قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ :
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا (۱)
پیغمبر اسلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں امت کے درمیان فتنہ و نفاق کی موجوں کو بخوبی دیکھ رہے تھے ، آپ اسلامی معاشر ے کے مستقبل کے لئے نگراں تھے ۔ انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نفاق و فریب کے پردے کو چاک کرنے کی خاطر اپنے ہدایت گر پیغام کے ذریعہ متلاطم موجوں کے درمیان کشتی نجات کو پہنچوا کر ساحل نجات کو سب کے لئے آشکار کردیا ۔
آپ کا آخری پیغام حدیث ثقلین کے علاوہ کچھ اور نہ تھا جس میں آپ نے اپنے پیروکاروں کی ہدایت کو قرآن و عترت سے متمسک رہنے میں مرہون قرار دیا اور فقط انہی دونوں کو شریعت کا اساسی محور قرار دے کر بقاء دینداری کا تنہا عامل قرار دیدیا ۔
یہ تمام باتیں فقط اس لئے تھیں کہ قرآن مجید کے نورانی احکام و معارف روشن ہوجائیں ، بدعتوں اور دنیا پرستوں کی شیطانی افکار کا سد باب ہوجائے کیونکہ قرآنی معارف حقایق دینی کے صادق عارفوں سے حاصل کئے گے ہیں جو دینی معاشرے کو اس کتاب کے حیات بخش سر چشمے سے سیراب اور منافق و بدعت گذار افراد کو تاریخ کی رہگذر میں اپنے مقاصد شوم تک پہنچنے سے محروم کرتی ہے ۔
لیکن اندھرے کے پجاریوں نے اس موقع پر ضعیف الایمان افراد کی مدد سے ” حسبنا کتاب اللہ “ کا ایک بد ترین نعرہ بلند کردیا ۔ اس کے بعد اس شوم ہدف تک پہنچنے کے لئے نبی کی کتنی نورانی حدیثیں جلائی گئیں ۔ کتنے گرانبہا موتیوں نے صدف صدر میں دم توڑ دیا ۔ کتنے محدثین نے زمانے کے ظلم و جور سے زبان پر تالے لگا لئے اور دیار وحی سے نکال دئے گئے اور انھوں نے صحرائے غربت میں عترت کی محبت میں دم توڑ دیا ۔ میثم کی زبان ، رشید ہجری کے کٹے دست و پا ، ابوذر کی شہر ربزہ کی دربدری خود انتہائے ظلم کی گواہ ہے کہ اہلبیت اور ان کے پیرو کاروں پر کتنا ظلم ڈھا یا گیا ۔
لیکن آل محمد علیہم السلام کی اس غربت کے دور میں راہ حق کے منادی راویان شیعہ خاموش نہ بیٹھے بلکہ حالات کی ہواوٴں کا رخ موڑتے ہوئے فضائل و احادیث عترت کی ترویج کرتے رہے اور ایک دن وہ بھی آیا کہ وہ سیاہ راتیں تمام ہوگئیں ۔ حدیث پر لگے خود ساختہ قوانین ختم ہوگئے قرآن و عترت نے اپنی حقیقی جگہ پالی ، سچے حاملان وحی کے لئے ایک موقع فراہم ہوا اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں علوم اہلبیت کا فیاض سر چشمہ ابلنے لگا ، تشنگان معارف الٰہی کوثر قرآن و عترت کے شربت روح افزا سے سیراب ہونے لگے ۔
اسی زمانے سے مکتب امامت کے تربیت یافتہ جیالوں نے خاندان رسالت کی حدیثوں کے ثبت و نشر پر کمر ہمت باندھ لی اور ائمہ معصومین کے قیمتی آثار کی ترویج کے ذریعہ معاشرے کے اعتقادی اصولوں اور دینی ارزشوں کی پائگاہ کو استحکام بخش دیا ۔ تاریخی رہگذر کے مختلف زمانے میں امت اسلام کی دینی شخصیت کو محفوظ رکھتے ہوئے شریعت نبوی اور مکتب علوی کی پاسداری کی ۔
انہی ولایت و امامت کے گرانقدر خزانے کے امانتدار سپاہیوں میں سے ایک عظیم محافظ محدثہ آل طہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے ولایت کے بارے میں بہت ساری روایتیں نقل فرمائی ہیں ۔ جن میں سے بعض کا ذکر مقصود ہے ۔
(۱) حدیث غدیر و منزلت
عن فاطمۃ بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی فاطمہ و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر علیہ السلام قلن حدثتنا فاطمۃ بنت جعفر بن محمد الصادق ، حدثتنی فاطمۃ بنت محمد بن علی ، حدثتنی فاطمۃ بنت علی بن الحسین ، حدثتنی فاطمۃ و سکینۃ ابنتا الحسین بن علی عن ام کلثوم بنت فاطمۃ بنت النبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ قالت : انسیتم قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یوم غدیر خم : من کنت مولاہ فعلی مولاہ و قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ ۔ (۲)
ترجمہ : امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی دختر فاطمہ ،امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں فاطمہ (معصومہ سلام اللہ علیہا ) زینب اور ام کلثوم سے نقل فرماتی ہیں کہ ان لو گوں نے فرمایا کہ ہم سے فاطمہ بنت جعفر صادق علیہ السلام نے ان سے فاطمہ بنت محمد بن علی نے ان سے فاطمہ بنت علی بن الحسین نے ان سے امام حسین بن علی علیہم السلام کی دو بیٹیوں فاطمہ اور سکینہ نے انھوں نے ام کلثوم دختر فاطمہ بنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرمایا ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے (لوگوں سے پوچھا ) کہا : کیا تم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غدیر خم کے دن کی فرمائش ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ “ (جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں ) اور ان کے قول انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ (اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسیٰ سے تھی ) کو فراموش کردیا ؟
(۲) حدیث حب آل محمد علیہم السلام
حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام فاطمہ بنت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام باقر علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام حسین علیہ السلام سے وہ زینب بنت امیر الموٴمنین علیہ السلام وہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہاسے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فر مایا : الا و من مات علی حب آل محمد مات شہیدا ( آگاہ ہو جاوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے گا وہ شہید مرا ہے ۔ ) (۳)
(۳) حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت
فاطمہ معصومہ علیہا السلام (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا : جب شب معراج میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتی سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی القوم ( خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں ۔ ) اور اس کے پردہ پر لکھا تھا بخ بخ من مثل شیعۃ علی خوشابحال خاشابحال علی علیہ السلام کے شیعوں جیسا کون ہے ؟ میں اس قصر میں داخل ہو وہاں ایک قصر دیکھا جو عقیق سرخ سے بنا تھا اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبر جد سے مزین تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا محمد رسول اللہ علی وصی المصطفیٰ محمد خدا کے رسول اور علی مصطفیٰ کے وصی ہیں اس کے پردہ پر مرقوم تھا بشر بشیعۃ علی بطیب المولد علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دیدو میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھا یا تو دیکھا کہ پردہ پر لکھا ہے شیعۃ علی ہم الفائزون یعنی علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں ، میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی ، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوٴں وارد ہونگے ۔ (۴)
(۴) قم دیار ابرار
جب حضرت معصومہ ساوہ میں مریض ہوئیں تو قافلے والوں سے کہا کہ مجھے قم لے چلو میں نے اپنے با با سے سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ (۵)
۱۔ بحار الانوار ج / ۲۳ ص / ۱۴۱۔
۲۔الغدیر ج / ۱ ، ص ۱۹۶ ۔
۳ ۔آثار الحجۃ محمد رازی ص / ۹ ، نقل از اللو للوہ الثمینہ ص / ۲۱۷۔
۴ ۔ بحار ج / ۶۸ ، ص / ۷۶ ۔
۵ ۔ ودیعہ آل محمد آقای انصاری ص ۱۲ نقل از دریای سخن سقا زادہ تبریزی ۔
source : http://www.alqlm.org