اردو
Wednesday 1st of May 2024
0
نفر 0

آئمہ علیھم السلام کے بارے میں دو طرفہ عشق

بعض اوقات یہ رابطہ تکوینی اور حقیقی ہے اور طرفین کی قرار داد اس رابطے میں کوئی اثر نہیں رکھتی اس قسم کارابطہ طرفین کے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک وجودی رابطہ ہے جس کا حقیقت اور واقعیت میں بہت بڑا حصہ ہے۔ والدین اوراولاد کا باہمی رابطہ اس قسم کا ہے یعنی اس کی بنیاد تکوین ہے اور یہ محبت ، تعلق اوراحساسات اور جذبات کے ظہور کا سرچشمہ ہے ، اس قسم کے حقیقی رابطے بہت سے انسانی کمالات اور صفات کا سبب ہیں۔ والد کے گھر میں موجود ایسی لڑکی جو کوئی خاص ذمہ داری نہیں رکھتی اکثر اوقات وہ اپنے آپ کو گھر کاہمیشہ کا مہمان تصور کرتی ہے لیکن شادی کے بعد جب آدھی رات کو جب اپنے دلبند بچے کی آواز سنتی ہے توجلدی سے نیند سے بیدار ہوجاتی ہے۔

انسان اور کائنات کے خالق کے درمیان رابطہ، پائیدار اور مستحکم ہے اوراس رابطے کا تعلق انسان کی فطرت اور روح سے ہے۔ اس رابطے کی بنیاد خالق کی اپنی مخلوق سے محبت اور کمزور بندے کی بے نیاز خدا سے احتیاج پر استوار ہے۔

'سایہ معشوق اگر افتاد بر عشق چہ شد ما بہ او محتاج بودیم او بہ ما مشتاق بود‘‘

حدیث قدسی میں ہے کہ ' لویعلم المدبرون کیف انتظاری لھم ... لما توا شوقا‘‘اگر مجھ سے اعراض کرنے والے میرے بندے جان لیتے کہ میں کتنا ان کا مشتاق ہوں تووہ اپنے شوق کی شدت کی وجہ سے مرجائے‘‘(میزن الحکمۃ،ج4،ص2797)

البتہ اللہ تعالی اورتمام انسانوں کا رابطہ یکساں نہیں ہے بلکہ بعض انسانوں کا خدا سے رابطہ زیادہ قوی اور مضبوط ہے یعنی جو لوگ بندگی ، عبودیت اورتقویٰ کی منزل پر فائز ہیں اللہ تعالی ان پر اپنی خاص رحمت اورعنایت نازل کرتاہے ، اگرچہ اس کا لطف وسیع ہے اورتمام مخلوقات اس کے لطف و کرم کے پرچم کے سائے تلے واقع ہیں۔ اولیاء اللہ اوران کے پیروکاروں کا رابطہ بھی اسی قسم کا ہے اوریہ رابطہ معنوی اورمستحکم ہے۔

شیعہ مسلک میں امام معصوم اورشیعوں کا باہمی رابطہ ازلی ہے، سمند رسے زیادہ گہرا، نسیم بہار کی طرح لطیف اورجنت کے پھلوں کی مٹھاس کی طرح ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث ہے : 'رحم اللہ شیعتنا خلقوا من فاضل طینتنا وعجنوا بماء ولایتنا یحزنون لحزننا ویفرحون لفرحنا‘‘خداوند متعال ہمارے شیعوں پر رحمت نازل کرے ، یہ ہماری بچی ہوئی مٹی سے خلق ہوئے ہیں اور ان کا وجود ہماری ولایت کے پانی سے مخلوط ہے (اسی بنا پر) یہ ہماری خوشی میں خوش اورہماری غمی میں غمگین ہوتے ہیں۔‘‘( منتھی الآمال، ج۲، ص۸۶۹.)

یہ رابطہ، اتنا گہرا اوردقیق ہے کہ آئمہ علیھم السلام کی روح کو ان کے شیعوں کی روح سے اس طرح متصل کرتاہے، کہ ان کی غمی اورخوشی دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔' رمیلہ‘‘ نامی حضرت علی علیہ السلام کا شیعہ بیان کرتا ہے کہ مجھے سخت بخار ہوگیا، جب میرے بخار میں تھوڑا سا فاقہ ہوا میں نے غسل کیااور نماز جمعہ کے ثواب کو پہنچنے اوراپنے مولا علی علیہ السلام کی اقتداء میں نماز کی کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے مسجد میں آیا ،امام علیہ السلام اس وقت منبر پر خطبہ میں مشغول تھے اورمجھے پھر شدید بخار ہوگیا نماز کے بعد میں امام علی علیہ السلام کی ملاقات کے لئے گیا، امام علیہ السلام نے میری بیماری کے بارے میں پوچھا تو میں نے وضاحت بیان کی۔ حضرت علی(ع)نے فرمایا: 'اے رمیلہ‘‘ جب مؤمن بیمار ہوتاہے تو ہم بھی بیمار ہوجاتے ہیں اس کی غمی اور اندوہ ہمیں غمگین اور اندوہناک کردیتاہے اورجو بھی وہ دعا کرتاہے ہم اس کے بعد 'آمین‘‘ کہتے ہیں اوراگروہ دعا نہ کرے تو ہم اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔‘‘ ( میزان الحکمہ، ج۲، ص۴۰۰.)

یہ مقدس اورگہرا ارتباط اولیاء الہی اورا ن کے شیعوں کی ارواح کو ایک روح قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کو باہمی ربط دیتاہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے ایک صحابی ابوبصیر کہتے ہیں: ایک محفل میں، میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا: بعض اوقات میں بغیر کسی وجہ سے غمگین یاخوش ہوجاتاہوں، اس کا کیا سبب ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ' انّ ذلک لحزن و فرح یصل الیکم منا اذا دخل علینا حزن او سرور کان ذلک داخلاً علیکم لانا وانتم من نور اللہ عزوّجلّ‘‘یہ جو بعض اوقات تم میں غمی اور خوشی آتی ہے یہ اس غمی اورخوشی کا اثر ہے جو ہم میں ایجاد ہوتی ہے اورچونکہ ہم اور تم دونوں اللہ تعالی کے نور سے خلق ہوئے ہیں، یہ ہمارے حالات، تم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔( شجرۂ طوبیٰ ، ج۲، ص۶.)

لہذا کہاجاسکتاہے جب ہم اولیاء الہی کی یاد یا ان کے اوپر آنے والے مصائب اورغموں کو یاد کرتے تو ہمارا دل ان کی طرف متوجہ ہوجاتاہے ،ہمارے دل کادریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور ہمارے دل کے آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں نیز ہمار ی آنکھیں آنسوؤں کے گرانبھا موتیوں سے چھلک پڑتی ہیں۔ یہ سب ہمارے اور ان کے درمیان روحانی تعلق کے مضبوط ہونے کا اثر ہے اورحقیقت میں یہ ان کی محبت اور لطف و عنایت سے عکاسی کرتاہے، یعنی ان کی توجہ اورلطف سے ہماری غفلت کی وجہ سے پوشیدہ ہونے والا رابطہ دوبارہ ظاہر ہوجاتاہے۔

البتہ ان کے اس لطف و کرم کے لئے تیار ہونا چاہئے اور دل میں ان کی محبت کا بیج بوکر ایک تنو مند درخت کی طرح پرورش کرنی چاہئے تاکہ وہ پھل دے سکے اورہم ان کی محبت اور اطاعت کے میٹھے پھل سے استفادہ کرسکیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی غفلتوں کو چھوڑیں ،ان کی محبت و عنایت کو قبول کرنے کیلئے دل کو آمادہ کریں اور ان کے لطف و کرم کو حاصل کریں اور اپنے آپ کو ان کے وجود و رحمت کی نسیم کے سامنے قرار دیں نیز اپنی روح کو ان کی ولاء اور محبت کی خوشبو سے معطر کریں۔

زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ آنحضرت(عج) کا ہماری یاد میں ہونا فقط اس وقت نہیں کہ ہم ان کی یاد میں ہوں، جب ہم ان سے غافل ہوتے ہیں تو پھر بھی وہ ہمیں یاد کرتے ہیں اورجو کچھ ہماری بہتری کیلئے اسے انجام دیتے ہیں ، جب کہ ایک خط میں فرماتے ہیں:' انا غیر مھملین لمراعاتکم ولا ناسین لذکرکم‘‘ ہم نے تمہارے امور میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑا ہے اورتمہاری یاد کو فراموش نہیں کیا ہے۔( احتجاج،ج۲، ص۶۰۰.)

شیخ مفید(رہ) کو لکھنے جانے والا امام علیہ السلام کا یہ خط مطلق ہے اور یہ اس وقت کو بھی شامل ہے کہ جب ہم ان کی یاد میں ہوتے ہیں اوراس وقت کو بھی شامل ہے کہ جب ہم ان سے غافل ہوتے ہیں۔


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مولود کعبہ
امام محمدتقی علیہ السلام کے ہدایات وارشادات
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دادا
قرآن میں انبیاء کرام کے معنوی جلوے
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
امام مہدی(عج) کے فرمان اور دعوی ملاقات میں تضاد
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے

 
user comment