اردو
Tuesday 20th of August 2024
0
نفر 0

رسول اکرمۖ کی سیرت میں عطوفت و محبت

''مہربانی'' اخلاقیات کا سب سے خوبصورت عنصر ہے جو انسانوں کے حق و انصاف کی طرف رجحان میں انتہائی اہم رول ادا کرتا ہے اور بہت سے مقامات پر رابطوں کو گہرا اور کینہ و عداوت کی آگ کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔

حضرت علی  ارشاد فرماتے ہیں: ''قلوب الرجال وحشیة فمن تألّفھا اقبلت علیہ۔'' (نہج البلاغہ، حکمت٥٠)

''انسانوں کے دل آپس میں بیگانہ اور غیر مانوس ہوتے ہیں جو بھی محبت دکھاتا ہے اس کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔''

یہی وجہ ہے کہ سعدی شیرازی کہتے ہیں:

بندہ ی حلقہ بہ گوش ار ننوازی برود   لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بہ گوش (گلستان سعدی٢٤)

اسی مفہوم کو اردو میں یوں کہوں:

گر محبت نہ ہو اپنا بھی پرایا ہوجائے     گر محبت ہو پرایا بھی تمہارا ہوجائے

پیغمبر رحمت حضرت محمد مصطفی  ۖ بشریت کے لئے حقیقی اسوۂ کامل ہونے کے ناطے تمام لوگوں کی بہ نسبت بہت زیادہ مہربانی و محبت والے تھے۔ آپۖ نے اس قابل تعریف خصلت کی بنیاد پر ٢٣سال کے دوران نہ جانے کتنوں کو اپنے دین کا گرویدہ بنا دیا اور انہیں ضلالت و گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نجات دے کر ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کا ارشاد ہے: ]و ما ارسلناک الا رحمة للعالمین[ (سورۂ انبیائ١٠٧)

''اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔''

خود سرکارِ رسالتۖ نے فرمایا:

''اگر مہربانی و رأفت مجسم ہوجائے تو اس قدر حَسین و جمیل ہوگی کہ خداوند کریم نے اس سے زیادہ خوبصورت شئے خلق ہی نہ کی ہوگی۔'' (اصول کافی، شیخ کلینی، ج٢، ص١٢٠)

حضور اکرمۖ کی رحمت و رأفت نہ صرف یہ کہ اپنے اہل بیت، احباب اور صاحبانِ ایمان کے شامل حال ہوتی تھی بلکہ آپ کے محبت بھرے اخلاق اور شفقت آمیز کردار سے آپ کے مخالفین بھی بہرہ مند ہوتے تھے۔ اسی بنیاد پر خداوند کریم نے اپنے حبیب کو قرآن مجید میں یوں سراہا ہے:

و انک لعلیٰ خلق عظیم(سورۂ قلم٤)

''اور آپ اخلاق کے بلند ترین درجہ پر ہیں۔''

آئیے ''خلق عظیم'' کی سند سے سرفراز اسی پیغمبر رحمتۖ کی حیات بابرکت میں پائے جانے والے محبت و مہربانی کے چند دل نشیںنمونوں پر ایک نظر ڈالی جائے۔

مہربانی کامیابی کی دلیل

تدبیر حکومت میں حضور اکرمۖ کی کامیابی کا راز ''لوگوں سے محبت'' تھا۔ اگر یہ مفید و کارآمد شیوہ آپ کے یہاں نہ پایا جاتا تو آپ کے لئے مشکلات کا مقابلہ اور رکاوٹوں کا ازالہ ہرگز میسر نہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا:

فبما رحمة من اللہ لنت لہم و لو کنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک...(سورۂ آل عمران١٥٩)

''پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے...''

یہ آپ کے وجود پرنور میں پایا جانے والا عنصر محبت و رأفت ہی تھا جو سخت ترین دشمنوں کو بہترین ودستوں میں تبدیل کردیتا تھا۔ امام حسین اپنے والد ماجد حضرت علی  سے روایت کرتے ہیں: پیغمبر اکرمۖ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ مہربانی و خندہ پیشانی کے ساتھ ملا کرتے تھے اور آپۖ ذرہ برابر بھی بے رحم، تند خو اور چاپلوس نہ تھے، کوئی بھی آپ کی ذات سے مایوس نہیں ہوتا تھا، جو آپ کے در پہ آتا ناامید واپس نہ جاتا۔ جب بھی کوئی نادان غریب الدیار آپ سے سخت لہجہ میں گفتگو کرتا اور اسے کوئی حاجت ہوتی تو آپ برداشت کرلیتے تھے اور اپنے اصحاب سے فرماتے تھے: ''جب حاجت مند کو دیکھو تو اس کی حاجت روائی کرو۔'' آپ اس وقت تک کسی کے کلام کو منقطع نہیں کرتے تھے جب تک اس کی بات پوری نہ ہوجائے۔ (معانی الاخبار، شیخ صدوق، ص٨٣)

ایسا تھا آپۖ کا اخلاق جس کی بنیاد پر آپ نے دلوں کی زمین پر اپنی محبت کے بیج بوئے اور محبت کی رہگذر سے دلوں کو خالق محبت تک پہنچایا۔

گھریلو زندگی میں محبت و عطوفت

حضور اکرمۖ گھر کے اندر اپنی ازواج کے ساتھ سخت سلوک نہیں کرتے تھے اور یہ بات مکہ والوں کے خلق و خو کے برخلاف تھی۔ آپۖ بعض ازواج کی بد زبانیوں اور کج دہنیوں کو بھی تحمل کرلیتے تھے جبکہ لوگ آپ کے صبر و تحمل کو دیکھ کر تعجب کیا کرتے تھے۔

آپۖ ہمیشہ ازواج کے ساتھ نیک سلوک اور حسن معاشرت کی نصیحت کرتے تھے اور فرماتے تھے: تمام لوگوں میں اچھی اور بری دونوں عادتیں ہوتی ہیں، اب شوہر کو چاہئے کہ اپنی زوجہ کے صرف منفی پہلو کو ہی نظر میں نہ رکھے اور اس کی بنیاد پر اسے نہ چھوڑے۔

حضرت محمد مصطفی اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور آپ کے ساتھ انتہائی عطوفت و مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کی سیرت طیبہ میں انداز تربیت ہی یہی تھا کہ تاحیات اپنی بیٹی سے آپ کی رفتار و گفتار، عطوفت و مہربانی پر مبنی تھی۔

حضور اکرمۖ کی ایک زوجہ کہتی ہیں: فاطمہ رفتار و گفتار اور ظاہری شکل و شمائل میں رسول اکرمۖ سے سب سے زیادہ مشابہ تھیں۔ باپ بیٹی کے درمیان رابطہ اتنا مستحکم تھا کہ جب بھی فاطمہ پیغمبر اکرمۖ کے پاس آتی تھیں آپۖ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے تھے اور اپنی بیٹی کے ہاتھ اور سر کا بوسہ لیا کرتے تھے، انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے اور جب بھی پیغمبر رحمتۖ فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے، فاطمہ  اپنی جگہ سے کھڑی ہوجاتی تھیں، اپنے بابا کوچومتی تھیں اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتی تھیں۔

باپ بیٹی کے درمیان یہ عمیق عطوفت و معنویت بھر ارابطہ یونہی جاری رہا یہاں تک کہ حضور اکرمۖ کی رحلت کا زمانہ قریب آگیا، آپ کی حیات کے آخری ایام میں ایک بار حضرت فاطمہ آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اپنے آپ کو بابا کے سینہ پر گرا دیا اور آپ کے چہرے کا بوسہ لیا۔ پیغمبرۖ نے آہستہ آہستہ اپنی بیٹی سے گفتگو کی، جب آپ نے سر اٹھایا تو بہت روئیں، پھر جب حضورۖ نے اشارہ کیا تو دوبارہ آپ کے قریب ہوئیں ،حضورۖ  نے آہستہ سے کچھ کہا، مگر اب جو جدا ہوئیں تو لبوں پر تبسم تھا، چہرہ کھلا ہوا تھا۔ ان دو متضاد رد عمل پر حضار کو تعجب ہوا، رحلت پیغمبر کے بعد جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ پہلی بار رسول خداۖ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس بیماری سے میں شفایاب نہیں ہوپائوں گا اور میں اس دنیا سے جانے والا ہوں، یہ سن کر مجھے آپ کی جدائی کا خیال آیا تو غمزدہ ہوئی اور آنسو نکل پڑے لیکن دوسری مرتبہ آپۖ نے مجھ سے فرمایا: بیٹی! آپ بہت جلد سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوں گی؛ یہ سن کر میں خوش ہوگئی۔ (مناقب ابن شہر آشوب، ٣٣٣٣)

سخت بھی نرم بھی

اپنی ذات سے مربوط انفرادی مسائل میں آپۖ کافی نرم خو تھے۔ آپ کی زندگی میں پائے جانے والے عظیم تاریخی عفو و گذشت کے نمونے آپ کی الٰہی رسالت کی کامیابی کی ایک وجہ تھے۔ مگر جہاں اصولی و عمومی مسائل یا قانون کی بات ہوتی تو آپ ان اصول و قوانین کے نفاذ کے سخت پابند ہوتے تھے۔

فتح مکہ کے دوران جن لوگوں نے آپ کے ساتھ برا سے برا سلوک روا رکھا تھا، ظلم و ستم ڈھائے تھے، توہین کی تھی، وہ بڑے خوفزدہ تھے کہ اب کیا ہوگا؟ ان کا گمان یہ تھا کہ اب پیغمبرۖ انتقام لیں گے، مگر آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو یوسف نے اپنے ستمگر بھائیوں کے ساتھ روا رکھا اور میں بھی انہیں کی طرح کہتا ہوں ]...لا تثریب علیکم الیوم...[ (سورۂ یوسف٩٢)

''...آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے...''

جب آپۖ نے اس جملہ کے ذریعہ ڈرے اور گھبرائے ہوئے لوگوں کے خوف و اضطراب کو دور کردیا تو پھر فرمایا کہ آج جنگ اور انتقام کا دن نہیں بلکہ رحمت و محبت کا دن ہے۔ میں تمہارے تمام ظلم و ستم اور گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر آپۖ نے یہ مشہور جملہ فرمایا: ''اذھبوا فانتم الطلقائ۔'' (بحار الانوار، علامہ مجلسی، ١٣٢٢) ''جائو تم سب کو میں نے آزاد کیا۔''

سب کو ایسا لگا جیسے دوبارہ زندگی مل گئی ہو لہٰذا سب نے چین کی سانس لی اور کچھ افراد کے سواسبھی کے وجود کی گہرائیوں میں محبت ِ رسولۖ بس گئی اور سب مسلمان ہوگئے۔

فتح مکہ کے ہنگام میں ہی بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور اس کا جرم ثابت ہوگیا، اس عورت کے اہل خاندان کے ذہنوں میں ابھی دورِ جاہلیت کے طبقاتی نظام کا تصور باقی تھا، وہ اس عورت پر حدسرقہ جاری کرنے کو اپنے سرشناس خاندان کی توہین کا سبب سمجھ رہے تھے لہٰذا انہوں نے حد جاری نہ ہونے کے لئے کوششیں شروع کردیں اور اسامہ بن زید کے پاس گئے اور ان سے بارگاہِ رسولۖ میں سفارش کرنے کو کہا، اسامہ بن زید پیغمبر رحمتۖ کے نزدیک اپنے والد کی طرح ہی محبوب تھے مگر جب اسامہ نے اس سلسلہ میں کچھ کہا، حضورۖ ناراض ہوگئے اور فرمایا: یہ کوئی سفارش کا مقام ہے؟ کیا سفارشوں کے ذریعہ کسی جرم کی سزاکو ٹالا جاسکتا ہے؟ پھر آپۖ نے اس عورت کو سزا دینے کا حکم فرمایا۔ اسامہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لہٰذا فوراً معذرت خواہی کی۔

لوگوں کے ذہنوں سے نفاذ قانون میں کسی بھی امتیاز کا تصور ختم کرنے کی غرض سے اسی روز عصر کے وقت ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور الٰہی قانون کے نفاذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

''گزشتہ قومیں نابود ہوگئیں اس لئے کہ وہ نفاذ قانون میں جانبداری کیا کرتی تھیں، جب بھی کسی بڑے طبقہ سے تعلق رکھنے والا شخص کوئی جرم  کرتا تھا، اسے سزا نہیں دی جاتی تھی اور جب وہی جرم کسی پسمانہ طبقہ کا کوئی شخص انجام دیتا تھا تو اسے سزا ضرور دی جاتی تھی۔ قسم اس خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! نفاذ قانون میں کسی کو کوئی چھوٹ نہیں دوں گا چاہے وہ میرے نزدیکیوں میں ہی کیوں نہ ہو۔'' (صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل، ٢٦٩٥)

اعجاز مہربانی

مالک بن عوف نصری، پیغمبر اکرمۖ کا بہت بڑا دشمن تھا۔ سنہ ٨ہجری میں ''قبیلۂ ثقیف'' اور ''قبیلہ ہوازن'' کے کہنے پر اس نے جنگ حنین چھیڑی اور رسول اکرمۖ کی نوتعمیر حکومت کو ایک دوسری جنگ میں مبتلا کردیا مگر بہ فضل خدا اس جنگ میں لشکر اسلام ظفریاب ہوا۔

اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت مال غنیمت ملا، دشمنوں میں سے چھ ہزار لوگ اسیر بھی ہوئے مگر اس جنگ کو بھڑکانے والا شخص مالک بن عوف اپنی جان بچاکر بھاگ نکلا اور اس نے طائف میں پناہ لے لی لیکن جب اس نے حضور اکرمۖ اور ان کے الٰہی افکار کے بارے میں غور کیا تو رسولۖ کی محبت و مہربانی کی وجہ سے آپۖ کا گرویدہ ہوگیا لہٰذا امان چاہی، مدینہ میں حاضر ہوا اور رسول ۖکے حضور میں مشرف بہ اسلام ہوا۔ آپۖ نے بھی اس کے اسیر شدہ گھر والوں کو آزاد کردیا۔

مالک بن عوف نے رسولۖ کی مہربانیوں سے متأثر ہوکر طائف میں اپنے نفوذ کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ میں اپنی پوری توانائی صرف کردی۔ حضور اکرمۖ کی عظمت کے سلسلہ میں مالک نے ایسی باتیں کہی ہیں کہ جیسی کم ہی لوگ کرپاتے ہیں۔ (ماہانہ مبلغان، شمارہ٣٣٦٥)

انہوں نے رسول اکرمۖ سے اپنے عشق کا اظہار یوں کیا ہے: میں نے پوری دنیا میں محمدۖ جیسا نہ دیکھا نہ سنا۔ (اسد الغابہ، ابن اثیر، ٢٩٠٤)

بلال  کو ڈانٹا 

سنہ ٧ہجری میں جنگ خیبر پیش آئی، لشکر اسلام ظفرمند رہا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ذریعہ اسیر ہونے والوں میں معروف یہودی دانشور ''حی بن اخطب'' کی بیٹی صفیہ بھی موجود تھیں۔ صفیہ اور ایک دوسری خاتون کو لیکر بلال مدینہ آئے، بلال ان عورتوں کو ان کے عزیزوں کے جنازوں سے گزارتے ہوئے لائے، یہ منظر دیکھ کر وہ عورتیں بہت غمزدہ ہوئیں، نالہ و شیون کیا اور اپنے چہروں پر مارنا شروع کیا جس سے چہروں پر خراش آگئی، جب مدینہ میں حضور اکرمۖ کے سامنے حاضر ہوئیں تو آنحضرتۖ نے صفیہ سے چہرے پر خراش کی وجہ دریافت کی، جب صفیہ نے آپۖ کو ماجرا بتایا تو آپ نے غورکیا کہ بلال نے اسلامی اخلاق و محبت کا لحاظ نہیں رکھا ہے لہٰذا بلال کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ''انزعت منک الرحمة یا بلال حیث تمر بأمرأتین علیٰ قتلیٰ رجالھما؟'' (سیرہ ابن ہشام، ٣٥٠٣) ''اے بلال! کیا تمہارا رحم ختم ہوگیا ہے کہ ان دو خواتین کو ان کے عزیزوں کے جنازوں سے گزار کر لائے ہو؟''

رسول اکرمۖ کے اخلاق کے اس طرح کے نمونے اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام دین محبت ہے حتی جنگ زدہ علاقہ میں بھی اپنے کافر دشمنوں کے پسماندگان کو ان کے عزیزوں کے جنازوں سے نہیں گزارنا چاہئے۔

لوگوں کا اعتماد حاصل کرو

اصلاح و تربیت کا ایک اہم شیوہ اپنے مخاطبین کے اعتماد کا حصول ہے۔ عام طور سے انسان اس وقت اپنے بالمقابل شخص پر اعتماد کرتا ہے جب اسے اس کی گفتار و رفتار کی سچائی کا یقین حاصل ہوجائے۔

حضور اکرمۖ کی عملی سیرت میں شیوۂ حصول اعتماد کو بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور کیوں نہ ہو اس لئے کہ آپ مظہر صفات الٰہیہ ہیں اور آپ کے ذریعہ ہونے والی ہدایت و تربیت کی بنیاد ہی انسان دوستی پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ آپۖ کے برتائو میں مہربانی و محبت کو اصل حیثیت حاصل تھی اور آپ صرف بعض ضروری مقامات پر ہی سخت رویہ اختیار کرتے تھے۔

جب ایک بادیہ نشین عرب کی گستاخی کے مقابلہ میں رسول اکرمۖ کے اصحاب نے سخت اور شدید ردعمل دکھایا تو آپۖ نے انہیں روکا اور زیادہ رقم عطا کرکے اسے خود سے راضی کرلیا، پھر اپنے اصحاب سے فرمایا: میری اور صحرا نشیں عرب کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا اونٹ بھاگ گیا اور کچھ لوگ اس کی مدد کی خاطر اس اونٹ کو پکڑنے کے لئے دوڑ پڑے مگر ان کا یہ کام سبب بنا کہ اونٹ اور زیادہ بھاگے لہٰذا اونٹ والے نے آواز دی: ارے! اسے چھوڑ دو! میں خود اسے سنبھال لوں گا۔ پھر وہ کچھ گھاس لیکر اونٹ کے سامنے آیا اور اسے مہار کرلیا۔ پھر آپۖ نے فرمایا: اگر میں تمہیں نہ روکتا تو تم تو اسے مار ہی ڈالتے۔'' (سیرۂ تربیتی پیامبر و اہل بیت، سید علی حسینی زادہ، ٨٥١۔٨٦)

گرم جوشی سے استقبال

گرم جوشی اور محبت بھرا اندازِ ملاقات دلوں کو نزدیک اور محبتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ کافی دیکھنے میں آیا ہے کہ بس ایک بار والہانہ انداز میں احوال پرسی اور مخلصانہ اظہار وابستگی سے دوسروں کے ساتھ گہرا رابطہ ہوجاتا ہے اور معاشرے اور دین کے بارے میں ان کی منفی سوچ بدل جاتی ہے۔

یہ مسئلہ حضورۖ کی سیرت میں بکثرت قابل مشاہدہ ہے۔ حضرت امیر المومنین  ارشاد فرماتے ہیں: جب رسول اکرمۖ کسی سے مصافحہ کرتے تھے تو اس وقت تک ہاتھ میں ہاتھ لئے رہتے تھے جب تک خود وہ شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے اور اگر کوئی آپ کے سامنے اپنی حاجت بیان کرتا تھا تو کبھی اس کے کلام کومنقطع نہیں کرتے تھے، اس سے جدا نہیںہوتے تھے مگر یہ کہ اس کی بات پوری ہوجائے اور وہ خود نہ چلا جائے۔ (بحار الانوار، ٢٣٦١٦)

انس بن مالک کہتا ہے: میں دس سال تک رسول خداۖ کے ساتھ رہا، آپ کے وجود سے ایسے عطر کی خوشبو آتی تھی جس سے بہتر کوئی خوشبو نہیں۔ جب بھی کوئی آپۖ سے ملاقات کرتا تھا، خدا حافظی کے وقت اس کے ساتھ آپۖ بھی کھڑے ہوجاتے تھے اور جب کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھتا تھا تو کھڑے ہوتے وقت آپۖ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے تھے۔ جب مصافحہ کرتے تھے تو اس وقت تک اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک وہ خود نہ کھینچ لے۔

مزاج پرسی

پیغمبر اکرمۖ کی مہربانیاں معاشرے کی ہر فرد کے شامل حال ہوتی تھیں اور ان میں بھی اصحاب کو آپ کے نزدیک خاص مقام حاصل تھا۔ اصحاب کے ساتھ آپ کا بہترین سلوک، ایک محبت آمیز رابطے اور فکری اتحاد کا باعث بنتا تھا اور سب اپنے آپ کو اس مرکز محبت و ایثار و کرم سے وابستہ جانتے تھے اور ہرگز خود کو نبی سے جدا نہیں سمجھتے تھے۔

انس بن مالک سے منقول ہے: اگر نبی اکرمۖ کو کسی صحابی کو دیکھے ہوئے تین دن سے زیادہ گزر جاتے تو اس کے بارے میں دریافت کیا کرتے تھے، اگر وہ شہر میں نہیںہوتا تو اس کے لئے دعا فرماتے اور اگر موجود ہوتا تو اس سے ملاقات کو خود تشریف لے جاتے اور اگر مریض ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے تھے۔ (وہی حوالہ ص٢٣٢)

بچوں سے خاص لگائو

عصر جاہلیت کے عرب معاشرے میں بچوں سے محبت بھرے سلوک کو نقص و عیب سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا تھا۔ بچوں اور بالخصوص بچیوں کے ساتھ بت پرست عربوں کا برتائو کافی وحشیانہ تھا۔

مگر رسول رحمتۖ کی سیرتِ طیبہ نے اس ظالمانہ ذہنیت پر خط بطلان کھینچ دیا اور اپنے بچوں کی بہ نسبت والدین کو مہربانی و شفقت کا درس دیا۔

جب آپۖ کسی بچہ کو دیکھتے تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے، اسے سلام کرتے اور فرماتے: میرے بعد اس حسن سلوک کو معاشرہ میں ایک سنت کی نظر سے دیکھا جائے۔ (وہی حوالہ، ص٢١٥)

جو بچے آپۖ کے آس پڑوس میں رہا کرتے تھے وہ جب بھی آپۖ کو گلی کوچہ میں دیکھتے تھے تو ہمیشہ آپۖ کے محبت بھرے سلوک کا مشاہدہ کرتے تھے۔ حضور اکرمۖ ان کے ذہنوں میں ایک محبوب اور مہربان استاد کے عنوان سے بسے ہوئے تھے۔ (ماہنامہ معرفت، شمارہ٥٧، ص٦٧۔٦٨)

ایک دن جب حضرت ختمی مرتبتۖ نماز ظہر ادا کررہے تھے تو آپۖ نے معمول کے برخلاف آخری دو رکعتوں کو جلدی جلدی اداکیا۔ نماز ختم ہونے کے بعد آپ سے سوال ہوا: یا رسول اللہ! کیا کوئی برا حادثہ پیش آیا ہے جو آپۖ نے آخری دو رکعتوں کو جلدی جلدی تمام کیا؟

حضور نے فرمایا: ''أما سمعتم صراخ الصبی۔'' (مناقب ابن شہر آشوب، ٣٨٤٣) ''کیا تم نے کسی بچہ کے رونے کی آواز نہیں سنی؟''

معلوم ہوا کہ مسجد کے نزدیک ایک بچہ رو رہا تھا اور کوئی نہ تھا جو اسے بہلاکے چپ کرائے۔ اپنی شفقت کے سبب حضورۖ نے اپنی نماز کو جلدی ادا کیا تاکہ اس بچہ کے ساتھ مہربانی سے پیش آسکیں۔

اور حسن ختام یہ کہ ایک دن حضور اکرمۖ مسجد میں مشغول نماز تھے، امام حسین  اس وقت کافی چھوٹے تھے، آپۖ دوڑتے ہوئے محراب کی طرف آئے اور جب سرور کائنات حالت ِ سجدہ میں تھے، آپ ان کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب حضورۖ نے سجدۂ اول سے سر اٹھایا تو اپنے ہاتھوں سے امام کو اپنی پشت سے اتارکر اپنے نزدیک بٹھا دیا، جب دوبارہ سجدہ میں گئے تو امام حسین پھر آپ کی پشت پر سوار ہوگئے۔ یہ منظر کئی بار پیش آیا یہاں تک کہ سرکار نماز سے فارغ ہوئے۔ دور سے ایک یہودی یہ منظر دیکھ رہا تھا، نزدیک آیا اور کہنے لگا: آپۖ اپنے بچوں کے ساتھ کتنی محبت سے پیش آتے ہیں، ہمارے درمیان تو ایسا سلوک نہیں کیا جاتا! حضورۖ نے فرمایا: اگر تم بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئو تو اپنے بچوں کے ساتھ اسی طرح شفقت و محبت کے ساتھ پیش آئوگے۔

اس پورے واقعہ اور حضورۖ کے فرمان کی برکت سے وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔ (وہی حوالہ، ص٧١۔٧٢)

 


source : http://www.alhaider.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خصائص علوم اہلبیت (ع)
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5

 
user comment