لوگوں کا خيال ہے کہ دين ميں عقل کا کوئي دخل نہيں ہے، ہم عقل کے ذريعہ دين کو نہيں سمجھ سکتے ، يا دين کا عقلاني دفاع نہيں ہوسکتا ، دين کچھ کہتا ہے تو عقل کچھ کہتي ہے، دين کو سمجھنا ہے تو قرآن اور حديث سے سمجھا جا سکتا ہے عقل سے نہيں!
نصوص اور عقل ميں مطابقت ضروري نہيں ہے. اگر عقل سے دين سمجھ ليا جاتا تو انبياء و مرسلين، قرآن و احاديث کي کيا ضرورت تھي ؟ لہذا دين کے ہوتے ہوئے کم سے کم ديني مسائل ميں عقل کا کوئي دخل نہيں ہے عقل کي نارسا کمند ڈال کر دين کے اعليٰ و ارفع معارف تک رسائي حاصل نہيں کي جاسکتي. عقل اور دين (ميں کيا نسبت؟ کيا تقابل؟! کہاں عقل ، کہاں دين
لوگوں کا خيال ہے کہ دين ميں عقل کا کوئي دخل نہيں ہے، ہم عقل کے ذريعہ دين کو نہيں سمجھ سکتے ، يا دين کا عقلاني دفاع نہيں ہوسکتا ، دين کچھ کہتا ہے تو عقل کچھ کہتي ہے، دين کو سمجھنا ہے تو قرآن اور حديث سے سمجھا جا سکتا ہے عقل سے نہيں!
نصوص (1)اور عقل ميں مطابقت ضروري نہيں ہے. اگر عقل سے دين سمجھ ليا جاتا تو انبياء و مرسلين، قرآن و احاديث کي کيا ضرورت تھي ؟ لہذا دين کے ہوتے ہوئے کم سے کم ديني مسائل ميں عقل کا کوئي دخل نہيں ہے عقل کي نارسا کمند ڈال کر دين کے اعليٰ و ارفع معارف تک رسائي حاصل نہيں کي جاسکتي. عقل اور دين (ميں کيا نسبت؟ کيا تقابل؟! کہاں عقل ، کہاں دين(٢ !!
چہ نسبت خاک را با عالم لولاک اے ناداں
کجا موسيٰ، کجا نيوٹن، کجا بطحيٰ ،کجا ٹيکسس
ليکن کيا واقعي ايسا ہي ہے؟ کيا واقعي دين اور عقل ميں کوئي رابطہ نہيں پايا جاتا؟ کيا واقعي دين عقل کے ،اور عقل دين کے خلاف ہے؟ مختلف مذاہب کے علمائ اس سلسلے ميں کيا کہتے ہيں؟ قرآن کريم کا کيا فرمان ہے؟.....؟
سلفيہ اور اہل حديث (٣)اس طرح ظواہر نصوص(٤ ) کے پابند اور ہر قسم کے تعقل کے خلاف ہيں کہ تجسيم و تشبيہ(٥) کو بھي تسليم کر بيٹھے ہيں... البتہ بعض حنابلہ تجسيم سے بچنے کے لئے توقف ٦ کا سہارا ليتے ہيں ... ليکن بہر حال عقلي کاوشوں کو معتبر نہيں مانتے.
ان کے مقابلے ميں اماميہ (٧ )اور معتزلہ (٨ ) ہيں جو عقل کو معتبر جانتے ہيں ان کے نزديک ظواہر نصوص اور عقل ميں مطابقت ضروري ہے... دين کا کوئي دستور عقل کے خلاف نہيں ہوسکتا ۔
حقيقت يہ ہے کہ’’ عقل کا معتبر ہونا ‘‘ ايک ايسا مسئلہ ہے جو انسان کي فطرت ميں شامل ہے، چاہے وہ عقل کي مخالفت ہي کيوں نہ کرے! کوئي انسان يہ ماننے کے لئے تيار نہيں کہ اس کے نظريات عقل کے سراسربرخلاف ہيں!ستم ظريفي تو يہ ہے کہ وہ لوگ عقل کي مخالفت، عقل کے ہي ذريعہ کرتے ہيں اور خود نہيں سمجھ پاتے کہ عقل کي مخالفت کرتے ہوئے بھي ’ اعتبار عقل ‘ ہي کو ثابت کرتے ہيں ۔!!
مالکم کيف تحکمون!
د يکھا گيا ہے وہي لوگ جو عقل کي مخالفت کرتے ہيں اپنے نظريات کو ثابت کرنے کے لئے عقلي دلائل سے خوب استفادہ کرتے ہيں ،اوراگر کہيں عقل کي مخالفت کرتے ہيں تو اس لئے کہ ايک طرف سے وہ ايک عقيدہ کو مان چکے ہوتے ہيں ، دوسري طرف سے اس کو عقلي طور پر ثابت نہيں کرپاتے تو ديني اور عقيدتي لگاؤ يا تعصب کي بنا پر عقل کي مخالفت کرنے لگتے ہيں، ورنہ جہاں عقلي دلائل سے دفاع کرسکتے ہوںخوب کرتے ہيں.... يا دوسرے اديان و مذاہب کے عقايد ميں سے عقلي تناقضات ٩ کو پيش کرکے اسے باطل قرار ديتے ہيں... ظاہر سي بات ہے عقلي تناقضات کي بنا پر کسي عقيدہ کا باطل ہونا، اسي وقت ممکن ہے جب ’عقل‘ معتبر ہو!!
اگر مان ليا جائے کہ عقلي تناقضات کي وجہ سے کوئي عقيدہ باطل قرار پا سکتا ہے، تو اگر کوئي پ کے عقيدوں ميں عقلي تناقضات کي نشاندہي کرے تو ظاہر سي بات ہے کہ پ کے بھي عقائد باطل ہونے چاہئے. يہ تو نہيں ہوسکتا کہ دوسروں کو باطل قرار دينے کے لئے ايک ’معيار ‘ معتبر ہو، اور اپنے لئے وہي معيار غير معبتر !! اپنے پ کو بچانے کے لئے عقل کي مخالفت عاجزي کي دليل ہے .
اعتبارعقل قرآن کي نگاہ ميں ئے قرآن کريم کي رو سے ديکھتے ہيں کہ آيا عقل معتبر ہے يا نہيں؟ واضح رہے ہماري مراد ’’ دين‘‘ کے سلسلے ميں ہے ورنہ غير ديني معاملے ميں شايد ہي کوئي ايسا ہو جو عقل کو معتبر نہ جانتا ہو.قرآن کريم ميں جگہ جگہ صاف طور سے عقل کو حجت قرار دياگيا ہے،اور تمام انسانيت کو عقلي کاوشوں پر ترغيب دلاتے ہوئے دعوت فکر دي گئي ہے .’’ انّ في ذالک ليات لقوم يتفکّرون ‘‘(١٠) ... . ’’...لقوم يعقلون‘‘ (١١..لاولي الالباب‘‘ (١٢ ’’لاولي النّھيٰ‘‘١٣ ’’انّما يتذکر اولو الالباب‘‘١٤ ’’...لذکريٰ لاولي الالباب‘‘١٥ .... اور جو لوگ اپني عقل پر ِپتھر ڈال کر کچھ غور و فکر و تآمل سے کام نہيں ليتے قرن کريم ان کي شدّت سے مذمت کرتا ہے. ’’ذالک بانّھم قوم لا يقعلون‘‘ ١٦ ’’و اکثرھم لا يعقلون ‘‘١٧ ’’ افلا يعقلون ‘‘ ١٨.....قرآن کا لہجہ ا ان کي مذمت ميں اور شديد ہوتاہے’’ افلا يتدبّرون القرن ام عليٰ قلوبھم اقفالھا‘‘ ١٩ .... يہاں تک کہ انہيں حيوانوں کے زمرہ ميں بھي سب سے بدتر شمار کرتا ہے.’’ انّ شرّ الدّوابّ عند اللہ الصّم البکم الّذين لا يعقلون ‘‘ ٢٠ .
قرآن کريم ايک مقام پر توحيد کا ايک دقيق مسئلہ سمجھاتے ہوئے گاہ کرتا ہے کہ جو لوگ تعقل نہيں کرتے ’’رجس‘‘ اور پليد کا شکار ہوجاتے ہيں. ’’ و ما کان لنفس انّ تومن الّا باذن اللہ و يجعل الرّجس عليٰ الّذين لا يعقلون‘‘٢١ .
بنيادي طور سے قرن کي روش ’’ دليل ‘‘اور ’’ برہان ‘‘ کي ہے . قرآن ہر صاحبان عقيدت سے اپنے عقيدہ کے اثبات کے لئے برہان و دليل طلب کرتا ہے. ’’ھاتو برھانکم‘‘ ٢٢ ’’ہاتوا برھانکم ان کنتم صادقين ‘‘ ٢٣ اور خود بھي اپنے مدعے کے لئے متقن دلائل پيش کرتا ہے، يونہي ماننے کے لئے نہيں کہتا... ’’ لو کان فيھما الھۃ الّا اللہ لفسدتا‘‘٢٤
قرآن کريم عقل کو صرف حکمت نظري ٢٥ کي حد تک ہي نہيں ، بلکہ حکمت عملي٢٦ ميں بھي عقل کو معتبر جانتے ہوئے افعال کے حسن و قبح عقلي کي طرف اشارہ کرتا ہے چنانچہ متعدد مقامات پر انبيائ کي بعثت کو ’’موعظہ ‘‘و ’’ تذکر‘‘ (ياددہاني) قرار ديتا ہے يا ’’امر بالمعروف اور نھي از منکر ‘‘سے ياد کرتا ہے ...انّ اللہ يآمر بالعدل و الاحسان و ايتاء ذي القربيٰ و ينھيٰ عن الفحشائ و البغي يعظکم لعلکم تذّکرون ٢٧ ... يآمر ھم بالمعروف و ينھاھم عن المنکر٢٨ ....
واضح سي بات ہے ’’يادہاني‘‘ اسي وقت ممکن ہے جب پہلے سے کوئي بات پتہ ہو اور کچھ وجوہات کي بناپر بھول يا غفلت کا شکار ہو گئي ہو.... اور ’’معروف‘‘ يعني جاني پہچاني ہوئي چيز، اور ’’منکر‘‘ يعني وہ چيز جس سے انساني فطرت ناساگار ہے ، اور انسان اس سے نفرت کرتا ہے.
قرآن ميں کہاں کہاں عقل کے سلسلے ميں کيا کہا ہے يہ پوري ايک ضخيم کتاب کا موضوع ہوسکتا ہے. مختصر يہ کہ قرن ميں لفظ’’عقل‘‘ ٤٨ مرتبہ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ بھي متعدد بار استعمال ہوئے ہيں؛ جس سے قرآن کي نظر ميں عقل و فکر و تآمل کي اہميت کا بخوبي اندازہ لگايا جاسکتا ہے.
: قرن کريم ميں يہ الفاظ کتني بار استعمال ہوئے ہيں درج ذيل ارقام ملاحظہ ہوں
عقل ................................... ........٤٨ مرتبہ
اولو الالباب(صاحبان فہم)...................١٦ مرتبہ
تفکر.............................................١٨ مرتبہ
فقہ و تفقہ( باريک بيني اور دقت)..............١٩ مرتبہ
يقين(اور مشتقات)..........................٢٨ مرتبہ
حکمت(اور مشتقات).......................٢٠٤ مرتبہ
حق(اور مشتقات)..........................٢٦١ مرتبہ
علم(اور مشتقات) ...........................٩٠٢ مرتبہ
مغرب ميں علوم تجربي اور حسي روش کي زبردست کاميابي سے متآثر ہوکر بعض معاصر دانشمندوں کا خيال ہے کہ دين ميں عقلي کاوشيں ہوسکتي ہيں ليکن صرف طبيعيات اور مخلوقات ميں تجربي اور حسي مطالعات کے ذريعہ ممکن ہے، يہ زمين ،سمان، چاند، سورج،ستارے... يہ سب خدا کي يات ہيں. ان کے مطالعہ سے خدا کي معرفت ميں اضافہ ہوتا ہے. قرن کريم انہيں يات الٰہي ميں تعقل و تفکر کي دعوت ديتا ہے. ابو الحسن ندوي، محمد قطب اور تحريک اخوان المسلمين کے مفکرين اسي نظريہ کے حامل ہيں.
’ندوي‘ اپني کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين‘‘ ميں رقم طراز ہيںکہ ا نبيائ کي تعليمات کے مقابلے ميں ذات و صفات خداوند...، غاز و انجام جہان...،اور انسان کے مبدئ و معاد... يا ان جيسے مسائل کے بارے ميں عقلي و فلسفي بحث کرنا ايک طرح کي ناشکري ہے. انبيائ نے اس بارے ميں بہترين اور اعليٰ تعليمات سے بشريت کو مفت ميں نوازا ہے.اب ان مسائل ميںعقلي بحث کرنا جن کے مقدمات اور بنيادي مسائل ہماري محسوسات کے دائرے سے پرے ہيںايک ايسے اندھيرے اور غير معلوم راستہ پر قدم رکھنے کے مترادف ہوگا، جس کا نتيجہ سوائے گمراہي کے اور کچھ نہيں !
ظاہر سي بات ہے يہ نظريہ سلفيہ اور اہل حديث جيسوں کے نظريہ سے کہيں بہتر ہے، اس لئے کہ يہ لوگ ايک گونہ تعقل کو ماتنے ہيں، اور اس کي حجيت کو قبول بھي کرتے ہيں، ليکن ظاہراً ان کا بھي’’ آسمان سے گرے اور کھجور پہ اٹکے‘‘و لا حال ہے...
ان کا جواب يوں ديا جا سکتا ہے کہ بے شک قرآن کريم نے مطاہر قدرت ميں مطالعہ حسي کرنے کي بہت دعوت دي ہے، زمين و آسمان، چاند ، ستارے، چرند و پرند يہاں تک چيونٹي، مکھي،مکڑي جيسے حشرات کي خلقت کے بارے ميں غور و خوض ، فکر و تآمل کرنے کي ترغيب دلائي ہے۔
ليکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن کريم نے ايک طرف سے ايسے معارف بھي بيان کئے ہيں جو مطالعہ حسي سے کبھي سمجھ ميں نہيں آسکتے، ان کو سمجھنے کے لئے ماورائ طبيعي مفاہيم کي ضرورت ہے۔ اور دوسري طرف قرآن کريم نے بہت سے معارف اور عقايد کے اثبات کے لئے فلسفي برھان کي روش سے استفادہ کيا ہے۔ جيسے
’’ لو کان فيھما آلہۃ الا اللہ لفسدتا ‘‘.
: اب دو ہي صورت ہے
(الف) يا تو ان مفاہيم کو غير قابل حل مجہولات کي صورت ميں مان ليا جائے،اور يہ کہيں کہ قرآن نے انسانوں پر رعب ڈالنے کے لئے، اور انہيں قرآن کا جواب لانے سے عاجز کرنے کے لئے، کچھ ايسے معمہ پيش کئے ہيں جو کسي سے حل نہيں ہو سکتے! لہذا ہمارا وظيفہ يہ نہيں کہ ہم انہيں سمجھنے کي کوشش کريں بلکہ ہميں يونہي بس مان لينا چاہيئے!!
(ب) يايہ مانيں کہ خداوند حکيم نے قرآن مجيد ميں ان معارف کو ہماري ہدايت کے لئے بيان کيا ہے تو قابل فہم بھي ہوگا، لہذا ہمارا فريضہ يہ ہے کہ اسے سمجھيں.... معرفت حاصل کريں... اس پر عمل کريں اور ہدايت و سعادت کي منزل کو پاليں۔
پہلا فرضيہ محال ہے اس لئے کہ خود قرآن نے ہميں تعقل و تدبر و تفکر کي دعوت دي ہے۔ اور يہ نہيں کہا ہے کہ اس ميں تفکرکرو اور اس ميں نہ کرو۔(يعني مطلق بيان کيا ہے اور تفصيل کا قائل نہيں ہوا)
معرفت خدا کے لئے مظاہر قدرت ميں مطالعہ حسي کي روش سے استفادہ کرنے کو علم کلام ميں ’’برہان نظم‘‘ سے ياد کيا جاتا ہے۔
يہ روش نہايت آسان، سادہ، روشن اور عام فہم ہے،اس کو سمجھنے کے لئے کوئي ايسي عقل کي ضرورت نہيں ہے جو اصول برہاني اور منطقي سے آشنا ہو۔ اسي لئے اس روش کو کافي مقبوليت حاصل ہے۔ ليکن اس کے باوجود برہان نظم کافي نہيں ہے۔ برہان نظم کے سہارے رہررو راہ مستقيم کي صرف پہلي منزل سے آشنا ہو سکتا ہے۔ اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے، ہميں بہر حال برہاني اور عقلي روش کا سہارا لينا پڑے گا۔ اس لئے کہ وہ محسوسات سے پرے ہے اور اس کو درک کرنے کے لئے ماورائ طبيعي مفاہيم کي بہر حال ضرورت ہے۔
سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ اگر يہ روش کافي نہيں ہے تو قرآن نے ا س قدر تاکيد کيوں کي ہے، تو جواب يہ ہے کہ چونکہ يہ روش نہايت آسان اور عام فہم ہے اور زيادہ تر لوگ ماورائ طبيعي اور فلسفي مفاہيم سے آشنا نہيں ہيں لہذا يہ روش نہايت مناسب ہے کيونکہ خداشناسي تو ہر انسان کي فطرت ميں شامل ہے بس اس فطرت کو ذراسا اشارہ چاہيے پھر فطرت انسان خود صدا دي گي کہ اے انسان! اپنے خدا کو پہچان....
بہر حال روش برہاني اور عقلي سخت اور دشوار ہونے کي وجہ سے بہت زيادہ عام نہيں ہے، عوام اسے آساني سے نہيں سمجھ پاتے ،ليکن يہ بھي حقيقت ہے کہ کسي کے نہ سمجھنے سے کوئي چيز باطل نہيں ہوتي، عوام نہيں سمجھتے ، عوام ميں مقبول نہيں ہے ليکن سماج کے پڑھے لکھے افراد عقلي اور فلسفي براہين کو نہ صرف سمجھتے اور پسند کرتے ہيں بلکہ ان کي ضرورت بھي ہے کيونکہ يہ لوگ دوسرے مکاتب فکر سے آشنا ہوتے ہيں اورہرمکتب کا تصور کا ئنات جدا ہوتا ہے، لہذا تمام مکاتب فکر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے بہت سے ايسے سوالات ابھر تے ہيں جن کا جواب سوائے عقلي اور فلسفي استدلال کے ذريعہ نہيں ديا جاسکتا۔
source : http://mahdicenter.com