لکھنے والے: آیت اللہ انصاریان
شش ماہ مجاہد حضرت علی اصغر کی شہادت ان ناقابل برداشت مصائب میں سے ایک ہے جو اہل بیت رسول (ص) پر ڈھائے گئے
مقتل کی اہم کتابوں میں سے وقعۃ الطف ابو مخنف ،ارشاد شیخ مفید ،نفس المہموم ،بحار الانوار ،احتجاج طبرسی ،منتخب التواریخ ملا ہاشم خراسانی، میں بیان ہوا ہے کہ جب امام عالی مقامرخصت آخر کو جانے لگے تو امّ کلثوم سے وصیت فرمائی :کہ میری ماں جائی شش ماہے شیر خوار علی اصغر کا خیال رکھنا کیونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے
بہن نے جواب دیا :میرے بھائی یہ بچہ تین دن سے بھوکا اور پیاسا ہے اس کی ماں کادودھ بھی خشک ہو چکاہے اگر ممکن ہوسکے تو اس کے لئے پانی کی کوئی سبیل کرو !حضرت نے علی اصغر کو اپنی آغوش میں لیا اور دشمن کے لشکر کی جانب بڑھے اور ان کے سامنے پہونچ کر ارشاد فرمایا :اے لوگوں ! تم نے میرے بھائیوں ،بیٹوں اور صحابیوں کو قتل کر ڈالا اب میرا اس دنیا میں اس بچہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے "و ھو یتلظّی ٰ عطشا ً من غیر ذنب "،یہ بچہ بغیر کسی جرم کے ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہا ہےپیاس کی شدت سے اس کے ہونٹ خشک ہو گئے ہیں اس کو تھوڑا سا پانی دےدو !اگر مجھ پر رحم نہیں کرنا چاہتے تو اس بچہ پر تو رحم کرو! اس کی ماں کادودھ بھی خشک ہوگیاہے
ابھی امام نے اپنی بات تمام بھی نہ کی تھی کہ حرملہ نے بچے کی رگ گردن کانشانہ لے کر تیر چلادیا مقاتل کی عبارت اس طرح عکاسی کرتی ہیں"فذبح الطفل من الورید الی الورید او من الاذن الی الاذن "،بچے کی گردن ایک طرف سے دوسری طرف تک پوری طرح جدا ہوگئی یا گردن ایک کان سے دوسرے کان تک جداہوگئی ،مشہور عالم اہل سنت علامہ سبط ابن جوزی کہتے ہیں کہ تیر سہ شعبہ کے سبب بچہ کاسر امام حسین کی آغوش میں ہی جداہوگیاتھا، آپ (ع) نے کٹی ہوئی گردن کاخون اپنے چلو میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک کر خداسے فریاد کی اے پروردگار عالم !اس قوم نابکار کے مظالم پر شاہد رہناانہوں نے نذر کی ہے کہ نسل پیغمبر میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے
نفس المہموم میں محدث قمی نقل فرماتے ہیں کہ امام حسین نے شہادت حضرت علی اصغر کی شہادت کے اس ہولناک منظر کو دیکھا اور باگاہ خداوند متعال میں گویا ہوئے :"اللھم احکم بیننا و بین قوم دعونا لینصرونا فقتلونا" خدایا!ہمارے اور اس قوم کے درمیان تو فیصلہ کرنا جنہوں نے پہلے ہم کو اپنی طرف بلایا اس وعدے کے ساتھ کہ یہ ہماری مدد کریں گے لیکن کئے ہوئے وعدے پر قائم نہ رہے بلکہ مزید ستم یہ کیاکہ ہم کو قتل کر ڈالا "فنودی من الھواء " فضا میں ایک آواز گونجی "یا حسین دعہ فانّ لہ مرضعۃ فی الجنۃ " اے حسین بچے کو چھوڑ دو ہم نے جنت میں اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی کاانتظام کر دیاہے
امام حسین ابھی بارگاہ خدامیں امت جفاکار کے مظالم کی شکایت کر ہی رہے تھے کہ حصین ابن تمیم ایک تیر آپ کی طرف چلادیا کہ جس سے آپ کا لب مبارک زخمی ہوگیا اور خون بہنےلگا زہرا کے لال کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہوگیا خداکے حضور میں شکایت کی ""اللھم اشکو الیک مایفعل بی و ما یفعل باخوتی و ولدی و اھل بیتی " اے میرے اللہ !تیرے حضور ان مظالم کی شکایت کرتاہوں کہ جو اہل ستم نے مجھ پر ،میرے اصحاب ،اعزاء اور اہل بیت پر ڈھائے ہیں یہ واقعہ تب اسی وقت کا ہے کہ معصوم شیر خوار آپکی آ غوش ہی میں تھا
اس کے بعد مولا نے موصوم شیر خوار کی لاش کو اپنے سینے سے لگایا اور خیمے کی جانب پلٹے جیسے ہی در خیمہ پر پہونچے سکینہ پہلے سے کھڑی ہوئی تھی باباکو دیکھ کر عرض کی بابا جان!مجھے لگتا ہے کہ آپ نے میرے بھائی کو سیراب کر دیا ہے "ظاہراً مولا شش ماہے کو عبا کے دامن میں چھپا ئے ہوئے تھے " چونکہ سکینہ نے بھائی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے یہ خیال کیا کہ اصغر پانی پی کر زیر عبا باپ کی آغوش میں محو خواب ہیں حضرت نے یہ سن کر عبا کا دامن ہٹادیا اور فرمایا:میری بیٹی ! یہ آپکا بھائی علی اصغر ہے دشمنوں نے تیر سے اس کی مہمان نوازی کی ہے اور اس کاسر بدن سے جداہوگیا
صاحب معالی السبطین شیخ کلینی کی کتاب روضۃ الکافی سے نقل کرتے ہیں: کمیت بن زید اسدی بیان کرتےہیں کہ ایک روز میں خدمت امام صادق میں شرفیاب ہوا آپ نے فرمایا "ابن زید میرے جد حسین کا مرثیہ پڑھو ! جیسے ہی میں نے مرثیے کاآغٓاز کیا امام زارو قطار رونے لگے عورتیں اور اہل حرم جو پس پردہ تھیں وہ بھی محو گریہ ہوگئیں امام ابھی رو ہی رہے تھے کہ پس پردہ سے ایک کنیز نے ایک بچے کو لاکر امام کی آغوش میں دیا امام بچے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور یہ گریہ اتناشدید تھا کہ آپ آواز گریہ کے ساتھ ساتھ اہل حرم کے رونے کی آوازیں س بھی نائی دینے لگی
اس عمل سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اہل حرم کی غرض یہ تھی کہ اس کو دیکھ کر شیرخوار کربلایاد آجائے اور رونے میں مزید اخافہ ہوجائے
اور یہ عمل تمام عزاداروں کو اس بات کی طرف رہنمائی بھی کرتاہے کہ ہر وہ چیز کہ جو تمہارے ذہنوں میں کربلاکی یاد کو تازہ کر دے اور گریہ میں اضافے کاسبب بنے اس کاانجام دینا جائز ہے اور شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اسلام کے منافی نہ ہو