اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

امام موسی کاظم کا روحانی اعتبار سےاثر ورسوخ

یہاں سے آپ اندازہ لگائیے کہ شیعوں کے آئمہ کا روحانی اثرورسوخ کس قدر زیادہ تھا۔ وہ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ کھلے عام تبلیغ کر سکتے تھے ۔لیکن ان کی عوام کے دلوں پر حکومت تھی۔ ھارون کی حکومتی مشنری میں ایسے ایسے افراد موجود تھے جو امام علیہ السلام کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ دراصل حق اور سچ ایسی حقیقت ہے جواندر بلا کی کشش رکھتی ہے۔ آج آپ نے اخبارمیں پڑھا ہو گا کہ اردن کے شاہ حسین نے کہا کہ میں اب سمجھا کہ میرا ڈرائیور میرے مخالفوں کاآلہ کار ہے اور میرا کچن بھی انہیں کی سازشوں کی زدمیں ہے۔ ادھر علی بن یقطین ھارون الرشید کا وزیر ہے یہ مملکت کا دوسرا ستون ہے ۔لیکن شیعہ ہے۔ تقیہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ظاہر میں ہارون کا کارندہ ہے لیکن پس پردہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاک وپاکیزہ اہداف کی ترجمانی کرتا ہے۔ دو تین مرتبہ علی بن یقطین کے خلاف خلیفہ کو رپورٹ پیش کی گئی لیکن امام علیہ السلام نے اسے قبل از وقت بتا دیا اور اس کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی جس کی وجہ سے علی بن یقطین حاکم وقت کے شر سے محفوظ رہا۔ ہارون کی حکومت میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کے بیحد عقیدت مند تھے۔ لیکن حالات کی وجہ سے امام علیہ السلام سے رابطہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ اہواز کا رہنے والا ایک ایرانی شیعہ کہتا ہے کہ حکومت وقت نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کر دیا تھا ۔ادائیگی کی صورت ہی میں مجھے چھٹکارا مل سکتا تھا۔ اتفاق سے انہیں دنوں میں اہواز کا گورنر معزدل ہو گیا۔ نیا گورنر آیا مجھے خوف تھا کہ اس نے آتے ہی مجھ سے ٹیکس کا مطالبہ کرنا ہے۔ میری فائل دوبارہ کھل گئی تو میرا کیا بنے گا؟ لیکن میرے بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ گھبراؤ نہیں نیا گورنر اندر سے شیعہ ہے اور تم بھی شیعہ ہو۔ ان کی باتوں کو سن کر مجھے قدر ے دلی سکون ہوا۔ لیکن مجھ میں گورنر کے پاس جانے کی ہمت نہ تھی۔

میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ مدینہ جا کر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا رقعہ لے آؤں (اس وقت آقا گھر پر تھے) میں امام علیہ السلام کی خد مت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا گوش گزارکیا۔ آپ نے تین چار جملے تحریر فرمائے جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ اس مرد مومن کی مشکل حل کی جائے۔ آخر میں آپ نے لکھا کہ مومن کی مشکل کو حل کرنا اللہ کے نزدیک بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔ وہ خط لے کر چھپتے چھپاتے اہواز آیا۔ اب مسئلہ خط پہنچانے کا تھا۔ چنانچہ میں رات کی تاریکی میں بڑی احتیاط کے ساتھ گورنر صاحب کے گھر پہنچا۔ دق الباب کیا۔ گورنر کا نوکر باہر آیا میں نے کہا اپنے صاحب سے کہہ دو کہ ایک شخص موسیٰ ابن جعفر (ع)کی طرف سے آپ کو ملنے آیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ گورنر صاحب فوری طور پر خود دروازے پر آگئے۔ سلام و دعا کے بعد آنے کی وجہ پوچھی میں نے امام علیہ السلام کا خط اس کو دے دیا۔ اس نے خط کو کھول کر اپنی آنکھوں پر لگایا اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد مجھے اپنے گھر میں لے گیا۔ اور مجھے کرسی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔بولا کیا تم امام علیہ السلام کی خدمت اقدس سے ہو کر آئے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں پھر گورنر بولا کی آپ نے انہیں آنکھوں سے امام علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر کہا آپ کی پریشانی کیا ہے؟ میں نے اپنی مجبوری بتائی۔ آپ نے اسی وقت افسروں کو بلایا اور میری فائل کی درستگی کے آرڈر جاری کیے۔ چونکہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مومن کو خوش کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے گورنر صاحب جب میرا کام کر چکے تھے تو مجھ سے بولے ذرا ٹھہر جاؤ میں آپ کی خد مت کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ کہ میرے پاس جتنا سرمایہ ہے اس کا آدھا حصہ آپ کو دیتا ہوں، میری آدھی رقم اور میرا آدھا سرمایہ آپ کا ہے۔ وہ مومن روایت کرتا ہے کہ ایک تو میری بہت بڑی مشکل حل ہو چکی تھی دوسرا گورنر صاحب نے مجھے امام علیہ السلام کی برکت سے مالا مال کر دیا تھا ۔ میں گورنر کو دعائیں دیتا ہوا گھر واپس آگیا۔ ایک سفر پہ میں اما م (ع) کی خدمت اقدس میں گیا تو سارا ماجرہ عرض کیا آپ علیہ السلام سن کر مسکرا دئیے اور خوشی کا اظہار فرمایا۔

اب سوال یہ ہے کہ ھارون کو ڈر کس چیز سے تھا؟ جواب صاف ظاہر ہے وہ حق کی جاذبیت اور کشش سے خوفزدہ تھا:

”کونودعاة للناس بغیر السنتکم“

”یعنی آپ لوگ کچھ کہے بغیر لوگوں کو حق کی دعوت دیں۔ زبان کی باتوں میں اثر اکثر کم ہی ہوتا ہے۔ اثر و تاثیر تو عمل ہی سے ہے ۔“

وہ شخص جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام یا آپ کے آباؤاجداد اور اولاد کا نزدیک سے مشاہدہ کر چکا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سب حق پر ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔ یہ پاک و پاکیزہ ہستیاں خدا کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں۔ اور خوف خدا صحیح معنوں میں انہی میں ہے ۔یہ خدا سے صحیح محبت کرنے والے ہیں ‘اور جو کچھ بھی کرتے ہیں اسی میں خدا کی رضا ضرور شامل حال ہوتی ہے۔


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment