یونس بن ظبیان کا کہنا ہے : میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ لفظ'' فاطمہ''کے معنی کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: ہر برائی اور شر سے دور رکھی جانے والی۔ اس کے بعد خود ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے عقد کے لئے حضرت علی جیسی مقدس ذات کا انتخاب کیا گیا ورنہ آپ کے علاوہ اولین و آخرین میں آدم سے لیکر قیامت تک جناب فاطمہ (س) کا کوئی ہمسر نہ ملتا۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولوالعزم انبیاء میں بھی حضرت فاطمہ (س) کا کوئی ہمسر نہ تھا کوئی نبی بھی حضرت کی ہمسری کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔
ہر انسان کی فضیلت کا نشان علم و تقویٰ ہے اسمیں کوئی شک نہیں کہ حضرت فاطمہ (س) مرکز عصمت و طہارت ہیں کیونکہ آیت تطہیر کے نزول کے بعدحضرت رسول خدا ۖ، حضرت علی اور حسنین کی عصمتوں کا تعارف جناب زہرا کے ذریعے کروایا گیا۔
علم و دانش میں بھی رسول اکرمۖ ، امیر المومنین اور ائمہ اطہار کے علاوہ ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ حالانکہ حضرت فاطمہ پر امت کی رہبری اور راہنمائی کا بوجھ بھی نہیں تھا۔
اب دیکھتے ہیں کہ کفو کے معنیٰ کیا ہیں؟
کفو: کے معنی ہیں ہم نسب، ہمسر، اپنے جیسا، ہمدوش وغیرہ۔
اور اسلام نے شادی کے دوران کفو کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے بلکہ شوہر کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ وہ بیوی سے زیادہ فضائل اور کمالات کا مالک ہو۔
اسلام شوہر اور بیوی کی کفویت کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اول: کفو یعنی شوہر اور زوجہ میں کفویت کا پایا جانا واجب ہے۔
دوم: یعنی شوہر و بیوی میں کفویت کا پایا جانا مستحب ہے۔
پس واجب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اول: جسم کے لحاظ سے۔ دوم : روح کے لحاظ سے۔
مثلا مرد شادی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن عورت کے وجود میں ایسے موانع موجود ہیں یا اس کی مرضی کے خلاف ہے کہ جس سے مرد کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی تو ایسی شادی عموما کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یا مرد اور عورت میں سے کوئی ایک کافر ہے اور دوسرا مسلمان ۔چنانچہ وہ روح کے اعتبار سے ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں اور ان دونوں میں کفویت نہیں پائی جاتی ۔تو ایسے اشخاص ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔
پس اسی طرح مستحب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اول: جسم کے لحاظ سے دوم: روح کے لحاظ سے۔
مثلا اگر مرد خوبصورت ہے اور عورت بد صورت یا عورت خوبصورت ہے اور مرد بد صورت ۔ یا مرد اندھا اور گونگا ہے یا عورت اندھی اور گونگی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ان دونوں کی آپس میں شادی کی جائے تو طبعیت کے اختلاف کی وجہ سے عموما شادی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یا یہ کہ ایک شریف خاندان سے ہو دوسرا پست خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو اس طرح بھی دونوں کے افکار میں تطبیق نہیں ہو گی اور دونوں کی تربیت میں فرق ہو گا تو ان دونوں کی آپس میں شادی کرانا کراہت رکھتا ہے۔
یا یہ کہ عورت تعلیم یافتہ ہے اور مرد جاہل ہے یا مرد تعلیم یافتہ ہے اور عورت جاہل اگر ان دونوں کی شادی کر دی جائے تو اس میں کفویت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔تو دونوں بہتر زندگی نہیں گذار سکتے۔ یا ایک عبادت گذار نیک سیرت ہے دوسرا فاسق و معصیت کار تو ان کی آپس میں شادی شدید کراہت رکھتی ہے۔ لہٰذا ہم جب احکام اسلامی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض معصیت کاروں کے بارے میں کراہت کی تشریح کی گئی ہے کہ بے نمازی اور شرابی کو بیٹی دینا زبردست مکروہ ہے۔ پس ضروری ہے شادی کرتے وقت کفو کا خاص خیال رکھا جائے تا کہ خوشحال زندگی بسر ہو سکے اور ازدواجی زندگی کو دوام حاصل ہو سکے۔
اگر حضرت علی نہ ہوتے تو فاطمہ (س) کا کوئی کفو نہ ہوتا اس کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا ایسی دانا ترین خاتون تھیں جنکی نگاہ ماضی حال مستقبل کو دیکھ رہی تھی۔
آپ کے ہاں کسی معصیت و خطا کا تصور نہیں آپ تمام فضائل وکمالات کی مالکہ تھیں ظاہری حسن و جمال کے لحاظ سے کائنات کی تمام عورتوں میں بے نظیر تھیں۔ اور حسب و نسب کے اعتبار سے بھی لا جواب۔تو پس کیسے ممکن ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ایک عام شخص کی ہمسر قرار پاتیں ۔
source : http://nawayelm.mihanblog.com