امام حسین علیہ السلام ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ بنوامیہ کی غاصبانہ اور ظالمانہ حکمرانی کے خلاف قیام کرکے ظلم اور ظالم کی بساط لپیٹ لیں؛ تا ہم ایسا موقع امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت تک حتی شہادت امام مجتبی (ع) کے کئی سال بعد تک بھی ہاتھ نہیں آیا؛ لیکن زمانہ جتنی کہ معاویہ کی موت قریب آرہی تھی، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام نے معاویہ کے خلاف اپنی تشہیری اور تبلیغاتی جنگ کو شدت بخشی تا آنکہ معاویہ کی موت سے ایک سال قبل مِنی کے مقام پر 200 صحابیوں اور عالم اسلام کے 500 مفکرین کے اجتماع سے خطاب کیا اور اہل بیت (ع) کے حقوق گنوائے اور انہیں ان حقوق کے احیاء اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی۔ امام علیہ السلام نے ان اقدامات کے ذریعے مرگ معاویہ کے بعد بنو امیہ کی حکومت کے خلاف قیام کے لئے مقدمات فراہم کررہے تھے اور مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔
معاویہ کی موت کے ایک سال بعد امام حسین علیہ السلام سفر حج پر نکلے اور عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر بھی آپ (ع) کے ہمراہ تھے۔ امام (ع) نے بنوہاشم کے تمام مردوں اور خواتین، قرابتداروں اور پیروکاروں کو اکٹھا کیا اور انصار میں سے بھی ان لوگوں کو اکٹھا کیا جنہیں آپ (ع) جانتے تھے یا ان کے خاندان والوں کو جانتے تھے؛ اور کئی قاصد روانہ کرکے اس سال حج کے لئے آنے والے اور صلاح و عبادت کے حوالے سے معروف اصحاب نبی (ص) کو بھی بلوایا تا کہ سب کو اس اجتماع میں حاضر کرسکیں۔
مِنی کے مقام پر امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں سات سو اصحاب و عالم اسلام کے ممتاز مفکرین اور علماء اکٹھے ہوئے۔ اکثر افراد تابعی تھے اور 200 صحابہ رسول اللہ (ص) تھے، نیز عام لوگوں کی بھی خاصی تعداد حاضر ہوئی تھی۔
امام حسین علیہ السلام خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور خداوند متعال کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اما بعد! اس طاغوت نے ہم اور ہمارے پیروکاروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے وہ آپ سب نے دیکھا ہے، اور آپ جانتے ہیں اور وہ سب آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ اگر میں نے سچ بولا تو میری تصدیق کریں اور اگر میں نے جھوٹ بولا تو تردید کریں۔
[گر آپ نے تصدیق کرلی تو] آپ پر اللہ کے حق کی قسم! آپ پر رسول اللہ کے حق کی قسم! اور آپ کے پیغمبر (ص) سے میری قرابت کی قسم! کہ اپنے وطن کو لوٹنے کے بعد اپنے قبائل کے قابل اعتماد افراد کو مجتمع کرو اور میری یہ باتیں ان کے لئے بھی نقل کرو؛ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ موضوع (امامت) کہیں آپ کی یادوں سے مٹ نہ جائے اور حق مغلوب ہوجائے اور مٹ جائے؛ "فَادعوهُم إلى ما تَعلَمونَ مِن حَقِّنا ؛ فَإِنّی أتَخَوَّفُ أن یَدرُسَ هذَا الأَمرُ و یَذهَبَ الحَقُّ و یُغلَبَ "، اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے ؛ اور اللہ اپنے نور کو کمال منزل تک پہنچانے والا ہے، چاہے کافر لوگ ناپسند کریں؛ "وَ اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَـفِرُون".(1)
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے ان حقائق کی یادآوری فرمائی جن میں اس ہر ایک اہل بیت علیہم السلام کی امامت اور ولایت کی حقانیت کی سند ہے اور سات سو نامور افراد کے اجتماع میں شریک سات سو افراد میں سے ہر ایک نے ان حقائق پر گواہی دی ہے۔ مذکورہ حقائق و معارف کچھ یوں ہیں:
1۔ مواخات کے مشہور تاریخی سنت کے دن ـ جب مہاجرین و انصار میں سے ہر دو آدمیوں کے درمیان اخوت و برادری کی رسم ادا کی گئی ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا۔
2۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند مگر علی علی (ع) کے گھر کا دروازہ!
امام حسین (ع) نے یہ نکتہ بھی سب کو یاد دلایا اور ان سے تصدیق کرائی کہ رسول اللہ (ص) نے خدا کے حکم سے خانہ علی (ع) کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرواديئے۔
3۔ خدا کے حکم کے مطابق دوسروں کو مسجد کی طرف ایک دریچہ کھولنے کی اجازت نہيں دی گئی۔
4۔ رسول اللہ (ص) نے خدا کے حکم سے حجۃالوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر علی علیہ السلام کو خلافت اور ولایت امر کا عہدہ سونپ دیا؛ کیونکہ یہ اس خاندان کی ولایت و امامت کی اہم ترین دلیل ہے جس پر تأکید ہونی چاہئے۔ امام حسین (ع) نے اس حوالے سے خاص طور پر فرمایا: "آپ کو خدا کی قسم دلاتا ہوں، کیا جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غدیر خم کے دن امیرالمؤمنین (ع) کو منصوب کیا اور ولایت کو ان کے لئے مستقر کردیا اور فرمایا: حاضرین غائبین کو بتائیں؟ اور اجتماع میں حاضر تمام افراد نے مل کر جواب دیا: خدا کی قسم! درست فرما رہے ہیں۔
5۔ حدیث منزلت؛ غزوہ تبوک کے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: تیری نسبت میرے ساتھ ایسے ہے جیسے ہارون کی موسیٰ کے ساتھ، تم میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہو "أنتَ مِنّی بِمَنزِلَةِ هارونَ مِن موسى ، وأنتَ وَلِیُّ كُلِّ مُؤمِنٍ بَعدی"۔
6۔ واقعۂ مباہلہ میں رسول اللہ (ص) کے ہمراہ امیرالمؤمنین، سیدہ فاطمۃالزہراء اور حسنین علیہم السلام کا کردار۔
7۔ قلعۂ خیبرکی فتح اور رسول اللہ (ص) کا یہ کلام مبارک کہ "میں کل یہ عَلَم ایسے فرد کو دونگا جو حملہ کرنے والا اور فرار نہ ہونے والا ہے اللہ اور اس کے رسول (ص) اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول (ص) سے محبت کرتا ہے، اور خداوند متعال اسی کے ہاتھوں قلعۂ خیبر کو فتح فرمائے گا؛ لَأَدفَعُهُ إلى رَجُلٍ یُحِبُّهُ اللّه ُ ورَسولُهُ ویُحِبُّ اللّه َ ورَسولَهُ، كَرّارٍ غَیرِ فَرّارٍ، یَفتَحُهَا اللّه ُ عَلى یَدَیهِ"
8۔ سورہ برائت کا ابلاغ؛ امام حسین علیہ السلام نے اس واقعے کے بارے میں فرمایا: رسول اللہ (ص) نے خدا کے حکم سے ارشاد فرمایا: میری طرف سے میری اپنی ذات یا میرے کسی فرد کے سوا ابلاغ نہیں کر سکتا؛ "لا یُبَلِّغُ عَنّی إلّا أنَا أو رَجُلٌ مِنّی"۔
9۔ رسول اللہ (ص) کو جو بھی مشکل اور دشواری پیش آتی آپ (ص) علی (ع) سے مخاطب ہوتے اور انہیں وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے روانہ کرتے۔
10۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: اے على! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور آپ میرے بعد ہر مؤمن اور مؤمنہ کے ولی ہیں؛ "یا عَلِیُّ ! أنتَ مِنّی وأنَا مِنكَ ، وأنتَ وَلِیُّ كُلِّ مُؤمِنٍ ومُؤمِنَةٍ بَعدی"۔
11۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے علوم و معارف کے خزانے علی علیہ السلام کو منتقل کیا کرتے تھے۔
12۔ رسول اللہ (ص) نے علی (ع) سے اپنی سیدہ بیٹی (س) کا نکاح کراتے وقت فرمایا: "زَوَّجتُكِ خَیرَ أهلِ بَیتی، أقدَمَهُم سِلما وأعظَمَهُم حِلما وأكثَرَهُم عِلما؛ جان پدر! آپ کے شوہر میرے خاندان کے بہتریں فرد ہیں، اسلام میں سب پر سبقت لینے والے، حلم و بردباری میں خاندان کے سب سے عظیم اور عالم ترین ہیں؛ اور یوں آپ (ص) نے علی (ع) کو جعفر اور حمزہ (علیہماالسلام) پر فوقیت دی۔
13۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں، فرزندان آدم کا سردار و سرور ہوں اور میرے بھائی علی (ع) عرب کے سردار، فاطمہ (س) جنت کی خواتین کی سیدہ اور میرے دو بیٹے حسن و حسین (ع) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؛ "أنَا سَیِّدُ وُلدِ آدَمَ، وأخی عَلِیٌّ سَیِّدُ العَرَبِ، وفاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِساءِ أهلِ الجَنَّةِ، وَابنایَ الحَسَنُ وَالحُسَینُ سَیِّدا شَبابِ أهلِ الجَنَّةِ"۔
14۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے وصال سے قبل علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ ان کو غسل دیں اور انہیں بتایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس امر میں علی (ع) کی مدد کریں گے۔
15۔ رسول اللہ (ص) نے اپنے آخری خطبے کے ضمن میں ارشاد فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: کتاب اللہ اور میرا خاندان، پس تم ان دو کا دامن تھامو ہرگز گمراہ نہ ہونگے؛ "أیُّهَا النّاسُ ! إنّی تَرَكتُ فیكُمُ الثَّقَلَینِ كِتابَ اللّه ِ وأهلَ بَیتی ، فَتَمَسَّكوا بِهِما لَن تَضِلّوا"۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے حاضرین کو قسم دلا ئی کہ کیا انھوں نے یہ بات رسول اللہ (ص) سنی ہے کہ "جو شخص گماں کرے کہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور علی (ع) سے بغض و عداوت رکھے، وہ جھوٹا ہے؛ کوئی بھی علی کی دشمنی کرنے والا کوئی شخص بھی مجھ سے محبت نہیں کرتا۔
کسی نے کہا: یا رسول اللہ (ص)! ایسا کیوں ہے؟
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: کیونکہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ جو ان سے محبت کرے گا وہ میرا حبدار ہے اور جو میرا حبدار ہے وہ خدا کا محب ہے اور جو شخص ان سے دشمنی کرے گا وہ میرا دشمن اور جو مجھ سے دشمنی کرے گا وہ خدا کا دشمن ہے؛ "مَن زَعَمَ أنَّهُ یُحِبُّنی ویُبغِضُ عَلِیّا فَقَد كَذَبَ ، لَیسَ یُحِبُّنی وهُوَ یُبغِضُ عَلِیّا"! فَقالَ لَهُ قائِلٌ: یا رَسولَ اللّهِ وكَیفَ ذلِكَ؟ قالَ: "لِأَنَّهُ مِنّی وأنَا مِنهُ، مَن أحَبَّهُ فَقَد أحَبَّنی ومَن أحَبَّنی فَقَد أحَبَّ اللّهَ، وَ مَن أبغَضَهُ فَقَد أبغَضَنی ومَن أبغَضَنی فَقَد أبغَضَ اللّهَ".
حاضرین نے اس بات کی بھی تصدیق کردی اور اس کے بعد منتشر ہوگئے۔ (2)
نتیجہ:
قرآن اور اہل بیت (ع) سے دوری معاشروں کو اسلام کی تعلیمات و معارف اور اعلی اقدار سے دور کردیتی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام سے دوری کی صورت میں قرآن کی پیروی بھی اسلامی معاشرے کے انحراف اور نابودی کا راستہ نہیں روک سکتی جیسا کہ قرآن کا دامن چھوڑ کر محبت اہل بیت (ع) کا دعوی کرنے والا معاشرہ بھی فلاح نہیں پاسکتا۔ چنانچہ ہلاکت اور نابودی سے بچاؤ اور سعادت و خوشبختی کے حصول کے لئے اہل بیت (ع) کی پیروی اور اہل بیت (ع) کی ذوات مقدسہ سے ہی قرآنی معارف کا حصول، وہی اہم موضوع ہے جو امام حسین علیہ السلام نے انحراف زدہ معاشرے کی نجات کے لئے مورد تأکید ٹہرایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ سوره صفّ آیه 8۔
2۔ كتاب سلیم بن قیس "اسرار آل محمد (ص)"، ج 2 ص 788 ، بحار الأنوار : ج 33 ص 181 و الاحتجاج : ج 2 ص 87۔
abna.ir