھیں:
۱۔ عثمان بن سعید عَمری؛ آپ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے آغاز سے امام کی نیابت کرتے تھے، موصوف نے ۲۶۵ھ میں وفات پائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ موصوف امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے۔
۲۔ محمد بن عثمان عمری؛ موصوف امام مہدی علیہ السلام کے نائب اول کے فرزند تھے جو باپ کے انتقال پر امام کی نیابت پر فائز ھوئے، موصوف نے ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔
۳۔ حسین بن روح نوبختی؛ موصوف امام مہدی علیہ السلام کے ۲۱ سال نائب رھے جس کے بعد ۳۲۶ھ میں ان کی وفات ھوگئی۔
۴۔ علی بن محمد سمُری؛ موصوف کا انتقال ۳۲۹ھ میں ھوا، اور ان کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ھوگیا۔
امام مہدی علیہ السلام کے خاص نائبین امام حسن عسکری علیہ السلام اور خود امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ انتخاب ھوتے تھے اور لوگوں میں پہچنوائے جاتے تھے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں روایت کرتے ھیں کہ ایک روز عثمان بن سعید (نائب اول) کے ساتھ چالیس مومنین امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے، امام علیہ السلام نے ان کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا:
”میرے بعد یھی میرا جانشین اور تمہارا امام ھوگا۔ تم لوگ اس کی اطاعت کرنا، اور جان لو کہ آج کے بعد اس کو نھیں دیکھ پاؤ گے یہاں تک کہ اس کی عمر کامل ھوجائے۔ لہٰذا (اس کی غیبت کے زمانہ میں) جو کچھ عثمان (بن سعید) کھیں اس کو قبول کرنا، اور ان کی اطاعت کرنا کہ وہ تمہارے امام کے جانشین ھیں اور تمام امور کی ذمہ داری انھیں کی ھے“۔( )
امام حسن عسکری علیہ السلام کی دوسری روایت میں محمد بن عثمان کو امام مہدی علیہ السلام کے (دوسرے ) نائب کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ھیں:
”عثمان بن سعید“ نے امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کے حکم سے یمن کے شیعوں کا لایا ھوا مال اخذ کیا، اس وقت بعض مومنین نے جو اس واقعہ کے شاہد تھے ، امام علیہ السلام سے عرض کی:خدا کی قسم عثمان آپ کے بہترین شیعوں میں سے ھیں، لیکن اس کام سے آپ کے نزدیک ان کا مقام ہم پر واضح ھوگیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں! تم لوگ گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ھیں اور اس کا فرزند ”محمد“ میرے بیٹے ”مہدی“ کا وکیل ھوگا“۔( )
یہ تمام واقعات امام مہدی علیہ السلام کی غیبت سے پہلے کے ھیں، غیبت صغریٰ میں بھی آپ کا ہر نائب اپنی وفات سے پہلے امام مہدی علیہ السلام کی طرف سے منتخب ھونے والے نائب کی پہچان کرادیتا تھا۔
یہ حضرات چونکہ اعلیٰ صفات کے مالک تھے جس کی بنا پر ان میں امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی لیاقت پیدا ھوئی۔ ان حضرات کے مخصوص صفات کچھ اس طرح تھے: امانت داری، عفت، رفتار وگفتار میں عدالت، راز داری اور امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں مخصوص حالات میں اسرار اہل بیت علیہم السلام کو مخفی رکھنا، یہ حضرات امام مہدی علیہ السلام کے قابل اعتمادافراد تھے اور خاندان عصمت وطہارت کے مکتب کے پروردہ تھے، انھوں نے مستحکم ایمان کے زیر سایہ علم کی دولت حاصل کی تھی۔ ان کا نیک نام مومنین کی ورد زبان تھا، سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و بردباری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت حالات میں اپنے امام علیہ السلام کی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے، اور ان تمام نیک صفات کے ساتھ ان کے یہاں شیعوں کی رہبری کی لیاقت بھی پائی جاتی تھی،نیز مکمل فہم وشعور اور حالات کی شناخت کے ساتھ اپنے پاس موجود امکانات کے ذریعہ شیعہ معاشرہ کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرماتے تھے، اور مومنین کو غیبت صغریٰ سے صحیح و سالم گزار دیا۔
غیبت صغریٰ اور امام اور امت کے درمیان رابطہ ایجاد کرنے میں نوّاب اربعہ کے کردار کا ایک عمیق مطالعہ اس امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے اس حصہ کی اہمیت کو واضح کردیتا ھے۔ اس رابطہ کا وجود اور غیبت صغریٰ میں بعض شیعوں کا امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ھونا بارھویں امام اور آخری حجت خدا کی ولادت کے اثبات میں بہت موثر رہا ھے، اور یہ اہم نتائج اس زمانہ میں حاصل ھوئے کہ جب دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ شیعوں کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند کی پیدائش کے حوالہ سے شک و تردید میں ڈال دیں۔ اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کا یہ زمانہ غیبت کبریٰ کی شروعات کے لئے ایک ہموار راستہ تھا جس میں مومنین اپنے امام سے رابطہ نھیں کرسکتے تھے، لیکن مطمئن طور پر امام علیہ السلام کے وجود اور ان کے برکات سے فیضیاب ھوتے ھوئے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں داخل ھوگئے۔
غیبت کبریٰ
امام مہدی علیہ السلام کے چوتھے نائب کی زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے ان کے نام خط میں یوں تحریر فرمایا:
” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اے علی بن محمد سمری! خداوندعالم آپ کی وفات پر آپ کے دینی بھائیوں کو اجر جمیل عنایت فرمائے، کیونکہ آپ چھ دن کے بعد عالم بقاء کی طرف کوچ کرجائیں گے۔ اسی وجہ سے اپنے کاموں کو خوب دیکھ بھال لو، اور اپنے بعد کسی کو اپنا وصی نہ بناؤ! کیونکہ مکمل (اور طولانی) غیبت کا زمانہ پہنچ گیا ھے،اس کے بعد سے مجھے نھیں دیکھ پاؤ گے، جب تک خدا کا حکم ھوگا، اور اس کے بعد ایک طویل مدت ھوگی جس میں دل سخت ھوجائیں گے اور زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی۔( )
اس بنا پر بارھویں امام علیہ السلام کے آخری نائب کی وفات کے بعد ۳۲۹ھ سے ”غیبت کبریٰ“ کا آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ھے جب تک کہ خدا کی مرضی سے غیبت کے بادل چھٹ جائیں اور یہ دنیا ولایت کے چمکتے ھوئے سورج سے براہ راست فیضیاب ھو۔
جیسا کہ بیان ھوچکا ھے کہ غیبت صغریٰ میں شیعہ مومنین امام علیہ السلام کے مخصوص نائب کے ذریعہ اپنے امام سے رابطہ رکھتے تھے اور اپنے الٰھی فرائض سے آگاہ ھوتے تھے، لیکن غیبت کبریٰ میں اس رابطہ کا سلسلہ ختم ھوگیا، اور مومنین اپنے فرائض کی شناخت کے لئے امام علیہ السلام عام نائبین جو کہ دینی علماء و مراجع تقلید ھیں؛ ان کی طرف رجوع کریں اور یہ واضح راستہ ھے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اپنے ایک قابل اعتماد عظیم الشان عالم کے سامنے پیش کیا ھے، امام مہدی علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص کے ذریعہ پہنچے ھوئے خط میں اس طرح تحریر ھے:
”وَ اٴمَّا الحَوَادِثُ الوَاقِعَةُ فَارْجعوا إلیٰ رُواةِ حَدیثنَا فَإنّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُم وَ اٴَنَا حُجَّةُ اللهِ عَلَیْہِمْ“۔( )
”اور آئندہ پیش آنے والے حوادث (اور واقعات نیز (مختلف حالات میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی پہچان کے لئے) ہماری احادیث کے رایوں (فقہاء) کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ تم پر ہماری حجت ھیں اور ہم ان پر خدا کی حجت ھیں۔۔۔“۔
یہ نیا طریقہٴ کار دینی سوالات کے جواب کے لئے اور ان سے اہم شیعوں کے انفرادی اور اجتماعی فرائض کی پہچان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ھے کہ امامت و رہبری کا عظیم الشان نظام ، شیعہ ثقافت میں ایک بہترین اور زندہ نظام ھے جس میں مختلف حالات میں مومنین کی ہدایت و رہبری بہت ھی مستحکم طریقہ پر انجام پاتی ھے اور اس مکتب کے ماننے والوں کو کسی بھی زمانہ میں ہدایت کے سرچشمہ کے بغیر نھیں چھوڑا گیا ھے بلکہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف حصوں میں ان کے مسائل کو دینی علماء اور پرھیزگار مجتہدین کے سپرد کردیا گیا ھے جو مومنین کے دین اور دنیا کے امانت دار ھیں ، تاکہ اسلامی معاشرہ کی کشتی طوفان اور دریا کے تلاطم نیز استعمار کی گندی سیاست کے دلدل میں پھنسنے سے محفوظ رھے اور شیعہ عقائد کی سرحدوں کی حفاظت ھوتی رھے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں دینی علماء کے کردار کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”اگر ایسے علماء کرام نہ ھوتے جو امام مہدی علیہ السلام کی غیبت میں لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دیتے اور ان کو اپنے امام کی طرف ہدایت کرتے، نیز حجتوں اور خداوندعالم کے دینی مستحکم دلائل (جو کہ خود دین خدا ھے) کی حمایت نہ کرتے، اور اگر نہ ھوتے ایسے با بصیرت علماء جو خدا کے بندوں کو شیطان اور شیطان صفت لوگوں نیز دشمنان اہل بیت علیہم السلام (کی دشمنی) کے جال سے نجات نہ دیتے؛ تو پھر دین خدا پر کوئی باقی نہ رہتا!! (اور سب دین سے خارج ھوجاتے) لیکن انھوں نے شیعوں کے (عقائد اور) افکار کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا جیسا کہ کشتی کا ناخدا کشتی میں سوار مسافروں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ھے۔ یہ علماء خداوندعالم کے نزدیک سب سے بہترین (بندے) ھیں“۔( )
قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ معاشرہ کی رہبری کے لئے مخصوص صفات و کمالات درکار ھیں، کیونکہ مومنین کے دین و دنیا کے امور کو ایسے شخص کے ہاتھوں میں دینا جو اس عظیم ذمہ داری کے عہدہ دار ھوتے ھیں واقعاً ان افراد کا مکمل طور پر صاحب بصیرت اور صحیح تشخیص کی صلاحیت کا مالک ھونا ضروی ھے، اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام نے دینی مراجع اور ان سے بڑھ کر ولی امر مسلمین ”ولی فقیہ“ کے مخصوص شرائط بیان کئے ھیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”فقہاء (کرام)اور دینی علماء میں جو شخص (گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کے مقابلہ میں) اپنے کو محفوظ رکھے، اور دین اور (مومنین کے عقائد کا) محافظ ھو، اور اپنے نفس اور خواہشات کی مخالفت کرتا ھو، اور اپنے (زمانہ کے) مولا و آقا (اور امام) کی اطاعت کرتا ھو، تو مومنین پر واجب ھے کہ اس کی پیروی کریں، اور صرف بعض شیعہ فقہاء ایسے ھوں گے نہ کہ سب لوگ“۔
source : http://alkausar.net