اردو
Saturday 21st of December 2024
0
نفر 0

مومن ہمیشہ جہاد سے منسلک رہتا ہے

جہاد مسلمان کی زندگی کا عظیم دستور اور نظام ہے۔ جب بھی مومن کے اندر سے روح جہاد ختم ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ ایمان و اسلام سے محبت بھی جاتی رہتی ہے اور ہر طرف سے اسے فتنے گھیر لیتے ہیں ۔ایک کے بعد ایک آزمائش اس پر آتی ہے۔تارکین جہاد کے گھر، محلے، مارکیٹیں ، بازار اور منڈیاں بالآخر لعنت و شورش کا گڑھ بن جاتے ہیں اور ہیبت ناک قسم کے حالات کے سامنے ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں حتیٰ کہ کسی بھی کام کے قابل نہیں رہتے اور ان کی نبض ہی رک جاتی ہے۔

جیسے جیسے جہاد سے دلچسپی کم ہوتی ہے اسی تناسب سے دلوں سے وحی کی برکت بھی اٹھ جاتی ہے اور اللہ کے دین کے ساتھ لگاﺅ اور محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔دلوں میں الہا مات الٰہیہ کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔اس طرح خدائی اسرا ر سے دل خالی ہو جاتے ہیں ۔انکے روشن دن بھی تاریک راتوں کی طرح ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فیضان و تجلیات انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو جہاد کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔اور اللہ کی عظمت شان کے مطابق اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔جس معاشرہ میں ایسے مجاہدین رہتے ہیں کبھی مایوس وپشیمان نہیں ہوتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس معاشرے میں اللہ کے کلمہ کی سر بلندی کے لیے کوششیں ہوتی ہیں وہی معاشرہ ہے جس کے قبیلوں اور افراد میں یکجہتی ہوتی ہے۔جس معاشرہ میں بسنے والے مومن گاﺅں گاﺅں ،قریہ قریہ اور قصبہ قصبہ چل کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں اور دعوت حق لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے معاشرہ کو ہمہ جہت کامیابیاں دلاتا ہے۔اور جو معاشرہ اس فریضہ کو ادا نہیں کرتا اور اس میں روح جہاد نہیں ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے۔ آج نہیں تو کل یا اس کے بعد اس کو ختم ہونا ہے اور کل دور نہیں ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ کتنے ہی طاقتور ذلیل و خوار ہوئے ،کتنے ہی مالدار فقیر ہوئے اس لیے کہ انہوں نے جہاد چھوڑ دیا تھا۔جو لوگ بادشاہوں کے درباروں کے گرد چکر کاٹتے رہے آخر کار ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے پاﺅں چوم کر گزرنے لگے۔ہم ان آیات کے ذریعے ان کو یاد دلاتے ہیں :

کَم تَرَکُوا مِن جَنّٰتٍ وَّعُیُونٍ o وَّزُرُوعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیمٍ o وَّنَعمَةٍ کَانُوا فِیہَا فٰکِہِینَ o ۔( الدخا ن۔۲۵۔۲۷)

”کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے ۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان جن میں وہ مزے کر رہے تھے ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ “

کہیں ایسا دن نہ آجائے کہ لوگ ہمارے اوپر یہ آیا ت پڑھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دن سے بچائے۔آمین۔

ہاں امویوں ،عباسیوں ،سلجوقوں اور عثمانیوں پر فاتحہ پڑھی جا چکی ہے۔اگر ہم بھی ان اثاثوں کودشمن کے خلاف آخری قلعہ سمجھ کر استعمال نہیں کریں گے تو ہماری بھی فاتحہ پڑھی جائے گی۔ہمیں چاہیے کہ مردوں اورمقبروں کی طرح نہ ہوجائیں بلکہ ہم وہ زندگی جئیں جو انسانیت کے لائق ہو۔

اگر ہم اللہ کے دین کی عظمت اور قدر کریں تو ہم اللہ کے ہاں اسی قدر اجر پائیں گے جس قدر ہم اپنے دلوں میں اس کے نام کی قدر و عظمت کو زندہ رکھیں گے اور اگر ہم نے اللہ کے حکم کو کوئی اہمیت نہ دی اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا نہ کیا تو اسی طرح اللہ کے ہاں ذلیل ہوں گے اور ہمارانشان تک نہ رہے گا۔

اگر تم زندہ اور باعزت رہنا چاہتے ہو تو اللہ کا نام اپنے دل کی تحتی پر لکھ لو۔اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لو ۔اپنی زندگی سے ہر اس چیز کو اٹھا باہر پھینکوجس کا اللہ سے تعلق نہ ہو۔بلکہ اپنے خوابوں کو بھی اللہ سے غیر متعلق چیزوں سے پاک کر لواورا پنی زبان حال سے اقرار کرو:ایسی زندگی سے قبر کی تہہ بہتر ہے جس میں اللہ کی محبت نہیں ، جس میں دعوت و تبلیغ نہیں ، جس میں شریعت الٰہی کا نفاذ نہیں ۔پس ایسی زندگی سے موت بہتر ہے جس میں تجلیات الٰہی کے لیے دل نہ ہو۔اس فکرو شعور کو پوری امت میں اجاگر کرنے کے لئے جدوجہد کرو۔ہمارا معاشرہ اپنی اقدار و روایات کھو چکا ہے۔ان کو دوبارہ بحال کرنے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے کوششیں شروع کرو تاکہ تمہارا رب تمہیں نیست و نابود ہونے سے بچا لے ۔

مؤمن جانتاہے کہ اسے کس چیز کو کیسے ترجیح دینی ہے۔ وہ دنیا اور آخرت میں بقدر ضرورت اعتدال رکھتا ہے۔ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ آخرت کی کیا اہمیت ہے اور اس فانی دنیا کے مقابلے میں کس حد تک آخرت کو ترجیح دینی ہے ، جس میں ہمیشگی ہے دوام ہے ۔ اس لیے مؤمن ہمیشہ اللہ کے حکم کو دنیوی امور پر مقدم رکھتا ہے اور وہ فنا ہونے اور زائل ہونے والی اشیاءکو ہمیشہ باقی رہنے والے امور اور اشیاءپر ترجیح نہیں دیتا ، بلکہ وہ دنیا کو اسی قدر اہمیت دیتا ہے جس قدر اس نے اس میں رہنا ہے اور آخرت کو اسی قدر اہمیت دیتا ہے جس قدر اس نے آخرت کی زندگی میں رہنا ہے۔ نہ تو یہودیوں کی طرح دنیا ہی میں اٹک کر رہ جاتا ہے اور نہ عیسائیوں کی طرح دنیا سے بالکل کٹ کر رہتاہے ۔مؤمن تو وہ ہے جو دنیوی معاملات کو آخرت کے مقابلہ میں حقیر سمجھتا ہے تاکہ آخرت میں وہ خود حقیر نہ بن جائے کیونکہ جو لوگ دنیا ہی کو اپنی زندگی کا مقصد و محور بنا لیتے ہیں اور آخرت کو بھول جاتے ہیں و ہ آخرت کی بھلائیوں سے محروم بھی ہو تے ہیں ۔ یعنی جو شخص موت سے ہیبت کھاتا ہے وہ دنیا کی زندگی کی لذت بھی کھو دیتا ہے ۔ اسی طرح جو شخص دشمن کو میدان جنگ میں سامنے دیکھ کر ہوش گنوا بیٹھتا ہے او ر اپنی زندگی سے محبت کی خاطر میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اپنی مالی حالت اور زندگی کی فکر میں راہ جہاد سے فرار میں کامیابی سمجھتا ہے ، وہ در حقیقت زندگی اور زندگی کے لوازمات سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یہاں تک کہ جو شخص دنیا و ما فیہا کو چھوڑ کر جہاد سے پیچھے رہتے ہوئے اپنی عبادت گاہ میں تن تنہا بیٹھا رہتا ہے بالآخر اس عبادت گاہ سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ پست حوصلہ اور کم ہمت لوگ ایک دن سب کچھ گنوا بیٹھیں گے اور سر کے بل گریں گے ۔ جہاں تک بلند ہمت اور عالی حوصلہ لوگوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے ستاروں بھری اس دنیا کی تعمیر کرتے ہیں ۔ اس دنیا کو اپنے سامنے حقیر سمجھتے ہیں ، اس بات کو نہیں مانتے کہ کوئی اور ان پر حکمرانی کرے بلکہ اپنے اندر یہ صلاحیت محسوس کرتے ہیں کہ دنیا ان کے پیچھے چلے اور وہی حکومت کریں اور ساری زندگی اس نظریہ پر قائم رہتے ہیں کہ دنیا کی حاکمیت انہی کا مقدر ہے ۔

