یٰا َبَاذَرٍّ : ُعْبُدِا ﷲَ کََنَّکَ تَرَاہُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاہُ فَِنَّہُ یَرٰاک
اے ابوذر !خداوند تعالی کی ایسی پرستش کر وکہ جیسے اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ اگر تم اسے نہیںبھی دیکھتے ہو ، وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
اگر حدیث کا یہ حصہ متواتر نہ ہو تو کم از کم مستفیض ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی طریقوں سے غالباً ابوذر کے توسط سے گوناگوں تعبیروں سے نقل ہوا ہے ۔ اس معنی کے بارے میں ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :
''اَلْاِحْسَان ُ اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَاَنْکَ تَرَاہُ ....'' ١
نیکی وہ ہے کہ خدا کی ایسی عبادت کی جائے کہ گویا اسے دیکھ رہاہے ۔
شاید ابوذر کیلئے جس نے سالہا سال خدا کی بندگی کی راہ میںقدم اٹھائے ہیں اورسعادت حاصل کرنے کیلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں بہترین نصیحت یہ ہو کہ اسے عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کے سامنے وہ راستہ پیش کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اپنی عبادت سے بہترین استفادہ کر سکے اور عبادت کے دوران حضور قلب پیداہو ۔
حضور قلب حاصل کرنے کا راستہ ، مشق و ممارست اور خداوند عالم کو حاضر و ناظر جاننے کا ادراک ہے ، یعنی انسان ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے حضورمیں تصور کرے اور اس سے مانوس ہو اگر کوئی شخص خدا سے انس پیدا کرلے تو وہ خدا سے گفتگو کرتے اور اس کی بات سنتے ہوئے ہرگز تھکن محسوس نہیں کرے گا ، کیونکہ عاشق جتنا زیادہ اپنے معشوق سے محو گفتگو رہتا ہے اتنا ہی زیادہ تشنہ رہتا ہے ۔
یہ جو ہم عبادت انجام دینے میں جلدی تھکن محسوس کرتے ہیں اور نماز کو عجلت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے کاروبار کے پیچھے دوڑتے ہیں اور اگر نماز قدرے طولانی ہوجائے تو نہ یہ کہ کسی قسم کی لذت محسوس نہیںکرتے بلکہ اپنے آپ کو قفس میں محبوس پاتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اس بات کو درک نہیں کرتے کہ کس کے حضور میں کھڑے ہیں اور کس سے گفتگو کررہے ہیں ! ممکن ہے ہمیں علم حصولی کے ذریعہ خداوند عالم کی بندگی کے عظیم مرتبہ کی معرفت ہو اور اس کی عظمت سے ہم آگاہ ہوں لیکن ان ذہنی مفاہیم نے ہمارے دل پر کوئی اثر نہ کیا ہو اور خداوند عالم سے حقیقی رابطے کاذریعہ نہ ہو بلکہ جو چیز جو خدائے متعال سے حقیقی اور واقعی رابطے کا سبب ہے ، وہ عبادت کے دوران حضور قلب ہے ۔ جن عبادتوں کو ہم انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ صرف ہمارے لئے شرعی تکلیف انجام دینے کا سبب بنتی ہیں اور اس سے جو فائدہ ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ نہیں اٹھاتے ہیں،کیونکہ ہماری عبادتیں بے روح ہوتی ہیں اور یہ حضور قلب کے بغیر انجام پاتی ہیں ۔ دنیوی امور میں مشغول رہنا خدا سے قلبی انس اور حضور قلب پیدا کرنے میںرکاوٹ بن جاتا ہے ، اور یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا ہمیں سامنا ہے
مسلسل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز میں حضور قلب پیدا کرنے کیلئے کیا کیا جائے ؟ حضور قلب حاصل کرنے کیلئے مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے ،سب سے پہلے انسان کو ایک گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ خداوند متعال اسے دیکھ رہا ہے ۔ بعض معلم اخلاق یہ نصیحت کرتے تھے کہ اس مشق میں تخیلاتی پہلوئوںسے استفادہ کرناچاہیئے ، یعنی ایک کمرے میں یا ایک خلوت جگہ پر بیٹھے ہوئے فرض کریں کہ کوئی شخص چپکے سے تمھاری رفتار و کردار پرنظر رکھے ہوئے ہے تو کیا نظر رکھنے کی صورت میں اور کسی کے نظر نہ رکھنے کی صورت میںتمھاری رفتار ایک جیسی ہوگی ؟ خاص کر اگر وہ شخص کوئی عام شخص نہ ہو بلکہ اسے تم قابل اہمیت سمجھتے ہو اور اپنی قضا و قدرکا مالک جانتے ہو تم چاہتے ہو کہ اس کی نظر میںعزیز رہو اور وہ تجھے دوست رکھے، کیا اس صورت میں تم اس سے بالکل غافل رہ کر کوئی اور کام انجام دے سکتے ہو ؟
اگر انسان یہ کوشش کرے کہ مشق اور ریاضت سے اپنے اندریہ یقین پیدا کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں ہے اور خدائے متعال اسے دیکھ رہا ہے اگر چہ وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے ، تووہ اپنی عبادت میں حضور قلب پیدا کرکے اسے با روح عبادت میں تبدیل کرسکتا ہے پھر وہ عبادت صرف تکلیف شرعی سے چھٹکارا پانے والی عبادت نہیں ہوگی بلکہ وہ عبادت معنوی ترقی و بلندی اور قرب الہی کا سبب ہوگی بے شک حضرت علی علیہ السلام کا مندرجہ ذیل بیان اس مطلب کا گواہ ہے :
'' اِتَّقُو ا مَعَاصِیَ اﷲِ فِی الخَلَوَاتِ فَاِنَّ الشَّاھِدَ ھُوَ الْحَاکِمُ ''2
خلوت کی جگہوں پر گناہ انجام دینے سے پرہیز کرو ، کیونکہ جو تمہارے اعمال کاشاہد ہے وہی حاکم ہے ۔
لہذا ، جنہوں نے نماز کے دوراں حضور قلب حاصل کرنے کے بارے میں اب تک مشق نہیں کی ہے انہیں دن اور رات کے دوران ایک وقت کو مقرر کرکے خلوت میں بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ خدائے تعالی ٰ کے حضور میں ہے اور خدا اسے دیکھ رہا ہے قرآن مجید نے بھی کئی مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :
( یَعْلَمُ خَائِنَةَ الاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُورُ ) ( مومن ١٩)
وہ خدا نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی باخبر ہے .
ایک شاگرد سے نقل ہو اہے کہ : میں اپنے استاد کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے سراہنے پہنچا اور ان سے آخری نصیحت کرنے کی درخواست کی استاد نے بڑی مشکل سے اپنی زبان کو حرکت میں لاکر فرمایا:
'' اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اﷲَ یَریٰ''
کیا تم نہیں جانتے ہو کہ خداوند عالم دیکھ رہا ہے ؟ '
حضرت علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میںفرماتے ہیں :
'' اَیُّھَا النَّاسُ ، اِتَّقُوااﷲَ الَّذِی اِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ وَ اِنْ اَضْمَرْتُمْ عَلِمَ '' 3
اے لوگو ! اس خدا سے ڈرو، جو تمہاری بات کو سنتا ہے اورپوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے ۔
اس حدیث کے پہلے حصہ میں حضرت نے عبادت کو انسان کی سعادت کی کلید کے عنوان سے بیان فرمایا ہے اور اس کے دوسرے حصوں میں خداوندعالم کی عبادت کے مراحل کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس کے علاوہ پہلے حصہ میں عبادت کی کیفیت کی سفارش کی گئی ہے یعنی عبادت میں روح ہونی چاہیئے اور اس کی روح حضور قلب ہے حقیقت میں اصل عبادت و بندگی کی طرف براہ راست اشارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مسلّم امر کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
..............
1:بحار الانوار ، ج ٦٥ ، باب ١، ص ١١٦
3: نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،ص ١١٧٨ ، حکمت نمبر ١٩٤)
source : http://www.alhassanain.com