ظلم انسانی فطرت سے سازگار نہیں۔ جب ضمیر مر جاتاہے تو انسان ظلم کی بیساکھیوں کا سہارا لینا شروع کردیتا ہے۔ ظلم فقط کسی کو ناحق مار دینے کا نام نہیں بلکہ چیونٹی کے منہ سے ایک دانہ چھین لینے کا نام بھی ظلم ہے اور حق بات کو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث نہ ماننا بھی ظلم ہے۔
۶۱ ہجری میں ماہ محرّم کی دسویں تاریخ کو سرزمین کربلا پر تاریخ بشریّت کا ایک ایسا انوکھا واقعہ رونما ہوا جس نے مقتول کو قاتل پر، مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ واقعہ اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر صحرا کے وسط میں پیش آیاتھا اور حکام وقت کے منصوبے کے مطابق اسے وہیں پر دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین(ع) کو سربلند بنادیا۔
ہمارے سامنے تاریخ بشریت دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسین(ع) جیسا کام نہیں لیا ۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین(ع) کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین(ع) کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین(ع) کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامام(ع) نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟
کیا امام حسین(ع) نےمکّہ میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟
اگر امام(ع) کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامام(ع) کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی تو جب آپ(ع) کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین(ع) کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین(ع) محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین(ع) سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ خدا اور رسول(ص) کے ساتھ جنگ کربلا مین ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین(ع) نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو اپنے تدبر اور بصیرت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام نے تیار کیا۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ امام کا خلوص اور مدبرانہ حکمت عملی تھی کہ جس سے آپ(ع) نے اس تحریک کو جاویداں بنا دیا۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ ہمارے درمیان دین کی خاطر فداکاری و جان نثاری سےگریز اور مدبرانہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔
مدبرانہ حکمت عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسین(ع) کے نظریہ حرّیت، جانثاری اور آپ(ع) کی حکمت عملی کے سائے میں یزیدانِ وقت کے خلاف متحد ہوکر اپنی جدوجہد کا آغاز کرے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی فاتح بن سکتے ہیں۔
حضرت امام حسین(ع) مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ دنیا کا ہر غیر متعصب انسان اور باشعور مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتاہو امام کا معتقد اور محب ہے۔ پس فکر ِ امام سے فائدہ اٹھانے اور عصر حاضر میں سیرت امام حسین(ع) پر چلنے کا حق بھی تمام مسلمانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔عصر حاضر کی کربلا میں ہماری نجات کا روشن راستہ یہی ہے کہ ہم فرقوں،مسالک اور فقہوں سے بالاتر اور غیرجانبدار ہوکر تحریک کربلا پر تحقیق کریں،سنی سنائی باتوں پر چلنے اور لکیر کا فقیر بننے کے بجائے فکرامام حسین(ع) کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پڑھیں اور دوسروں تک بھی آپ کا پیغام پہنچائیں۔آپ کے بارے میں حضور اکرم ،ختم الرسل حضت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ فرمایاہے اس کا بھی مطالعہ کریں،اور آج کی اس تنگ نظر ، متعصب سرمایہ دارانہ ،کافرانہ دنیا میں ایک حسینی و اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کریں۔
source : http://www.abna.ir