جو لوگ موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں ان پر ہمیشہ زندہ رہنے کا راز کھل جاتا ہے اور ابدی زندگی کا راستہ پاجاتے ہیں ،لیکن جو لوگ دنیا کی چکا چوند میں غرق ہو جاتے ہیں اور اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں ،نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ان کے لیے محال ہو جاتا ہے ، اپنے فرائض بھول جاتے ہیں یہ لوگ اپنے ساتھ ساتھ امت کی ہلاکت کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ اس طرح آنے والی نسل کو اس حال میں چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔

مومن اپنے جہاد سے ان بد ترین نتائج کی قبل از وقت تلافی کرتاہے ۔ گلیاں اور گھر مومن کے جہاد کی وجہ سے منور ہو جاتے ہیں ۔بے راہ روی، ظلم و جبر اور انتہا پسندی جس نے اس دنیا کو خون کے سمندر میں ڈبو دیا ہے، مؤمن کے جہاد ہی سے ختم ہو سکتی ہے ۔

مومن کے جہاد ہی سے اس دنیا میں انسانیت کے لیے امن و استحکام ممکن ہو سکتاہے ۔ مومن اس انسان کو کہتے ہیں جو اس عظیم مقصد کے لیے برسر پیکار ہو ، چاہے وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو یا نہ ہو ۔ ہر دو صورتوں میں رحمت الہی اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور قیامت کے روز وہ نیکو کار اور صلحاءکے ساتھ ہو گا جنہوں نے دعوت کے میدان میں اپنے وعدے پورے کر دیے ہیں اور انہوں نے اللہ کی لا متناہی رحمتوں کے دامن تھام لئے ۔

اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ حق کے راستے پر چلے اور اس پر ثابت قدم رہے، نتیجہ یا انجام کار اس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ہر انسان اپنے ہدف کو حاصل نہیں کیا کرتا بلکہ انسان کے لیے کوشش کرنا شرط ہے، کامیابی حاصل کرنا اس کی ذمہ داری نہیں ۔ ہر انسان کو چاہیے کہ کوشش جاری رکھے، حرکت میں رہے کام کرے، مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جد و جہد کرے ۔ جہاں تک اللہ کی رضا کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی کے نصیب میں ہوتی ہے جس کو اللہ توفیق دے۔

جو جذبات غازی عثمان کے دل میں جوان تھے۔ جن اہداف کے حصول کے لیے وہ بے چین تھے، جن کے لیے وہ کئی برسوں تک کوشاں رہے، وہ اہداف ان کے پوتوں نے حاصل کئے ۔یعنی ان کے ہر بادشاہ نے جوبھی قدم بڑھایا، جو بھی کوشش کی، اس کی کوشش کا صلہ اس نے پایا چاہے وہ بظاہر کامیاب نہ بھی ہو ا ہو ۔ ہر کوشش کرنے والے نے اپنا صلہ پایا اور اللہ کے ہاں اس کا وش کی قدر ہوئی ان کے تمام کام جہاد ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ اس جہاد میں شریک رہے ان کے نامہ اعمال میں بھی ان کا جہاد بقدر حصہ لکھ دیا گیا۔ جس شخص نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سفر کیا ، جس نے اس گھوڑے کو تیار کیا جس نے تیر اٹھایا جس نے رخت سفرباندھا تاکہ دار الکفر میں جا کر دین اسلام کی دعوت پہنچائیں ، تمام کے تمام مجاہدین کے زمرے میں شامل ہیں ۔ ان لوگوں میں اور سپہ سالار لشکر میں اجر کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ لشکر کے عام افراد اور اس سپہ سالار میں کوئی فرق نہیں جس نے دو سمندروں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور وہاں کا حکمران بن گیا دنیا میں اپنی قوت کا لوہا منوا لیا ۔اپنا سکہ جاری کر لیا ۔ کیونکہ لشکر کا عام فرد اور سردار دونوں ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل کے حصول کے لیے برسر پیکار تھے۔

جس دنیا کو بنانے کے لیے یہ جان نثاران اٹھے ہیں اس کی بنیاد ہی سکون، اطمینان اور امن و سلامتی پر ہے جو ساری دنیا میں پھیلنی چاہیے۔ اس لیے اس طرح کی دنیا بنانے کے لیے جو بھی قدم اٹھایا جائے گا وہ یقینا مقدس ہو گا ۔ اس راستے کا ہرکام عظیم کام ہو گا چاہے دیکھنے میں بالکل معمولی نوعیت کا ہو ۔ اگر تم نیکی کے کام میں ایک قدم بھی آگے بڑھ سکتے ہو تو جان قبض ہونے سے پہلے وہ قدم اٹھا لو۔ اپنے رب کی طرف جانے میں مکرم فرشتوں کے ساتھ مقابلہ کرو تاکہ رب جلیل کے ہاں تمہاری قدر بڑھ سکے اور وہ تمہیں بلند مقام عطا فرمائے اور اگر فرشتوں سے مقابلہ کے دوران ہی تمہاری روح قبض ہو جائے تو تم مقابلہ جیت جاﺅ گے بلا شبہ اللہ تعالی کے ہاں رائی کے دانے کے برابر نیکی کا اجر بھی ضائع نہیں ہوتا ۔

اس آیت کے مفہوم پر غور کرو:” وَ مَن یُّھَاجِر فِی سَبِیلِ اللّٰہِ یَجِد فِی الاَرضِ مُرٰغَمًا کَثِیرًا وَّسَعَةً وَ مَن یَّخرُج مِن بَیتِہ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہ ثُمَّ یُدرِکہُ المَوتُ فَقَد وَقَعَ اَجرُہ عَلَی اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیمًا (النساء:۱۰۰)

” جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے و ہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے۔ اس کا اجر اللہ کے ذمہ واجب ہو گیا۔ اللہ بہت بخشش فرمانے والا رحیم ہے ۔“

شاید اس آیت کا شان نزول ہی اس کا مفہوم بہتر طور پر واضح کرے گا۔ اللہ پر ایمان لانے کے شوق میں دل تیزی سے دھڑک رہے تھے اور لوگ جو ق در جوق عطائے الہی کو سمیٹنے کے لیے مدینہ منورہ کی طرف رواں دواں تھے ۔ ایک ایک بھی اور گروپو ں کی صورت میں بھی مدینہ کی طرف ہجرت جاری تھی ۔ دلوں کے درمیان حائل رکاوٹیں ختم ہو چکی تھیں ۔ تمام لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے سوئے مدینہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے لیے جارہے تھے ۔ پرانی دشمنیاں دوستیوں اور محبتوں میں بدل رہی تھیں ۔ ہجرت کرنے والوں میں ایک صاحب جندب بن ضمرہ بھی تھے۔ دل میں سوچا مجھے بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے ۔ اس طرح وہ کفار کے درمیان سے چھپ کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے اتنے دور پہنچے تھے کہ مدینہ کی باد نسیم ان کے جسم میں موجود روؤں کو حرکت و تازگی دے رہی تھی لیکن مدینہ شہر پہنچنے سے قبل ہی شدید بیمار ہو گئے اور چلنا مشکل ہو گیا۔ اپنے ہدف تک پہنچنے کے قابل نہ رہے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب مدینہ منورہ پہنچنا مشکل ہے اور موت قریب تر ہو رہی ہے تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور ٹوٹتے ہوئے دل سے کہنے لگے اے میر ے پروردگار مجھے قبول فرما لے۔ ایک تیرا ہاتھ ہے اور دوسرا تیرے رسول کا ہاتھ ۔ اب میں تیرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں بالکل اسی طرح جیسے تیرے رسول نے تیرے ہاتھ پر بیعت کی اور وہ مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے ۔ یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو وہاں صحابہ میں بحث مباحثہ ہونے لگا کہ کیا جندب کو ہجرت کا اجر ملے گا یا نہیں ؟ وہ تو مدینہ نہیں پہنچے اس لیے مہاجر نہ ہوئے ۔

اس مسئلہ کے حل کے لیے درج بالا آیت نازل ہوئی جس میں خوشخبری ہے کہ جندب مہاجر ہیں یعنی جس شخص نے اپنا گھر بار اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے چھوڑ ا اور راستے میں جان ہار گیا وہ ہجرت کا پورا اجر حاصل کرے گا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ حق کے راستے پر چلنے والا بھی حق پر ہے اور جو اس سفرکو مکمل کر کے حق کو حاصل کر چکا ہے وہ بھی حق پر ہے اور دونوں اجر میں برابر ہیں ۔ ہر شخص استطاعت نہیں رکھتا کہ خانہ کعبہ میں حاضری دے سکے ،اس کے گرد طواف کرے۔ حجر اسودکو بوسہ دے سکے، لیکن اگر استطاعت نہ رکھنے والا اس سفر کے لیے بے چین ہو، وہاں جانے کے لیے فکر مند ہو، تگ و دو کرے، تو چاہے وہ وہاں نہ پہنچ سکے، رب جلیل ارحم الراحمین اس کو اجر و ثواب سے محروم نہیں کرے گا یعنی ایسے دل کو کبھی محروم نہیں کرتا جو اس کے گھر سے لگارہتا ہے ۔

اللہ کے راستے میں کوئی چھوٹا عمل کیا جائے یا بڑا ، دونوں کا عظیم اجر و ثواب ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جیسا کہ ان کے ہاں جہاد کا مفہوم ہے تو وہ جان لیں اور جو کہتے ہیں کہ ہم دعوت کا کام کرنے سے قاصر ہیں و ہ بھی جان لیں ، جو لوگ کہتے ہیں ہمارے پاس اتنا ہے ہی نہیں کہ کسی جگہ خطیر رقم دے کر بڑی خدمت سر انجام دیں وہ بھی جان لیں :۔

کہ جو شخص بھی اس ربانی دستر خوان کو سجانے میں شریک ہو گا چاہے ایک چھوٹی چمچ کے برابربھی اپنا حصہ ڈالے تو وہ اس شخص کے برابر اجر پائے گا جس نے سمندروں اور وادیوں کی مقدار میں حصہ ملایا ۔


source : http://pk.fgulen.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا غدیر کے دن صرف اعلان ولایت کیا گیا؟
خدا کے پیارے نبی کے چچا ، امیر حمزہ امیر حمزہ۔
عظمت امام حسین علیہ السلام
قرآنی معلومات
عزاداری کو درپیش خطرات
نماز جماعت ۲۵ فرادیٰ نمازوں پر فضيلت رکهتی يے
واقعہ کربلا کے بعد جناب زینب سلام اللہ علیہا کا ...
خاک کربلا پر سجدہ کرنے کی علت
امام جواد علیہ السلام کا یحییٰ بن اکثم سے مناظرہ
شیعوں کے مختلف فرقے

 
user comment