دین مبین اسلام کے دائمی زندہ و جاوید ہونے سے ایسے نبی کی بعثت کا احتمال تو ختم ہو جاتا ہے جو آکر دین اسلام کی شریعت کو نسخ کرے،لیکن اسلام کی ترویج و تبلغ کے فرایض انجام دینے والے پیغمبر کے ظہور کا احتمالی شبہ باقی رہتا ہے؛جیسا کہ گذشتہ انبیاء میں بہت سارے نبی مقام تبلیغ پر فائز تھے مثلاً حضرت لوط علیہ السلام خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موجودگی میں شریعتِ ابراہیمی کے تابع تھے،یا بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے انبیاء جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کی شریعت کی تبلغ میں مصروف تھے۔مسئلۂ خاتمیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرات معصومین علیہم السلام کی بارگاہ میں کاسۂ گدائی پھیلائے حقیر قلم فرسائی کی جسارت کرتا ہے۔
خاتمیت پر قرآن مجید سے دلیل
بعث انبیاء کا سلسلہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ختم ہوگیا،آپ کے بعد باب نبوت کا مسدود ہوجانا ضروریات دین اسلام بن گیایہاں تک کہ بیگانوں پر بھی ‘‘ختم نبوت’’ کا مسئلہ واضح ہوگیا،لیکن اس کے باوجود اس مسئلہ کو قرآن مجید اور متواتر روایات سے روشن کیا جاسکتا ہے۔
‘‘مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَ لَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّنَ۔۔۔۔۔۔’’۱
‘‘محمدتم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول اور خاتم الانبیا ہے’’
اس آیت نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت پر مہر نہائی لگادی ہے لیکن بعض دشمنان اسلام نے اس آیت کی خاتمیت پر دلالت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اعتراضات کیے ہیں۔
پہلا اعتراض
خاتم کا مطلب انگوٹھی(مہر)ہے اور آیت میں بھی ‘‘خاتم’’ اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔
دوسرا اعتراض
اگر اس آیت میں ‘‘خاتم ’’ سے مراد‘‘ختم نبوت’’ لے لی جائے توآیت صرف ختم نبوت پر دلیل ہوگی جبکہ ارسال رسل کا باب مفتوح ہے۔
جواب
۱۔ اگر خاتم سے مراد‘‘ما یختم بہ الشی’’ ہو تو زمان قدیم و جدید میں خطوط کو مہر لگا کر ختم کیا جاتا ہے۔
۲۔ مقام رسالت پر فائز ہونے والی شخصیت نبوت کے منصب پر بھی فائز ہوتی ہے اور انبیا کے سلسلہ کے ختم ہو جانے سے رسولوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا،لہٰذا اگر ‘‘نبی’’ کا مفہوم ‘‘رسول’’ کے مفہوم سے اعم نہ ہو تو مورد و مصداق کی جہت سے نبی، رسول سے اعم ہوا کرتا ہے۔
خاتمیت پر روایات سے دلائل
پیغمبر اسلام سے نقل ہونے والی سینکڑوں روایات خاتمیت پر دلالت کرتیں ہیں من جملہ روایات میں سے حدیث منزلت ہےجسے شیعہ سنی منابع نے تواتر کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے لہٰذااس مضمون کے صدور میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘جنگ تبوک’’ پر روانہ ہونے سے پہلے امیرالمؤمنین علیہ ابن ابیطالب علیہ السلام کو مدینے کے باقی ماندہ مسلمانوں کے امور کی رسیدگی کے لیے اپنا جانشین مکرر فرماتے ہیں حضرت علی علیہ السلام جہاد کے فیض سے محرومیت پر غمزدہ حالت میں محزون ہوتے ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ حضرت علی علیہ السلام کی اس غمزدہ کیفیت کو دیکھ کر فرماتے ہیں:
‘‘اَمٰا تَرضیٰ اَن تَکُونَ مِنّی بِمَنزِلَۃِ ھٰارُونَ مِن مُوسیٰ الاّ أنّہ لا نبیَّ بَعدی’’۲
کیا آپ اس پر راضی نہیں کہ آپ کی نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی؟اس جملہ کے فوراً بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قید کو بھی اضافہ فرمایا:‘‘اس تفاوت کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں’’ تاکہ کوئی سلسلۂ نبوت کے جاری و ساری رہنے کے وہم میں مبتلا نہ ہو جائے۔
دوسری روایت میں یہ مضمون نقل ہوا ہے:
‘‘ایّھا الناس،انّہ لا نبیَّ بَعدی و لا اُمّۃً بعدکم۔۔۔۔۔’’۳
تیسری روایت میں یہ مضمون نقل ہوا ہے:
‘‘ایّھا الناس، انّہ لا نبیَّ بَعدی و لا سنّۃَ بعد سنتی۔۔۔۔۔۔’’۴
اور اس کے علاوہ نہج البلاغہ کے خطبات نمبر ۱۔۲۳۔۶۹۔۸۳۔۸۷۔۱۲۹۔۱۶۸۔۱۹۳،حضرات معصومین علیہم السلام کی زیارات،دعائیں اور روایات میں بھی اسی مطلب پر تاکید ہوئی ہے۔
رازِ ختم نبوت
طولانی عمر پانے والا ایک ہی نبی مختلف حالات میں ایک ہی نوعیت کے احکام الہٰی کو بشریت کے فرد فرد تک نہیں پہنچاسکتا بلکہ خداوند متعال نے حالات کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میں بھی تبدیلی کی ہے۔
اگر ایک پیغمبر اور اس کےجانشین و اصحاب رسالت الہٰی کو پہنچانے میں نبی کی مدد کریں اورایک ہی شریعت ماضی ،حال، اور آیندہ کی ضروریات کو پورا کرتی ہو،تحریفات سے محفوظ رہنے کا بھی اطمینان ہو تو پھر ان شرائط کے ہوتے ہوئے جدید پیغمبر کی بعثت کی ضرورت نہیں پیش آتی،لیکن ایک عام معمولی انسان کی معلومات اِن شرائط کی تشخیص کی توانائی نہیں رکھتیں لہٰذا خداوند متعال اپنے نامتناھی علم کے ذریعہ ان شرائط کے تحقق کے زمان کو جانتا ہے اسی لیے وہی ختم نبوت کا اعلان کرسکتا ہے۔
ختم نبوت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خداوند متعال اور بندگان میں ہدایت کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے بلکہ حضرت حق متعال جب بھی صلاح جانے اپنے غیبی علوم کو ‘‘غیر نبی’’ شائستہ بندوں پر افاضہ کرے گا ۔
شیعہ عقیدہ کے مطابق خداوند متعال اس قسم کے علوم حضرات معصومین علیہم السلام کو عطا فرماتاہے۔
خلاصہ راز ‘‘ختم نبوت ’’
۱۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانشینوں و اصحاب کی مدد سے اپنی رسالت کو جہان کے گوش و گذار کردیا ہے۔
۲۔ آسمانی کتاب ‘‘قرآن مجید’’ ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
۳۔ شریعت اسلامی اس دنیا کے انجام تک بشری ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
توہم: ان سب کے باوجود ممکن ہے کوئی شخص اس آخری قسم میں شک کرے، یعنی اس توہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ جس طرح گذشتہ زمانے میں اجتماعی روابط کی پیچیدگی،جدید احکام کے وضع یا قدیمی احکامات کی اصلاح کا اقتضاع کرتی تھی اور جدید نبی مبعوث ہوا کرتے تھے پیغمبر اسلام کے بعد بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں ،اجتماعی تعلقات پہلے کی نسبت بہت پیچیدگی کا شکار کو گئے ہیں ان حالات میں جدید شریعت کی ضرورت ہے؟
جواب :
کس قسم کےتحولات جدید شریعت کا اقتضاء رکھتے ہیں یہ تعیین کرنا انسان عادی کی صلاحیت سے باہر ہےکیونکہ ہم احکام و قوانین کے تمام مصالح کا احاطہ نہیں رکھتےبلکہ اِن کی اہمیت کو شریعت مقدس کی جادانگی اور خاتمیت سے کشف کرتے ہیں البتہ بعض ایسی اجتماعی تبدیلیوں کا بھی انکار نہیں کرتے جن کے لیے جدید قوانین کا ہونا ضروری ہے۔
اس قسم کی جزئی تغییرات کے لیے شریعت اسلام میں کچھ کلی قواعد واصول کی پہلے سے ہی پیش بینی کی جاچکی ہے اور متخصص حضرات ان قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید عصر کے تقاضوں کے مطابق قوانین وضع کر سکتے ہیں ۔اِن قوانین کی تفصیل فقہ میں حکومت اسلامی (امام اور ولی فقیہ )کے اختیارات وغیرہ جیسے مسائل میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ سورہ احزاب آیت نمبر۴۰
۲۔ بحار الانوار ج۳۷ص۲۵۴اور ۲۸۹، صحیح بخاری ج۳ص۵۸، صحیح مسلم ج۲ص۳۲۳، سنن ابن ماجہ ج۱ص۲۸، مستدرک حاکم ج۳ ص۱۰۹، مسند احمد حنبل ج۱ص۳۳۱اور ج۲ ص۳۶۹و۴۳۷
۳۔ خصال ج۲ ص۴۸۷، خصال ج۱ ص۳۲۲، وسائل الشیعہ ج۱ص۱۵
۴۔ وسائل الشیعہ ج۱۸ص۵۵۵، من لا یحضرہ الفقیہ ج۴ ص۱۶۳، بحارالانوار ج۲۲ص۵۳۱،کشف الغمہ ج۱ص۲۱
source : http://www.shiaarticles.com