اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

امام حسین (ع) میزبان حق و باطل

پیغمبراسلام نے واقعۂ کربلاسے بہت پہلے اس بات کی پیشین گوئی فرمادی تھی آپ نے فرمایا:انّ لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المؤمنین لاتبردابدا.( جامع احادیث الشیعہ ج ۱۲ ص ۵۵۶۔) 

حسین کی شہادت کیلئے مؤمنین کے دلوں میں ایسی حرارت وگرمی ہے جو ہرگز سرداورخاموش نہیں ہوگی۔ لوگوں کے آزردہ سینہ سے آہوں کا دھواں ابھی تک نکل رہاہے اس آگ کے شعلوں کی  سوزش کا دامن دن بدن وسیع ترہوتاگیا تاکہ ظلم کے خرمن پر گرے اورفساد, انحراف, جرم اور جہل ونادانی کوجلاکرراکھ کردے اور ستم کی دیواروں کو جڑسے اکھاڑ پھیکے اوراس خون مقدس کاانتقام ظالموں سے لے اور ستم صفحۂ ہستی سے مٹ جائے خواہ وہ ابولہب, ابوسفیان, ابوجہل, عمروعاص مقدس مأب ابوموسیٰ اشعری اور یزیدصفت عرب ۔

سلاطین یامغرورحکومتوں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو تاکہ پرچم عدالت کامیابی کے ساتھ اقوام متحدہ بلکہ تمام دنیامیں لہرائے امام حسینؑ اور آپکے اصحاب باوفاومعرفت کاطاہر خون سرزمین کربلا پربہا تاکہ دنیا میں عدل وانصاف اور حدود الہی باقی رہیں ابھی تک بشریت کادامن اس عظیم ظلم سے داغدارہے بنی امیہ کاسرنگوں ہونا ہمارے لئے کافی نہیں کہ کہا جائے اس پاک خون کاانتقام لیا جاچکا جس طرح حق بزرگ ہے اور اس کی اہمیت ہے اسی طرح اس خون کی ارزش وقیمت ہے۔ جب تک تمام دنیا میں احیائےحق نہ ہوباطل وظالم حکومتوں کا زوال وخاتمہ نہ ہو اس خون کا انتقام نہیں لیاگیا ہے جب تک حقوق بشراور مؤمنین کے حقوق پائمال وضائع ہوتے رہیں گے لوگوں پرعیاش,نفس پرست اور اقتدارکے نشے میں چور تخت شاہی پر براجمان رہیں گے, مظلوم کی فریاد اورندائے آزادی , حق طلبی کے فلک شگاف نعرے لگتے رہیں گے, معاشرے کاامن وسکون برباد ہوتا رہےگا اوراصلاح کے نام پرتخریب کاری ہوتی رہےگی امام حسینؑ کے خون کا بدلہ نہیں لیاگیاہے حقیقی اورواقعی انتقام اس وقت ہوگا جب مجرم , قاتل اور فسادی کاوجود نہ ہواس لئے کہ امام عالیمقام کا قاتل عفریت کی صورت میں ظلم وفساد ہے۔ جب تک ایسے خوفناک اورخبیث وبدکار کاوجود صفحۂ ہستی سے مٹایانہیں جائے گا خون امام جوش مارتارہے گا۔

مرحوم آیستی اپنی کتاب(بررسی تاریخ عاشورا) میں  رقمطراز ہیں لب مطلب پیش خدمت ہے۔

تاریخی نقطۂ نظرسے تمام رنگوں میں خون کارنگ زیادہ پائدار اورثابت ہے جورنگ مٹتانہیں وہ لال رنگ ہے, خون کا رنگ ہے حسین ابن علی کاقصد وارادہ تھا کہ اپنی تاریخ کوپائدار اورنہ مٹنے والے اس رنگ سے لکھیں بنابراین اپنے پیغام کو اپنے خون سے لکھا۔

سناگیاہےکہ بعض لوگوں نے قریب المرگ اپنے خون سے اپنی باتوں کولکھاہے اورپیغام دیاہے۔ ظاہر ہے جنہوں نے اپنے خون سے مطالب لکھے, اپنی باتیں لکھیں,اورپیغام بھیجا اس کا اثر ہی کچھ اورہوتا ہے دور جاہلیت میں رسم تھی جس پرعمل بھی کیاقبیلہ والے جب مائل ہوتےتھے کہ ایک دوسرے سے مضبوط ومحکم معاہدہ کریں تو ایک برتن میں خون لاتے تھے(اپنانہیں) اوراپنے ہاتھ اس میں ڈالتے تھے اور کہتے تھے یہ عہد وپیمان زوال پذیرنہیں اس لئےکہ خون کامعاہدہ ہے جورنگ دوسرے رنگوں سےزیادہ پائدارہےیہی رنگ ہے۔ لہذا امامؑ نے اپنی تاریخ خون سے لکھی سنتے رہتے ہیں یا تاریخی کتابوں میں پڑھتےبھی ہیں کہ بہت سے بادشاہ جنکی یہ خواہش تھی کہ ان کا نام تاریخ میں ثبت وباقی رہےسیکڑوں  سال قبل لوہے یا پتھر پر  نقش کروایاکہ میں فلاں ابن فلاں وغیرہ ہوں۔

کیوں اپنا نام لوہے یاپتھرپرلکھوایا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ نابود نہ ہو باقی رہے لیکن تاریخ نے ان کو خاک میں دفن کردیا کوئی بھی اس سے باخبر نہیں ہوا ہزاروں سال بعد یورپی کھودنے والے آئے اور زیر خاک سے نکالا۔

ایسا اس لئے ہوا کہ پتھرپر لکھا تھادلوں پر نہیں۔ امام حسین نے اپنا پیغام نہ پتھر پر لکھا اورنہ ہی نقش کروایا نامساعد حالات میں آپ نے جوکچھ کہالوگوں کے کانوں تک پہنچالیکن ایسانہیں ہوا کہ ایک کان سے سنادوسرے کان سے اڑادیا بلکہ ایسا گہرااثر ہوا جس کوقلوب سے جدانہیں کیاجاسکتا۔ قل از حماسۂ حسینی شھید مطہری ج ۱ ص ۳۷۴۔

حقیقت بھی یہی ہے جو سینوں میں ہے وہ باقی رہےگا پتھرپرلکھی ہوئی باتوں سے بھی زیادہ باقی رہنے والا ہے تبھی توامامؑ کے چاہنے والے محرم میں عزاداری کرتے ہیں تاکہ مقصد حسینی باقی رہے۔ اس مقصد کی بقاء اور اشاعت وترویج کب ممکن ہے جب روح عزاداری کوفراموش نہ کریں ۔ ہماری عزاداری اورشب بیداری ایذاداری اوررسم ورواج کے طورپرنہ ہو بلکہ بعنوان شرعی ذمہ داری ہو۔ جس طرح دین داراوردین شناس , نمازگذار اورنمازدوست میں فرق ہے سیدالشہداء نے اس بات کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے (انّی کنت قد احب الصلاۃ) بحار ج۴۴ ص ۳۹۲

یقیناً میں نمازسے محبت کرتاہوں۔ اسی طرح عزادار اور محب عزا میں فرق ہے ہمارے درمیان دیندار, نمازی اور عزادار بہت ملیں گے لیکن محب نماز, دین شناس اور عاشق عزاکی تعداد کم ہے بنابراین ہماری نماز وعزا معرفت کے ساتھ ہو ہم صرف نمازی وعزادار نہ رہیں بلکہ نماز وعزابطور محبوب ومعشوق ہوں , ایسی حالت وکیفیت میں  ہم کو عزاداری کا حقیقی مفہوم ومقصد اور مظلوم کی فریاد کادرد سمجھ میں آئے گا اور اہل عالم پر صدائے  یاحسین کے واقعی اثرات ظاہر ہونگے۔

مختصراً عرض کردوں کہ عزاداری اباعبداللہ الحسین الٰہی رنگ اور توحیدی جلوہ وکمال وجمال الٰہی کامظہر ہو۔ ماہ محرم ان باتوں کے اظہارکیلئے بہترین ومناسب موقع ہے اس  مہینہ میں مظلومیت کی آواز لوگوں کے سینے سے بنام حسین بلند ہوتی ہے اور آنسوؤں کے قطرے حقانیت کی علامت ونشانی ہیں۔ ظالموں اور ستمگروں کے خلاف قطرات اشک کے ذریعہ اپنے درد اور اندرونی غم وغصہ کو بزم حسینی میں ظاہر کرتے ہیں ۔ اپنے احساسات اور امام حسین سے محبت کاثبوت دیتےہیں جس طرح حق پائدار ہے اسی طرح حق کی محبوبیت بھی ثابت و ہمیشگی ہے لہذا یہ عزا اور نذرانۂ عقیدت دائمی ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت بھی ناقابل انکار حقیقت ہے جب تک دنیاہے اور لوگوں میں عدالت وفداکاری کا جذبہ ہے ظلم وستم کافشاراور ظالم کےشکنجے ہیں اشک حسرت بہاتے رہیں گے اور اس پسندیدہ فعل پرعمل اس وقت تک جاری وساری رہےگا جب تک امام کاہدف تمام دنیا میں رائج وشائع نہیں ہوجاتا اورپرچم عدل وانصاف بلند نہیں ہوتا امام حسین کے محب اشک معرفت بہاتے رہیں گے اور اسی جوش وخروش کے ساتھ عزاداری کرتے رہیں گے اس لئے کہ ماہ محرم ایسامناسب مہینہ ہے جس میں ہم بہ نحواحسن امام عالی مقام کے مقاصد کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں۔

پنجتن پاک میں امام حسین اس طرح ہیں جیسے پانچ انگلیوں کے درمیان انگوٹھا, انگوٹھےکے بغیرچارانگلیاں کام نہیں کرسکتیں وغیرہ۔

اسی طرح امام حسین کے بغیر ان سب کے کام اورزحمتیں بےنتیجہ ہیں۔ امام حسینکا قیام تمام انبیاء کی بعثت اور اللہ والوں کے انقلاب کاعصارہ اورنچوڑ ہے لہذا سبھی پرفرض ہے کہ امامؑ کے اہداف کو سمجھتے ہوئے عزاداری پرزیادہ سے زیادہ توجہ دیں, اس لئے کہ واقعۂ کربلا ہمارے لئے مشعل راہ ہے ہم لوگوں کو اس بات پرغور کرنا چاہیئےکہ امام کی اس تحریک سے ہم کو کیا سبق ملتا ہے اور واقعۂ کربلاکی ہرجگہ اور ہرزمانے میں کیوں ضرورت ہے؟ (کل یوم عاشورہ وکل ارضٍٍکربلاوکل شھر محرم) ہمارے لئےہردن عاشورہےاورہرزمین کربلا اورہرمہینہ محرم , اس حدیث کی نسبت امام صادق کی طرف دی جاتی ہے لیکن بعض علماء فرماتے ہیں معتبرنہیں۔ بہرحال اس روایت میں جس حقیقت اورواقعیت کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہ ناقابل انکارہے۔

ہرروزعاشورہ ہےوغیرہ۔۔ یعنی ہمیشہ حسینی رہیں اورواقعۂ کربلاسے درس حاصل کریں کربلاکی رہنمائی اوردرس تاقیامت باقی رہےگا اس لئے کہ پیغام کربلا کسی عصرومقام سے مخصوص ومحدودنہیں اسی طرح کسی خاص دین ومذہب اورفرقوں سےمخصوص نہیں بلکہ جہاں بھی انسانیت ہے پیغام کربلابھی ہے۔

قارئین محترم مطلع ہیں کہ انسانیت کاتعلق ہردوراورہرجگہ سے ہے۔

انسان کوبیدارتوہولینےدو    ہرقوم پکارےگی ہمارےہیں حسین(ع)

پیغام کربلامیں ایسی جاذبیت پائی جاتی ہے کہ لوگ کھینچ کراس کی طرف آتےہیں اس لئے کہ اسمیں صدق وکذب اور حق وباطل میں تشخیص,آزادی, تقویٰ, شرف, انسانیت اور عدالت کاپیغام ہے۔ کوئی بھی مہم واقعہ رونما ہوتاہے توہرانسان کے ذہن میں چارسوالات آتے ہیں۔

۱۔    یہ واقعہ کیوں ہوا اس کے اسباب وعوامل کیاہیں؟

۲۔    اغراض ومقاصد کیاتھے

۳۔    صاحبان عقل وفہم اورچشم بیناکیلئے اسمیں عبرتیں کیاہیں؟

۴۔    اس کے اثرات ونتائج کیاہیں نیزاس سے سبق کیا ملتاہے؟

اگرانکے جوابات معلوم نہیں توجاننے کی کوشش کرتاہے۔ ان عناوین سے مربوط اگراشارہ بھی کیاجائے تومسبوط کتاب ہوجائےگی, مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نہیں۔

لہذا محترم قارئین کی خدمت میں بطور اجمال صرف یہ ذکرکردوں کہ واقعۂ کربلا سے ہم کو کیا سبق ملتا ہے۔

۱۔    پہلا درس یہ لیا جاسکتا ہے کہ (ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے"الموت خیرمن رکوب العار۔۔۔") بحار ج۴۴ ص۱۹۱, ۱۹۲۔

انسان کوچاہیئےکہ آزادانہ زندگی گذارے نہ ظالم بنے اور نہ مظلوم اس لئے کہ ظلم پرخاموشی انسانیت کوپائمال کرنے کے مترادف ہے۔ موت بہترہے نہ کہ ذلت یعنی عار کے مقابلہ میں موت کوترجیح دیناچاہیئے۔ ایمان وعقیدہ کی راہ میں قتل ہوجانے میں ہی حقیقی زندگی ہے ۔ امام کامقصد اور دین کی یہی منطق بھی ہے۔

راہ خدامیں امیرالمؤمنین علیکی طرح موت کودوست رکھناچاہیئے جیساکہ خود حضرت نے فرمایاہے"واللہ لابن ابیہ طالب آنس بالموت من الطفل بشدی امہ" نہج البلاغہ خطبہ ۵۔

خداکی قسم ابوطالب کے بیٹے کوموت اتنی محبوب ہے کہ بچے کواپنی ماں کی آغوش میں اپنے سرچشمۂ غذا کی طرف ہمک کربڑھنا اتنامحبوب ہے۔

درحقیقت مؤمن کو اطمینان قلب اللہ سے ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوتاہے جیساکہ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے(لیس للمؤمن راحۃ دون لقاء اللہ) لقائےربّانی کے علاوہ مؤمن کےلئے کہیں بھی سکون وراحت نہیں بہرحال شجاع وبہادر آدمی استقامت اور عزت کی زندگی چاہتاہے, امام عالیمقام بھی یہی چاہتے تھے لوگوں کو اسی کی تعلیم بھی دی لیکن کچھ انسان ایسے ہیں جوذلت وحقارت کی زندگی بسرکرتے ہیں اس لئےکہ ان کا نفس ان پرحکومت کرتا ہے خواہش نفس کی اتباع کرتے ہیں اس لئے کہ نفس دنیاکا عاشق ہے لہذا فرائض سےچشم پوشی ہے جس کا نتیجہ ان میں اضطراب , افسردگی , دہشت وگھبراہٹ اوراسٹرس ہے۔ سعودی ریاست میں خوف وہراس کایہ عالم ہےکہ کثیرتعداد کوادائیگی حج جیسے مقدس فریضہ کیلئے ویزہ نہیں دیااس کی ایک وجہ یہی ہوسکتی ہے۔ حقیقت امریہ ہےکہ ذلیل وہ ہے جواپنے اقتدار کی جگہ بھی ذلیل ہوجائے۔

۲۔دوسراسبق قیام حسینی سے یہ ملتا ہےکہ حق ہرحال میں غالب اورپائدارہے اورباطل ناپائدار ومغلوب, قرآن کاواضح بیان ہے(جاءالحق وزھق الباطل انّ الباطل کان زھوقا) سورہ اسراء ۸۱۔

حق آگیا اورباطل مٹ گیا,باطل کوتویقیناً مٹناہی تھا۔ اس بناء پر بھی ہمیشہ حق کاساتھ دیناچاہیئے لیکن کچھ لوگ کوتاہ نظری کی وجہ سے باطل کے فریب میں آکر اس کاساتھ دینے لگتے ہیں ایسے افراد بچھوسے بھی زیادہ  جاہل ہیں جو پتھر پرڈنک مار کرپتھرکےبجائے اپنے ڈنک کوہی نقصان پہنچاتاہے لیکن جوحضرات دوراندیش اورباایمان ہیں باطل کے مکروفریب میں کبھی نہیں آتے اورحق کی مدد کرکے اس آیت کےمصداق بن جاتے ہیں (وکان حقاً علینانصرالمؤمنین) سورہ روم ۴۷۔

اورمؤمنین کی مدد کرناہمارے ذمّے ہے۔ اگرطاقتور باطل کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی جماعت حق پرقائم ہوتونصرت خدا کی امید میں ہی استقامت پائی جاتی ہےخدا مددکرتاہے اس لئے کہ مؤمنین کی نصرت اللہ کے ذمّہ ہے۔

عصرحاضر میں حزب اللہ لبنان کی مثال محتاج توضیح نہیں دنیا کے طبیعی نظام کی خاصیت یہ ہےکہ نور ہے توسایہ بھی ہوگا اسی طرح حق ہےتوباطل بھی ہوگا۔ لہذا حق وناحق کے درمیان تمیز کرنانہایت ضروری ہے۔ بسااوقات باطل اپنا بھیس وروپ بدل کرحق کاچوغہ اوڑھ کرآتاہے اورحق کانعرہ بھی لگاتاہے لیکن نیّت وارادہ ناحق ہوتاہے جنگ صفین میں خوارج (باغی لوگ) نے حضرت علی کے مقابل کیاکیا؟ نیزوں پر قرآن بلند کرواکے کس نے کہا(لاحکم الااللہ) اللہ کے سواکسی کاحکم نہیں اس موقع پرامیرالمؤمنین نےکہا! (کلمۃ الحق یراد بھاالباطل) حق کی بات ہے لیکن اس سے مراد باطل ہے عمروعاص اور ان کے طرف داروں کو دین سے کوئی واسطہ نہیں  ہےانہوں  نے فریب دینے کیلئے قرآن بلند کیاہے۔ تاریخ طبری ج۴ ص ۳۴ مطبوعہ بیروت۔

دورحاضرمیں بھی ایسی مثالیں بکثرت ہیں بطور نمونہ قارئین خصوصاً سنّی بھائیوں کی خدمت میں عرض کردوں کہ جب بھی مسلمانوں کے درمیان اتحادویکجہتی کی اشدضرورت ہوتی ہےتو وہابی جس کے خمیرمیں جہالت , جھوٹ, بہتان, مکاری, جمودفکری اور فرقہ پرستی ہے۔اس بات پرواضح اورروشن ثبوت ابن تیمیہ کی کتاب "منھاج السنۃ وغیرہ" ہے جس کو منھاج السنۃ کے بجائے منھاج اموی (بنوامیہ کاراستہ وطریقہ) کہنازیادہ مناسب ودرست ہے اس لئےکہ کتاب ھذا وغیرہ میں اپنے فاسد نظریات کی نسبت علماء اہل سنت کی طرف دی ہےاہل علم وتحقیق اوردانشوران قوم رجوع کریں۔

یہ گروہ بنوامیہ کااسلام پیش کرتاہے اس وقت جب ہرجگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے انسانیت سوز واقعات ہورہے ہیں وغیرہ۔ اس کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں بولتے مگر عظمت صحابہ کی باتیں ضرور کرتے ہیں معاویہ ,عمروعاص اور خوارج کی بھی سیاست یہی تھی۔ عظمت صحابہ کاجھنڈابلندکرکے اپنے ناپاک اورخطرناک مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان انتشارواختلاف پھیلاکر بزعم خویش ڈکٹیٹروں کے مظالم وخیانتوں سے توجہ ہٹائیں اورمسلمانوں کی عظیم کامیابی پرپردہ پوشی کریں۔ میں ایسے لوگوں سے پوچھتاہوں صحابہ کی توہین کاآغاز کس نے کیا؟ مذہب میں اس نئی رسم کی حباب مانند عمارت کس نے کھڑی کی؟ تاریخ کی ورق گردانی کریں تومعلوم ہوگا بطور مثال صرف دوصحابی رسول کاذکرکرتا ہوں جن کے ساتھ بدعتی لوگوں کارویہ اذیت ناک اورسلوک نارواتھا حضرت علی آیا صحابی رسول نہیں تھے آپ کی گردن میں رسی کس نے باندھی وغیرہ۔؟ جنگ جمل میں آپ سے لڑنے کون آیا؟ آپ پر علی الاعلان ممبروں اورمسجدوں سے سب ولعن کس نے شروع کروایا؟

اس کاجواب بدیہی ہے معاویہ نے جناب عمار آیا صحابی رسول نہیں تھے ان کو کس نے اتنا ماراکہ آپ بیہوش ہوگئے وغیرہ۔

تاریخ میں اس شخص کانام ضبط و ثبت ہے اہل تحقیق تعصب کے بغیر رجوع کریں آپ کو کس نے شہیدکیا؟

مورخین نےبتصریح لکھاہے اورصحیح حدیث میں بھی ہے جس پرسب کااتفاق ہےکہ حضرت رسول (ص)نے فرمایا عمار کوگمراہ جماعت والے قتل کرینگے اس سے مراد معاویہ ہے۔ حوالۂ سابق ص ۲۷, ۲۹۔

اگران کی نظر میں "عظمت صحابہ" کی اہمیت واقعی ہے توان کے خلاف کیوں نہیں بولتے؟ ان کے بارے میں فتوے کیوں نہیں دیےا؟ خهرا  ثالث عا جن کی قبر کوتخریب اور ویران کرنے والے آیاشیعہ ہیں؟ مسلمانوں کوان باتوں کاجواب دیں۔ معاویہ اورامثال معاویہ کانام تورضی اللہ کے بغیر لیتے بھی نہیں اس متقابل متضاد عمل کاان کے پاس کیاجواب ہے(یک بام ودوھوا)

دین کے ساتھ ان لوگوں کارویہ سوداگرواں کی طرح ہے جہاں بھی ذاتی مفاد اورمصلحت دیکھی فروختی چیز کی طرح بیچ دیتے ہیں اسی بات کی طرف اشارہ امیرالمؤمنینؑ نے مالک اشتر کے نام اپنے عہد نامہ میں کیاہے۔(فان ھذالدین قدکان اسیراًفی ایدی الاشراریعمل فیہ بالھوی وتطلب بہ الدنیا)۔ نہج البلاغہ نامہ ۵۔

یقیناً یہ دین بدکاروں کے ہاتھوں میں قیدی ہوگیا تھاتاکہ بنام دین ہوس پرستی کریں اوراس کے ذریعہ سے دنیا حاصل کریں اگر معاویہ ومانند معاویہ کے اسلام کو سمجھناہےتواس وقت بہت آسان ہے صدام , قذافی حسنی مبارک, بن علی , یمن, بحرین اورسعودی وغیرہ۔۔ ڈکٹیٹروں کودیکھ لیں۔ آنکھوں دیکھی چیز بیان کی محتاج نہیں "عیاں راچہ بیاں" دین ومذہب میں غیورہونا تودرکنار اپنا محل تعمیر کرایااورشہربرباد کیامسلمانوں کو ان سے شرورسوائی کے سوا کچھ نہ ملا لہذا میں مسلمان  بھائیوں سے التجا وگذارش کرتاہوں کہ ان کے دام فریب میں نہ آئیں اوران کے چہرہ سے اسلام کے نقاب کو نوچ کران کے نفاق کو آشکار کریں۔ جس طرح شترمرغ نہ پرندہ سےہے اورنہ ہی اونٹ چمگادڑ بھی نہ پرندہ ہے اورنہ ہی چوپایہ اسی طرح یہ گروہ ہے نہ مسلمان ہیں اورنہ بظاہر کافر۔

اسلامی معاشرہ میں سعودی اسلام وائرس کی طرح ہے مختلف ممالک میں ناقابل عفو بےگناہ مسلمانوں کاخون بہایا جارہاہے مسجدوں , امام باڑوں, اولیاء الٰہی کےمزاروں وغیرہ۔۔  میں بم دھماکہ ہورہاہے, عالم اسلام کے بانفود وموثر شخصیات کوبشانہ بنایاجارہاہے۔ اس کاذمہ دار کون ہے۔ اس کاجواب اظہرمن الشمس ہے۔ قاتل صرف وہ نہیں جنہوں نے قتل کیا ہے گناہ کاروہ بھی ہیں جوقتل کیلئے اکساتے ہیں اورہرممکن سہولت فراہم کرتے ہیں اس کی خاطرتمام مسلمان نہایت ہوشیاری, عقل و زیرکی اوربصیرت کے ہمراہ حق کی شناخت وجانکاری کے بعداس کاساتھ دیں۔

۳۔    تیسرادرس واقعۂ کربلاسے یہ لیاجاسکتاہےکہ انسان کی بزرگی مصائب پرصبر کرنے میں ہے جیساکہ پورپ کاایک شاعر کہتاہےکہ کوئی چیزانسان کودرد و مصائب پرصبرکی طرح بزرگ نہیں کرتی۔ لیکن صبرکاہرگزیہ مطلب نہیں کہ زندگی میں مصائب اورگوناگوں مشکلات سے خلاصی ونجات کیلئے کوشش نہ کریں یہ سبق ہم کو امام حسینؑ سے ملا تبھی تومحبّان اہل بیتؑ حق کی خاطر زندان گئے اورطالم کے شکنجے پرصبرکیا۔ آج بھی تاریخ ایسے واقعات وحادثات کوفراموش نہیں کرتی اس لئے کہ جب ان پرمصائب ومشکلات کےپہاڑ توٹے توثبات قدم میں لغزش تک نہیں ہوئی اور راہ خدا میں ثابت قدم رہ کرسبیل طاغوت کی مخالفت کرتےرہے۔

۴۔    چوتھادرس واقعۂ کربلا سےجوہم کو ملتاہے راقم سطورکی ناقص نظر وکم بضاعت کے نزدیک بہت عظیم ہے, وہ یہ ہےکہ ہم لوگوں میں ان تمام چیزوں کی سلاحیت, ظرفیت اوراستعداد پائی جاتی ہے جودشمن امام عالی مرتبت میں تھیں خواہ فی الحال موجودنہ ہوں۔ لہذا تسبیح لیکر قاتلین ودشمنان امام پرلعنت کرناشہیدی پڑھناوغیرہ۔۔ ضروری ہے لیکن کافی نہیں  بلکہ اہلبیت عصمت وطہارت کے وسیلہ وذریعہ اللہ سے مدد مانگیں۔ اوراس کی پناہ لیں تاکہ ان چیزوں سے خدا ہم کو بچائے وعاقبت بخیر ہو۔

دشمن میں نفس پرستی , شہوت, دنیاطلبی, شہرت طلبی, نام ونمود اورثروت وقدرت کی ہوس پائی جاتی تھی اوراس پرعمل بھی کیا امام صادق نے فرمایا(حب الدنیا راس کل خطیئۃ) ۔ وسائل ج ۱۱ ص ۳۰۹, نہج القصاحہ ج۱ ص ۳۴۵۔

دنیاکی محبت ہرگناہ کی اصل وجڑہے۔ اس کامادّہ فاسد ہم سب میں موجود ہے۔ بنابراین ان چیزوں سے ہم دھوکا وفریب نہ کھائیں ورنہ عمرسعدوغیرہ۔۔ کاانجام ہوگا۔(خیرالدنیاوالاخرۃ) ۔ حج ۱۱۔

اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایااورآخرت میں بھی۔

نہ وصال یارملانہ وصال صنم

۵۔    پانچواں درس بلکہ جوعبرتیں حاصل کرسکتے ہیں وہ بعد کربلا ظالموں کاانجام ہے مثال ونمونہ کے طور پر صرف دوظالموں کاذکر نہایت اختصار کے ساتھ کررہاہوں۔

۱۔    زرعہ: یہ وہ شخص ہے جس کاتعلق قبیلۂ ابان بن دارم سے تھا اس نے امام حسین سے کہا آپ کوپانی کاایک قطرہ بھی نہیں ملےگا تاکہ پیاسے دنیاسے جائیں۔۔ اس پر پیاس کاایسا غلبہ ہواکہ پانی پیتے پیتے پیٹ بھرجاتاتھا اس کے بعد بھی پیاس نہیں بجھتی تھی کہتاتھا پیاس, پیاس۔ آخرکار بسیارخوری کے سبب بہت شکم پری کے بعد توند اس طرح پھٹی جیسے اونٹ کاپیٹ پھٹتاہے, اس طرح واصل جہنّم ہوا۔ تاریخ طبری ج۴ ص ۳۴۳ مطبوعہ بیروت۔

۲۔    یزید ایک روز شکارکرنے گیا شدید پیاس لگی ایک شخص کودیکھا کنویں سے پانی نکال رہاہے اس سے پانی مانگ کرشیخی بگھارنے لگا کہامیں خلیفہ ہوں بالآخر اس کو معلوم ہوگیا کہ یہ امام حسین کاقاتل ہے۔ اس صحرا نشیں کوغصہ آگیا اورغضبناک ہوکر یزید ہی کی تلوار لیکر اس کے سر پرمارایزید کاگھوڑا تیزی سے بھاگایہ ملعون گھوڑے میں پھنس گیا عاقبت انجام اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ یزید کے ہمراہ جولوگ تھے دیکھاکہ یزید کی صرف پنڈلی گھوڑے کے رکاب میں لٹک رہی ہے اندوہ وغم کے ساتھ شام لوٹ گئے۔ مقتل مفید ص ۲۰۲۔

ظالموں کاانجام خواہ واقعۂ کربلا کے قبل ہو (بعض قصوں کی طرف قرآن میں اشارہ کیاگیاہے) یابعد کربلا اسمیں سب کےلئے عبرت ہےاور نصیحت خصوصاً ظالموں کیلئے لیکن ظالم وجابراور ڈکٹیٹروں کامزاج یہ ہےکہ دوسرے ظالموں سے عبرت حاصل نہیں کرتے نسل جدید اوردور حاضر کے انسان اس سچائی, راستی اور حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اس لئے کہ ان کی نگاہوں کے سامنے  ملاعمر, اسامہ, صدام, تیونس کے زین العابدین, مصری حکمراں حسنی مبارک اورلبیا کے حاکم قذافی کاانجام ہے۔ گھرمیں بیٹھا اسی مضمون کو لکھنے میں مصروف تھا تاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کرسکوں اسی درمیان ٹی,وی پر قابل عبرت منظر دکھایالیبیائی انقلابیوں نے زمین کے اندر مخفی پناہ گاہ سے قذافی کو کیسے پکڑاجومینڈک کی طرح ٹرٹرکر رہاہےتھا۔ سونے کابناہوا اسی کے ہتھیار سے مارنے کے بعد لاشہ دیکھنے والوں کےلئے رکھاگیا, اس وقت یہ بات وآیت ذہن میں آئی غرق آب ہونے کے بعد فرعون کالاشہ اورآگیا۔(فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیہ وانّ کثیرامّن الناس عن آیٰتنالغٰفلون)۔ یونس ۹۲۔

پس آج ہم تیری لاش (پانی سے) بچائیں گے تاکہ تمہارے بعد میں آنے والوں کےلئے عبرت کی نشانی بنے, اگر چہ بہت سےلوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتےہیں۔ نہ تاج وتخت بچاسکا اورنہ ہی حمایتیوں کی طاقت وقدرت ذلت آمیزموت سے دوچار ہوناپڑا۔ گذشتہ سطور میں آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایاکہ یزید کی سیاہ موت اسی کی تلوار سے ہوئی اورقذافی بھی اپنے ہی اسلحہ سے ماراگیا جس سے ہزاروں لوگوں کو قتل کیاتھا۔

دیکھنا وقت کے مظلوم ایک دن یہ بھی منظر دیکھنا     خود پھنسےگاجال میں اپنےستمگردیکھنا

دنیامحل عبرت ہے انسان چند لمحوں یادنوں میں اپنے شاطردماغ کے بل پر خاک پستی سے ارب پستی بن جاتاہے وارب پستی سے خاک پستی, بیلچہ کے کام سے تخت شاہی پر پہنچ جاتاہےاور تخت شاہی سے حصیر ذلت وخواری کی جانب ,سعودی خاندان کی اصلیت یہ ہےکہ پہلے یہ عرب کے دیہاتی(بدوعرب) تھے اور آج ملک کے ذخائر پر ان کا قبضہ ہے انشاءاللہ آل عیش وعشرت وثروت واقتدار یعنی آل سعود اورآل خلیفہ یعنی بحرینی مطلق العنان فرمانرواکاانجام بھی عنقریب قذافی وغیرہ سے بدتر ہوگا۔ جو لوگ زبان,تحریر اور اپنی خاموشی سے ان کی حمایت کررہے ہیں خود کو غضب وعذاب الٰہی کامستحق قرار کے رہے ہیں خدا کو حاضر وناظر جان کر اپنے نفس کاجائزہ لیں کہ ان کے مظالم واستبداد کی حمایت یااس پر سکوت کیوں ہے؟ کب تک مسلمان نماافراد اور بنی امیہ وسقیفہ کے اسلام سے دھوکا کھاتے رہیں گے۔ ایک دن اللہ کے حضورجواب دینا ہوگا اور ان کواپنے اعمال کی جزا ضرور ملے گی۔ پایان شب سیاہ سفید است۔


source : http://www.abp-ashura.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment