اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

امام ہمیشہ موجود رہتاہے

جس طرح اللہ کی حکمت اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے نبیوں کوبھیجاجائے اسی طرح اس کی حکمت یہ بھی تقاضاکرتی ہے کہ نبیوں کے بعد بھی انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ کی طرف سے ہردورمیں ایک امام ہو، جواللہ کے دین اورنبیوں کی شریعت کو تحریف سے محفوظ رکھ سکے انسانوں کواس زمانے کی ضرورتوں سے آگاہ کرے اوران کواللہ کے دین اورنبیوں کے آئین کے طرف بلائے۔ اگرایسانہ ہو، تو انسان کی خلقت کامقصد، تکامل اورسعادت فوت ہوجائے گا۔ انسان کی ہدایت کے راستے بندہوجائیں گے نبیوں کی شریعت رایگاں چلی جائے گی اورانسان چاروں طرف بھٹکتاپھرے گا۔

اس وجہ سے ہماراعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام کے بعد ہرزمانے میں ایک امام موجودرہاہے۔ ”یاایھالذین آمنوااتقوااللہ وکونوامع الصادقین“ 1 ریعنی اے ایمان لانے والواللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔

یہ آیت کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے اوربغیرکسی شرط کے صادقین کی پیروی کاحکم، اس بات پردلالت کرتاہے کہ ہرزمانے میں معصوم امام موجود رہتاہے، جس کی پیروی ضروری ہے، بہت سے سنی اورشیعہ علماء نے اپنی تفسیروں میں اس بات کی طرف اشارہ کیاہے۔ 2

حقیقت امامت

امامت تنہا ظاہری طورپرحکومت کرنے کامنصب نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت عظیم، روحانی منصب ہے اسلامی حکومت کی رہبری کے علاوہ دین اوردنیاکے تمام امورمیں لوگوں کی ہدایت کرنابھی امام کی ذمہ داری میں شامل ہے امام انسانوں کی روحی وفکرکی ہدایت کرتے ہوئے پیغمبراسلام (ص) کوجن مقاصدکے لئے مبعوث کیاگیا تھا ان کوپوراکرتاہے۔

یہ وہ عظیم منصب ہے، جواللہ نے حضرت ابراہیم کونبوت اوررسالت کی منزل طے کرنے کے بعد، بہت سے امتحان لے کرعطاکیاتھا، یہ وہی منصب ہے جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاکی تھی کہ ”ایے پالنے والے ! یہ منصب میری اولادکوبھی عطاکرنا“۔ ان کواس دعاکاجواب یہ ملاکہ یہ منصب ظالموں اورگنہگاروں کونہیں مل سکتا“ واذابتلاابراہیم ربہ بکلامات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لاینال عہدی الظالمین ۔

یعنی اس وقت کویادکرو جب ابراہیم کے رب نے کچھ کلمات ے ذریعہ ان کاامتحان لیااورجب انہوں نے وہ امتحان تمام کردیا، توان ےس کہاگیاکہ ہم نے تمہیں لوگوں کاامام بنادیا، جناب ابراہیم نے عرض کیااورمیری اولاد؟ (یعنی میری اولادکوبھی امام بنانا) اللہ نے فرمایا کہ میرایہ منصب (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچتا (یعنی آپ کی ذریت میں سے صرف معصومین کوحاصل ہوگا) 3۔

ظاہرہے کہ اتناعظیم منصب صرف ظاہری حکومت تک محدودنہیں ہوسکتااگرامامت کی تفسیراس کے سوااورکچھ کی جائے تواوپربیان کی گئی آیت کاکوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہ جائے گا۔

ہماراعقیدہ ہے کہ تمام اولوالعزم پیغمبرمنصب امامت پرفائزتھے انہوں اپنی جس رسالت کی تبلیغ کی اس کواپنے عمل کے ذریعہ محقق بھی کیا، وہ انسانوں کے معنوی ، مادی اورظاہری وباطنی رہبرتھے کیوں کہ پیغمبراسلام (ص) اپنی نبوت کی ابتداء سے ہی امامت کے اس عظیم منصب پربھی فائزتھے، لہذا ان کے کام کوصرف اللہ کے پیغام کوپہونچانے تک ہی محدودنہیں کیاجاسکتاہے۔

ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبراسلام(ص) کے بعدآپ کی معصوم نسل میں میں امامت کاسلسلہ باقی رہا، امامت کے بارے میں اوپرجووضاحت کی گئی ہے، اس سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے کہ اس منصب امامت پرفائزہونے کے لئے بہت اہم شرطیں ہیں، جیسے عصمت وطہارت، تمام دینی معرفت کاعلم، ہرزمان ومکان کے انسانوں اوران کی ضرورتوں کی جان کاری۔

امام گناہ اورخطاسے معصوم ہوتاہے:

امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطاوگناہ سے معصوم ہوکیونکہ غیرمعصوم کامل طورپرمورداعتمادنہیں بن سکتااس لئے اس کے اصول دین وفروع دین کوحاصل نہیں کیاجاسکتااس وجہ سے ہماراعقیدہ ہے کہ امام کاقول، فعل اورتقریرحجت ہیں، اوردلیل شرعی شمارہوتے ہیں تقریرسے مراد ہی ہے کہ اگرامام کے سامنے کوئی کام انجام دیاجائے اورامام اس کام کودیکھ نے کے بعداس سے منع نہ کریں، توامام کی یہ خاموشی آپ کی تائیدشمارہوتی ہے۔

امام شریعت کامحافظ ہوتاہے:

ہماراعقیدہ ہے کہ امام اپنے پاس سے کوئی قانون یاشریعت پیش نہیں کرتاہے بلہ امام کاکام پیغمبراسلام(ص) کی شریعت کی حفاظت، دین کی تبلیغ اورانسانوں کواس کی طرف ہدایت کرناہے۔

امام اسلام کاسب سے زیادہ جاننے والاہوتاہے:

ہماراعقیدہ ہے کہ امام اسلام کے تمام اصول وفروعات، احکام، قوانین اورقرآن کریم کے معنی وتفسیرکامکمل طورپرعالم ہوتاہے یہ تمام علوم، امام کو اللہ کی طرف سے حاصل ہوتے ہیں اورپیغمبراسلام(ص) کے وسیلہ سے ان تک پہنچتے ہیں۔

ہاں ! ایساہی علم مکمل طورپرمورداعتمادبن سکتاہے اوراس ذریعہ ہی اسلام کی حقیقت کوسمجھاجاسکتاہے ۔

امام معصوم ہوتاہے

ہماراعقیدہ ہے کہ امام (پیغمبراسلام(ص) کاجانشین) منصوص ہوتاہے یعنی پہلے امام کاتعین پیغمبراسلام (ص) کے ذریعہ ہوتاہے اوربعدمیں ہرامام اپنے سے بعدوالے امام کاتعین کرتاہے، دوسرے الفاظ میں امام کاتعین بھی پیغمبرکی طرح اللہ کی طرف سے (پیغمبر کے ذریعہ) ہوتاہے۔ جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں قرآن کریم میں بیان ہواہے ”انی جاعلکم للناس اماما“ یعنی میں نے تمہیں انسانوں کاامام بنایا۔

اس کے علاوہ عصمت اورعلم کاوہ بلنددرجہ (جوکسی خطاوغلطی کے پیغمبرتمام احکام والہی تعلیمات کااحاطہ کیاہو)ایساچیزیں ہیں، جن سے اللہ اوراس کے پیغمبر کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے۔

اس وجہ سے ہمارامانناہے کہ کسی کوانتخاب کے ذریعہ امام نہیں بنایاجاسکتا۔

امام پیغمبراسلام (ص) کے ذریعہ معین ہوئے ہیں:

ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبراسلام (ص) نے اپنے بعدکے لئے اماموں کومعین فرمایاہے اورایک مقام پرعمومی طورپرسب کوپہچنوایابھی ہے۔

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ پیغمبراسلام(ص) نے مکے اورمدینے کے درمیان ”خم“ کے میدان میں قیام کیا وہاں پرآپ نے ایک خطبہ بیان فرمایا اوراس میں بتایاکہ ”میں جلدہی تم لوگوں کے درمیان سے جانے والاہوں ۔ انی تارک فیکم الثقلین، اولی ہماکتاب اللہ فیہ الہدی والنور… واہل بیتی ، اذکرکم اللہ فی اہل بیتی“ 4 یعنی میں تم لوگوں کے درمیان دوگراں قدرچیزیں چھوڑکرجارہاہوں، ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں نوراورہدایت ہے … اوردوسرے میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ خدارامیرے اہل بیت کوفراموش نہ کرنا(اس جملہ کوتین باتکرارکیا)۔

یہی مطلب صحیح ترمذی میں بھی بیان ہواہے اس میں صراحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ پیغمبراسلام نے فرمایاکہ اگران دونوں کے دامن سے وابستہ رہے تو ہرگزگمراہ نہیں ہوں گے ۔5

یہ حدیث سنن دارمی، خصائص نسائی، مسنداحمدودیگرمشہورکتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے اس حدیث میں کوئی تردیدنہیں ہے اورحدیث تواترشمارہوتی ہے کوئی بھی مسلمان اس حدیث سے انکارنہیں کرسکتاہے روایت میں ملتاہے کہ پیغمبراسلام نے اس حدیث کوصرف ایک بارہی نہیں بلکہ کئی مرتبہ مختلف موقعوں پربیان فرمایاہے۔

ظاہرہے کہ پیغمبراسلام کے تمام اہل بیت ، توقرآن کے ساتھ یہ عظیم مقام حاصل نہیں کرسکتے ہیں لہذایہ اشارہ پیغمبر(ص) کی ذریت سے آئمہ معصومین علیہم السلام کی طرف ہی ہے (کچھ ضعیف ومشکوک حدیثوں میں اہل بیتی کی جگہ سنتی استعمال ہواہے)۔

اب ہم ایک دوسری حدیث کے ذریعہ استنادکرتے ہیںیہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، صحیح ابی داؤداورمسندحنبل جیسی مشہورکتابوں میں نقل ہوئی ہے حدیث یہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایاکہ ”لایزال الدین قایماحتی ………………6 یعنی دین اسلام قیامت تک باقی رہے گایہاں تک کہ بارہ خلیفہ تم پرحکومت کریں گے اوریہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔

ہماراعقیدہے ہے کہ ان روایتوں کے لئے، اس عقیدے کے علاوہ جوشیعہ امامیہ کابارہ اماموں کے بارے میں پایاجاتاہے، کوئی دوسری تفسیرنہیں ہوسکتی غورکروکہ کیا اس کے علاوہ بھی اورکوئی تفسیرہوسکتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبراسلام (ص) کے ذریعہ نصب ہوئے ہیں :

ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے بہت سے موقعوں پرحضرت علی علیہ السلام کو(اللہ کے حکم سے) اپنے جانشین کی شکل میں پہچنوایاہے خاص طورپرآخری حج سے لوٹتے وقت غدیرخم میں اصحاب کے عظیم مجمع میں ایک خطبہ بیان فرمایاجس کایہ جملہ بہت مشہورہے کہ ”ایھاالناس الست اولی بکم من انفسکم؟ قالوا بلی، قال من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ“ 7 یعنی اے لوگوں کیامیں تمہارے نفسوں پرتم سے زیادہ تصرف نہیں رکھتاہوں؟ سب نے ایک جٹ ہوکرکہا، ہاں! آپ ہمارے نفسوں پرہم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ پیغمبراسلام نے فرمایابس جس جس کامیں مولاہوں اس کے علی مولی ہیں۔

کیونکہ ہمارامقصد اس عقیدے کی دلیلیں بیان کرنایااس کے بارے میں بحث کرنانہیں ہے اس لئے ہم بس اتناکہتے ہیں کہ اس حدیث سے نہ توسادگی کے ساتھ گزراجاسکتاہے اورنہ ہی یہاں پرولایت سے دوستی وسیدھی سادی محبت کومرادلیا جاسکتاہے کیونکہ جس ولایت کوپیغمبراسلام(ص) نے اتنے بڑے انتظام کے بعداور تاکیدکے ساتھ بیان فرمایاہووہ معمولی دوستی نہیں ہوسکتی۔

کیایہ وہی چیزنہیں ہے ؟ جس کوابن اثیرنے کامل میں لکھاہے کہ پیغمبراسلام (ص) نے ابتداء کارمیں جب آیت ”وانذرعشیرتک الاقربین“ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈراؤ۔ نازل ہوئی، تواپنے رشتہ داروں کو جمع کیااوران کے سامنے اسلام کوپیش کیااس کے بعد فرمایا”ایکم یوازرنی علی ھذاالامرعلی ان یکون اخی ووصی وخلیفتی فیکم“ یعنی تم میں سے کون ہے جواس کام میں میری مددکرے تاکہ وہ تمہارے درمیان میرابھائی، وصی، اورخلیفہ بنے۔

کسی نے بھی پیغمبراسلام (ص) کے اس سوال کاجواب نہیںدیابس علی (ع)ہی تھے جنہوں نے کہاکہ انایانبی اللہ اکون وزیرک اللہ ”یعنی اے اللہ کے نبی اس کام میں ، میں آپ کی مددکروں گا۔

پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیااورفرمایا اناھذاخی ووصی وخلیفتی فیکم 8 ”یعنی یہ (علی)تمہارے درمیان میرابھائی، میرا وصی اورمیرا خلیفہ ہے“۔

کیایہ وہی مطلب نہیں ہے جس کے بارے میں پیغمبراسلام (ص) ، اپنی عمرکے آخری حصہ میں دوبارہ تاکیدکرناچاہتے تھے۔ جیساکہ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایتونی اکتب لکم کتابالاتضل بعدی ابدا 9 ”یعنی قلم کاغذلاؤمیں تمہارے لئے کچھ لکھ دوں، تاکہ تم میرے بعد ہرگزگمراہ نہ ہوسکو“ حدیث کے آخیرمیں بیان ہواہے کہ کچھ لوگوں نے اس کام میں پیغمبر(ص) کوتوہین آمیزباتیں کہیں اورآپ جولکھناچاہتے تھے ، وہ آپ کولکھنے نہیں دیاگیا۔

ہم، اس بات کوپھردہراتے ہیں کہ ہمارامقصدمعمولی سے استدلال کے ساتھ اپنے عقایدکو بیان کرناہے اس کے بارے میں پورابحث کرنانہیں ہے ورنہ یہ کتاب دوشری شکل اختیارکرلے گی۔

ہرامام کی اپنے بعدآنے والے امام کے لئے تاکید:

ہماراعقیدہ ہے کہ بارہ اماموں میں سے ہرامام ، امام کے لئے ان سے پہلے امام نے تاکیدفرمائی ہے ان میں سے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں ان کے بعد ان کے دونوں بیٹے حضرت امام حسن مجتبی (ع) اورحضرت امام حسین سیدالشہداء (ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام علی بن الحسین (ع)ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت امام محمدباقر(ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام جعفرصادق (ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام موسی کاظم (ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام رضا(ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت علی نقی (ع) ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت امام محمدتقی(ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام حسن عسکری (ع) ان کے بعدان کے بیٹے حضرت امام مہدی علیہ اسلام ہیں ان کے لئے ہماراعقیدہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔

البتہ حضرت مہدی (ع) کے وجودکے صرف ہم ہی معتقدنہیں ہیں، بلکہ ان پرتمام مسلمانوں کاعقیدہ ہے کچھ سنی علماء نے مہدی (ع) کی روایتوں کے متواتر ہونے کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں یہاں تک کہ کچھ سال پہلے ”رابط الاعلم الااسلام“ کی طرف سے چھپنے والے ایک رسالے میں حضرت 

مہدی کے وجودکے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھاگیاکہ(ع) کاظہورمسلم ہے اس کے لئے حضرت مہدی(ع) کے بارے میں پیغمبراسلام کی حدیثوں کوبہت سی مشہورکتابوں سے نقل کیاگیاہے 10 کچھ لوگ حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ آخری زمانے میں پیداہوں گے۔

لیکن ہماراعقیدہ ہے کہ وہ بارہویں امام ہیںاورابھی تک زندہ ہیں اورجب اللہ چاہے گاوہ اس کے حکم سے زمین کوظلم وستم سے پاک کرنے اورعدل الہی کی حکومت قائم کرنے کے لئے قیام کریں گے۔

حضرت علی علیہ السلام تمام صحابہ سے افضل ہیں:

ہماراعقیدہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام صحابہ سے افضل تھے اورپیغمبراسلام کے بعدپوری امت میں ان کو اولویت حاصل تھی لیکن ان سب کے باوجود، ہم ان کے بارے میں ہرطرح کے غلوکوحرام مانتے ہیں ہماراعقیدہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کی خدائی یااس سے مشابہ کسی دوسری چیزکے قائل ہیں وہ کافر اوراسلام سے خارج ہیں ہم ان کے عقیدے سے بیزارہیں ، افسوس کی بات ہے کہ ان کانام شیعوں کے نام کے ساتھ لیاجاتاہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیداہوگئی ہیں جب کہ شیعہ امامیہ علماء نے اپنی کتابوں میں اس گروہوں کواسلام سے خارج قراردیاہے۔

اصاب عقل وتاریخ کی عدالت میں

ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبراسلام کے بہت سے اصحاب جانثار، عظیم مرتبہ اورمحترم تھے قرآن کریم کی آیتوں اورروایتوں میں ان کی فضیلتوں کاذکرآج بھی موجود ہے ۔

لیکن اس کامطلب یہ نہیںہے کہ پیغمبراسلام کے تمام ساتھیوں کومعصوم مان کران کے تمام اعمال کو صحیح تسلیم کرلیاجائے، کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں (جیسے سورہ برائت کی آیت ، سورہ نوراورسورہ منافقین کی آیتوں میں) منافقوں کے بارے میں باتیں ہوئی ہیں اوریہ منافق ظاہراپیغمبراسلام کے اصحاب شمارہوتے تھے لیکن قرآن کریم نے ان کی بہت مزمت کی ہے کچھ اصحاب ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبراسلام کے بعدمسلمانوںکے درمیان جنگ کی آگ بھڑکائی، اپنے وقت کے امام اورخلیفہ سے اپنی بیعت کوتوڑااورہزاروں مسلمانوں کاخون بہایا کیاان سب کے ہوتے ہوئے بھی، ہم سب صحابہ کوہرطرح سے پاک وصاف مان سکتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ، جنگ کرنے والے دونوں گروہوں کوکس طرح پاک ماناجا سکتاہے (مثلاجنگ جمل وجنگ صفین کے دونوں گروہوں کوپاک نہیں ماناجاسکتا) کیونکہ دونوںکوپاک وصاف سمجھاناتضادہے اوریہ ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے وہ لوگ جواس کی توجیہ اجتہادکوموضوع بناتے ہیں اوراس پرتکیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے ایک حق پرتھا اوردوسراباطل پر، مگرچونکہ دونوں نے اپنے اپنے اجتہادسے کام لیا، لہذااللہ کے نزدیک دونوں معذورہی نہیں بلکہ ثواب کے بھی حقدارہیں ہم اس قول قبول نہیں کرتے۔

اجتہادکوبہانہ بناکر، نہ پیغمبراسلام کے جانشین سے بیعت توڑی جاسکتی ہے، نہ جنگ کی آگ بھڑکائی جاسکتی ہے اورنہ بے گناہوں کاخون بہایاجاسکتاہے اگران تمام خون ریزیوں کی توجیہ اجتہادکے ذریعہ کی جاسکتی ہے توپھرکونسا کام بچتاہے جس کی توجیہ نہ ہوسکتی ہو؟

ہم واضح طورپرکہہ سکتے ہیں کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ دنیاکے تمام انسان یہاں تک کہ پیغمبراسلام کے اصحاب بھی اپنے اعمال کی وجہ سے اچھے یابرے ہیں۔ قرآن کریم کی کسوٹی ”ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم “ 11 ان پربھی صادق آتی ہے یعنی تم میں اللہ کے نزدیک وہ محترم ہیں جوتقوی میں زیادہ ہیں لہذاہمیں اصحاب کامقام ان کے اعمال کے مطابق طے کرناچاہئے ۔اوران کے بارے میں منطقی طورپرفیصلہ لیناچاہئے لہذاہمیں کہناچاہئے کہ جوپیغمبراسلام کے زمانے میں مخلص تھے اوران کے بعدبھی اسلام کی حفاظت کی کوششیں کی اورقرآن کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کووفاکرتے رہے، انہیں اچھامانتے ہوئے ان کااحترام کرناچاہئے۔

جولوگ پیغمبراکرم کے زمانے میں منافقوں کی صف میں تھے اورہمیشہ ایسے کام انجام دیتے تھے جس سے پیغمبراسلام کادل رنجیدہ ہوتاتھا یاجنہوں نے پیغمبراسلام کے بعد اپنے راستے کوبدل دیااوراپنے کاموں سے اسلام اورمسلمانوں کونقصان پہنچایا، ایسے لوگوں سے محبت نہ کی جائے۔ قرآن کریم فرماتاہے کہ ”لاتجدواقومایومنون باللہ والیوم الآخریعہدن من عہداللہ ورسولہ ولوکانواآباؤہم اوابناہم اواخوانہم اوعشیرتہم اولئک کتب فی قلوبہم الایمان“ 12۔

یعنی تمہیں کوئی ایسی قوم نہیں ملے گی جواللہ اورآخرت پرایمان لے آنے کے بعد اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں سے محبت کرتی ہو، چاہے وہ (نافرمانی کرنے والے) ان کے باپ ، دادا، بیٹے، بھائی یاخاندان والے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیاہے۔

ہاں! ہماراعقیدہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پیغمبراسلام کوان کی زندگی میں یاشہادت کے بعد اذیتیں پہنچائیں ہیں، قابل تعریف نہیں ہیں۔

لیکن یہ ہرگزنہیں بھولناچاہئے کہ پیغمبراسلام کے کچھ اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بہت بڑی بڑی قربانیاں بھی دی ہیں اوروہ اللہ کی طرف سے تعریف کے حقدارہیں اسی طرح پیغمبراسلام کے بعد، قیامت تک دنیامیں پیداہونے والے انسان، اگرپیغمبراسلام کے سچے صحابی کی راہ پرچلے، تووہ بھی قابل تعریف ہیں۔ قرآن کریم فرماتاہے کہ السابقون الاولون من المہاجرین والانصاروالذین اتبعوا ہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ 13

یعنی مہاجرین وانصارمیں سبقت کرنے والوں سے اورنیکیوں میں ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگیااوروہ اللہ سے راضی ہیں۔

یہ پیغمبراسلام کے اصحاب کے بارے میں، ہماراعقیدہ کانچوڑہے۔

آئمہ اہلبیت (ع) کاعلم، پیغمبرکاعلم ہے

متواترروایتوں کی بناپرپیغمبراسلام نے ہمیں قرآن واہل بیت علیہم السلام کے بارے میں حکم دیاہے کہ ان دونوں کے دامن سے وابستہ رہناتاکہ ہدایت پررہواس بناء پرہم آئمہ اہل بیت علیہم السلام کومعصوم مانتے ہیں اوران کے تمام اعمال، حدیث اورتقریر(یعنی ان کے سامنے کوئی عمل انجام دیاگیاہواورانہوں نے اس سے منع نہ کیاہو) ہمارے لئے سندوحجت ہے قرآن کریم اورپیغمبراسلام کی سیرت کے بعدان کاعمل، قول اورتقریرفقہ کاایک منبع ہے۔

بہت سی معتبرروایتوں میں ملتاہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے فرمایاہے کہ ہم جوکچھ بیان کرتے ہیں، سب کچھ پیغمبراسلام کابیان کیاہواہے، جو ہمارے باپ داداوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچاہے جب ہم اس نکتہ پرتوجہ کرتے ہیں، تواس سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے کہ انت کی روایتیں پیغمبراسلام کی ہی روایتیں ہیں ہم سب کومعلوم ہے کہ اگرپیغمبراسلام کی روایتیں مورداعتماداورثقہ انسان کے ذریعہ نقل ہوں توتمام علماء اسلام کے نزدیک قابل قبول ہیں۔

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے جابرسے فرمایاہے کہ ”یاجابرانالوکنانحدثکم برایناوہوانالکنامن الہالکین ولکن نحدثکم باحادیثا………… 14

یعنی اے جابر! اگرہم اپنی مرضی سے ہوائے نفس کے طورپرکوئی حدیث تم سے بیان کریں توہلاک ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے لیکن ہم تم سے وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جوہم نے پیغمبراسلام سے خزانے کی طرح جمع کیاہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتاہے کہ کسی نے آپ سے سوال کیاجب آپ نے اس کے سوال کاجواب دیا، تواس نے آپ سے اپنے نظریے کوبدلنے کے لئے کہااورآپ سے بحث کرنے لگاامام علیہ السلام نے اس سے فرمایاکہ ان باتوں کوچھوڑ ”ماعجبتک فیہ من شئی فھوعن رسول اللہ“۔

یعنی میں نے جوتجھے جواب دیاہے ، اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ کابیان فرمایاہواہے 15۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس حدیث کی کافی، تہذیب، استبصاراورمن لایحضرہ الفقیہ جیسی معتبرکتابیں موجودہیں، لیکن ان کتابوں کے معتبرہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ جوروایتیں ان میں موجودہیں ان میں راویوں کے لئے ہمارے پاس علم رجال کی کتابیں موجودہیں ان میں روایوں کے تمام حالات وسلسلہ سندبیان کئے گئے ہیں ہماری نظرمیںوہی روایتیں قابل قبول ہیں جس کی سندمیں تمام راوی قابل اعتمادوثقہ ہوں اس بناپراگرکوئی روایت ان کتابوں میں بھی ہواوراس میں یہ شرط نہ پائی جاتی ہو، تووہ ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایسابھی ممکن ہے کہ کسی روایت کاسلسلہ سندصحیح ہو، لیکن ہمارے بزرگ عالموں اورفقہیوں نے شروع سے ہی اس کونظراندازکرتے ہوئے اس سے پرہیزکیاہو، (شایداس میں کچھ اورکمزوریاں دیکھی ہو) توہم ایسی روایتوں کو”معرض عنہا“ کہتے ہیں اورایسی روایتوں کاہمارے یہاں کوئی اعتبارنہیں ہے۔

اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جولوگ ہمارے عقیدوں کوصرف ان کتابوں میں موجودکسی روایت یاروایتوں کاسہارالے کرسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی تحقیق کیے بناکہ اس روایت کی سندصحیح ہے یاغلط ، توان کایہ طریقہ کارغلط ہے۔

دوسرے لفظوں میں، اسلا م کے کچھ مشہورفرقوں میں کچھ ایسی کتابیں پائی جاتی ہیںجن کوصحیح کے نام سے جاناجاتاہے ان کتابوں کولکھنے والوں نے ان میں بیان روایتوں کے صحیح ہونے کی ضمانت لی ہے اوردوسرے لوگ بھی ان کوصحیح سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں معتبرکتابوں کامطلب یہ ہرگزنہیں ہے، بلکہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے لکھنے والے مورداعتمادافرادتھے ان کتابوں میں بیان کی گئی روایت کاصحیح ہونا، علم رجال کی کتابوں میں مذکورراویوں کے حالات کی تحقیق پرمنحصرہیں۔

اس بیان سے ہمارے عقائدکے بارے میں اٹھنے والے بہت سے سوالوں کے جواب خودمل گئے ہوں گے کیونکہ اس طرح کی غفلت برتنے کی وجہ سے ہمارے عقائدکومشخص کرنے میں بہت سی غلطیاں کی جاتی ہیں۔

بہرحال قرآن کریم کی آیتوں اورپیغمبراسلام کی روایتوں کے بعد، آئمہ معصومین علیہم السلام کی حدیث، ہماری نظرمیں معتبرہیں اس شرط کے ساتھ کی ان احادیث کااماموں سے صادرہونا، معتبرطریقوں سے ثابت ہو۔

1. سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

۲. فخررازی اس آیت کے تحت بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ہرعام انسان جائزالخطاہے یعنی اس سے غلطی کے سرزد ہونے کے امکان پائے جاتے ہیں لہذاامام اورپیشوااس کوہوناچاہئے جومعصوم ہواورمعصوم وہی ہے جن کواللہ نے صادقین کہاہے بس یہ قول اس بات پردلالت کرتاہے ہرجائزالخطاانسان کوچاہئے کہ وہ معصوم کے ساتھ رہے تاکہ معصوم کوخطاسے محفوظ رکھ سکے اورآیت کے یہ معنی ہرزمانے کے لئے ہیں کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہیں اوریہ اس بات پردلالت ہے کہ ایک معصوم انسان ہرزمانے میں موجودرہتاہے “ تفسیرکبیرج۱۶صفحہ ۲۲۱۔

۳. سورہ بقرہ آیت ۱۲۴۔

4. صحیح مسلم ج۴ص۱۸۷۳۔

5. صحیح ترمذی ج۵ص۶۶۲۔

6. یہ حدیث، صحیح مسلم ج۳ص۱۴۵۳ پرجابربن سمرة کے حوالے سے پیغمبراسلام سے نقل کی گئی ہے۔ اورمعمولی سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری ج۳ص۱۰۱، صحیح ترمذی ج۴ص۵۰، صحیح ابی داؤدج۴کتاب المہدی) میں نقل ہوئی ہے۔

7. یہ حدیث پیغمبراسلام (ص) سے متعددطریقوں سے نقل ہوئی ہے اوراس کو۱۱۰سے زیادہ صحابیوں اور۸۴تابعین نے راویوں سے نقل کیاہے اوریہ حدیث اسلام کی ۳۶۰مشہورکتابوں میں نقل ہوئی ہے یہاں پران تمام کی شرح بیان کرنااس چھوٹی سی کتاب میں ممکن نہیں ہے اس کے لئے پیام قرآن کی نویںجلد میں صفحہ ۱۸۱کے مراجعہ کیاجائے۔

8. کامل ابن اثیرجلد۲صفحہ ۶۳بیروت کے دارصدرسے چھپائی ہوئی ۔اس فرق کوتھوڑے سے فرق کے ساتھ مسنداحمدابن حنبل جلد۱صفحہ ۱۱پراورابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی جلد۱۳صفحہ ۲۱۰پرلکھاہے۔

9. اس حدیث کو صحیح بخاری کے پانچویں حصے کے صفحہ ۱۱پر”مرزون نبی“ تاب کے تحت لکھاگیاہے صحیح مسلم میں بھی جلد۴صفحہ ۱۲۵۹پراس کاذکرموجودہے۔

10. یہ رسالہ ۲۴/شوال ۱۳۹۶ہجری کورابط العلماء اسلامی کی طرف سے ”ادارت مجتمع الفقہ اسلامی“ کے مدیرمحمدالمنتصرالکتانی کے دستخط کے ساتھ چھپا۔

11. سورہ حجرات آیت ۱۳۔

۱2. سورہ مجادلہ آیت ۲۲۔

13. سورہ توبہ آیت۱۰۰۔

14. جامعہ احادیث الشیعہ جلد۱ص۱۸ازمقدمات حدیث۱۱۶۔

15. اصول کافی ج۱ص ۵۸حدیث۱۲۱۔


source : http://www.sadeqin.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment