اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

مہدی منتظرکی معرفت عقل وفطرت کی روشنی میں

ابن حجر ھیتمی شافعی اس آیت کے ذیل میں کہتے ھیں:”مقاتل بن سلیمان اور ان کے تابع مفسرین نے کھا کہ یہ مذکورہ آیت (حضرت امام) مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں نازل هوئی ھے۔“< لِیُظْهرہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ >

< وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ >[1]

ابن حجر ھیتمی شافعی اس آیت کے ذیل میں کہتے ھیں:

”مقاتل بن سلیمان اور ان کے تابع مفسرین نے کھا کہ یہ مذکورہ آیت (حضرت امام) مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں نازل هوئی ھے۔“

< لِیُظْهرہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ >[2]

حافظ گنجی شافعی اس آیت کے بارے میں کہتے ھیں:

”سعید بن جبیر کہتے ھیں کہ (دین اسلام کو تمام ادیان پر ظاھر کرنے والے) (حضرت ) امام مہدی اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیھا) سے ھیں۔“

مقدمہ

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

 الحمد لله علی ما اٴنعم واٴلھم ،صلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وآلہ وسلم۔

قارئین کرام !    حضرت امام ”مہدی منتظر“ کے سلسلہ میں بہت سے شک وشبھات کے سیاہ بادل منڈلاتے هوئے نظر آتے ھیں،اور مسلمانوں کے درمیان میں بہت سی ردّ وبدل هوتی رھی ھے ،یھاں تک کہ بعض کتابوں اور بعض مولفین نے ”امام مہدی“ پر ایمان کو خرافات اور افسانہ پر ایمان رکھنابتایا ھے۔

جبکہ ان بحث کرنے والوں پر لازم تھا کہ اپنی بحث کو صرف اسی حقیقت کوواضح کرنے کے لئے مخصوص کرتے،تاکہ جو شبھات اس سے متعلق پائے جاتے تھے ان کو دور کرتے، اور ناقص افتراء پردازی کا خاتمہ کرکے خالص حقیقت سے پردہ برداری کرتے، تاکہ تمام لوگوں کے سامنے حقیقت واضح اور روشن هوجائے۔

چنانچہ بعض حضرات ایسے بھی هونگے جو یہ خیال کریں کہ یہ موضوع او راس طرح کے دوسرے موضوعات نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کردیا ھے اور ان کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکادی ھے، لہٰذا ان جیسے موضوعات پر بحث ھی نہ کی جائے تو زیادہ مفید ھے، لیکن ھمارے لحاظ سے یہ تصور حقیقت سے بہت دور ھے کیونکہ کسی بھی زمانہ میں کسی بات پر خاموش رہنا اس طرح کی مشکلات کا علاج نھیں رھا ھے، لہٰذا اس طرح کا خیال خام سوء ظن او رپستی کی علامت کے علاوہ کچھ نھیں هوسکتا۔

لہٰذا اس سلسلہ میں صاف اور وضاحت کے ساتھ گفتگو کرنا ھی مفید اور بہتر ھے، تاکہ نامعلوم حقائق سے پردہ برداری کی جاسکے ، جھوٹ او ربے هودہ باتوں کا پول کھل جائے اور شک وتردید کا سد باب هوسکے۔

اسی وجہ سے ھم اسی اھم مقصد وہدف کے بارے میں چند صفحات گفتگو کرنا چاہتے ھیں اور ھم آپ تک خالصانہ واضح طورپرحقائق کو هوبهو پهونچانا چاہتے ھیں۔

ھم اس حصہ میں بھی (اپنی تحقیق اور جستجو )کو محترم قارئین کی خدمت پر پیش کرتے هوئے امیدوار ھیں کہ اس بحث کے مطالعہ کے بعد انصاف سے کام لیں اور خود غرضی کا شکار نہ هوں۔

ھماری دلی آرزو یہ ھے کہ ھمارے قارئین کرام اس بحث کے مطالعہ میں وہ چیزیں پائے گے جن پر گذشتہ صدیوں سے غبار چڑھا هوا تھا اور”مہدی ومہدویت“ کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کے عقیدہ سے بھی آگاہ هوجائیں گے۔

اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ۔

پھلا مرحلہ : نظریہ مہدویت

گذشتہ فصل ”امامت“ کا خلاصہ یہ ھے کہ امامت نام ھے رسالت کے مکمل کرنے والے جز کا، جیسا کہ نصوص اور عقل انسانی بھی دلالت کرتی ھےں، اور جو دلیل نبوت کے لئے قائم کی جاتی ھے اسی دلیل کے تحت امامت کی بھی ضرورت کو ثابت کیا جاسکتا ھے، کیونکہ بغیر امامت کے نبوت کا وجود مکمل نھیں هوتاھے اور اگر نبوت کو ناقص تصور کرلیں تو یہ بات حقیقت اسلام سے منافی ھے کیونکہ اسلام تو یہ کہتا ھے کہ قیامت تک نبوت ورسالت کا هوناضروری ھے۔

لہٰذا نبوت زندگی کا آغاز ھے او رامامت اس زندگی کا دوام او رباقی رہنا ھے، اور اگر ھم نبوت کوامامت کے بغیر تصور کریں تو پھر ھمیں یہ کہنے کا حق ھے کہ رسالت ایک محدود سلسلہ ھے جو رسول کے بعد اپنی حیات کو باقی نھیں رکھ سکتایعنی اپنے اغراض ومقاصد میں اپنی وصی کے بغیر پایہ تکمیل تک نھیں پهونچاسکتی۔

 جبکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وصیت روایات کے ذریعہ بھی ثابت نہ هو تو ھماری عقل اس بات کا فیصلہ کرتی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس طرح کی وصیت کرنی چاہئے، کیونکہ ھمارے سامنے جب کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ھے تو اپنے تھوڑے سے مال کے لئے بھی وصیت کرتا ھے اور کسی ایک شخص کو اپنا وصی بناتا ھے تاکہ اس کی اولاد اور مال ودولت پر نظر رکھے، تو کیا وہ رسول جوسردار انبیاء هو اور اتنی عظیم میراث (نوع بشریت کے لئے اسلام) چھوڑے جارھا ھے، اس میراث پر کسی کو وصی نہ بناکرجائے گا؟!!

لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وقت ِوفات کے حالات کے پیش نظر یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے وصی بنایا اور آپ نے اپنی امت کو شک وشبھات کی وادی میں بے یارو مددگار نھیں چھوڑا۔

اسی طرح یہ بات بھی مزید روشن هوجاتی ھے کہ شیعہ امامیہ نے انتخاب کے مسئلہ میں مخالفت احساسات کی بنا پر نھیں کی، یا کسی سیاسی پھلو کو مد نظر رکھا هو، بلکہ انھوں نے تو روایات اور دیگر نصوص میں وہ چیزیں پائی ھیں جن میں صحیح زندگی کی ضمانت ھے چنانچہ ھم لوگ تو اس مسئلہ میں اس تائید کا دفاع کرتے ھیں اور وہ بھی اسلام واخلاص کی حقیقت کے پیش نظرتاکہ کسی مقصد تک پهونچ جائیں۔

حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے امام ھیں اور ان تمام ائمہ  (ع)کے بارے میں متواتر احادیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمموجود ھیں جن میں کبھی تو وضاحت کے ساتھ او رکبھی اشاروں میں ائمہ  (ع)کی امامت کے بارے میں بیان کیا گیا ھے، (جیسا کہ ھم پھلے بیان کرچکے ھیں) اور یہ تمام روایات اپنے انداز بیان کے اختلاف کے ساتھ ایک ھی چیز کی طرف اشارہ کرتی ھیں اور وہ یہ کہ یہ حضرات رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد امام اور خلیفہ ھیں۔

دوسرے امام : حضرت حسن بن علی (علیہ السلام )

تیسرے امام : حضرت حسین بن علی( علیہ السلام )

چوتھے امام : حضرت علی بن الحسین ، (امام سجاد علیہ السلام )

پانچویں امام : حضرت محمد بن علی (امام باقر علیہ السلام )

چھٹے امام : حضرت جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام )

ساتویں امام: حضرت موسیٰ بن جعفر الکاظم (علیہ السلام )

آٹھویں امام :حضرت علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام )

نویں امام:  حضرت محمد بن علی ،تقی (علیہ السلام )

دسویں امام :  حضرت علی بن محمد نقی (علیہ السلام )

گیارهویں امام: حضرت حسن بن علی عسکری (علیہ السلام )

بارهویں امام : حضرت محمد بن حسن المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)[3]

اوربارهویں امام لوگوں کی نظروں سے غائب ھیں اور جب حکم خدا هوگا تو آپ ظهور فرمائیں گے” اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔“[4]

لیکن امام مہدی کے سلسلہ میں بہت سے لوگوں نے عجیب وغریب اور بے جا اعتراضات کئے ھیں اور آپ کی” غیبت“کے بارے میں بہت زیادہ بے هودہ گفتگو کی ھے جس کی بنا پر سیاہ بادلوں نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا اور انسان صحیح طریقہ پر حقیقت کی پہچان نہ کرسکا، جبکہ بعض مخلص موٴلفین نے اس سلسلہ میں غور وخوض سے کام نھیں لیا  اس خوف سے کہ یہ سلسلہ بہت مشکل ھے ، جبکہ مخالفین اور منکرین اس سلسلہ میں بہت زیادہ  مذاق اڑانے کی غرض سے خوش هوتے ھیں کہ ھم نے اس موضوع کو نابود کردیا اور جس کو یہ لوگ بہت بڑا اسلحہ سمجھتے ھیں، کیونکہ ان کا خیال خام یہ ھے کہ ھماری یہ باتیں

نھایت استدلال اور منطق پر استوار ھیں جن کی کوئی ردّ نھیں کرسکتا۔

 اسی طرح بعض لوگوں نے ”مہدی ومہدویت“ کے بارے میں علمی استدلالات سے بحث نھیں کی ھے اور نہ ھی خاص موضوع کو واضح کیا ھے چنانچہ ایسے خیالات کے قائل هوگئے ھیں کہ عقل ومنطق سے دور ھیں۔

 قارئین کرام !    اس کتاب میں ھماری روش اسی موضوع کے تحت هوگی تاکہ ھم بھی ان اشکالات سے دور رھیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار هوئے ھیں۔

لہٰذا ھم اس کتاب میں اپنے طریقہ کی بنا پر احادیث کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے :

۱۔ وہ احادیث جن میں نظریہ ”مہدویت“ کو بیان کیا گیا ھے اور وہ کس طرح اسلام سے ارتباط رکھتی ھیں۔

۲۔ وہ احادیث نبوی جن میں امام” مہدی “کو معین کیاگیا ۔

۳۔ وہ احادیث جن میں امکان ”غیبت“ پر بحث کی گئی ھے اور غیبت پر دلالت کرتی ھیں۔

چنانچہ ان تمام احادیث کی وضاحت کرنے کے کے بعد حقیقت واضح هوجائے گی، اور اس کووہ تمام ھی لوگ جو اپنی هویٰ وهوس اور خود غرضی کے خواھاں نہ هوں؛آسانی سے سمجھ سکتے ھیں۔

اگر ھم تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں( خصوصاً اگر تاریخ ادیان کو ملاحظہ کریں)تو ھمیں معلوم هوجائے گا کہ ”مہدویت “ کا عقیدہ صرف اور صرف شیعہ حضرات سے ھی مخصوص نھیں ھے اور نہ ھی ان کی ایجاد ھے (جیسا کہ بعض مولفین نے کھا ھے کہ مہدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کی ایجاد ھے) بلکہ ھم تو یہ بھی کہہ سکتے ھیں کہ یہ عقیدہ مسلمانوں سے بھی مخصوص نھیں ھے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان بھی اس عقیدہ میں شریک ھیں۔

کیونکہ یهود ونصاریٰ بھی ایک ایسے مصلح منتظر کا عقیدہ رکھتے ھیں جو آخرالزمان میں آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ هوگا (یہ تھا یهودیوں کا نظریہ) جبکہ عیسائیوں کے نزدیک وہ مصلح منتظر حضرت عیسیٰ بن مریم هونگے۔

اسی طرح دیگر مسلمان بھی اپنے مذھبی اختلاف کے باوجود اسی چیز کا اقرار کرتے ھیں جبکہ شیعہ امامی اور کیسانیہ اور اسماعیلیہ ”امام مہدی“ کا عقیدہ رکھتے ھیں اور اس کو ضروریات مذھب سے شمار کرتے ھیں، اسی طرح اھل سنت حضرات اپنے ائمہ اور علماء حدیث کے بارے میں عقیدہ رکھتے ھیں،جن میں سے بعض لوگوں نے مہدویت کا دعویٰ بھی کیا ھے جیسا کہ مغرب ، لیبی اور سوڈان میں اس طرح کے واقعات رونما هوئے ھیں کہ اھل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنے کو ”مہدی مصلح“ کھلوایا۔

نیز اسی طرح کا عقیدہ تینوں آسمانی ادیان میں ملتا ھے۔

اسی طرح یہ عقیدہ شیعہ حضرات میں، دوسرے مسلمان بھائیوں کی طرح پایا جاتا ھے اور امام مہدی کے بارے میں ان کا وھی عقیدہ ھے جس کو ڈاکٹر احمد امین صاحب نے اھل سنت کے نظریہ کو بیان کیا ھے کہ:

”اس وقت تک قیامت نھیں آئے گی جب تک آخرالزمان میں اھل بیت  (ع) سے ایک شخص ظاھر نہ هوجائے جو دین کی نصرت کرے گا اور عدل وانصاف کو عام کردے گا ،تمام مسلمان اس کی اتباع وپیروی کریں گے اور تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرے گا جس کا نام ”مہدی“ هوگا۔[5]

شیعہ حضرات بھی وھی کہتے ھیں جو شیخ عبد العزیر بن باز رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کہتے ھیں، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:

”(حضرت ) مہدی کا مسئلہ معلوم ھے کیونکہ ان کے سلسلہ میں احادیث مستفیض بلکہ متواتر ھیں جو ایک دوسرے کی کمک کرتی هوئی اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ واقعاً مہدی موعود ھیں اور ان کا ظهورحق ھے“۔ [6]

قارئین کرام !   یھاںتک یہ بات واضح هوگئی کہ ”نظریہ مہدویت“ایک صحیح نظریہ ھے جیساکہ معاصر کاتب مصری عبد الحسیب طٰہ حمیدہ کہتے ھیں[7]

لیکن واقعاً تعجب خیز ھے کہ جناب عبد الحسیب صاحب اس بات کی طرف متوجہ نھیں هوئے کہ خود پھلے نظریہ مہدویت کوصحیح مان چکے ھیں کیونکہ ان کا بعد کا نظریہ پھلے نظریہ کے مخالف ھے جبکہ اس سے پھلے انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ ”مہدویت کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ھے جو یهودیوں سے لیا گیا ھے اور جس کا اسلام سے کوئی سروکار نھیں ھے“[8]

کیونکہ موصوف اپنی اس عبارت سے صرف اور صرف شیعوں پر تھمت لگانا چاہتے ھیں کہ شیعوں کے عقائد یهودیوں سے لئے گئے ھیں،لیکن موصوف نے اپنے اس اعتراض سے تمام مسلمانوں پر تھمت لگائی ھے (جبکہ اس بات کی طرف متوجہ بھی نھیں ھیں) کیونکہ ان کی ان دونوں بات میں واضح طور پر ٹکراؤ ھے کیونکہ پھلے انھوں نے نظریہ مہدویت کو صحیح تسلیم کیا لیکن بعد میں اس کو یهودیوں کے عقائد میں سے کہہ ڈالا، چنانچہ آپ حضرات نے بھی اندازہ لگایا لیا هوگا کہ موصوف کا اتنی جلدی نظریات کا تبدیل کرنا ان کی بد نیتی اور تعصب پر دلالت کرتا ھے کیونکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات پر یہ بات واضح ھے کہ عبد اللہ ابن سبا نامی شخص کا تاریخی وجود ھی نھیں بلکہ یہ صرف خیالی اور جعلی نام ھے اور صرف اس کے نام سے مختلف عقائد منسوب کردئے گئے ھےں جو سب کے نزدیک معلوم ھیں کہ یہ سب کچھ جعلی اور صرف افسانہ ھے، اور شاید یہ سب اس وجہ سے هو کہ صدر اسلام میں عبد اللہ بن سبا کا نام بہت زیادہ زبان زدہ  خاص وعام تھا اور اس سے مراد رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے جلیل القدر صحابی جناب عمّار یاسر هوتے تھے جیسا کہ بعض مولفین نے اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا ھے۔[9]

خلاصہ بحث یہ هوا کہ ”نظریہ مہدویت“ شیعوں کی ایجاد کردہ نھیں ھے اور نہ ھی اس سلسلہ میں یهود وغیریهود کی اتباع کرتے ھیں بلکہ اس سلسلہ میں تینوں آسمانی ادیان (یهودی ،عیسائی اور اسلام) نے بشارت دی ھے ، اور اسلام نے اس سلسلہ میںعملی طور پر مزید تاکید کی ھے ، چنانچہ تمام مسلمانوں نے اس مسئلہ کو قبول کیا ھے اور اس بارے میں احادیثیں نقل کی ھیںاور ان پر یقین کامل رکھتے ھیں۔

 لہٰذا ان تمام باتو ں کو ”شیعہ حضرات کی گمراھی اور بدعتیں“ کہنا ممکن نھیں ھے اور اس قول پر یقین کرنا ناممکن ھے ، بلکہ یہ ایک ایساصحیح عقیدہ ھے جو عقائد اسلام کی حقیقت اور احادیث رسولاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے اخذ شدہ  ھے جس کا انسان انکار ھی نھیں کرسکتا۔

چنانچہ اس حقیقت کا خلاصہ عراقی سنی عالم جناب شیخ صفاء الدین آل شیخ نے یوں کیا ھے:

”حضرت امام مہدی منتظر کے بارے میں احادیث اس قدر زیادہ ھیں کہ انسان کو اطمینان حاصل هوجاتا ھے کہ” وہ آخر الزمان میں ظاھر هوں گے اور اسلام کو اس کی صحیح حالت پر پلٹادیں گے، اوردین و ایمان کی قوت اور رونق کو بھی پلٹادیں گے اسی طرح دین کی رونق کو بھی لوٹادیں گے“

چنانچہ اس طرح کی روایت بغیر کسی شک وشبہ کے متواتر ھیں بلکہ ان سے کم بھی هوتیں تب بھی علم اصول کی اصطلاح کی بنا پر ان کومتواتر کہنا صحیح تھا ۔

قارئین کرام !   حضرت امام مہدی کے بارے میں صاف صاف روایات موجود ھےں اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے کیونکہ علماء اھل سنت نے اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی ھیں جیسا کہ برزنجی صاحب نے ”الاشاعة لاشتراط الساعة“ میں ، جناب آلوسی صاحب نے اپنی تفسیر میں، ترمذی صاحب ، ابو داؤد، ابن ماجہ ، حاکم، ابویعلی ، طبرانی عبد الرازق، ابن حنبل، مسلم، ابونعیم ، ابن عساکر، بیہقی ، تاریخ بغداد ، دار قطنی ، ردیانی ونعیم بن حمادنے اپنی کتاب ”الفتن“ میں اور اسی طرح ابن ابی شیبہ، ابونعیم الکوفی، البزار، دیلمی، عبد الجبار الخولانی نے اپنی تاریخ میں، جوینی، ابن حبان، ابوعمرو الدانی نے اپنی سنن میںو۔۔۔

 خلاصہ مذکورہ حضرات وغیرہ نے لکھا ھے کہ (امام مہدی) کے ظهور پر ایمان رکھنا ضروری ھے کیونکہ ان کے ظهور پر اعتقاد رکھنا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی احادیث کی تصدیق کرنا ھے۔[10]

قارئین کرام !   اکثر علماء اسلام نے مہدویت کے بارے میں اقرار کیا ھے اور اس سلسلہ میں اخبار وراوایات کی تصحیح کی خاطر کتابیں تالیف کی ھیںتاکہ زمانہ پر حقیقت واضح هوجائے اور اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا ھے ، لہٰذا ھم مثال کے طور پر چند مولفین کے نام پیش کرتے ھیں ، اگرچہ مولفین کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھے جس کو ھم بیان کرتے ھیں:

۱۔ عباد بن یعقوب الرواجنی متوفی  ۲۵۰ھ نے کتاب ”اخبار المہدی“ میں۔

۲۔ ابو نعیم اصفھانی متوفی  ۴۳۰ھ نے کتاب ”اربعین حدیثا فی امر المہدی“[11] و کتاب ”مناقب المہدی“[12]و کتاب ”نعت المہدی“ میں۔

۳۔محمد بن یوسف کنجی شافعی متوفی ۶۵۸نے کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“ میں۔

۴۔ یوسف بن یحيٰ سلمی شافعی متوفی  ۶۸۵ھ نے کتاب ”عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر“ میں ۔[13]

۵۔ ابن قیم جوزی متوفی  ۷۵۱ھ نے کتاب ”المہدی“ میں۔

۶۔ ابن حجر ھیتمی شافعی متوفی  ۸۵۲ھ نے کتاب ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“ میں[14]

۷۔ جلال الدین سیوطی متوفی   ۹۱۱ھ نے کتاب ”العرف الوردی فی اخبار المہدی“ جو شایع شدہ بھی ھے اسی طرح دوسری کتاب ”علامات المہدی“ میںبھی۔

۸۔ ابن کمال پاشا حنفی متوفی  ۹۴۰ھ نے کتاب ”تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان“  میں[15]

۹۔ محمد بن طولون دمشقی متوفی  ۹۵۳ھ نے کتاب ”المہدی الی ماورد فی المہدی“ میں۔[16]

۱۰۔علی بن حسام الدین متقی ہندی متوفی  ۹۷۵ھ نے کتاب ”البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان“ اورکتاب ”تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخر الزمان“ میں۔[17]

۱۱۔ علی قاری حنفی متوفی  ۱۰۱۴ھ  نے کتاب ”الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی“ وکتاب”المشرب الوردی فی اخبار المہدی“ میں ۔[18]

۱۲۔  مرعی بن یوسف الکرمی حنبلی متوفی  ۱۰۳۱ھ نے کتاب ”فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر“ میں[19]

۱۳۔ قاضی محمد بن علی شوکانی متوفی  ۱۲۵۰ھ نے کتاب ”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المہدی المنتظر والدجال والمسیح“ میں۔ [20]

۱۴۔ رشید الراشد التاذفی حلبی (معاصر) نے کتاب ”تنویر الرجال فی ظهور المہدی والدجال“ میں جو شایع شدہ بھی ھے۔

قارئین کرام !    یہ تھے چند اھل سنت مولف جنھوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث نقل کی اور کتابیں لکھیں ھیں۔

اسی طرح شعراء کرام نے بھی حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں اپنے اپنے اشعار میں مہدی او رمہدویت کی طرف اشارہ کیا ھے چنانچہ انھوں نے اپنے اشعار وقصائد میں حضرت مہدی کی معرفت، ان کے ظهوراور ان کے وجود کی ضرورت کو بیان کیا ھے جن کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے ، لہٰذا ھم یھاں پر چند شعراء کے ا شعار بطور مثال پیش کرتے ھیں:

۱۔ کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ھ کہتے ھیں:

متیٰ یقوم الحق فیکم متیٰ             یقوم مہدیکم الثانی[21]

کب ھمارے درمیان حق آئے گا اور کب ھمارا مہدی قیام کرے گا۔

۲۔ اسماعیل بن محمد حمیری متوفی   ۱۷۳ھ کہتے ھیں:

باٴن ولیَّ الامر والقائم الذی             تطلع نفسی نحوہ بتطرّبِ

لہ غیبة لابد من اٴن یغیبھا              فصلی علیہ اللّٰہ من متغیب

فیمکث حیناً ثم یظھر حینہ             فیملاٴ عدلا کل شرق ومغرب[22]

ولی امر قائم منتظر کے لئے میرا دل خوشحالی سے انتظار کرتا ھے۔

ان کے لئے غیبت ضروری ھے پس اس غائب پر خدا کا درود وسلام هو۔

وہ پردہ غیب سے ظاھر هونگے تو مشرق ومغرب (پوری دینا)کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔

۳۔ دعبل خزاعی متوفی  ۲۴۶ھ کہتے ھیں:

خروج امامٍ لا محالة خارج    یقوم علی اسم اللّٰہ والبرکاتِ

یمیز فینا کل حق وباطل   ویجزی علی النعماء والنقمات[23]

امام کا ظهور (ایک روز) حتمی اور ضروری ھے اور آپ خدا کے نام او راس کی برکتوں کے ساتھ ظهور کریں گے۔

اور آپ کے ظهور کے وقت حق وباطل الگ الگ هوجائے گا اور نعمت ونقمت کے لحاظ سے جزا دیں گے۔

۴۔ مھیار دیلمی متوفی  ۴۲۸ھ کہتے ھیں:

عسیٰ الدھر یشفي غداً من عداک          قلبَ مغیظٍ بھم مکمدِ

عسیٰ سطوة الحق تعلو المحال             عسیٰ یُغلب النقص بالسودد

بسمعي لقائمکم دعوة                       یلبي لھا کل مستنجد [24]

ھم اس دن کے منتظر ھیں کہ جب آپ کے دشمن ھلاک هونگے اور ھم خوشحال۔

عنقریب وہ دن آنے والا ھے جب حق باطل پر اور کمزور متکبروں پر غلبہ حاصل کریں گے۔

اور جب ھمارے کانوں میں حضرت قائم(ع) کی آواز آئے گی تو ھم سب ان کی آواز پر لبیک کھیں گے۔

۵۔ ابن منیر طرابلسی متوفی  ۵۴۸ھ مخالف کا مسخرہ کرتے هوئے کہتے ھیں:

والیتُ آل  امیة     ة الطھر المیامین الغرر

واکذّب الراوی واٴطعن ن  فی ظهور المنتظر[25]

میں آل امیہ کو دوست رکھتا هوں جن کے صفات عالی ھیں!!

اور میں اس راوی کی تکذیب کرتا هوں جو ظهور مہدی کے انتظارمیں کہتا ھے!!

۶۔ محمد بن طلحہ شافعی متوفی  ۶۵۲ھ کہتے ھیں :

وقد  قال رسول اللّٰہ                       قولا قد رویناہ

وقد ابداہ بالنسبة                         والوصف و سمّاہ

یکفی قولہ ”منّی“                         لاشراق محیاہُ

ومن بضعتہ الزھراء                        مرساہ ومسراہ

فمن قالوا هو المہدی                              ما مانوابما فاهوا[26]

بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے (امام مہدی کے بارے میںارشاد فرمایا جس کو ھم نے بیان کیا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی نسبت، اوصاف اور نام بھی بیان کیا ھے۔

آپ کی شان میں لفظ ”مِنِّی“ کہنا ھی آپ کی عظمت پر دلالت کرتا ھے۔  حضرت زھرا (ع)آپ کا ایک جزء ھیں جن سے آپ باھر جاتے وقت اور واپس آتے وقت (سب سے پھلے) ملاقات کیا کرتے تھے۔    جو افراد حضرت مہدی کے بارے میں کہتے ھیں وہ کوئی نئی چیز پیش نھیں کرتے (بلکہ یہ حقیقت تو پھلے سے معلوم شدہ ھے)

۷۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۶ھ کہتے ھیں:

ولقد علمتُ بانہ لا بد من                مہدیکم ولیومہ اٴتوقعُ

یحمیہ من جند الالہ کتائب              کالیم اٴقبل زاخراً یتدفعُ

فیھا لآل اٴبی الحدید صوارم             مشهورة ورماحُ خط شرَّع[27]

مجھے امام مہدی پر یقین ھے اور ان کے ظهور کا انتظار ھے۔ لشکر خدا کے سپاھی امام زمانہ کی اس طرح حمایت کریں گے جس طرح دریا کی لھریں اٹھتی ھیں۔ 

 اس وقت آل ابی الحدید تیر وتلوار کے ساتھ آپ کی حمایت میں جنگ کرے گی۔

۸۔ شمس الدین محمد بن طولون حنفی دمشقی متوفی  ۹۵۳ھ ، موصوف ارجوزہ کے ضمن میں فرماتے ھیں جس کوبارہ اماموں کی شان میں کھا ھے:    والعسکری الحسن المطھرُ محمد  المہدی سوف یظھرُ[28]

امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد حضرت مہدی ظاھر هوں گے۔

۹۔ عبد اللہ بن علوی الحداد تریمی شافعی متوفی  ۱۱۳۲ھ فرماتے ھیں:

محمد المہدی خلیفة ربنا               امام المہدی بالقسط قامت ممالکہ

کاٴني بہ بین المقام ورکنھا             یبایعہ من کل حزب مبارکہ

حضرت امام مہدی ھمارے رب کے خلیفہ ھیں جن کی وجہ سے پوری دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔    اور جب آپ رکن ومقام کے درمیان کھڑے هوں گے اس وقت ھر گروہ آپ کی بیعت کرتا هوا نظر آئے گا۔

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ھیں:

 ومنّا امام حان حین خروجہ             یقوم باٴمر اللّٰہ خیر قیام

فیملوٴھا بالحق والعدل والہدی        کما ملئت جوراً بظلم طغام [29]

ھمارے امام کے ظهور کا وقت نزدیک ھے جو خدا کے حکم سے بہترین قیام کرےں گے۔        چنانچہ آپ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔

 دوسرا مرحلہ:   مہدی کون ھیں؟

حضرت مہدی (ع) کی معرفت

قارئین کرام !   اسلام نے یهودیوں کے اس نظریہ کو باطل قرار دیا ھے کہ ”ایلیا“ ھی مصلح منتظر ھے، اسی طرح نصاریٰ کا جناب عیسیٰ (ع)کو مصلح منتظر ماننے کوبھی باطل قرار دیا ھے ، نیز اسی طرح کیسانیہ کا محمد بن حنفیہ کا ، نیز اسماعلیوں کا جناب اسماعیل بن جعفر کا مصلح منتظر ماننے کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ھے کیونکہ محمد بن حنفیہ او راسماعیل بن جعفرزندہ نھیں ھیں۔

لہٰذا اب فقط شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان یہ اختلاف باقی ھے کہ مہدی کون ھےں؟

چنانچہ اھل سنت کا نظریہ یہ ھے کہ مہدی آخری زمانہ میں تلوار کے ساتھ ظاھر هونگے کیونکہ اس سلسلہ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی روایات بہت زیادہ ھیں جو تواتر کی حد تک پهونچی هوئی ھیں جن میں مہدی منتظر کی بشارت دی گئی ھے اور فرمایا ھے کہ وہ میرے اھل بیت میں سے هوں گے اور یہ کہ وہ سات سال حکومت کریں گے نیز وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ، ان کے ساتھ جناب عیسیٰ  (ع) بھی هوںگے او ر جناب عیسیٰ  (ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔[30]

لیکن شیعوں کا نظریہ یہ ھے کہ امام مہدی آخری زمانہ میں ظاھر هونگے ان کا نسب علوی هوگا ان کے ھاتھ میں تلوار هوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور پوری دنیا میں اسلام کا بول وبالا هوگا۔

دونوں حضرات کے نظریات کا خلاصہ آپ  نے ملاحظہ فرمایا ، دونوں حضرت مہدی کے ظهور کے قائل ھیں تو پھر ان دونوں میں اختلاف کیا ھے؟

تو عرض خدمت ھے کہ اختلاف صرف اتناھے کہ اھل سنت کا اعتقاد یہ ھے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا هوں گے یعنی وہ اس وقت موجود نھیں ھےں او ریہ بھی نھیں معلوم کہ وہ کب پیدا هوں گے ان کے باپ کون هوں گے۔!!

 اسی نظریہ کے تحت ”سنوسی“ نے لیبی میں او رعبد الرحمن نے سوڈان میں تلوار کے ذریعہ قیام کیا او رمہدویت کا دعویٰ کرڈالا ۔

لیکن شیعوں کا عقیدہ یہ ھے کہ حضرت مہدی :  محمد بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیھم السلام) ھیں اور آپ اس دنیا میں موجود ھیں لیکن کوئی ان کود یکھ نھیں پاتا۔

اور یھی دونوں فریق میں نقطہ اختلاف ھے۔

اور چونکہ مدعی کے پاس دلیل کا هونا ضروری هوتا ھے (جیسا کہ فقھی قانون بھی کہتا ھے) لہٰذا ھم یھاں پر کچھ ایسے دلائل پیش کرتے ھیں جن کے ذریعہ شیعہ حضرات اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرتے ھیں نیز منکرین کی طرف سے بیان شدہ دلائل کی بھی ردّ کریں گے تاکہ صاحبان علم وبصیرت پر حقیقت بالکل واضح اور روشن هوجائے۔

اور چونکہ شیعوں کا عقیدہ ھے کہ امامت الٰھی منصب هوتا ھے جس میں نص اور تعین کا هونا ضروری هوتا ھے لہٰذا منطق واحادیث کے مستحکم دلائل کی بنا پر شیعہ حضرات امامت حضرت مہدی پر ایمان رکھتے ھیں ۔

 یھاں پر کوئی شخص یہ سوال کرسکتا ھے کہ وہ احادیث جن کے ذریعہ آپ امام مہدی کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں کھاں ھیں اور ان کے راوی کون کون ھیں۔؟

توھم جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ ایک یادو حدیث نھیں ھیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بہت سی احادیث ھیں جن کو  اکثر صحابہ نے نقل کیا ھے اور بہت سے حفاظ نے روایت کیا ھے اور اس قدر روایت وتواتر کے پیش نظر کسی کو ان احادیث کی صحت پر شک وشبہ کی گنجائش نھیں رہتی۔

اس سلسلہ میں مزید دقت اور موضوع کی اھمیت کے پیش نظر ھم ان احادیث کو سند ودلالت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کرتے ھیں:

          ۱۔ وہ احادیث جن کی سند صحیح ھے اور ان کی دلالت بھی واضح ھے نیز ان میں کوئی شک وشبہ بھی نھیں ھے، ائمہ حدیث اور بڑے بڑے حفاظ نے ان احادیث کے حسن وصحت کا اقرار کیا ھے، اور بعض نے ان کی صحت کو بخاری اور مسلم میں هونے کو شرط کیا ھے لہٰذا ان احادیث کے مطابق عمل کرنا او ران پر اعتقاد رکھنا ضروری ھے۔

          ۲۔ وہ احادیث جو دلالت کے اعتبار سے صحیح ھیں لیکن ان کی سند ضعیف ھے، ان احادیث پر بھی عمل کرنا ضروری ھے کیونکہ علم حدیث کے قواعد کے مطابق ان احادیث کا ضعف سند پھلی قسم کے ذریعہ جبران هوجاتا ھے او راکثر مشهور علماء کرام نے ان پر عمل کیا ھے بلکہ ان کے مضمون پر اجماع ھے۔

          ۳۔ وہ احادیث جن میں بعض صحیح ھیں اور بعض ضعیف، لیکن یہ احادیث متواتر احادیث کے مخالف ھیں لہٰذا اگر ان کی تاویل ممکن نہ هو تو پھر ان پر عمل نھیں کیا جاسکتا اور ان کو چھوڑدینا ضروری ھے مثلاً جس طرح یہ احادیث جو دلالت کرتی ھیں کہ” حضرت مہدی کا نام احمد ھے یا امام مہدی کے والد کا نام رسول اللہ(ص) کے پدر بزرگوار کے نام پر هوگا یا آپ ابو محمد حسن زکی کی اولاد سے هونگے“ کیونکہ یہ احادیث شاذاور نادر ھیں اور مشهور نے ان سے اعراض کیا ھے یعنی ان کے مطابق عمل نھیں کیا۔ [31]

لہٰذا قسم اول اور قسم دوم باقی بچتی ھیں جن پر عمل کیا جانا چاہئے جو مختلف طریقہ سے ایک ھی مقصد تک پهونچاتی ھیں اگرچہ الفاظ مختلف ھیں لیکن سب ایک ھی ہدف کی طرف راہنمائی کرتی ھیں ، لہٰذا ھم یھاں پر ان احادیث کا خلاصہ پیش کرتے ھیں:

وہ احادیث جن میں کھا گیا ھے کہ حضرت مہدی قریش سے هوں گے:

احمدا ورماوردی نے روایت کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

”ابشروا بالمہدی ، رجل من قریش من عترتی، یخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلا وقسطا کما ملئت ظلماً وجوراً“ [32]

(میں تمھیں مہدی کے بارے میں بشارت دیتا هوں جو قریش اور میرے عترت سے هوں گے وہ لوگوں کے اختلاف اورتفرقہ کے وقت ظاھر هونگے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیں گے۔)

بعض احادیث میں امام مہدی کو اولاد عبد المطلب سے بتایا گیا ھے:

ابن ماجہ نے اپنی سند کے ساتھ جناب انس بن مالک سے نقل کیا ھے کہ انس کہتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یہ فرماتے هوئے سنا ھے:

”نحن ولد عبد المطلب سادة اھل الجنة  انا وحمزہ وعلی وجعفر والحسن والحسین والمہدی“[33]

(ھم اولاد عبد المطلب اھل بہشت کے سردار ھیں: میں، جناب حمزہ حضرت علی جناب جعفر امام حسن وامام حسین او رامام مہدی (علیھم السلام)

جبکہ بعض احادیث کا بیان ھے کہ امام مہدی از آل محمد هوں گے:

”قال رسول اللّٰہ  (ص) یخرج فی آخر الزمان رجل من ولدی اسمہ کاسمی وکنیتہ ککنیتی، یملاٴ ا لاٴرض عدلاً کما ملئت جوراً فذلک هو المہدی“ (وہذا حدیث مشهور )[34]

(حضرت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک شخص ظاھر هوگا جس کا نام میرے نام پر جس کی کنیت میری کنیت پر هوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا اور وہ مہدی هوگا ، )اور یہ حدیث مشهور ھے۔[35]

اور بعض کابیان ھے کہ مہدی میری عترت میں سے هونگے:

ابوداؤد نے اپنی سند کے ذریعہ جناب ام سلمہ سے روایت کی ھے کہ انھوں نے فرمایا:

”سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول المہدی من عترتی“[36]

(میں نے رسول اللہ سنا کہ مہدی میری عترت سے هوں گے)

بعض احادیث میں امام مہدی کو اھل بیت سے بتایا گیا ھے:

قال النبی  (ص) لولم یبق من الدھر الا یوم لبعث اللّٰہ رجلا من اھل بیتی یملوٴھا عدلا کما ملئت جوراً[37]

(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا کہ اگر (قیامت میں) ایک روز بھی باقی رہ جائے تو خداوندعالم میرے اھل بیت سے ایک شخص کو ظاھر کرے گا جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا)

جبکہ بعض روایات ،امام مہدی کو نسل علی علیہ السلام سے بتاتی ھیں:

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

”ان علیا وصیي، و من ولدہ القائم المنتظر المہدی الذی یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلماً“[38]

(بے شک علی میرے وصی ھیں اور ان ھی کی نسل سے قائم منتظر مہدی هوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)

جبکہ بعض روایات میں اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بتایا گیا ھے:

مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، بیہقی وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

”المہدی من عترتی من ولد فاطمة“ [39]

(مہدی میری عترت،جناب فاطمہ (ع) کی اولاد سے هوں گے)

اوربعض روایات میںآیا ھے کہ امام حسین کی اولاد میں سے هوں گے:

”قال رسول اللّٰہ (ص) لاتذھب الدنیا حتی یقوم بامتی رجل من ولد الحسین یملاٴ الارض عدلاً کما ملئت ظلما“[40]

(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:جب تک حسین کی اولاد سے میری امت میںایک شخص ظهور نہ کرلے اس وقت تک قیامت نھیں آسکتی او روہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا“)

بعض روایت میں آیا ھے کہ ذریت امام حسین علیہ السلام سے نھم هوں گے:

”عن سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ قال۔دخلت علی النبی (ص) فاذا الحسین علی فخذیہ هویقبل خدیہ ویلثم  فاہ ویقول ۔انت سید ابن سید اخو سید وانت امام ابن امام اخو امام و انت حجة ابن حجة اخو حجة ابو حجج تسعہ، تاسعھم قائمھم المھدی[41]

(جناب فارسی راوی ھیں کہ جب میںرسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی خدمت عالیہ میںمشرف هوا تودیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کی آغوش میں بیٹھے ھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآپ کے رخسار اور منھ کا بوسہ لے رھے ھیں اور کہہ رھے ھیں تم سید ، سید کے بیٹے اور سید کے بھائی هو۔ تم امام، امام کے بیٹے ، اور امام کے بھائی هو۔ تم حجت، حجت کے بیٹے ، حجت کے بھائی اور نو حجتوں کے باپ هو جن کا نواں مھدی هوگا)

بعض روایات میں بارہ اوصیا بارہ ائمہ ،بارہ خلیفہ بیان هوا ھے:

”۔۔۔ان وصیی علی بن ابی طالب وبعدہ سبطای الحسن والحسین تتلوہ تسعہ اٴئمہ من صلب الحسین، قال :یامحمد فسمھم لی، قال : اذا مضی الحسین فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد  فابنہ جعفر، فاذا مضیٰ جعفر فابنہ موسی فاذامضی موسیٰ فابنہ علی فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد فابنہ علی فاذا مضی علی فابنہ الحسن فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المہدی فھولاء اثنا عشر “[42]

(میرے وصی علی ابن ابی طالب ھیں ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسن وحسین (ع)ھیں اور ان کے بعد حسین کی نسل سے ۹ /وصی هوں گے (سائل سے سوال کیا )یا رسول اللہ آپ ان کے بھی نام بیان فرمائیں ،تب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا :

جب امام حسین گذر جائیں گے تو ان کے فرزند علی (زین العابدین ) اور جب علی گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (باقر) اور جب محمد گذر جائیں گے تو ان کے فرزند جعفر (صادق)اور جب جعفر گذر جائیں گے تو ان کے فرزند موسیٰ (کاظم )اور جب موسی ٰگذر جائیں گے ان کے فرزند علی (رضا ) اور جب علی (رضا ) گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (تقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند علی(نقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند حسن (عسکری )اور جب حسن گذر جائیں گے تو ان کے فرزند حجت محمد مھدی (علیھم السلام) هوں گے بس یھی میرے وصی بارہ ھیں۔“)

یحيٰ بن الحسن نے کتاب عمدہ میں اس حدیث کے ۲۰/ طریقے نقل کئے ھیں کہ رسول اسلام کے بعد ۱۲ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے اور مذکورہ بیس طریقے درج ذیل کتابوں میں اس طرح ھیں :

صیح بخاری میں۳/ طریقے۔

صیح مسلم میں ۹/طریقے ۔

سنن ابی داؤدمیں ۳/ طریقے۔

سنن ترمذی میں ایک طریقہ۔

اور حمیدی میں۳ /طریقے ۔

اور بعض روایات کے مطابق مھدی (ع)، حسن عسکری (ع)کے فرزند هوں گے ۔

مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری ، حضرت رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے روایت کرتے ھیں:

”۔۔۔فبعدہ ابنہ الحسن یدعی العسکری  فبعدہ ابنہ محمد یدعی بالمہدی و القائم والحجة فیغیب ثم یخرج  فاذا خرج  یملاٴ  الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما“[43]

(آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:  ان کے بعد ان کے فرزند حسن عسکری ان کے بعد ان کے فرزند محمد مہدی والقائم والحجة ھیں پس وہ  هونے کے بعد ظاھر هوں گے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔)

قارئین کرام !    مذکورہ تمام احادیث کو جمع کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اس امت کے مہدی امام حسن عسکری کے فرزند ھیں چنانچہ اس مسلم نتیجہ سے کوئی گریز نھیں کرسکتا ۔

 اس حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لئے ضروری ھے کہ ان اصحاب کے اسماء گرامی کو بیان کیا جائے جنھوں نے حضرت مہدی سے متعلق احادیث نقل کی ھے اور چونکہ ھر روایت کے تمام افراد کو اس مختصر کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا ۔

(لہٰذا صرف راوی کو بیان کرتے ھیں )

۱) ابو اما مة الباھلی ۔

۲) ابو ایوب الانصاری ۔

۳)ابو سعید خدری

 ۴)ابو سلیمان راعی رسول اللہ (ص)۔

۵) ابوالطفیل۔

۶)ابو ھریرہ ۔

۷) ام حبیبہ ام المومنین ۔

۸) ام سلمہ ام المومنین ۔

۹) انس بن مالک ۔

۱۰) ثوبان (غلام رسول ) ۔

۱۱) جابر بن سمرة ۔

۱۲) جابر بن عبد اللہ انصاری ۔

 ۱۳) حذیفہ الیمانی ۔

۱۴) سلمان فارسی ۔

۱۵) شھربن حوشب ۔

۱۶)طلحہ بن عبیداللہ ۔

۱۷)عائشہ ام المومنین ۔

۱۸) عبد الرحمن بن عوف ۔

۱۹) عبد اللہ بن الحارث بن حمزہ ۔

۲۰) عبداللہ بن عباس ۔

۲۱) عبداللہ بن عمر ۔

۲۲) عبداللہ بن عمرو بن العاص۔

۲۳) عبداللہ بن مسعود ۔

۲۴) عثمان بن عفان ۔

۲۵) علی بن ابی طالب ۔

۲۶) علی الھلالی ۔

 (۲۷) عمار بن یاسر ۔

۲۸) عمران بن حصین۔

۲۹) عوف بن مالک ۔

۳۰) قرة بن ایاس ۔

۳۱) مجمع بن جاریة الانصاری [44]

قارئین کرام !   شیخ عبد المحسن صاحب نے امام مہدی (ع)کے سلسلے میں احادیث بیان کرنے والے مشهور و معروف حفاظ کی تعداد ۳۸ بتائی ھے ، چنانچہ ھم یھاں پر ان افراد کی فھرست بیان کرتے ھیں :

۱ ۔ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن میں ۔

۲۔ ترمذی نے اپنی کتاب جامع میں ۔

۳۔ ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن میں ۔

۴۔ نسائی نے اپنی کتاب کبری میں ۔

۵۔ احمد نے اپنی کتاب مسند میں ۔

۶۔ ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں ۔

۷۔ حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں۔

۸۔ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی کتاب المصنف میں ۔

۹۔ نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں ۔

۱۰۔ ابو نعیم نے اپنی کتاب المھدی والحلیة میں ۔

۱۱۔ طبرانی نے اپنی کتاب کبیر، اوسط اور صغیر میں۔

۱۲۔ دار قطنی نے اپنی کتاب الافراد میں ۔

۱۳۔ بارودی نے اپنی کتاب معرفة الصحابہ میں ۔

۱۴۔ ابو یعلی الموصلی نے اپنی کتاب مسند میں۔

۱۵۔ بزار نے اپنی کتاب مسند میں ۔

۱۶۔ الحارث بن ابی اسامہ نے اپنی کتاب مسند میں ۔

۱۷۔ الخطیب نے اپنی کتاب تلخیص المتشابہ ، المتفق اور مفترق میں۔

۱۸۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ میں۔

۱۹۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب تاریخ اصفھان میں۔

۲۰۔ ابو الحسن حربی نے اپنی کتاب الاول من الحربیات میں۔

۲۱۔ تمام الرازی نے اپنی کتاب فوائد میں ۔

۲۲۔ ابن جریر نے اپنی کتاب تہذیب الآثار میں ۔

۲۳۔ ابو بکر بن المقری نے اپنی کتاب معجم میں ۔

۲۴۔ ابو عمر والدانی نے اپنی کتاب السنن میں۔

۲۵۔ ابو غنم الکوفی نے اپنی کتاب الفتن میں۔

۲۶۔ الدیلمی نے اپنی کتاب مسند الفردوس میں۔

۲۷۔ ابو بکر الاسکاف نے اپنی کتاب فوائد الاخبار میں ۔

۲۸۔ ابو الحسین بن المناوی نے اپنی کتاب الملاحم میں ۔

۲۹۔بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں ۔

۳۰۔ ابوعمرا ور المقری نے اپنی کتاب سنن میں ۔

۳۱۔ ابن الجوزی نے اپنی کتاب تاریخ میں ۔

۳۲۔ یحی الحمانی نے اپنی کتاب مسند میں ۔

۳۳۔رویانی نے اپنی کتاب مسند میں۔

۳۴۔ ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں۔

قارئین کرام ! یہ تھی ان مولفین اور کتابوں کی فھرست جن میں حضرت امام مھدی کے سلسلہ میں احادیث بیان کی گئی ھیں۔

حضرت امام مھدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت

 آپ کی ولادت با سعادت ۱۵ شعبان  ۲۵۵ھ کو فجر کے وقت شھرسامراء میں هوئی [45]

آپ کے والد گرامی نے آپ کا نام محمد رکھا اور یھی نام رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اس مشهور حدیث کا مصداق تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا” یواطی اسمہ اسمی “[46]

(اس کا نام میرے نام پر هوگا ) اور آپ ھی کے والد گرامی نے آپ کی کنیت (ابوالقاسم ) رکھی [47]

یہ وہ حقیقت ھے جس پر شیعہ امامیہ اور دیگر اسلامی فرقے متفق ھیں لیکن بعض مسلمانوں نے (حالانکہ مھدویت کا اقرار کیا ھے ) حضرت مھدی کا اس وجہ سے انکار کیا چونکہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے کوئی فرزند نھیں تھا اور اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے چار دلیلیں بیان کی ھیں جن کو یھاں پر مختصر طور پر بیان کیا جاتا ھے :

۱۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنی والدہ ام الحسن کے لئے تمام مال وقف اور دیگر امور کے بارے میں وصیت کی اور اگر امام حسن عسکری (ع)کے کوئی فرزند هوتا تو ان کو وصیت کرنا چاہئیے تھی۔ 

۲۔ حضرت امام مھدی کے چچا جعفر بن علی نے اس بات کی گواھی دی ھے کہ ان کے بھائی ( امام حسن عسکری علیہ السلام ) کے کوئی فرزند نھیںتھا اور ایسے مسائل میں چچا کی گواھی خاص اھمیت رکھتی ھے ۔

۳۔ شیعہ حضرات جیسا کہ دعویٰ کرتے ھیں کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غیر خواص سے چھپایا ( یعنی صرف خاص لوگوں ھی کو معلوم تھا) تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟جب کہ اس زمانہ میں آپ کے اصحاب بہت زیادہ تھے اور ھر طرح کی طاقت و توانائی رکھتے تھے جب کہ گذشتہ ائمہ علیھم السلام جو اموی وعباسی حکام کے زمانے میں زندگی کرتے تھے اور اس وقت کے

حالات زیادہ خراب تھے ،لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس طرح اپنی اولاد کو نھیں چھپایا ۔

۴۔ تاریخ میں ایسا کوئی ذکر نھیں ھے جس میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی فرزند هو اور نہ ھی کسی نے اس طرح کی روایت کی ھے ۔

 انھیں چار دلیلوں کے ذریعہ امام مھدی بن الحسن عسکری کی ولادت کا انکار کرتے ھیں ۔

قارئین کرام ! ھم ان چار دلیلوں کے جواب مختصر طور پر بیان کرتے ھیں تاکہ حق و حقیقت واضح هوجائے ۔

پھلی دلیل کا جواب :

امام علیہ السلام کا اپنی والدہ گرامی کو وصیت کرنا دلیل نھیں هوسکتا کہ امام کے کوئی فرزند نہ هو، امام علیہ السلام اس وصیت کے ذریعہ دشمنوں کی نظروں کو امام مھدی کی طرف سے ہٹا نا چاہتے تھے اور دشمن کو شک و شبہ میں ڈالنا چاہتے تھے کہ ان کے کوئی اولاد ھے یا نھیں؟  اور آپ نے عمداً   اس طرح کا شک ایجاد کیا تاکہ حکومت وقت اس وصیت کو دیکھ کر مزید شک و شبہ میں پڑ جائے ۔[48]

امام حسن عسکری علیہ السلام نے گویا اپنے جد امام جعفر صادق علیہ السلام کی روش پر عمل کیا کیونکہ امام صادق علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت درج ذیل پانچ افراد کے لئے وصیت کی:

۱۔منصورعباسی۔

 ۲۔ ربیع ۔

۳  و  ۴ ۔ قاضی مدینہ اور اس کے ساتھ ان کی زوجہ حمیدہ ۔

۵۔ اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) ۔

کیونکہ امام صادق علیہ السلام اپنے اس کام سے دشمنوں کی نظروں کو اپنے فرزند موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ہٹانا چاہتے تھے۔[49]

اور اگر صرف امام موسی کاظم علیہ السلام ھی کو وصیت فرماتے تو پھر بنی عباس کا رویہ کچھ اور ھی هوتا چنانچہ جب منصور عباسی کو امام صادق علیہ السلام کی وفات کی خبرپهونچی تو مدینہ میں اپنے والی کو خط بھیجا اور لکھا جو شخص بھی امام علیہ السلام کا وصی هو اس پر زندگی تنگ کردی جائے ،چنانچہ والی مدینہ نے اپنی تحقیق کے بعد منصور کو خط لکھا کہ امام (علیہ السلام ) کے پانچ وصی ھیں ، جن میں سب سے پھلے اور مھم خود جناب خلیفہ ھیں، لہٰذا امام علیہ السلام نے اپنی اس سیاست کے تحت اپنے فرزند موسی کاظم علیہ السلام کو آزار و اذیت سے بچالیا۔

دوسری دلیل کا جواب :

جعفر بن علی ( امام حسن عسکری کے بھائی ) ایک عام انسان تھے اور ان سے بھی خطاو نسیان اور باطل دعوی کا امکان ھے ، اور وہ گویا قابیل کے مشابہ تھے جس نے اپنے بھا ئی ھابیل کو قتل کرڈالا، یا جناب یعقوب علیہ السلام کے لڑکوں کی طرح جنھوں نے اپنے بھائی (جناب یوسف ) کو کنویں میں ڈال دیا اور جھوٹی قسمیں کھانے لگے کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا ۔

جعفر کا خیال یہ تھا چونکہ میرے بھائی کے کوئی اولاد نھیں ھے لہٰذا اگر وہ ان کا انکار کریں گے تو وہ امام هوجائیں گے اور ان کے پاس بیت المال اکٹھا هوجائے گا لیکن خدا وند عالم کا ارادہ ھر چیز پر غالب هوتا ھے، جو وہ چاہتا ھے وھی هوتاھے۔

چنانچہ ایک مدت بعد (جعفر) اپنے کئے پر شرمندہ هوے اور توبہ کی یھاں تک کہ جعفر تواب کے نام سے مشهور هوئے ۔

قارئین کرام !   چچا کا بھتیجہ کے مقابلہ میں آجانا کوئی عجیب چیز نھیں ھے کیونکہ ابو لھب و عباس دونوں اپنے بھتیجے(حضرت) محمد(  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقابلہ میں آگئے اور ان کی نبوت کا انکار کیا اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی طرف سحر وجنون کی نسبت دی، آپ سے مقابلہ کے لئے لشکر آمادہ کیا اور آپ کی دشمنی میں مختلف کا رنامے انجام دیئے۔

تیسری دلیل کاجواب :

امام عسکری علیہ السلام کا اپنے فرزند کے مسئلہ کو چھپانا ، ایک اھم مسئلہ تھا چونکہ امام عسکری جانتے تھے کہ یہ مشهور هوچکا ھے کہ اھل بیت میں سے بارھواں امام، تلوار کے ساتھ قیام کرے گا اور باطل حکومتوں کو ختم کرکے حق کی حکومت قائم کرےگا اسی وجہ سے اس وقت کے تمام حکام خوف زدہ تھے لہٰذا آپ کی شناخت کے بعد آپ کو قتل کرنے کے درپے هوجاتے ۔

اسی وجہ سے امام عسکری علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اپنے بیٹے مھدی کو خاص افراد کے علاوہ دوسرے لوگوں سے چھپائیں تاکہ محفوظ رہ سکیں ، اور اس بات کی وضاحت و تائید اس وقت هوتی ھے،جب امام علیہ السلام کی شھادت کے بعد خلیفہ نے حکم دیا کہ امام علیہ السلام کے گھر میں پهونچ کر سب بچوں اور غلاموں کو پکڑ لو۔[50]اور اگر واقعا حکم خدا سے محمد بن الحسن (امام مھدی ) مخفی نہ هوتے تو ان کوبھی قتل کردیا جاتا ۔

گویاامام حسن عسکری (ع) کا یہ فعل ،مادر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح تھا کہ جب ان پر وحی نازل هوئی کہ حضرت موسی (ع) کو (صندوق) میں چھپا دیا جائے ،کیون کہ فرعون سے ان کو خطرہ ھے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان هو ا ھے، لیکن گذشتہ ائمہ علیھم السلام کا ایسا نہ کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام تلوار کے ذریعہ نھیں تھا بلکہ حالات زمانہ کے لحاظ سے ھی ان کی ذمہ داریاں تھیں ۔

اسی وجہ سے بعض ائمہ محفوظ اور آزاد تھے اگرچہ صحیح معنی میں امان اور آزاد نہ تھے ۔

چوتھی دلیل کا جواب :

شرع مقدس میں کسی کی اولاد، دایہ کے قول یا ولادت کے وقت حاضر عورتوں کی کہنے یا باپ کے اعتراف سے یا دو مسلم افراد کے اقرار سے کہ یہ فلاں کا بیٹا ھے ثابت هوجاتی ھے ، لہٰذا یہ تمام پھلو اس سلسلے میں موجود ھیں ۔

چنانچہ جناب حکیمہ بنت امام جواد علیہ السلام نے دایہ کے فرائض انجام دئے ھیں اور ولادت (مھدی ) پر گواھی دی ھے ۔

اسی طرح امام عسکری علیہ السلام نے اپنے خاص اصحاب کے سامنے اپنے فرزند کے بارے میں اقرار کیا [51]

اسی طرح یکے بعد دیگرے مسلمانوں نے (نسل در نسل) اس کی روایت کی ھے اور اس کی صحت کی گواھی دی ھے، شیعہ امامیہ اجماع کے ساتھ ساتھ بہت سے موٴلفین و مورخین نے بھی خبر ولادت کی روایت کی ھے مثال کے طور پر چند افراد کے اسماء گرامی درج کئے جاتے ھیں :

۱۔محمد بن طلحة الشافعی المتوفی ۶۵۲ھ[52]

۲۔ سبط ابن الجوزی المتوفی۵۵۴ھ[53]

۳۔ الکنجی الشافعی المتوفی ۶۵۸ھ[54]

۴۔ابن خلکان الشافعی المتوفی۶۸۱ھ[55]

۵۔ صلاح الدین الصفدی المتوفی ۷۶۴ھ[56]

۶۔ابن حجر ھیتمی الشافعی المتوفی ۸۵۲ھ[57]

۷۔ ابن الصباغ المالکی المتوفی ۸۵۵ھ[58]

۸۔ ابن طولون الدمشقی متوفی ۹۵۳ھ۔ [59]

۹۔ الحسین بن عبداللہ سمرقندی متوفی ۱۰۴۳تقریبا۔[60]

۱۰۔ محمد العیان الشافعی متوفی ۱۲۰۶۔[61]

۱۱۔ سلیمان القندوزی الحنفی متوفی ۱۲۹۴ھ۔[62]

۱۲۔ محمد امین السویدی متوفی ۱۲۴۶ھ۔[63]

۱۳۔ مومن الشبلنجی الشافی متوفی ۱۴۵ھ۔[64]

 

 

                             تیسرا مرحلہ :

امکان غیبت اور اس کے دلائل

 

قارئین کرام !   گذشتہ مرحلوں سے یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ عقیدہ مھدویت اسلام کابنیادی عقیدہ ھے جس کے بارے میں رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بھی (گذشتہ احادیث میں ) بشارت دی ھے اور اصحاب و علماء نے ھر زمانہ میں یکے بعد دیگرے روایت کی ھے ۔

اس طرح یہ بات بھی طے هوگئی ھے کہ جس مھدی کا احادیث میں تذکرہ هوا ھے وہ محمد بن الحسن العسکری (علیہ السلام ) ھیں اور وہ سامرہ میں پیدا هوئے اور آپ کی ولادت کی خبر اس روز خاص اصحاب تک پهونچی ھے نیز اس کے بعد سے تاریخ کے دامن میں اسی طرح مشهور ھے گذشتہ دو مرحلوں کے بعد ضروری ھے کہ تیسرے مرحلہ میں گفتگو کی جائے جو خود پھلے دو مرحلوں سے متعلق ھے کہ (حضرت) محمد (بن الحسن امام مہدی) کی ولادت هو چکی ھے اور وھی مھدی ھیں، لہٰذا بہتر ھے درج ذیل بحث کو مختلف پھلوؤں سے واضح کریں:

۱۔کیا امام مھدی غائب ھیں ؟

 ۲۔اور اگر غائب ھیں تو کیا انسان اتنی طولانی عمر پا سکتا ھے ؟

اور چونکہ یہ مرحلہ بہت حساس ھے ، لہٰذا ضروری ھے کہ بحث میں وارد هونے سے پھلے ایک مقدمہ بیان کریں تاکہ نتائج اور اہداف کو بہترین طریقہ سے واضح کرنے میں مدد مل سکے ۔

قارئین کرام !   جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ھے کہ اسلام نے عقیدہ و ایمان کے لئے عقل کو اساس و مصدر قرار دیا ھے اور اندھی تقلید سے روکا ھے چونکہ غرض یہ ھے کہ اصول اعتقاد عقل سے مستند هوں ، اورعقل کے ذریعہ ھی ان کو پرکھ کر عقیدہ کی منزل تک پهونچا جائے ، اور اس میں هوائے نفس نردم دلی اورذاتی نظریات کو دخل نھیں هونا چاہئے ۔

 عقل ھی کے ذریعہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرتا ھے اور یھی ایمان کی طرف ہدایت کرتی ھے اوریھی خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دلیل قائم کرتی ھے ۔

انسان اسی عقل کے ذریعہ خدا کے ایمان کے ساتھ ساتھ ضرورت نبوت ، امامت اور معاد پر دلیل قائم کرتا ھے ۔

لیکن احکام شرعی کے دوسرے فرعی احکام میں عقلی دلیل کی ضرورت نھیں هوتی ، اور اس طرح کی دلیل قائم کرنا ضروری نھیں هوتا بلکہ ان کو قبول کرنے کے لئے فقط شرعی طریقہ سے نصوص کا وارد هوجانا ھی کافی ھے ۔اسی وجہ سے امت اسلامی ملائکہ کے وجود، جناب عیسی کے گهوارہ میں کلام کرنے نیز آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ھاتھوں پر سنگریزوں کے تسبیح کرنے پراعتقاد رکھتے ھیں جو قرآن کریم اور سنت صحیحہ میں وارد هوئے ھیں ۔

اسی طرح جب ھم اما م مھدی اور ان کی غیبت کی بحث کرتے ھیں تو ھماری اس بحث سے اصول اسلام کو قبول کرنے والے افراد مراد هوتے ھیں ، اور جوافراد خدا کا بھی انکار کرتے ھیں یا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذھب کو مانتے ھیں وہ ھماری مراد نھیں ھےں ۔ کیونکہ اس مسئلہ کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و احادیث کا سھارا لینا ضروری ھے اور جو شخص قرآن و سنت ھی کو نہ مانتا هو تو اس کے سامنے قرآن و احادیث سے استدلال نھیں کیا جاسکتا۔

دوسرے الفاظ میں یہ عرض کیا جائے کہ ھم اس موضوع پر دینی اعتقاد کی بنیاد پر بحث کرتے ھیں جو شرعی دلائل سے مستند هوتے ھیں اور تمام مسلمانوں کے نزدیک ان پر عمل کرنا ضروری هوتا ھے ، چنانچہ ھم نے کسی دوسری چیز کو بنیاد نھیں بنایا، اور ھمارا یہ مسئلہ ایک آسان حساب کی طرح نھیں ھے جیسے ۲ اور۲ چار هوتے ھیں یا کسی فلسفی قاعدہ کی طرح جو اپنی جگہ مسلم ھے اور اس میں کوئی مناقشہ نھیں کیا جاسکتا جیسے دور و تسلسل کے باطل هونے میں کسی کو شک و شبہ نھیں هوتا۔

قارئین کرام !   ھم اس مسئلہ میں ھر پھلو کی قرآن و سنت کے ذریعہ وضاحت کریں گے کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیا ن یھی دونوں باب معرفت اور تشریع کے منابع ھیں ۔

اور اگر کوئی شخص ان دونوں کا انکار کردے وہ اسلام اور اسلام کے تمام احکام کے دائرہ سے خارج هوجائے گا.[65]

اور جب ھمار ی تمھید واضح هوگئی ھے تو ھم کہتے ھیں :  ”وہ احادیث نبی “ جن کو اکثر حفاظ حدیث نے بیان کیا ھے اور ان احادیث میں لفظ ”غیبت“ کی[66]تکرار هوئی ھے ۔

< وَلِیُمَحِّصَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِینَ >[67]

”اور یہ بھی منظور تھا) کہ سچے ایمانداروں کو ثابت قدمی کی وجہ سے (نراکھرا) الگ کرلے اور نافرمانوں (بھاگنے والوں )کا ملیامیٹ کردے“

اس کے بعد جناب جابر سے کھا :یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کے اسرار میں سے ایک راز ھے پس تم کو کبھی اس سلسلے میں شک نہ هو کیونکہ خدا وند عالم کے امور میں شک کرنا کفر ھے ۔

اور بعض احادیث میں اس طرح ھے :

تکون لہ غیبة و حیرة تضل فیھا الامم[68]

(اس امام مھدی ) کے لئے ایسی غیبت هوگی جس میں لوگوں کو حیرت هوگی اور لوگ گمراہ هوجائیں گے ۔

ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ھے :

”لا یثبت علی القول بامامة الامن امتحن اللّٰہ قلبہ للایمان “[69]

ان کی غیبت ان کے اصحاب سے بھی هوگی ان کی غیبت کا اقرار صرف وھی لوگ کرسکتے ھیں جن کا خدا وند عالم نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا هوگا ۔

اس طرح ابن عباس کی روایت ھے :

”یبعث المھدی بعد ایاس حتی یقول الناس :لا مھدی “[70]

امام مھدی کا ظهور نا امیدی کے بعد هوگا یھاں تک کہ لوگ کہنے لگیں گے کہ کوئی مھدی نھیں ھے ۔

قارئین کرام !    مذکورہ احادیث میں لفظ غیبت سے مراد یہ نھیں ھے کہ اما م مھدی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ هونگے اور اپنی وفات کے بعد دوبارہ اس دنیا میں لوٹائے جائیںگے بلکہ لفظ غیبت اس بات کی طرف اشارہ کررھا ھے کہ وہ مخفی ھیں اور پردہ میں ھیں اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ھیں اور ان کو دیکھا نھیں جاسکتا، ان احادیث کا مطالعہ کرنے سے یھی بات انسان کے ذہن میں آتی ھے۔

اور اس حدیث شریف نقل کرنے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ھے:

”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیہ “

(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاھلیت کی موت هوتی ھے۔)

اس حدیث کے مطابق ھر زمانہ میں امام کا هونا ضروی ھے ۔

اب جبکہ ولادت محمد بن الحسن المھدی ثابت هوگئی جس میں شک و شبہ کی گنجائش نھیں ،تو پھر لفظ ”غیبت “ اور ھر زمانہ میں وجود امام کی ضرورت بہترین اور جامع دلیل ھیں کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام آج تک زندہ ھیں اور اس سلسلہ میں هوئے تمام اعتراضات کا خاتمہ کردیتی ھیں۔

اور اگر کوئی شخص امام مھدی کی وفات کی بات کرے تو پھلے تو یہ گذشتہ احادیث کے مخالف ھے جن میں آپ کی غیبت اور استمرار حیات کے بارے میں بیان هوا ھے اور اس کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی وفات کے بارے میں کوئی دلیل نھیں بیان کی یھاں تک کہ منکرین کی کتابوںمیں بھی اس طرح کی کوئی بات ذکر نھیں هوئی کہ کب آپ کی وفات هوئی کونسا دن تھا کونسی تاریخ تھی اور کیاسن تھا کب آپ کی تشیع جنازہ هوئی کون لوگ آپ کی تشیع جنازہ میں شریک هوئے؟ کھاں دفن هوئے؟ کس شھر میں دفن هوئے؟

لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظریہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ آپ کا وجومبارک باقی ھے اور آپ دشمنوں کی نگاهوں سے مخفی ھیں اور آپ اپنی زندگی کی محافظت کررھے ھیں ۔

قارئین کرام !    امام علیہ السلام کی غیبت کے دو مرحلہ تھے ۔

۱۔ آپ کا لوگوں کی نظروںسے مخفی هوناجب خلیفہٴ وقت کے لشکر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا آپ اسی وقت سے صرف اپنے معتمد نائبین سے ملاقات کرتے تھے اور انھی کے ذریعہ شیعوں کے مسائل اور مشکلوں کا جواب دیا کرتے تھے (امام علیہ السلام کی غیبت کایہ سلسلہ ۷۰ /سال تک جاری رھا اور اس زمانہ کو غیبت صغریٰ کہتے ھیں)

۲۔ آپ کا مکمل طور سے لوگوں کی نظروں سے غائب هوجا نا چنانچہ اب کسی سے بھی ملاقات نھیں کرتے ۔[71]

 کسی انسان کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ھے کہ ( جبکہ امام مھدی کے وجوداور آپ کی غیبت اور آپ کی ادامہ حیات کے بارے میں یقین ھے ) کہ کیا کوئی انسان اتنی طولانی عمر پا سکتا ھے ؟ اور کیا عقل اس بات کو قبول کرتی ھے ؟

اس سوال کے جواب سے پھلے ھم قارئین کرام کے اذھان عالیہ کو گذشتہ مطلب کی طرف لے جانا چاہتے ھیں کہ اگر حقائق شرعی صحیح احادیث کے ذریعہ ثابت هوجائیں تو چونکہ ھم مسلمان ھیں لہٰذا ان کا قبول کرنا ھمارے لئے ضروری ھے، چاھے ھمارے ذہن میں اس کا فلسفہ نہ بھی آئے اور اس بات کو سمجھنے سے قاصر رھیں۔

اور اگر کسی حکم کی حکمت اور علت نہ سمجھ پائیں تو اس کو انکارکرنے سے انسان بری الذمہ نھیں هوسکتا بلکہ ھر حال میں اس پر یقین واعتقاد رکھنا ضروری ھے کیونکہ اسلام کے مسلم احکامات کا اس وجہ سے انکار کرنا صحیح نھیں ھے کہ یہ چیزیں ھماری سمجھ میں نھیں آرھی ھیں یا اس کی تاویل سے ھم قانع نھیں هورھے ھیں۔

چنانچہ طول عمر اور سیکڑوں سال تک کسی کا زندہ رہنا محال نھیں ھے جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ھے، بلکہ مورخین نے تاریخ بشریت کے ایسے بہت سے واقعات بیان کئے ھیں جن کی بہت زیادہ عمر رھیھے، مثلاً حضرت آدم علیہ السلام نے ہزار سال کی عمر پائی۔

اسی طرح لقمان حکیم(صاحب نسور) نے ۳۵۰۰ سال عمر پائی، نیز جناب سلمان فارسی ۺ نے طویل عمر پائی جیسا کہ بعض مورخین کا کہنا ھے کہ جناب سلمان فارسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاصر تھے اور خلیفہ دوم کے زمانہ میں وفات پائی۔

اسی طرح بہت سے ایسے افراد تھے جنھوں نے سیکڑوں سال کی عمر کی، جن کے بارے میں بہت سے مورخین نے بیان کیا ھے خصوصاً جناب سجستانی صاحب نے زیادہ عمر کرنے والوں کو اپنی کتاب میں جمع کیا ھے جو ”المعمرون“ کے نام سے ۱۳۲۳ھ مطابق  ۱۹۰۵ء میں مصر میں پھلی مرتبہ طبع هو چکی ھے۔

 قارئین کرام !   یہ تھا تاریخی پھلو جس کے ذریعہ کسی انسان کی طولانی عمر پانے کا اثبات کیا جاسکتا ھے۔

اب رھا قرآن کے ذریعہ استدلال، قرآن کریم کی گفتگو تمام مورخین اور روایوں سے زیادہ صادق اور بہترین دلیل ھے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

”جناب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں ”۹۵۰“ سال تبلیغ کی اور خدابہتر جانتا ھے کہ تبلیغ سے پھلے اور طوفان کے بعد جناب نوح کتنے سال زندہ رھے۔

اس طرح جناب یونس علیہ السلام بطن ماھی میں طویل مدت تک باقی رھے اور اگر خدا کا لطف و کرم نہ هوتا تو  بطن ماھی میں قیامت تک باقی رہتے :

<فَلَوْلَا اِنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبَثَ فِیْ بَطْنِہ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ>[72]

”پھر اگر یونس (خدا کی ) تسبیح (وذکر ) نہ کرتے تو روز قیامت تک مچھلی ھی کے پیٹ میں رہتے پھر ھم نے ان کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ایک میدان میں ڈال دیا“

حضرت یونس کا شکم ماھی میں باقی رہنا یعنی قیامت تک زندہ رہنا اس طرح ان کے ساتھ مچھلی کا بھی اس طولانی مدت تک زندہ رہنا ثابت هوتا ھے ۔

اس طرح اصحاب کہف کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:

<وَ لَبِثُوا  فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلاٰثَ مِاٴَئةَ سَنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعاً >[73]

”اور اصحاب کہف اپنی غارمیں تو تین سو برس سے زیادہ رھے “

اور یہ بھی معلوم نھیں کہ غار میں جانے سے قبل اور غار سے باھر نکلنے کے بعد کتنے سال زندہ رھے۔

 اسی طرح ارشاد خدا وندی هوتاھے :

< اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی ہَذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ>[74]

”(اے رسول  تم نے) مثلاً اس (بندے کے حال) پر بھی نظر کی جو ایک گاؤں پر سے (هوکر) گزرا اور وہ ایسا اجڑا تھا کہ اپنی چھتوں پر ڈھے کر گرپڑا تھا یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا اے اللہ اب گاؤں کو (ایسی) ویرانی کے بعد کیونکر آباد کرے گا اس پر خدا نے اس کو (مارڈالا) اور سو برس تک مردہ رکھا او رپھر اس کو جلا اٹھایا (تب) پوچھا تم کتنی دیر پڑے رھے ؟ عرض کی: ایک دن پڑا رھا یا ایک دن سے بھی کم ، فرمایا: نھیں ، تم (اس حالت میں) سو برس پڑے رھے ، اب ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ ابھی تک خراب نھیں هوئیں، اور ذرا اپنی سواری (گدھے) کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر پڑی ھیں،اور ھم اسی طرح تمھیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ھیں، پھر ان ہڈیوں کو دیکھو کہ ھم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ھیں، پھر جب ان پر یہ بات واضح هوگئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ھے کہ خدا ھر شے پر قادر ھے“۔

   کھانے پینے کی چیزوں کاسوسال تک خراب نہ هونا انسان کی طولانی عمر سے بھی زیادہ تعجب خیز ھے [75]

ان کے علاوہ مولفین سیرت و حدیث نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ھے کہ جناب خضر علیہ السلام جناب موسی علیہ السلام سے پھلے تھے اور آخر زمان تک باقی رھیں گے ۔

تو کیا جن باتوں کو قرآن مجید اور سنت نبوی بیان کررھی ھے ان تمام باتوں کی تصدیق کرنا ایک مسلمان پر واجب نھیں ھے ؟ یا ان باتوں کی تصدیق کرنا واجب نھیں ؟ اور اگر ھماری عقل ان باتوں کو نہ سمجھے توکیا ھمارے لئے ان چیزوں کا انکار کرنا صحیح ھے جس کے بارے میں آج کا علم کشف اسرار کرنے سے قاصر ھے۔؟

قارئین کرام !   امام مھدی کی غیبت کا موضوع بھی اسی طرح ھے لہٰذا مذکورہ نصوص ودلائل کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تصدیق کرتے هوئے آپ کی حیات پر اعتقاد رکھنا ضروری ھے۔

کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شان میں خداوندعالم فرماتا ھے:

قارئین کرام ! تو کیا ڈاکٹر صاحب کو جناب نوح ،جناب یونس(علیھم السلام)،مچھلی اور اصحاب کہف پر موت کا حکم جاری نہ کرنا عقل کوگھودینے کے مترادف نھیں ھے ۔

< وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهویٰ اِنْ هو الِاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی>[76]

”اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ھی نھیں، یہ تو بس وحی ھے جو بھیجی جاتی ھے۔“

 آپ کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے حکم خدا ھے :

< وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَهوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَاب>[77]

”اور ھاں جو تم کو رسول دیدیں وہ لے لیاکرو، اور جس سے منع کریں اس سے باز رهو اور خدا سے ڈرتے رهو، بے شک خدا سخت عذاب دینے والا ھے۔“

لہٰذا (امام مھدی پر ) ھمارا ایمان و عقیدہ کوئی عجیب وغریب شی نھیں ھے اور نہ ھی کوئی ایسی چیز ھے جس کا سابقہ اسلام میں نہ هو بلکہ یہ تو جناب نوح کی عمر اور جناب یونس کا شکم ماھی میں باقی رہنا یا سو سال تک کھانے کا خراب نہ هونے پر ایمان کی طرح ھے ۔اب جبکہ قرآن واحادیث کے ذریعہ یہ ثابت هوچکا ھے کہ انسان ہزاروں سال باقی رہ سکتا ھے اور گذشتہ امتوں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ھیں ۔بس یہ بات مافوق علم یا مافوق عقل نھیں ھے جیسا کہ آج کا علم بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ انسان ہزاروں سال زندہ رہ سکتا ھے اگر اس کے بدن کی طاقت کو محفوظ رکھنے کے وسائل مھیا هوجائیں ۔

چنانچہ آج کل کے ڈاکٹروں کا ماننا یہ ھے کہ جسم کے اھم اجزاء بی نھایت وقت تک باقی رہ سکتے ھیں اور انسان کے لئے ممکن ھے کہ وہ ہزاروں سال زندہ رھے اگر اس کے لئے ایسے عوارض پیش نہ آئیں جن سے ریسمان حیات قطع هوجائے، اور ان کا یہ کہنا صرف ایک گمان ھی نھیں ھے بلکہ وہ اپنے تجربات سے اس نتیجہ پر پهونچے ھیں ۔انسان ساٹھ ،ستر یاسو سال کی عمر میں نھیں مرتا مگر یہ کہ بعض عوارض کی بنا پر اس کے بعض اعضاء خراب هوجاتے ھیں یا بعض اعضاء کا دوسرے اعضاء سے ربط ختم هوجانے پر انسان کی موت واقع هوتی ھے اور جب سائنس اتنی ترقی کرلے گا کہ ان عوارض کو دور کرسکے تو پھر انسان کا سیکڑوں سال زندہ رہنا ممکنات میں سے هوجائے گا [78]

اس طرح ”جان روسٹن“ اپنے تجربیات اور کشفیات کی بنا پر قائل ھے کہ انسان کو سالم زندہ رکھنا کوئی محال کام نھیں ھے [79]

کیونکہ مشهورو معروف ماھرین نے جو گذشتہ صدیوں میں اکتشافات کئے ھیں ان سے یہ امید کی جاتی ھے کہ انسان ایک ایسا مرکب نسخہ تیار کرے گا جس سے مزید تحقیق کرنے کے بعد اس مرحلہ تک پهونچ سکتا ھے جیسا کہ ”براون سیکوارڈ“،” کسی کاریل“، ”فورنوف مینش بنکوف“، ”بوغو مولٹینر“اور ”فیلاتوف “وغیرہ نے تجربات کئے ھیں ۔

لیکن” روبرٹ ایٹنجر“ نے ابھی کچھ دنوں پھلے ایک بہترین کتاب بنام”کیاانسان کا ھمیشہ کے لئے زندہ رہنا ممکن ھے “ لکھی جس میں انسان کو مزید امیدوار کیا ھے اور یہ کھا یہ انسان جو زندہ ھے اور سانس لیتا ھے تو ان فیزیا ئیہ(وظائف اعضاء بدن) حصہ میں اپنی بقا کا مالک هوجاتا ھے، یعنی انسان کے اعضاء وجوارح اگر ان پر کوئی مشکل نہ پڑے تو یہ طولانی مدت تک کام کرسکتے ھیں۔

ان تمام وضاحتوں کے بعد علاوہ جن میں انسان کا ہزاروں سال باقی رہنا ممکن ھے ،اور اگر انسانی خلیوں کو برف میں رکھ دیا جائے تو وہ خلیے محفوظ رہتے ھیں او راگر ان کو برف سے نکال کر مناسب گرمی دی جائے تو اس کی حرکت واپس آجائے گی۔اور جب حقیقت یھاں تک واضح هوگئی اس کے علاوہ ھم عصر ماھرین نے بھی انسان کی طویل عمر کے امکان پر تاکید اور وضاحت کی ھے ، او ر ان وسائل کا پتہ لگانا جن کے ذریعہ سے انسان طولانی عمر حاصل کرسکتا ھے یھی ایک اسباب میں سے ایک اھم سبب ھے جس کی وجہ سے انسان دنیاوی مشکلات کو دفع کرسکتا ھے،پس جب انسان کا حسب استعداد وطبیعت باقی رہنے کا امکان صحیح ھے تو پھر حضرت امام مھدی (عج) کا اتنے سال زندہ رہنا حسب طبیعت اور ارادہ الٰھی کی بدولت ممکن اور صحیح ھے۔

قارئین کرام !   آپ نے گذشتہ مطالب کو ملاحظہ فرمایا اور چونکہ آج کل کا یہ زمانہ جس میں ھم زندگی گذار رھے ھیں فکری اعتبار سے پر آشوب زمانہ ھے لہٰذا اس دور میں اس مصلح منتظر کی ضرورت کا احساس هوتا ھے جو صحیح راہ سے بھٹکی انسانیت کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرے۔ اور چونکہ عقل بشری (مسلم وغیر مسلم) ایسے مصلح منتظر کے وجود ضروری کا اقرار کرتی ھے، اگرچہ اس کے پاس آیات وروایات سے کوئی نص بھی موجود نہ هو جیسا کہ انگریزی مشهور ومعروف فلسفی ”برنارڈشَو“ نے اس مصلح منتظر کے بارے میں اشارہ کیا ھے او راپنے ذاتی نظریات کو اپنی کتاب ”الانسان والسوپر مین“ میں بیان کیا ھے ، اس کا نظریہ ھے کہ یہ مصلح منتظر ایک زندہ اور صاحب جسم انسان ھے جن کا بدن صحیح وسالم ھے اور خارق العادة عقل کا مالک ھے وہ ایک ایسا اعلیٰ انسان ھے جس تک ایک ادنیٰ انسان جدوجہد کے ذریعہ ھی پهونچ سکتا ھے ، اوراس کی عمر ۳۰۰سال  سے کھیں زیادہ طولانی ھے، اور وہ قدرت رکھتا کہ ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائے جس کو اس نے اپنی حیات میں حاصل کیا مثلاً اپنی زندگی میں تجربات کئے ھیں اور ان سے فائدہ اٹھاتا ھے تاکہ اپنے بدن کو صحیح وسالم رکھ سکے۔“[80]

چنانچہ جناب عباس محمود العقاد” برنارڈشو“ کی گفتگو پر حاشیہ لگاتے هوئے کہتے ھیں:  ”موصوف کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاتا ھے کہ ”سوپر مین شو“ کا وجود ومحال نھیں ھے اور ان کی دعوت دیناایک مسلم حقیقت ھے“ [81]

آئےے آخر کلام میں خداوندعالم کی بارگاہ اقدس میں عرض کریں: ”اللّٰھم انا نشکو الیک فقد نبینا، وغیبة ولینا وکثرة عدونا وقلہ عددنا وشدة الفتن بنا، وتظاھر الزمان علینا، فصلی علی محمد وآلہ واعنا علی ذلک بفتح منک تعجلہ، وبضر تکشفہ ونصر تعزّہ وسلطان حق تظھرہ“ اللّٰھم انصرہ نصراً عزیزاً وافتح لہ فتحاً یسیراً واجعلنا من انصارہ واعوانہ انک سمیع مجیب“ وآخردعونا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 

ملحق کتاب

اس کتاب کے پھلے ایڈیشن کے بعد استاد شیخ محمد رضوان الکسم (مقیم دمشق) کا ایک خط ملا جس میں انھوں نے ھماری بعض چیزوں پر اعتراض کیا ۔

لیکن اب جبکہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شایع رھا ھے ھم نے ان کے خط اور اپنے جواب کو اس بحث کے خاتمہ پر نقل کردینا مناسب سمجھاتاکہ ھمارے قارئین کرام بھی اعتراضات مع جوابات ملاحظہ کرلیں۔

شیخ کسم کا خط

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

الحمد لله رب العالمین والصلوة والسلام علی خاتم النبین ۔

 امابعد:

آپ کی کتاب ”المہدی بین التصور والتصدیق“[82]نظروں سے گذری اور اس کامطالعہ کیا اور جیسا کہ آپ نے اس میں بیان کیا کہ ھماری یہ کتاب ایک بہترین اور صاف ستھری گفتگو نیز خود غرضی سے خالی ھے لیکن کتاب پڑھتے وقت آپ کی کچھ باتوں نے مجھے تعجب میں ڈال دیا جیسا کہ آپ نے فرمایا:

”اسلام  نے عقیدہ کے لئے عقل کو اصل قرار دیا ھے اور اندھی تقلید سے منع کیا ھے“

لیکن ھمارے لحاظ سے آپ کی یہ بات صحیح نھیں ھے کیونکہ اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ھےں اور خداوند عالم نے کسی چیز پر بغیر یقین کے اعتقاد رکھنے کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ھے جیسا کہ ارشاد رب العزت ھے :

<قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا>[83]

”اے رسول تم کهو کہ کیا تمھارے پاس کوئی دلیل ھے (اگرھے) تو ھمارے (دکھانے کے واسطے )اس کو نکالو “

ایضا :

< لَوْلَا یَا تُوْنَ عَلَیْھِمْ بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ اِفْتَرَیٰ عَلَی اللّٰہِ کِذْباً>[84]

 (پھر یہ لوگ ان کے معبود هونے ) کی کوئی صریح دلیل کیوں نھیں کرتے اور جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ھیں ان سے زیادہ ظالم اور کون هوگا )

ایضا:

<مَالَھُمْ بِہِ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اِتِّبَاعُ الظَّنِّ>[85]

”ان کو اس واقع کی خبر ھی نھیں مگر فقط اس گمان کے پیچھے چل رھے ھیں “

بس گویا خدا وند عالم ھم سے علم و یقین چاہتاھے اور ظن و گمان سے منع فرماتا ھے ،اور ظن پر عمل کرنے والوں کے لئے وعدہ عذاب دیا ھے لہٰذا ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ ھمارے اعتقادات یقین کے مطابق هونے ضروری ھیں ۔

اسی طرح آپ کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد آپ کی اس بات پر بھی اعتراض هوا کہ حضرت امام مھدی (عج) کے عقیدہ کے بارے میں علم و یقین موجود ھے جیسا کہ آپ نے تحریر کیا کہ آپ (امام مھدی عج) کے بارے میںمتواتر احادیث وارد هوئی ھیں اوریہ احادیث صاف طور پر بھی اور اشارتاً بھی، اور آپ نے کتاب کے حاشیہ میں حوالہ دیا شیخ شرف الدین کی کتاب المراجعات اور علامہ امینی کی کتاب الغدیر ج اول کا ،لیکن جب ھم نے ان دونوں کتابوں میں رجوع کیا تو ھمیں اس نظریہ پر استدلال کرنے والی احادیث نھیں ملی چونکہ جو احادیث ھیں بھی ان کی سند ،،سند احاد ھیں نہ کہ تواتر جیسا کہ آپ نے دعوی کیا ھے، تو کیا یہ احادیث یقین کی منزل تک پهونچاتی ھیں؟  واقعا آپ کی باتیں تعجب خیز ھیں ۔

اس طرح آپ کا یہ قول کہ امام مختار کے لئے تمام برائیوں سے پاک و پاکیزہ اور تمام صفات کمال کا حامل هونا ضروری ھے (اور اسی کو عصمت کہتے ھیں ۔۔۔تا آخر۔) برادر عزیز !یہ کون سی عصمت ھے کیا کوئی انسان معصوم هوسکتا ھے کیا آپ ھی نے امام علیہ السلام کا قول نقل نھیں کیا کہ” کل آدم خطا ء و خیرالخطائین توابون“ (ھرانسان  خطاکارھے اور بہترین خطا کاروہ ھے جو توبہ کرلے )کیا اس قول سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات مستثنیٰ ھے اور جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممستثنیٰ نھیں ھیں تو پھر آپ کے پاس عصمت کے لئے کیا دلیل ھے ؟!

اس کے علاوہ آپ نے درج ذیل مرقوم صحیح حدیث :”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة “

(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے اس کی موت جاھلیت کی موت هوتی ھے)؛سے استدلال کیا اور اس سے محمد بن الحسن (امام مھدی ) کی امامت ثابت کرنا چاھی کیا کوئی عقلمند انسان آپ کی اس بات کو قبول کرسکتا ھے ؟ !  مذکورہ حدیث تو اپنے منطوق و مفهوم سے صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھے کہ ھر مسلمان اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے اور کتاب وسنت پر عمل کے ذریعہ اس (امام )کی بیعت کرے، لہٰذا مذکورہ حدیث امامت پر دلالت نھیں کرتی ، تو آپ نے کس طرح (امام) مھدی کی امامت کو مراد لیا اور کس طرح سے بارہ اماموں کی امامت میں محصور کیا  آپ کی یہ بات بغیر دلیل نھیں ھے ؟!!

 کیونکہ خدا وند عالم نے ھم تک بیان پہنچادیا ھے لہٰذا ھمیں روایات و احادیث کی پیر وی کرنا هوگی ،اور اگر وہ احادیث قطعی هوں تو ھم ان سے اپنے عقائد اخذ کریں گے اور اگر احادیث ظنی هونگی تو ان سے صرف احکامات اخذ کرسکتے ھیں ،پس کسی بھی عقلمند مسلمان کے لئے سزاوار نھیں ھے کہ وہ امور مظنونہ کے مطابق اعتقاد رکھے یعنی کسی چیز کاگمان کے مطابق معتقد هوجائے اور کہنے لگے کہ (حضرت امام)مھدی عنقریب آئیں گے، جب تک اس کے پاس ایسی قرآنی دلیل نہ هو جس کے ذریعہ برھان قائم کرسکے ۔ھم آپ اور آپ کے دوستوں سے امید وار ھیں کہ ھمارا یہ خط وکتابت کا سلسلہ اطمینان بخش ثابت هو ،تاکہ خدا وند عالم کی رضایت و خوشنودی حاصل هو سکے۔ والسلام علیکم و رحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔

محمدرضوان الکسم

۱۵ربیع الثانی   ۸۹ ۱۳ھ   ۲۹/۷/۱۹۶۹ئ

 

خط کا جواب

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

  جناب محترم محمد رضوان الکسم صاحب

  سلام علیکم و رحمة اللّٰہ وبر کاتہ۔

   آپ کا خط ملا ،محبت کا شکریہ ۔

۱۔لیکن ھم اپنے اس قول سے ذرہ برابر بھی پیچھے نھیں ہٹےں گے کہ اسلام نے عقل کو مصدر عقیدہ اور ایمان کی بنیاد قرار دیا ھے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا :  عقائد یقین کے ساتھ هونے چاہئیں ھم اس بات کی تصدیق کرتے ھیں اس سلسلہ میں بھی ذرہ برابر عقب نشینی نھیں کریں گے چاھے اس کے نتائج ھمارے حق میں هوں یا ھمارے ضرر میں ۔

۲۔ جن احادیث نبوی کے بارے میں ھم نے تو اتر کا ادعا کیا ھے وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ھیںاور وفات نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد وھی شرعی طور پر امام ھیں اور ھم نے تواتر سے مراد تواتر معنوی لیا ھے تواتر لفظی نھیں،کیونکہ وہ تمام احادیث اپنی تمام تر تاکید کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ھیں اگرچہ آپ کے نظریہ کے مطابق ان احادیث کی سند احاد (غیر متواتر ) ھیں لیکن وہ تمام ایک ھی مطلب(مسئلہ امامت) کی نشان دھی کرتی ھیں ،پس مسئلہ امامت تمام احادیث میں متواتر ھے۔

۳۔ ھم نے عصمت کی تفصیلی بحث کتاب امامت میں کی ھے لہٰذا بحث عصمت کو مذکورہ  کتاب میں ملاحظہ فرمائیں، انشاء اللہ آپ ھمارے نظریہ سے متفق هوجائیں گے ۔

۴۔ اب رھا آپ کا وہ اعتراض جس میں آپ نے کھا : یہ تعین کھاں سے اور بارہ اماموں سے کس طرح مخصوص کیا کس نے بیان کیا یہ سب کچھ بغیر دلیل کے نھیں ھے ؟

تو ان سب سوالوں کے جواب بھی بحث امامت میں ملاحظہ فرمائیں ۔

۵۔ لیکن وہ اعتراض جو آپ نے خط کے آخر میں کیا کہ (امام ) مھدی (ع) کا اعتقاد امور مظنونہ (گمان ) میں سے ھے لہٰذا اس پر اعتقاد رکھنا صحیح نھیں ھے ۔

آپ کا یہ اعتراض اس بات کی دلیل ھے کہ آپ نے ھماری کتاب کو غور سے نھیں پڑھا اور اگر آپ دوبارہ اس کتاب کو غور وفکرکے ساتھ ملاحظہ کریں تو آپ ان اصحاب و حفاظ کی فھرست دیکھیں گے جنھوں نے حضرت امام مھدی (عج) کے بارے میں رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی احادیث بیان کی ھےں اور ان افراد کی فھرست بھی دیکھیں گے جنھوں نے امام مھدی کے بارے میں کتابیں لکھی ھیں یا ان کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ھے،لہٰذا ان علماء کا امام مھدی کے بارے میں احادیث کا بیان کرنا اور ان کی صحت کا اقرار کرنا کیا انسان کو قطع و یقین کی منزل تک نھیں پهوچاتا ؟!

[1] سورہ زخرف آیت ۶۱۔

[2] سورہ توبہ آیت ۳۳

[3] اسی کتاب کی فصل امامت پر رجوع فرمائیں۔

[4] اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو جناب ابن حجر ھیتمی نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ ص۹۹ میں بیان کیا ھے۔

[5] المہدی والمہدویہ ، تالیف ڈاکٹر احمد امین ص ۱۱۰۔

[6] مجلة الجامعة الاسلامیہ شمارہ ۳ص ۱۶۱تا۱۶۲۔

[7] ادب الشیعہ ص ۱۰۱، اور اسی بات کی تائید ڈاکٹر عبد الحلیم النجار کتاب ”المہدیة فی الاسلام“ کے مقدمہ میں کرتے هوئے کہتے ھیں: علماء حدیث نے حضرت مہدی کے سلسلہ میں اس قدر روایت بیان کی ھیں جو کہ تواتر معنوی تک پہنچی هوئی ھےں۔

[8] ادب الشیعہ ص ۱۶۔

[9] وعاظ السلاطین ، ڈاکٹر علی الوردی۔ 

[10] مجله التربیه اسلامیه سال 14 شماره 7 ص 30.

[11] اس کتاب سے ابن صباغ مالکی نے فصول المھمہ ص ۲۷۵ میں روایت نقل کی ھے۔

[12] اس کتاب سے حافظ کنجی شافعی نے اپنی کتاب ”البیان“میں بہت سی روایات نقل کی ھیں۔ 

[13] اس کتاب کا نسخہ ”عہد مخطوطات عربیہ“ قاھرہ میں موجود ھے۔

[14] اس کتاب کی روایت ”اسعاف الراغبین“ ص ۱۳۹ میں پائی جاتی ھیں اور اس کتاب کے قلمی نسخے ”حلب“ اور ”استنالبول“ میں موجود ھیں ، نیز ھمارے پاس بھی اس کی ایک فوٹو کاپی موجود ھے جو کہ مولف کے سامنے قرائت شدہ نسخہ (موجود در ”حلب“ ) ؛کے مطابق ھے۔

[15] اس کتاب کا قلمی نسخہ استانبول (ترکیہ) میں موجود ھے۔

[16] اس کتاب کا ذکر خود مولف نے اپنی کتاب ”الائمہ الاثنی عشر“ ص ۱۱۸ میں کیا ھے۔

[17] ان دونوں کتابوں کے قلمی نسخے استانبول میں موجود ھیں، اور ھمارے پاس بھی کتاب برھان کی ایک فوٹو کاپی حرم مکی کتب خانہ سے اخذ شدہ موجودھے۔

[18] پھلی کتاب کا نسخہ ہندوستان میں اور دوسری کتاب کا نسخہ استانبول میں موجود ھے۔

[19] اس کتاب کا قلمی نسخہ استانبول میں موجود ھے۔

[20] مجلة الجامعة الاسلامیہ / شمارہ ۳/ ص ۱۳۱۔

[21] الغدیر ج۲ ص ۱۸۴۔ مطبوعہ نجف اشرف  ۱۳۶۵ھ۔

[22] الغدیر ج۲ ص ۲۲۳۔

[23] دیوان دعبل ص ۴۲۔

[24] دیوان مھیار جلد اول ص ۳۰۰۔

[25] الغدیر ج۴ص ۲۷۹۔         

[26] مطالب السوال ج۲ ص ۷۹۔

[27] شرح القصائد السبع العلویات ص ۷۰۔

[28] الائمہ الاثنی عشر ص ۱۱۸۔

[29] دیوان عبد اللہ بن علوی المسمیٰ ”الدر المنظوم ص ۱۸و ۱۴۶۔

[30] الصواعق المحرقہ ص ۹۹ نیز مراجعہ کریں المہدی والمہدویہ۔ 

[31] رجوع کریں کتاب المہدی ص ۹پر ۔

[32] الصواعق المحرقہ ص ۹۹، اسعاف الراغبین ص ۲۴۳، الحاوی ص ۱۲۴۔

[33] سنن ابن ماجہ ج۲ص۱۳۶، فصول المھمہ ص ۲۷۶، ینابیع المودة ص ۴۳۵، الحاوی ج۲ص۱۲۴۔

[34] تذکرة الخواص ص ۳۷۷،سنن ابی داؤد ج۲ص ۴۲۲، الصواعق المحرقہ ص ۹۸، نور الابصار ص ۱۵۶تا ۱۵۷ والحاوی ج۲ ص ۱۲۹تا ۱۳۷۔

[35] ظاھراً یہ جملہ راوی کا ھے۔مترجم)

[36] سنن ابی داؤد ج۲ص ۴۲۲، الصواعق المحرقہ ص ۹۷، ااسعاف الراغبین ۱۳۱، الحاوی ج۲ ص ۱۲۴۔

[37] سنن ابی داؤد ج۲ص ۴۲۲، الصواعق المحرقہ ص ۹۷، نور الابصار ۱۵۷، الحاوی ج۲ ص ۱۲۴تا ۱۲۶ ، اور مسند احمد بن حنبل جلد اول ص ۳۷۶،ص۳۷۷،۴۳۰،۴۴۸ میں یہ حدیث اس طرح ھے: ”لا تذھب الدنیا اولا تنقضی الدنیا حتی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطیٴ اسمہ اسمی“اسی طرح سنن ترمذی ج۴ص ۵۰۵، تذکرة الحفاظ ج۲ ص ۴۸۸ میں بھی ھے، نیز مراجعہ کریں سنن ابن ماجہ ج۲ ص ۱۳۶۶۔

[38] ینابیع المودة ص ۴۸۸، الحاوی ج۲ ص ۱۳۰۔

[39] سنن ابی داؤد ج۲ص ۴۲۲، البیان ص ۶۴، الصواعق المحرقہ ص ۹۷، اسعاف الراغبین ص ۱۳۱،سنن ابن ماجہ ص ۲ ص۱۳۶۸، الحاوی ج۲ ص ۱۲۴تا ۱۲۷ ۔

[40] ینابیع المودة ص ۴۴۵، کتاب البیان میں اس حدیث کے ۸۲جملے ھیں جس میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسین علیہ السلام کے منکب پر ھاتھ رکھ کر فرمایا:  ”من ہذا مہدی الامة“(یعنی ان کی نسل سے مہدی امت هوں گے)۔

[41] ینابیع المودةص ۴۴۵۔

[42] ینابیع المودةص ۴۴۱۔

[43] ینا بیع المودة ص ۴۴۳و اسعاف الراغبین ص ۱۳۹تا ۱۴۰۔ 

[44] اس سلسلے میں مذکورہ حوالوں کے علاوہ شیخ عبد الحسن العباد کی بحث در مجلہ الاسلامیہ نمبر ۳ ص ۱۲۸ بعنوان عقیدة اھل بیت السنة وا لاثر فی مھدی المنتظر ۔ 

[45] الاشاد ص ۳۷۲ ینابیع الموة ص ۴۵۱ و ۴۵۲۔

[46] صحیح ترمزی ج ۲ ص ۲۷۰ و الصواعق المحرقہ ص ۹۷۔

[47] تذ کرة الخواص ۔ص ۳۷۷و صواعق المحرقہ ص۱۲۴، و مطالب السوؤل ج ۲ ص ۷۹،اور نورالابصارص۱۵۴۔

[48] الفصول العشرة شیخ مفید ص ۱۳و۱۴۔      

[49] الفصول العشرة شیخ مفید ص ۱۴۔

[50] الارشاد ص ۳۷۲۔

[51] ارشاد ص ۳۷۲۔

[52] مطالب السئوول ج ۲ ص ۷۹ ۔

[53] تذکرة الخواص ص ۳۷۷۔  

[54] البیان ص ۱۰۲تا۱۱۲۔

[55] وفیات الاعیان ج۳ ص ۳۱۶۔

[56] الوافی بالوفیات ج۲ ص۳۳۶۔

[57] الصواعق محرقہ ص ۱۲۴۔

[58] الفصول المھمةص۲۷۴۔  

[59] الائمہ الاثنیٰ عشر ص ۱۱۷۔

[60] تحفة الطالب ص ۱۷(خطی نسخہ در مکتبہ حرم تحت رقم ۳۳تاریخ دھلوی ۔)

[61] اسعاف الراغبین ص ۱۴۰۔

[62] ینابیع المودة ص۴۵۰تا۴۵۱۔

[63] سبائک الذھب ص۷۸۔

[64] نور الابصار ص ۱۵۴۔

[65] اس سلسہ میں ڈاکٹر احمد امین صاحب کا قول (اپنی کتاب المھدی والمھدویہ ص۱۰۸میں ) کتنا عجیب ھے ، وہ کہتے ھیں ابن خلدون کا عقیدہ یہ ھے کہ اگر خبر واحد کی تائید عقل کے ذریعہ هورھی ھے تو اس کو قبول کیا جائے گا، اور خبر کثیرہ کو چھوڑنا ضروری ھے اگر عقل ان کی تائید نہ کرے ،اسی وجہ سے اس نے مھدی و مھدویت کا انکار کیا کیوں کہ یہ سب کچھ حکم عقل کے خلاف ھے ۔

[66] حافظ گنجی شافعی کی کتاب ”البیان “ ص ۱۰۲تا ص۱۱۳پر رجوع فرمائیں ۔اس طرح شیخ  قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ینابیع المودة ص ۴۴۸ میں یہ روایت نقل کی ھے کہ سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ھے کہ رسول اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا :  ”علی میرے وصی ھیں اور انھی کی نسل سے القائم المنتظر المھدی هونگے جو ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، قسم اس پروردگار کی جس نے مجھے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا کہ جو لوگ ان کی امامت کو ان کی غیبت کے زمانہ میں قبول کرلیں گے تو ان کے لئے باعث عزت و احترام ھے، یہ سن کر جابر بن عبدللہ انصاری کھڑے هوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ کے قائم کے لئے غیبت هوگی؟   تب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا : قسم بخدا،ھاں ۔

[67] سورہ آل عمران آیت  ۱۴۱

[68] ینابیع المودة ص۴۸۸۔

[69] ینابیع المودة ص ۴۹۵۔

[70] الحادی ج ۲ ص ۱۵۲۔

[71] ڈاکٹر احمد امین امام مھدی کے سلسلے میں کہتے ھیں کہ شیعہ معتقد ھیں کہ امام مھدی غائب ھے اور اپنے شیعوں اور تابعین کو ہدایت کرتے ھیں تاکہ ان سے مظالم سے دور رھیں اور وہ پردہ کے پیچھے سے امرو نھی کرتے ھیں المھدی والمھدویہ ص ۱۰۹تا ۱۱۹ ۔

[72] سورہ صافات آیت ۱۴۳تا ۱۴۴۔

[73] سورہ کہف آیت ۲۵۔

[74] سورہ بقرہ  آیت ۲۵۹۔

[75] قرآن مجید کی ان تمام واضح آیات کے بعد بھی ڈاکڑ احمد امین صاحب کہتے ھیں کہ انسان کے لئے ممکن نھیں ھے کہ وہ اتنی طولانی عمر مخفی رھے یا زندہ رھے مگر یہ کہ خدا وند عالم اس پر حکم موت جاری کرے لیکن یہ کہ ان لوگوں کے گمان کے ذریعہ جنھوں نے اپنی عقل کو کھو دیا هو (المھدی و المھدویة ص ۹۶)

[76] سورہ نجم آیت ۳تا ۴۔

[77] سورہ حشر آیت ۷۔       

[78] مجلہٴ مقتطفہ سال ۵۹/ حصہ سوم۔

[79] اگرچہ محال کہنا صحیح نھیں ھے بلکہ بعید کہنا صحیح ھے کہ انسان کو زندہ رکھنا بعید نھیں ھے۔ 

[80] برنارڈ شو ، عباس محمود العقاد/ سلسلہ اقراء/ شمارہ ۸۹ ص ۱۲۴تا ۱۲۵۔

[81] برنارڈ شو ، عباس محمود العقاد/ سلسلہ اقراء/ شمارہ ۸۹ ص ۱۲۴تا ۱۲۵۔ 

[82] علامہ موصوف کی یہ کتاب پھلے الگ الگ حصوں میں چھپی تھی بعد میں ان کو ایک جگہ جمع کرکے چھاپا گیا ھے۔(مترجم)

[83] سورہ انعام آیت ۱۴۸۔     

[84] سورہ کہف آیت ۱۵۔

[85] سورہ نساء آیت ۱۵۷۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment