بغداد کا اسلامی کتب خانہ نذر آتش کر دیا
ابن کثیرنے ۴۱۶ھء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے شاپور بن اردشیر کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ بہت نیکوکار اور بیدار مغز تھا۔ جب اذان کی آواز آتی تو پھر کوئی چیز اسے نماز سے نہ روک سکتی تھی۔ اس نے ۳۸۱ھ ء میں ایک گھر علمی مرکز بنانے کی خاطر وقف کیا اور اس میں بہت زیادہ کتابیں جمع کیں۔ اس کے علاوہ اس کے لیے بہت سارا غلہ بھی وقف کیا۔ یہ کتابخانہ سترسال باقی رہا۔پھر ۴۵۰ ئھ میں طغرل کی آمد پر نذر آتش کردیاگیا۔ یہ کتاب خانہ ”بین السورین “نامی محلے میں واقع تھا۔ حموی نے معجم البلدان میں بین السورین کے تذکرے میں لکھا ہے کہ یہ کرخ کے ایک بڑے محلے کا نام ہے۔اسی محلے میں بہاء الدولہ کے وزیر کا وقف کردہ کتاب خانہ موجود تھا۔پوری دنیا میں اس کتاب خانے کی کتابوں سے بہتر کتابیں موجود نہ تھیں۔یہ ساری کتابیں اماموں کے ہاتھوں لکھی گئی تھیں اور بنیادی اہمیت کی حامل تھیں۔یہ کتابیں بغداد میں سلجوتی بادشاہ طغرل بیگ اول کی آمد پر کرخ کے محلوں میں آتش زنی کے دوران دوسری اشیاء کے ساتھ جلائی گئیں۔
ن کثیر نے ۴۶۰ ئھ کے حالات میں شیخ ابو جعفر طوسی کے حالات میں لکھاہے کہ ۴۴۸ئھ میں کرخ میں ان کا گھر اور کتاب خانہ نذر آتش کردیے گئے۔۱
اس سے بھی زیادہ ستم مصر کے فاطمی خلفاء کے کتاب خانوں پرہوا جیساکہ مقریزی(متوفی ۸۴۸ھ)نے فاطمی حکمرانوں کے محلات میں خزانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کتابوں کے خزانے کا ذکر چھیڑا ہے۔ یہ کتاب خانہ عجوبہ روزگار تھا۔ کہاجاتاہے کہ تمام عالم اسلام میں قاہرہ کے قصر شاہی میں موجود اس کتاب خانے سے بڑا کتاب خانہ کہیں نہ تھا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اس میں سولہ لاکھ کتابیں تھیں۔
ان کتابوں کی جلدوں (چمڑوں )کو غلاموں اور کنیزوں نے لوٹ لیا تاکہ ان سے پاؤں میں پہننے کاسامان بنائیں نیز ان اوراق کو اس بہانے جلادیا کہ یہ شاہی قصر سے ہاتھ لگے ہیں۔ اور یہ اوراق عظیم لوگوں کے ان بیانات پر مشتمل ہیں جو ان کے مذہب سے موافقت نہیں رکھتے۔ان کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں پانی میں غرق ہوگئیں یاتلف کر دی گئیں یادیگر جگہوں میں لے جائی گئیں۔ کچھ کتابیں جو جلنے سے بچ گئی تھیں اور ہوا نے ان کے اوپر مٹی کی تہہ جمادی وہ آج بھی اس علاقے کے گردونواح میں نظر آتی ہیں جسے ”کتابوں کاٹیلہ یاکھنڈر“کہتے ہیں۔
کرخ کے کتاب خانے کا بانی آل بویہ (جوشیعہ تھے)کا وزیر تھا۔جب مکتب خلفاء سے تعلق رکھنے والے سلجوتی حکمرانوں کا تسلط ہوگیا تو انہوں نے اسے جلاکر راکھ کردیا۔نیز شیخ طوسی کے کتاب خانے کو بھی نذر آتش کیا جو کرخ ہی میں تھا۔ جب مصر میں صلاح الدین کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کے فاطمی خلفاء کے کتاب خانوں کے ساتھ اس سے بھی سخت برتاؤ کیا۔۲
سوچنے کامقام یہ ہے کہ مکتب خلفاء کے مخالفین سے تعلق رکھنے والے کتاب خانوں اور کتابوں کو جلانے کے باعث سنت رسول(ص) کاکتنا بڑا حصہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوگیا ہوگا؟ ان کتابوں میں آل رسول اللہ(ص) کے حق میں خاص کر وصیت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی کتنی صحیح اور باقاعدہ اسناد والی احادیث ہوں گی جو حق پوشی کی اس روش کے باعث صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوں گی؟ان کا صحیح علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
سنت رسول اللہ(ص) کو چھپانے کے مذکورہ طریقوں میں سب سے خطرناک طریقہ رسول اللہ(ص) کی سنت اور صحابہ کی سیرت میں تحریف اور ان کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ذیل میں ذکر ہونے والی دوالگ بحثوں میں اس کا تذکرہ ہوگا۔
صحابہکی سیرت کے بعض حصوں کو حذف اور ان میں تحریف کرنا
حقیقت پوشی کے طریقوں میں سے ایک روایات کے بعض حصوں کو حذف کرنا اور ان میں تحریف کرنا ہے جیسا کہ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں امام حسین کے خطبے کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ طبری اور ابن اثیر نے اپنی تاریخوں میں اس خطبے کو یوں نقل کیاہے:
اما بعد میرے نسب کو پہچانو اور دیکھو میں کون ہوں؟پھر اپنے گریبانوں میں جھانکو اور اپنی ملامت آپ کرو۔کیاتم لوگوں کے لیے مجھے قتل کرنا اور میری حرمت کوپامال کرناجائز ہے؟کیامیں تمہارے نبی(ص)کی بیٹی کافرزند نہیں ہوں؟کیامیں نبی(ص) کے وصی ابن عم،مسلم اول اور سب سے پہلے اللہ پر ایمان لانے والے کا بیٹا نہیں ہوں؟کیامیں اس شخص کا بیٹا نہیں ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کی سب سے پہلے تصدیق کی جو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے آئے تھے؟کیاسیدالشھداء حمزہمیرے باپ کے چچا نہیں ہیں؟کیاجعفر طیار ذوالجناحین میرے چچانہیں ہیں؟ الخ ۳
ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں اس روایت میں تحریف کی ہے اور کہاہے کہ امام حسین نے فرمایا:
اپنے گریبانوں میں جھانکو اور اپنا محاسبہ کرو۔کیاتم لوگوں کے لیے مجھ جیسے انسان کا قتل کرنارواہے؟جبکہ میں تمہارے نبی(ص) کی بیٹی کا بیٹاہوں اور روئے زمین پر میرے سوانبی(ص) کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔میرا باپ علی(ع)ہے۔ جعفرذوالجناحین میرے چچا ہیں اور سید الشھداء حمزہمیرے باپ کے چچا ہیں۔ ۴
دیکھا آپ نے کہ ابن کثیر نے امام حسین کے خطبے سے وصیت کے تذکرے کو غائب کردیاہے کیونکہ اس بات کا تذکرہ حضرت علی(ص) اورسبط رسول(ص) امام حسن اور سبط رسول(ص) امام حسین کے استحقاق حکومت سے لوگوں کی آگاہی کا باعث بنتاہے اور ظاہر ہے کہ حکمرانوں کو اس بات کی ترویج بری لگتی تھی۔ سیرت رسول(ص) میں بھی اسی طرح کے حذف وکتمان اور پردہ پوشی کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ حقیقت پوشی کی دسویں قسم(جس کی بحث اس کے بعد ہوگی)میں ہم اس کی مثال پیش کریں گے۔
صحیح احادیث و روایات کی جگہ جعلی احادیث وروایات گھڑنے کا عمل
پردہ پوشی کا ایک طریقہ صحیح روایات کی جگہ احادیث گھڑنے اور خود ساختہ روایات کی ترویج کا عمل ہے۔ یہاں ہم اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
طبری اپنی تاریخ میں حضرت ابوذرغفاریکے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہے:
اس سال یعنی ۳۰ھ ء میں حضرت ابوذر غفاری اور معاویہ کا معروف واقعہ پیش آیا۔ جب معاویہ نے انہیں شام سے مدینہ واپس بھیج دیا تھا۔اس واقعے کی بہت سی وجوہات بتائی گئی ہیں جن میں سے اکثر وجوہات کا ذکر مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ اس واقعے میں معاویہ کی صفائی پیش کرنے والوں نے ایک واقعہ نقل کیاہے جسے ”سری“نے مجھے لکھاہے۔ وہ اس میں لکھتاہے کہ شعیب کو سیف نے بتایا الحدیث۔
ابن اثیر نے بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے لکھا ہے:
اسی سال حضرت ابوذرکا معروف واقعہ پیش آیا اور معاویہ نے انہیں شام سے مدینہ بھیج دیا۔اس واقعے کی بہت سی وجوہات ذکر ہوئی ہیں مثال کے طور پر معاویہ کاحضرت ابوذرکو دشنام دینا،قتل کی دھمکی دینا،انہیں بغیر زین پوش کے سواری پر شام سے واپس مدینہ بھیجنا اور نہایت شرمناک طریقے سے انہیں مدینہ سے نکال دینا وغیرہ جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سیف کون ہے جس طبری نے حضرت ابوذرکے واقعے کو نقل کیاہے اور جس کی روایت سے معاویہ کی صفائی پیش کرنے والوں نے تمسک کیاہے؟دیکھتے ہیں کہ سیف کی روایات کس قسم کی ہیں ؟سیف سے مراد سیف بن عمر تمیمی ہے۔اس کی وفات تقریباً ۱۷۰ ئھ میں ہوئی۔اس نے عصر رسول(ص)، سقیفہ بنی ساعدہ،بیعت ابوبکر،مرتدین کے ساتھ جنگوں،فتوحات اور جنگ جمل کے بارے میں روایات نقل کی ہیں۔ علم رجال کے ماہرین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صغیف القول، ناقابل اعتبار، بے کار اور کذاب ہے نیز وہ احادیث گھڑتا تھا۔ اسے زندیق بھی کہا گیا ہے۔۵
حوالہ جات
۱ البدایہ والنہایہ ج۱۲ صفحہ ۱۹،۹۷۔
۲ خطط المقریزیہ ج۲ صفحہ ۲۵۴،۲۵۵۔
۳ تاریخ طبری ج۲ صفحہ ۳۲۹، تاریخ کامل ابن اثیر ج۴ صفحہ ۵۲ طبع اول مصر
۴ البدایہ و النہایہ ج۷ صفحہ ۱۷۹
۵ یحی بن معین متوفی ۲۳۳ئھ، ابوداؤد متوفی ۲۷۵ئھ، امام نسائی متوفی ۳۰۳ ئھ، ابن ابی حاتم رازی متوفی ۳۲۷ ئھ، ابن حبان متوفی ۳۵۴ ئھ اور امام حاکم نیشا پوری متوفی ۴۰۵ء ھ وغیرہ نے اس پر جرح کی ہے۔
source : http://www.ahl-ul-bayt.org