عبادت ایک ایسا عمل ہے جسکو ظاہراً خضوع کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ عمیق ہے ۔
عبادت کا مرکز ہماری روح ہے، عبادت کا سر چشمہ معرفت ہے ،عبادت کی بنیادتوجہ ہے، عبادت کی شروعات تقدس سے ہوتی ہے ،آغاز عبادت تعریف و ستائش سے ہے، عبادت دعا ہے ، عبادت میں التجا و استعانت ہے ، عبادت معبود کے کمالات سے عشق کا نام ہے ۔
عبادت ظاہراً ایک آسان کام ہے لیکن عبادت میں اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ ہوں تو انسان سے عبادت نہیں ہو سکتی ۔ عبادت یعنی مادّیت سے رغبت کو ختم کر لینا اور اپنی روح کو پروازعطا کرنا۔ قدموں کو دیکھنے اور سننے والی اشیاء سے آگے رکھنا ۔ عبادت انسان کے عشق کی تکمیل کرتی ہے ،جس میں کبھی حمد و تعریف کے ذریعہ ،کبھی تسبیح و تقدیس کے ذریعہ اور کبھی اپنے قیمتی اوقات میں شکر و اظہار تسلیم کے ساتھ ،پروردگار عالم کے تئیں اپنے ادب و احترام کااظہار مقصودہوتا ہے۔
عبادت سے بے توجہی
حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : اے انسان ! تمہاری آنکھیںاندھی ہوجائیں اگر تم اپنی عمر کے اتنے سال گزارنے کے بعد بھی ( جبکہ تمہارے پاس اتنی استعداد ، قابلیت ، وسا ئل ، عقل ، علم اور وحی احکام الٰہی مو جود ہیں ) حیوانوں کی طرح چراگاہ عالم میں کھاؤ پیواور سو جاؤ ۔ (١)
جی ہاں ! تمدن ، ٹیکنالوجی ، جدید آلات اور پیشرفت نے زندگی کو سکون بخشا اور یہ رفاہ و آسائش کا تحفہ لائیں لیکن کیاانسان کا کمال دنیا کی راحت بخش چیزوں کے حاصل کرنے میں ہے ؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر جانور ، کھانے پینے ، پوشاک ،گھرا ور جنسی تسکین میں انسان سے بھی آگے ہیں۔
جانور انسانوں سے زیادہ اچھا اوربغیر زحمت کے کھاتے ہیں ۔ ان کو کھا نا پکا نے اور تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انہیں کپڑے سلنے ، دھلنے اور استری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جانور کسی محنت و مشقت کے بغیر اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتے ہیں ۔
کتنے پرندے اور کیڑے مکو ڑے ایسے ہیں جن کے اندر گھر اور گھونسلے بنانے کی مہارت کو دیکھ کر انسان تعجب میں پڑ جاتا ہے ۔ اصولاً کیا یہ ٹیکنالوجی کاارتقاء انسانیت کی ترقی کا سبب بناہے ؟ کیا انفرادی و معاشرتی برائیاں کم ہوگئی ہیں ؟ کیا یہ آسائش ،دل کو سکون بخشتی ہے ؟
بہرحال اگر انسان کے ہاتھ کو معصوم او رعادل رہبر کے ہاتھ میں نہ دیا جائے تو انسانیت پر ظلم ہوگا اگر انسان کا دل پروردگار سے وابستہ نہ ہو تو انسانیت کے مقام و منزلت کی توہین ہوگی ۔
………………………………
١۔ قرّت اذاً عینہ اذا قتدیٰ بعد السنین المتطاولہ بالبھیمة الھاملة و السائمة المرعیّة ( نہج البلاغہ مکتوب٤٥ )
source : http://www.alhassanain.com